الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
71. بَابُ وَفْدِ بَنِي حَنِيفَةَ، وَحَدِيثِ ثُمَامَةَ بْنِ أُثَالٍ:
71. باب: وفد بنو حنیفہ اور ثمامہ بن اثال کے واقعات کا بیان۔
حدیث نمبر: 4372
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ، يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟" فَقَالَ: عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ، إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ، فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ، فَتُرِكَ حَتَّى كَانَ الْغَدُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ:" مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟" قَالَ: مَا قُلْتُ لَكَ: إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، فَتَرَكَهُ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ، فَقَالَ:" مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟" فَقَالَ: عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ، فَقَالَ:" أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ"، فَانْطَلَقَ إِلَى نَجْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ، فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ، فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ، فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ، وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ، فَمَاذَا تَرَى؟ فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ، فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ، قَالَ لَهُ قَائِلٌ: صَبَوْتَ، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے (سرداروں میں سے) ایک شخص ثمامہ بن اثال نامی کو پکڑ کر لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ تو کیا سمجھتا ہے؟ (میں تیرے ساتھ کیا کروں گا؟) انہوں نے کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میرے پاس خیر ہے (اس کے باوجود) اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے، اس نے جنگ میں مسلمانوں کو مارا اور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو (احسان کرنے والے کا) شکر ادا کرتا ہے لیکن اگر آپ کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہیں مجھ سے مال طلب کر سکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے، دوسرے دن آپ نے پھر پوچھا: ثمامہ اب تو کیا سمجھتا ہے؟ انہوں نے کہا، وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں، کہ اگر آپ نے احسان کیا تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر ادا کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر چلے گئے، تیسرے دن پھر آپ نے ان سے پوچھا: اب تو کیا سمجھتا ہے ثمامہ؟ انہوں نے کہا کہ وہی جو میں آپ سے پہلے کہہ چکا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو (رسی کھول دی گئی) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کر کے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور پڑھا «أشهد أن لا إله إلا الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأشهد أن محمدا رسول الله» اور کہا اے محمد! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لیے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لیے محبوب نہیں ہے۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میرا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا۔ اب آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور عمرہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ تم بےدین ہو گئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لے آیا ہوں اور اللہ کی قسم! اب تمہارے یہاں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4372]
   صحيح البخاريربطوه بسارية من سواري المسجد
   صحيح البخاريما عندك يا ثمامة فقال عندي خير يا محمد إن تقتلني تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل منه ما شئت فترك حتى كان الغد ثم قال له ما عندك يا ثمامة قال ما قلت لك إن تنعم تنعم على شاكر فتركه حتى كان بعد الغد فقال ما عندك يا ثمامة ف
   صحيح البخاريبعث رسول الله خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال سيد أهل اليمامة فربطوه بسارية من سواري المسجد فخرج إليه رسول الله قال ما عندك يا ثمامة قال عندي يا محمد خير فذكر الحديث قال أطلقوا ثمامة
   صحيح البخاريبعث النبي خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال فربطوه بسارية من سواري المسجد
   صحيح مسلمماذا عندك يا ثمامة فقال عندي يا محمد خير إن تقتل تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت فتركه رسول الله حتى كان بعد الغد فقال ما عندك يا ثمامة قال ما قلت لك إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا
   سنن النسائى الصغرىبعث رسول الله خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال سيد أهل اليمامة فربط بسارية من سواري المسجد
   بلوغ المراموامره النبي صلى الله عليه وآله وسلم ان يغتسل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 99  
´اسلام لانے کے بعد غسل کرنا`
«. . . وعن ابي هريرة رضي الله عنه- فى قصة ثمامة بن اثال عندما اسلم- وامره النبى صلى الله عليه وآله وسلم ان يغتسل . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعہ کے متعلق مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غسل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/باب الغسل وحكم الجنب: 99]

فوائد و مسائل:
➊ کافر جب اسلام کے لیے آمادہ ہو تو پہلے اسے غسل کرنا چاہیے۔
➋ یہ غسل واجب ہے یا مسنون و مستحب، اس میں بھی علماء کے مابین اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے نزدیک واجب ہے۔ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اسے مستحب سمجھتے ہیں۔

راوئ حدیث: سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ دونوں لفظوں کے پہلے حرف پر ضمہ ہے اور دوسرا حرف تخفیف کے ساتھ ہے۔ یمامہ کے قبیلے بنو حنیفہ کے فرد تھے اور سرداری کے منصب پر فائز تھے۔ عمرہ ادا کرنے نکلے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہ سواروں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ وہ انہیں مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائے اور انہیں مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان انہیں آزاد کر دیا۔ اس کے بعد یہ مسلمان ہو گئے اور اسلام کا بہت عمدہ ثبوت دیا۔ جن دنوں لوگ مرتد ہو رہے تھے یہ بڑی مضبوطی اور ثابت قدمی سے اسلام پر ڈٹے رہے۔ جب ان کی قوم کے لوگ مسلیمہ کذاب کے فتنے کا شکار ہو گئے تو یہ ان کے خلاف بڑے حوصلے اور عزم و ہمت سے ثابت قدم رہے۔
   حوالہ: بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 99   
------------------
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 713  
´قیدی کو مسجد کے کھمبے سے باندھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو قبیلہ نجد کی جانب بھیجا، تو وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی ایک شخص کو (گرفتار کر کے) لائے، جو اہل یمامہ کا سردار تھا، اسے مسجد کے کھمبے سے باندھ دیا گیا، یہ ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 713]
713 ۔ اردو حاشیہ:
➊ آپ کے دور میں کوئی جیل تو تھی نہیں اور اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ کبھی کبھار کوئی قیدی آتا تھا، اس لیے انہیں مسجد کے ستون سے باندھ دیا گیا۔ اس میں ایک اور مقصد بھی تھا کہ وہ مسلمانوں کو عبادت کرتے، چلتے پھرتے اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے دیکھ کر متاثر ہوں اور مسلمان ہو جائیں اور ایسے ہی ہوا۔ وہ مسجد، وہاں اعمال صالحہ کی برکت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے۔
➋ قصۂ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی یہ روایت تو مختصر ہے لیکن صحیحین میں اس واقعے کی تفصیلی روایت موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4372، و صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 1764]

   حوالہ: سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 713   
------------------
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4372  
4372. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے تو وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو گرفتار کر لئے جسے ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا۔ صحابہ کرام ؓ نے اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور ثمامہ سے پوچھا: ثمامہ! بتاؤ کیا خیال ہے؟ اس نے کہا: اے محمد (ﷺ)! میرے پاس خیر ہے۔ اگر آپ مجھے مار دیں گے تو ایسے شخص کو ماریں گے جو خونی ہے اور اگر احسان رکھ کر مجھے چھوڑ دیں گے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔ اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں طلب کریں۔ یہ سن کر آپ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ پھر دوسرے دن پوچھا: اے ثمامہ! بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے؟ اس نے کہا: میرا خیال وہی ہے جو کل عرض کر چکا ہوں کہ اگر آپ احسان کریں گے تو ایک قدر دان پر احسان کریں گے۔ آپ نے پھر اسے رہنے دیا۔ تیسرے دن پوچھا: اے ثمامہ تمہارا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4372]
حدیث حاشیہ:
مکہ کے کافروں نے ثمامہ سے پوچھا تو نے اپنا دین بدل دیا؟ تو ثمامہ نے یہ جواب دیا، میں نے دین نہیں بدلا بلکہ اللہ کا تابعدار بن گیا ہوں۔
کہتے ہیں ثمامہ نے یمامہ جا کر یہ حکم دیا کہ مکہ کے کافروں کو غلہ نہ بھیجا جائے۔
آخر مکہ والوں نے مجبور ہوکر آنحضرت ﷺ کو لکھا کہ آپ اقرباء کی پرورش کرتے ہیں، صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں، ثمامہ نے ہماراغلہ کیوں روک دیا ہے۔
اسی وقت آپ نے ثمامہ کو اجازت دی کہ مکہ غلہ بھیجنا ہو تو ضرور بھیجو۔
إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ کا بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے اگر آپ مجھ کو مار ڈالیں گے تو ایک ایسے شخص کو مار دیں گے جس کا خون بے کار نہ جائے گا۔
یعنی میری قوم والے میرا بدلہ لے لیں گے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
وَفِي قِصَّةِ ثُمَامَةَ مِنَ الْفَوَائِدِ رَبْطُ الْكَافِرِ فِي الْمَسْجِدِ وَالْمَنُّ عَلَى الْأَسِيرِ الْكَافِرِ وَتَعْظِيمُ أَمْرِ الْعَفْوِ عَنِ الْمُسِيءِ لِأَنَّ ثُمَامَةَ أَقْسَمَ أَنَّ بُغْضَهُ انْقَلَبَ حُبًّا فِي سَاعَةٍ وَاحِدَةٍ لِمَا أَسَدَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ مِنَ الْعَفْوِ وَالْمَنِّ بِغَيْرِ مُقَابِلٍ وَفِيهِ الِاغْتِسَالُ عِنْدَ الْإِسْلَامِ وَأَنَّ الْإِحْسَانَ يُزِيلُ الْبُغْضَ وَيُثَبِّتُ الْحُبَّ وَأَنَّ الْكَافِرَ إِذَا أَرَادَ عَمَلَ خَيْرٍ ثُمَّ أَسْلَمَ شَرَعَ لَهُ أَنْ يَسْتَمِرَّ فِي عَمَلِ ذَلِكَ الْخَيْرِ وَفِيهِ الْمُلَاطَفَةُ بِمَنْ يُرْجَى إِسْلَامُهُ مِنَ الْأُسَارَى إِذَا كَانَ فِي ذَلِكَ مَصْلَحَةٌ لِلْإِسْلَامِ وَلَا سِيَّمَا مَنْ يَتْبَعُهُ عَلَى إِسْلَامِهِ الْعَدَدُ الْكَثِيرُ مِنْ قَوْمِهِ وَفِيهِ بَعْثُ السَّرَايَا إِلَى بِلَادِ الْكُفَّارِ وَأَسْرُ مَنْ وُجِدَ مِنْهُمْ وَالتَّخْيِيرُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي قَتْلِهِ أَوِ الْإِبْقَاءِ عَلَيْهِ (فتح الباری)
یعنی ثمامہ کے قصے میں بہت سے فوائد ہیں اس سے کافر کا مسجد میں قید کر نا بھی ثابت ہوا (تاکہ وہ مسلمانوں کی نماز و غیرہ دیکھ کر اسلام کی رغبت کر سکے)
اور کافر قیدی پر احسان کرنا بھی ثابت ہوا اور برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کرنا ایک بڑی نیکی کے طور پر ثابت ہوا۔
اس لیے کہ ثمامہ نے نبی کریم ﷺ کے احسان وکرم کو دیکھ کر کہا تھا کہ ایک ہی گھڑی میں اس کے دل کا بغض جو آنحضرت ﷺ کی طرف سے اس کے دل میں تھا، وہ محبت سے بدل گیا۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کافر اگر کوئی نیک کا م کرتا ہوا مسلمان ہوجائے تو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے وہ نیک عمل جاری رکھنا چاہئیے اور اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ جس قیدی سے اسلام لانے کی امید ہو اس کے ساتھ ہر ممکن نرمی برتنا ضروری ہے۔
جیسا ثمامہ ؓ کے ساتھ کیا گیا اور اس سے بلاد کفار کی طرف بوقت ضرورت لشکر بھیجنا بھی ثابت ہو اور یہ بھی کہ جوان میں پائے جائیں وہ قید کرلیے جائیں بعد میں حسب مصلحت اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے۔
   حوالہ: صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4372   
------------------
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4372  
4372. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے تو وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو گرفتار کر لئے جسے ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا۔ صحابہ کرام ؓ نے اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور ثمامہ سے پوچھا: ثمامہ! بتاؤ کیا خیال ہے؟ اس نے کہا: اے محمد (ﷺ)! میرے پاس خیر ہے۔ اگر آپ مجھے مار دیں گے تو ایسے شخص کو ماریں گے جو خونی ہے اور اگر احسان رکھ کر مجھے چھوڑ دیں گے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔ اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں طلب کریں۔ یہ سن کر آپ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ پھر دوسرے دن پوچھا: اے ثمامہ! بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے؟ اس نے کہا: میرا خیال وہی ہے جو کل عرض کر چکا ہوں کہ اگر آپ احسان کریں گے تو ایک قدر دان پر احسان کریں گے۔ آپ نے پھر اسے رہنے دیا۔ تیسرے دن پوچھا: اے ثمامہ تمہارا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4372]
حدیث حاشیہ:

صحابہ کرام ؓ جب ثمامہ بن اثال کو قید کر کے مسجد میں لائے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اہل خانہ کا تمام کھانا اسے دیا تو اس نے سب کچھ کھا لیا، پھر بھی سیر نہ ہوا لیکن جب وہ مسلمان ہوا تو تھوڑا سا کھانا اس کے لیے کافی ہو گیا۔
صحابہ کرام ؓ نے اس پر اظہار تعجب کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کافر اپنی سات انتڑیاں بھر کر سیراب ہوتا ہے جبکہ مومن صرف ایک انتڑی بھر کر سیر ہو جاتا۔
' (سیرة ابن ہشام: 238/2۔
وفتح الباري: 110/8)

حضرت ثمامہ بن اثال ؓ جب عمرہ کر کے واپس آئے اور یمامہ پہنچ کر اہل یمامہ کو حکم نامہ جاری کردیا کہ اہل مکہ کو غلہ نہ بھیجا جائے تو انھوں نے غلہ روک لیا، آخر اہل مکہ نے تنگ آکر رسول اللہ ﷺ کو خط لکھا کہ آپ تو قرابت داری کا حکم دیتے ہیں اور ہم آپ سے صلہ رحمی کے امیدوار ہیں۔
ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں روا رکھا جا رہا ہے؟ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ثمامہ کو لکھا کہ وہ دوسرے لوگوں کو مکہ میں غلہ بھیجنے سے منع نہ کرے، چنانچہ اس نے اپنے دوسرے حکم نامے کے ذریعے سے اس پابندی کو ختم کردیا۔
(فتح الباری: 111/8)
   حوالہ: هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4372   
------------------