الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
64. باب مَا جَاءَ فِي تَحْرِيمِ الصَّلاَةِ وَتَحْلِيلِهَا
64. باب: نماز کی تحریم و تحلیل کیا ہے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 238
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ طَرِيفٍ السَّعْدِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ، وَلَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِ: الْحَمْدُ وَسُورَةٍ فِي فَرِيضَةٍ أَوْ غَيْرِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، قَالَ: وَحَدِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي هَذَا أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَأَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ، وَقَدْ كَتَبْنَاهُ فِي أَوَّلِ كِتَابِ الْوُضُوءِ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، وَبِهِ يَقُولُ: سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاق: إِنَّ تَحْرِيمَ الصَّلَاةِ التَّكْبِيرُ وَلَا يَكُونُ الرَّجُلُ دَاخِلًا فِي الصَّلَاةِ إِلَّا بِالتَّكْبِيرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت أَبَا بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ مُسْتَمْلِيَ وَكِيعٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، يَقُولُ: لَوِ افْتَتَحَ الرَّجُلُ الصَّلَاةَ بِسَبْعِينَ اسْمًا مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ وَلَمْ يُكَبِّرْ لَمْ يُجْزِهِ، وَإِنْ أَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ أَمَرْتُهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ يَرْجِعَ إِلَى مَكَانِهِ فَيُسَلِّمَ، إِنَّمَا الْأَمْرُ عَلَى وَجْهِهِ. قَالَ: وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُهُ: الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کی کنجی وضو (طہارت) ہے، اس کی تحریم تکبیر ہے اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے، اور اس آدمی کی نماز ہی نہیں جو «الحمدللہ» (سورۃ فاتحہ) اور اس کے ساتھ کوئی اور سورۃ نہ پڑھے خواہ فرض نماز ہو یا کوئی اور نماز ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں علی اور عائشہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۳- علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ اور ابو سعید خدری کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ہم اسے کتاب الوضو کے شروع میں ذکر کر چکے ہیں (حدیث نمبر: ۳)،
۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ نماز کی تحریم تکبیر ہے، آدمی نماز میں تکبیر کے (یعنی اللہ اکبر کہے) بغیر داخل نہیں ہو سکتا،
۵- عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں: اگر آدمی اللہ کے ناموں میں سے ستر نام لے کر نماز شروع کرے اور اللہ اکبر نہ کہے تو بھی یہ اسے کافی نہ ہو گا۔ اور اگر سلام پھیرنے سے پہلے اسے حدث لاحق ہو جائے تو میں اسے حکم دیتا ہوں کہ وضو کرے پھر اپنی (نماز کی) جگہ آ کر بیٹھے اور سلام پھیرے، اور حکم (رسول) اپنے حال (ظاہر) پر (باقی) رہے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 238]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 3 (276)، (تحفة الأشراف: 4357)، مسند احمد (3/340) (صحیح) (سند میں سفیان بن وکیع ساقط الحدیث ہیں، اور طریف بن شہاب ابوسفیان سعدی“ ضعیف، لیکن علی رضی الله عنہ کی حدیث (رقم: 3) سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)۔»

وضاحت: ۱؎: یعنی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو «تحليها التسليم» فرمایا ہے۔ اس کی تاویل کسی اور معنی میں نہیں کی جائیگی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (275 و 276)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
أبو سفيان السعدي : ضعیف (تق:3013)
وقول ابن مسعود رضي الله عنه ، رواه البيهقي (16/2، وسنده صحیح) وهو يغني عنه . انظر سنن أبي داود بتحقيقي (61)

   جامع الترمذيمفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم لا صلاة لمن لم يقرأ ب الحمد وسورة في فريضة أو غيرها
   سنن ابن ماجهمفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 238 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 238  
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی:
آپ ﷺ نے جو ((تَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ)) فرمایا ہے۔
اس کی تاویل کسی اور معنی میں نہیں کی جائیگی۔

نوٹ:
(سند میں سفیان بن وکیع ساقط الحدیث ہیں،
اور طریف بن شہاب ابو سفیان سعدی ضعیف،
لیکن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث (رقم: 3) سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 238