قرآن مجيد

سورة إبراهيم
رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ[37]
اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں آباد کیا ہے، جو کسی کھیتی والی نہیں، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں اور انھیں پھلوں سے رزق عطا کر، تاکہ وہ شکر کریں۔[37]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 37،

دوسری دعا ٭٭

یہ دوسری دعا ہے پہلی دعا اس شہر کے آباد ہونے سے پہلے جب آپ اسماعیل علیہ السلام کو مع ان کی والدہ صاحبہ کے یہاں چھوڑ کرگئے تھے۔ تب کی تھی اور یہ دعا اس شہر کے آباد ہو جانے کے بعد کی اسی لیے یہاں «بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ» کا لفظ لائے اور نماز کے قائم کرنے کا بھی ذکر فرمایا۔

ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ متعلق ہے لفظ المحرم ساتھ یعنی اسے باحرمت اس لیے بنایا ہے کہ یہاں والے بااطمینان یہاں نمازیں ادا کر سکیں۔‏‏‏‏ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے، اگر سب لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکانے کی دعا ہوتی تو فارس و روم یہود و نصاری غرض تمام دنیا کے لوگ یہاں الٹ پڑتے۔ آپ علیہ السلام نے صرف مسلمانوں کے لیے یہ دعا کی۔ اور دعا کرتے ہیں کہ انہیں پھل بھی عنایت فرما۔‏‏‏‏ یہ زمین زراعت کے قابل بھی نہیں اور دعا ہو رہی ہے پھلوں کی زوزی کی اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی جیسے ارشاد ہے «اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْــبٰٓى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ» [28-القصص:57] ‏‏‏‏ یعنی ” کیا ہم نے انہیں حرمت و امن والی ایسی جگہ عنایت نہیں فرمائی؟ جہاں ہر چیز کے پھل ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں جو خاص ہمارے پاس کی روزی ہے “۔

پس یہ بھی اللہ کا خاص لطف و کرم عنایت و رحم ہے کہ شہر کی پیداوار کچھ بھی نہیں اور پھل ہر قسم کے وہاں موجود، چاروں طرف سے وہاں چلے آئیں۔ یہ ہے ابراہیم خلیل الرحمن صلوات اللہ وسلامہ علیہ کی دعا کی قبولیت۔