(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن عطاء، عن صفوان بن يعلى بن امية، عن ابيه، قال: " سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقرا على المنبر ونادوا يا مالك ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وجابر بن سمرة. قال ابو عيسى: حديث يعلى بن امية حديث حسن صحيح غريب، وهو حديث ابن عيينة، وقد اختار قوم من اهل العلم ان يقرا الإمام في الخطبة آيا من القرآن، قال الشافعي: وإذا خطب الإمام فلم يقرا في خطبته شيئا من القرآن اعاد الخطبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ وَنَادَوْا يَا مَالِكُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَقَدِ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَقْرَأَ الْإِمَامُ فِي الْخُطْبَةِ آيًا مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِذَا خَطَبَ الْإِمَامُ فَلَمْ يَقْرَأْ فِي خُطْبَتِهِ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ أَعَادَ الْخُطْبَةَ.
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر پڑھتے سنا: «ونادوا يا مالك»۱؎”اور وہ پکار کر کہیں گے اے مالک!“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، اور یہی ابن عیینہ کی حدیث ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر بن سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے امام کے خطبہ میں قرآن کی کچھ آیتیں پڑھنے کو پسند کیا ہے ۲؎، شافعی کہتے ہیں: امام جب خطبہ دے اور اس میں قرآن کچھ نہ پڑھے تو خطبہ دہرائے۔
وضاحت: ۱؎: الزخرف: ۷۷ ( «مالک» جہنم کے دروغہ کا نام ہے جس کو جہنمی پکار کر کہیں گے کہ اپنے رب سے کہو کہ ہمیں موت ہی دیدے تاکہ جہنم کے عذاب سے نجات تو مل جائے، جواب ملے گا: یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے رہنا ہے)
۲؎: صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ میں ”سورۃ ق“ پوری پڑھا کرتے تھے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بطور وعظ ونصیحت کے قرآن کی کوئی آیت پڑھنی چاہیئے۔