الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
ایمان کا بیان
3.06. انسان کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان
حدیث نمبر: 89
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يقول إن قلوب بني آدم كلها بين اصبعين من اصابع الرحمن كقلب واحد يصرفه حيث يشاء ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الله مصرف القلوب صرف قلوبنا على طاعتك» . رواه مسلم ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَقُول إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلِّهَا بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ من أَصَابِع الرَّحْمَن كقلب وَاحِد يصرفهُ حَيْثُ يَشَاءُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الله مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اولاد آدم کے تمام قلوب، قلب واحد کی طرح رحمن کی دو انگلیوں میں ہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے اسے بدلتا رہتا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دینا (یعنی ثابت قدم)۔  اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (17 / 2654)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
3.07. بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں
حدیث نمبر: 90
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏عن ابي هريرة رضي الله عنه كان يحدث قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «ما من مولود إلا يولد على الفطرة فابواه يهودانه او ينصرانه او يمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء ثم يقول ابو هريرة رضي الله عنه (فطرة الله التي فطر الناس عليها) ‏‏‏‏الآية» ‏‏‏‏  ‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ كَانَ يحدث قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُول أَبُو هُرَيْرَة رَضِي الله عَنهُ (فطْرَة الله الَّتِي فطر النَّاس عَلَيْهَا) ‏‏‏‏الْآيَة» ‏‏‏‏ 
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا کیا جاتا ہے، پس اس کے والدین اسے یہودی بنا دیتے ہیں، یا اسے نصرانی بنا دیتے ہیں یا اسے مجوسی بنا دیتے ہیں، جیسے جانور صحیح سالم جانور کو جنم دیتا ہے، کیا تم اس میں سے کسی کا کان کٹا ہوا محسوس کرتے ہو؟ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی: یہ وہ فطرت ہے، جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اور اللہ کی اس بنائی ہوئی چیز میں کوئی تبدیلی نہ کرو، یہی درست دین ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (1358) و مسلم (22 / 2658)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
3.08. کچھ صفات الہی
حدیث نمبر: 91
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن ابي موسى قال قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمس كلمات فقال: «إن الله عز وجل لا ينام ولا ينبغي له ان ينام يخفض القسط ويرفعه يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار وعمل النهار قبل عمل الليل حجابه النور» . رواه مسلم ‏‏‏‏وَعَن أبي مُوسَى قَالَ قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عز وَجل لَا يَنَامُ وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْل حجابه النُّور» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں پانچ چیزوں کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا: بے شک اللہ سوتا ہے نہ یہ اس کی شان کے لائق ہے کہ وہ سو جائے، وہ میزان کو اوپر نیچے کرتا رہتا ہے۔ رات کا عمل، دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے، اس کی طرف پہنچا دیا جاتا ہے، اس کا حجاب نور ہے، اگر وہ اس حجاب کو اٹھا دے تو اس کے چہرے کے انوار، وہاں تک اس مخلوق کو جلا دیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے۔  اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (293 / 179)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 92
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يد الله ملاى لا تغيضها نفقة سحاء الليل والنهار ارايتم ما انفق مذ خلق السماء والارض؟ فإنه لم يغض ما في يده وكان عرشه على الماء وبيده الميزان يخفض ويرفع» -[34]- ‏‏‏‏وفي رواية لمسلم: «يمين الله ملاى قال ابن نمير ملآن سحاء لا يغيضها شيء الليل والنهار» ‏‏‏‏  ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُذْ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ يَخْفِضُ وَيرْفَع» -[34]- ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: «يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ مَلْآنُ سَحَّاءُ لَا يُغِيضُهَا شَيْءٌ اللَّيْل والنهار» ‏‏‏‏ 
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن کی سخاوت اسے کم نہیں کرتی، تم نے دیکھا کہ اس نے زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت سے جو خرچ کیا اس نے اس کے ہاتھ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں کی، اور اس کا عرش پانی پر ہے، اور میزان اس کے ہاتھ میں ہے وہ اسے پست کرتا اور بلند کرتا ہے۔ متفق علیہ، رواہ البخاری (4684) و مسلم۔ اور مسلم کی روایت میں ہے: اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ ابن نمیر نے کہا: دونوں ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ رات اور دن کی سخاوت اس میں کوئی کمی نہیں کرتی۔
اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (4684) و مسلم (37/ 993)
يمين الله ملأي إلخ، رواه مسلم (36/ 993)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 93
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏ وعنه قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذراري المشركين قال: «الله اعلم بما كانوا عاملين» ‏‏‏‏ وَعَنْهُ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَرَّارِيِّ الْمُشْرِكِينَ قَالَ: «اللَّهُ أعلم بِمَا كَانُوا عاملين»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کے اعمال کے متعلق اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (1384) و مسلم (27 / 2659)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
ب. الفصل الثاني
حدیث نمبر: Q94
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
3.09. قلم کی تخلیق
حدیث نمبر: 94
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن عبادة بن الصامت قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول «إن اول ما خلق الله القلم فقال اكتب فقال ما اكتب قال اكتب القدر ما كان وما هو كائن إلى الابد» . رواه الترمذي وقال هذا حديث غريب إسنادا ‏‏‏‏وَعَن عبَادَة بن الصَّامِت قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول «إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمُ فَقَالَ اكْتُبْ فَقَالَ مَا أَكْتُبُ قَالَ اكْتُبِ الْقَدَرَ مَا كَانَ وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَدِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِسْنَادًا
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا تو اسے فرمایا: لکھو۔ اس نے عرض کیا، کیا لکھوں؟ فرمایا تقدیر لکھو، اس نے جو کچھ ہو چکا تھا اور جو کچھ ہونا تھا سب لکھ دیا۔ ترمذی، اور امام ترمذی نے فرمایا، یہ حدیث سند کے لحاظ سے غریب ہے۔  اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«صحيح، رواه الترمذي (3319 و قال: حسن غريب، 2155)
٭ و للحديث المرفوع طرق وھو بھا صحيح. روي أبو يعلي في مسنده عن ابن عباس عن النبي ﷺ قال: إن أول شئ خلقه الله القلم و أمره فکتب کل شئ. (2329 وسنده صحيح)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
3.1. انسان کو وہی توفیق ہے جس کے لیے پیدا کیا گیا
حدیث نمبر: 95
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن مسلم بن يسار قال سئل عمر بن الخطاب رضي الله عنه عن هذه الآية (وإذ اخذ ربك من بني آدم من ظهورهم) ‏‏‏‏قال عمر -[35]- بن الخطاب سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسال عنها فقال: «خلق آدم ثم مسح ظهره بيمينه فااستخرج منه ذرية فقال خلقت هؤلاء للجنة وبعمل اهل الجنة يعملون ثم مسح ظهره فاستخرج منه ذرية فقال خلقت هؤلاء للنار وبعمل اهل النار يعملون فقال رجل يا رسول الله ففيم العمل يا رسول الله قال فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله إذا خلق العبد للجنة استعمله بعمل اهل الجنة حتى يموت على عمل من اعمال اهل الجنة فيدخله الله الجنة وإذا خلق العبد للنار استعمله بعمل اهل النار حتى يموت على عمل من اعمال اهل النار فيدخله الله النار» . رواه مالك والترمذي وابو داود ‏‏‏‏  ‏‏‏‏وَعَن مُسلم بن يسَار قَالَ سُئِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ (وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورهمْ) ‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ -[35]- بْنُ الْخَطَّابِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يسْأَل عَنْهَا فَقَالَ: «خلق آدم ثمَّ مسح ظَهره بِيَمِينِهِ فأاستخرج مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقَتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أهل الْجنَّة يعْملُونَ ثمَّ مسح ظَهره فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقَتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ وبعمل أهل النَّار يعْملُونَ فَقَالَ رجل يَا رَسُول الله فَفِيمَ الْعَمَل يَا رَسُول الله قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ من أَعمال أهل الْجنَّة فيدخله الله الْجَنَّةَ وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعمال أهل النَّار فيدخله الله النَّار» . رَوَاهُ مَالك وَالتِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد ‏‏‏‏ 
مسلم بن یسار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا: جب تیرے رب نے بنی آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو پیدا کیا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جب ان سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ نے آدم ؑ کو پیدا فرمایا، پھر اپنا دایاں ہاتھ ان کی پشت پر پھیرا تو اس سے کچھ اولاد نکالی اور فرمایا: میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ اہل جنت کے سے عمل کریں گے، پھر ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو اس سے کچھ اولاد نکالی تو فرمایا: میں نے انہیں جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ اہل جہنم کے سے عمل کریں گے۔ (یہ سن کر) کسی آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! تو پھر عمل کس لیے کرنا ہے؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ کسی بندے کو جنت کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اسے اہل جنت کے اعمال پر لگا دیتا ہے حتیٰ کہ وہ اہل جنت کے سے اعمال پر ہی فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس وجہ سے اسے جنت میں داخل فرما دیتا ہے، اور جب وہ کسی بندے کو جہنم کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اسے جہنمیوں والے اعمال پر لگا دیتا ہے حتیٰ کہ وہ جہنمیوں والے اعمال پر ہی فوت ہوتا ہے تو وہ اس وجہ سے اس کو جہنم میں داخل کر دیتا ہے۔  اس حدیث کو مالک، ترمذی، اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه مالک في الموطأ (2/ 898 ح 1726) و الترمذي (3075 وقال: حسن و مسلم [بن يسار] لم يسمع من عمر) و أبو داود (4703) [والبغوي في شرح السنة (1/ 138، 139 ح 77)]
٭ مسلم بن يسار سمعه من نعيم بن ربيعة وھو رجل مجھول، و ثقه ابن حبان وحده و لبعض الحديث شواهد معنوية. انظر الاستذکار (8/ 261)»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
حدیث نمبر: 96
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي يده كتابان فقال: «اتدرون ما هذان الكتابان فقلنا لا يا رسول الله إلا ان تخبرنا فقال للذي في يده اليمنى هذا كتاب من رب العالمين فيه اسماء اهل الجنة واسماء آبائهم وقبائلهم ثم اجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم ابدا ثم قال للذي في شماله هذا كتاب من رب العالمين فيه اسماء اهل النار واسماء آبائهم وقبائلهم ثم اجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم ابدا فقال اصحابه ففيم العمل يا رسول الله إن كان امر قد فرغ منه فقال سددوا وقاربوا فإن صاحب الجنة يختم له بعمل اهل الجنة وإن عمل اي عمل وإن صاحب النار يختم له بعمل اهل النار وإن عمل اي عمل -[36]- ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بيديه فنبذهما ثم قال فرغ ربكم من العباد فريق في الجنة وفريق في السعير» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب صحيح ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي يَده كِتَابَانِ فَقَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا هَذَانِ الكتابان فَقُلْنَا لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنَا فَقَالَ لِلَّذِي فِي يَدِهِ الْيُمْنَى هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاء آبَائِهِم وقبائلهم ثمَّ أجمل على آخِرهم فَلَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا ثُمَّ قَالَ لِلَّذِي فِي شِمَالِهِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ النَّارِ وَأَسْمَاء آبَائِهِم وقبائلهم ثمَّ أجمل على آخِرهم فَلَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا فَقَالَ أَصْحَابُهُ فَفِيمَ الْعَمَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كَانَ أَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ فَقَالَ سَدِّدُوا وَقَارِبُوا فَإِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّةِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ وَإِنَّ صَاحِبَ النَّارِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ -[36]- ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ فَنَبَذَهُمَا ثُمَّ قَالَ فَرَغَ رَبُّكُمْ مِنَ الْعِبَادِ فريق فِي الْجنَّة وفريق فِي السعير» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيح
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں، آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ دو کتابیں کیا ہیں؟ ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول! جب تک آپ نہ بتائیں، ہم نہیں جانتے، تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: یہ کتاب ربّ العالمین کی طرف سے ہے، اس میں جنتیوں، ان کے آباء اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر ان کے آخر پر پورا حساب کر دیا گیا ہے لہذا ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔ پھر آپ نے اپنے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے ہے اس میں جہنمیوں، ان کے آباء اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر ان کے آخر پر پورا حساب کر دیا گیا ہے لہذا اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔ تو آپ کے صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! جب فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر عمل کس لیے کرنا ہے؟ آپ نے فرمایا: میانہ روی سے درست اعمال کرتے رہو، کیونکہ جنتی شخص سے آخری عمل جنتیوں والا کرایا جائے گا، اگرچہ پہلے اس نے کیسے بھی عمل کیے ہوں، اور جہنمی سے آخری عمل جہنمیوں والا کرایا جائے گا، خواہ اس سے پہلے اس نے کیسے بھی عمل کیے ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھوں سے وہ کتابیں رکھ کر فرمایا: تمہارا رب بندوں (کے معاملے) سے فارغ ہو چکا، پس ایک گروہ جنت میں اور ایک گروہ جہنم میں جائے گا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الترمذي (2141 وقال: ھذا حديث حسن صحيح غريب.)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 97
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن ابي خزامة عن ابيه قال سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله ارايت رقى نسترقيها ودواء نتداوى به وتقاة نتقيها هل ترد من قدر الله شيئا قال: «هي من قدر الله» . رواه احمد والترمذي وابن ماجه ‏‏‏‏وَعَن أبي خزامة عَن أَبِيه قَالَ سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا قَالَ: «هِيَ مِنْ قَدَرِ الله» . رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
سیدنا ابوخزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! راہنمائی فرمائیں، دم جس کے ذریعے ہم دم کراتے ہیں، دوائی، جس کے ذریعے ہم علاج کرتے ہیں، اور بچاؤ کی چیزیں (مثلاً ڈھال وغیرہ) جن کے ذریعے ہم بچاؤ کرتے ہیں۔ کیا یہ اللہ کی تقدیر سے کچھ روک سکتی ہیں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ (اسباب اختیار کرنا) بھی اللہ کی تقدیر میں سے ہیں۔  اس حدیث کو احمد ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه أحمد (3/ 421 ح 15551. 15554) والترمذي (2065 وقال: ھذا حديث حسن) وابن ماجه (3437)
٭ ابن أبي خزامة مجھول الحال، وثقه الترمذي وحده و لبعض الحديث شواهد، انظر الحديث الآتي (99)»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.