الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر
مختصر صحيح مسلم
دنیا سے بے رغبتی اور دل کو نرم کرنےوالی باتیں
15. جس نے اپنے عمل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو شریک کر لیا۔
حدیث نمبر: 2089
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اور شریکوں کی نسبت شرک سے بہت زیادہ بےپروا ہوں۔ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو بھی ملایا اور ساجھی کیا تو میں اس کو اور اس کے ساجھی کے کام کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (یعنی جو عبادت اور عمل دکھانے اور شہرت کے واسطے ہو وہ اللہ کے نزدیک مقبول نہیں مردود ہے۔ اللہ اسی عبادت اور عمل کو قبول کرتا ہے جو اللہ ہی کے واسطے خالص ہو دوسرے کا اس میں کچھ حصہ نہ ہو)
16. جو (اپنا نیک عمل لوگوں کو) سنائے اور اپنے عمل میں ریاکاری کرے۔
حدیث نمبر: 2090
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لوگوں کو سنانے کے لئے نیک کام کرے گا، اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کی ذلت لوگوں کو سنائے گا اور جو شخص ریاکاری کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کو (صرف ثواب) دکھلائے گا (مگر دے گا نہیں تاکہ اسے صرف حسرت ہی حسرت ہو)
17. ایک کلمہ کفر کہہ دینا جہنم میں اتر جانے کا سبب بن جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 2091
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ ایسی بات کہہ بیٹھتا ہے جس کی بڑائی کا اسے اندازہ نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے آگ میں اتنا اتر جاتا ہے جیسے مشرق سے مغرب تک (جیسے کسی مسلمان کی شکایت یا مخبری حکمرانوں کے سامنے یا تہمت یا گالی یا کفر کا کلمہ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن یا شریعت کے ساتھ مذاق، پس انسان کو چاہئے کہ زبان کو قابو میں رکھے اور بغیر ضرورت بات نہ کرے)۔
18. مومن کے ہر معاملے میں بھلائی ہوتی ہے۔
حدیث نمبر: 2092
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کا بھی عجب حال ہے، اس کے ہر معاملے میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اور یہ بات سوائے مومن کے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی اور اس نے شکر ادا کیا تو اس میں بھی ثواب ہے اور جو اس کو نقصان پہنچا اور اس پر صبر کیا، تو اس میں بھی ثواب ہے۔
19. دینی معاملات میں آزمائش پر صبر کرنے اور اصحاب الاخدود کے قصہ کے متعلق۔
حدیث نمبر: 2093
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو بادشاہ سے بولا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں، میرے پاس کوئی لڑکا بھیج کہ میں اس کو جادو سکھلاؤں۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا، وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا۔ اس لڑکے کی آمدورفت کی راہ میں ایک راہب تھا (عیسائی درویش یعنی پادری تارک الدنیا)، وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھا اور اس کا کلام سنا تو اسے اس کی باتیں اچھی لگیں۔ اب جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کی طرف سے ہو کر نکلتا اور اس کے پاس بیٹھتا، پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو جادوگر اس کو (دیر سے آنے کی وجہ سے) مارتا۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا راہب سے گلہ کیا تو راہب نے کہا کہ جب تو جادوگر سے ڈرے، تو یہ کہہ دیا کر کہ میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے، تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھے روک رکھا تھا۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ اچانک ایک بڑے درندے پر گزرا کہ جس نے لوگوں کو آمدورفت سے روک رکھا تھا۔ لڑکے نے کہا کہ آج میں معلوم کرتا ہوں کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے۔ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا کہ الٰہی اگر راہب کا طریقہ تجھے جادوگر کے طریقے سے زیادہ پسند ہو، تو اس جانور کو قتل کر تاکہ لوگ گزر جائیں۔ پھر اس کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مر گیا اور لوگ گزرنے لگے۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا تو وہ بولا کہ بیٹا تو مجھ سے بڑھ گیا ہے، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا۔ پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا تھا۔ یہ حال جب بادشاہ کے مصاحب جو کہ اندھا ہو گیا تھا سنا تو اس لڑکے کے پاس بہت سے تحفے لایا اور کہنے لگا کہ یہ سب مال تیرا ہے اگر تو مجھے اچھا کر دے۔ لڑکے نے کہا کہ میں کسی کو اچھا نہیں کرتا، اچھا کرنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں گا تو وہ تجھے اچھا کر دے گا۔ وہ وزیر اللہ پر ایمان لایا تو اللہ نے اس کو اچھا کر دیا۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ نے کہا کہ تیری آنکھ کس نے روشن کی؟ وزیر بولا کہ میرے مالک نے۔ بادشاہ نے کہا کہ میرے سوا تیرا مالک کون ہے؟ وزیر نے کہا کہ میرا اور تیرا مالک اللہ ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور عذاب شروع کیا، یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام لے لیا۔ وہ لڑکا بلایا گیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ اے بیٹا تو جادو میں اس درجہ پر پہنچا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہے اور بڑے بڑے کام کرتا ہے؟ وہ بولا کہ میں تو کسی کو اچھا نہیں کرتا بلکہ اللہ اچھا کرتا ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور مارتا رہا، یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتلایا۔ راہب پکڑ لیا گیا۔ اس سے کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جا۔ اس کے نہ ماننے پر بادشاہ نے ایک آرہ منگوایا اور راہب کی مانگ پر رکھ کر اس کو چیر ڈالا، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا۔ پھر وہ وزیر بلایا گیا، اس سے کہا گیا کہ تو اپنے دین سے پھر جا، اس نے بھی نہ مانا اس کی مانگ پر بھی آرہ رکھا گیا اور چیر ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا۔ پھر وہ لڑکا بلایا گیا، اس سے کہا کہ اپنے دین سے پلٹ جا، اس نے بھی نہ انکار کیا۔ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو فلاں پہاڑ پر لے جا کر چوٹی پر چڑھاؤ، جب تم چوٹی پر پہنچو تو اس لڑکے سے پوچھو، اگر وہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر، نہیں تو اس کو دھکیل دو۔ وہ اس کو لے گئے اور پہاڑ پر چڑھایا۔ لڑکے نے دعا کی کہ الٰہی جس طرح تو چاہے مجھے ان کے شر سے بچا۔ پہاڑ ہلا اور وہ لوگ گر پڑے۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا آیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تیرے ساتھی کہاں گئے؟ اس نے کہا کہ اللہ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا۔ پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اس کو ایک کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ، اگر اپنے دین سے پھر جائے تو خیر، ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دینا۔ وہ لوگ اس کو لے گئے۔ لڑکے نے کہا کہ الٰہی! تو مجھے جس طرح چاہے ان کے شر سے بچا لے۔ وہ کشتی اوندھی ہو گئی اور لڑکے کے سوا سب ساتھی ڈوب گئے اور لڑکا زندہ بچ کر بادشاہ کے پاس آ گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تیرے ساتھی کہاں گئے؟ وہ بولا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ تو مجھے اس وقت تک نہ مار سکے گا، جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ کیا؟ اس نے کہا کہ تو سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر کے مجھے ایک لکڑی پر سولی دے، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے اندر رکھ، پھر کہہ کہ اس اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے۔ پھر تیر مار۔ اگر تو ایسا کرے گا تو مجھے قتل کرے گا۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا، اس لڑکے کو درخت کے تنے پر لٹکایا، پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا اور تیر کو کمان کے اندر رکھ کر یہ کہتے ہوئے مارا کہ اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے۔ وہ تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا۔ اس نے اپنا ہاتھ تیر کے مقام پر رکھا اور مر گیا۔ لوگوں نے یہ حال دیکھ کر کہا کہ ہم تو اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے۔ کسی نے بادشاہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! جس سے تو ڈرتا تھا وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے۔ بادشاہ نے راستوں کے نالوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان میں خوب آگ بھڑکائی گئی اور کہا کہ جو شخص اس دین سے (یعنی لڑکے کے دین سے) نہ پھرے، اسے ان خندقوں میں دھکیل دو، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں گرے۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، وہ عورت آگ میں گرنے سے جھجھکی (پیچھے ہٹی) تو بچے نے کہا کہ اے ماں! صبر کر تو سچے دین پر ہے (مرنے کے بعد پھر چین ہی چین ہے، پھر تو دنیا کی مصیبت سے کیوں ڈرتی ہے؟ نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث سے اولیاء کی کرامات ثابت ہوتی ہیں اور یہ بھی نکلتا ہے کہ ضرورت کے وقت جھوٹ بولنا درست ہے اور اسی طرح مصلحت کے لئے)۔

Previous    1    2    3    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.