الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: مختلف ابواب کے بیان میں
حدیث نمبر: 1612
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، ان اسلم مولى عمر بن الخطاب اخبره، انه زار عبد الله بن عياش المخزومي فراى عنده نبيذا وهو بطريق مكة، فقال له اسلم: إن هذا الشراب يحبه عمر بن الخطاب، فحمل عبد الله بن عياش قدحا عظيما فجاء به إلى عمر بن الخطاب، فوضعه في يديه فقربه عمر إلى فيه ثم رفع راسه، فقال عمر :" إن هذا لشراب طيب"، فشرب منه ثم ناوله رجلا عن يمينه، فلما ادبر عبد الله ناداه عمر بن الخطاب، فقال: " اانت القائل لمكة خير من المدينة؟" فقال عبد الله: فقلت: هي حرم الله وامنه وفيها بيته، فقال عمر:" لا اقول في بيت الله ولا في حرمه شيئا"، ثم قال عمر:" اانت القائل لمكة خير من المدينة؟" قال: فقلت: هي حرم الله وامنه وفيها بيته، فقال عمر:" لا اقول في حرم الله ولا في بيته شيئا"، ثم انصرف وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، أَنَّ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ زَارَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَيَّاشٍ الْمَخْزُومِيَّ فَرَأَى عِنْدَهُ نَبِيذًا وَهُوَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَقَالَ لَهُ أَسْلَمُ: إِنَّ هَذَا الشَّرَابَ يُحِبُّهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَحَمَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَيَّاشٍ قَدَحًا عَظِيمًا فَجَاءَ بِهِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَوَضَعَهُ فِي يَدَيْهِ فَقَرَّبَهُ عُمَرُ إِلَى فِيهِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ عُمَرُ :" إِنَّ هَذَا لَشَرَابٌ طَيِّبٌ"، فَشَرِبَ مِنْهُ ثُمَّ نَاوَلَهُ رَجُلًا عَنْ يَمِينِهِ، فَلَمَّا أَدْبَرَ عَبْدُ اللَّهِ نَادَاهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: " أَأَنْتَ الْقَائِلُ لَمَكَّةُ خَيْرٌ مِنْ الْمَدِينَةِ؟" فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقُلْتُ: هِيَ حَرَمُ اللَّهِ وَأَمْنُهُ وَفِيهَا بَيْتُهُ، فَقَالَ عُمَرُ:" لَا أَقُولُ فِي بَيْتِ اللَّهِ وَلَا فِي حَرَمِهِ شَيْئًا"، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ:" أَأَنْتَ الْقَائِلُ لَمَكَّةُ خَيْرٌ مِنْ الْمَدِينَةِ؟" قَالَ: فَقُلْتُ: هِيَ حَرَمُ اللَّهِ وَأَمْنُهُ وَفِيهَا بَيْتُهُ، فَقَالَ عُمَرُ:" لَا أَقُولُ فِي حَرَمِ اللَّهِ وَلَا فِي بَيْتِهِ شَيْئًا"، ثُمَّ انْصَرَفَ
اسلم جو مولیٰ ہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ان سے روایت ہے کہ وہ عبداللہ بن عیاش کی ملاقات کو گئے مکّہ کی راہ میں، ان کے پاس نیبذ پائی (نبیذ اس پانی کو کہتے ہیں جس میں کھجور یا انگور بھگوئے جائیں)، اسلم نے کہا کہ اس شربت کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بہت چاہتے ہیں(1)۔ عبداللہ بن عیاش ایک بڑا سا پیالہ بھر کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لائے اور ان کے سامنے رکھ دیا، انہوں نے اس کو اٹھا کر پینا چاہا پھر سر اٹھا کر کہا: یہ شربت بہت اچھا ہے، پھر اس کو پیا، اس کے بعد ایک شخص ان کے داہنی طرف بیٹھا تھا اس کو دے دیا۔ جب عبداللہ بن عیاش لوٹ کر چلے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلایا اور کہا: تو کہتا ہے کہ مکّہ بہتر ہے مدینہ سے؟ عبداللہ بن عیاش نے کہا کہ وہ حرم ہے اللہ کا اور امن کی جگہ ہے، اور وہاں اس کا گھر ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کے گھر اور حرم کا نہیں پوچھتا(2)۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو کہتا ہے کہ مکّہ بہتر ہے مدینہ سے؟ عبداللہ بن عیاش نے کہا کہ مکّہ میں اللہ کا حرم ہے اور امن کی جگہ ہے، وہاں اس کا گھر ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کے گھر اور حرم میں کچھ نہیں کہتا، پھر عبداللہ بن عیاش چلے گئے(3)۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 21»
7. بَابُ مَا جَاءَ فِي الطَّاعُونِ
7. طاعون کا بیان
حدیث نمبر: 1613
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب ، عن عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، عن عبد الله بن عباس ، ان عمر بن الخطاب خرج إلى الشام، حتى إذا كان بسرغ لقيه امراء الاجناد ابو عبيدة بن الجراح واصحابه، فاخبروه ان الوبا قد وقع بارض الشام، قال ابن عباس: فقال عمر بن الخطاب: ادع لي المهاجرين الاولين، فدعاهم فاستشارهم واخبرهم ان الوبا قد وقع بالشام فاختلفوا، فقال بعضهم: قد خرجت لامر ولا نرى ان ترجع عنه، وقال بعضهم: معك بقية الناس واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا نرى ان تقدمهم على هذا الوبإ، فقال عمر: ارتفعوا عني، ثم قال: ادع لي الانصار، فدعوتهم فاستشارهم فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم، فقال: ارتفعوا عني، ثم قال: ادع لي من كان هاهنا من مشيخة قريش من مهاجرة الفتح، فدعوتهم فلم يختلف عليه منهم رجلان، فقالوا: نرى ان ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوبإ، فنادى عمر في الناس: إني مصبح على ظهر فاصبحوا عليه، فقال ابو عبيدة: افرارا من قدر الله؟ فقال عمر: لو غيرك قالها يا ابا عبيدة، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله، ارايت لو كان لك إبل فهبطت واديا له عدوتان إحداهما خصبة والاخرى جدبة، اليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله، وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله؟ فجاء عبد الرحمن بن عوف وكان غائبا في بعض حاجته، فقال: إن عندي من هذا علما: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا سمعتم به بارض فلا تقدموا عليه، وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه"، قال: فحمد الله عمر ثم انصرف وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ إِلَى الشَّامِ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أُمَرَاءُ الْأَجْنَادِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الْوَبَأَ قَدْ وَقَعَ بِأَرْضِ الشَّامِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ادْعُ لِي الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ، فَدَعَاهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الْوَبَأَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ فَاخْتَلَفُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ وَلَا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَإِ، فَقَالَ عُمَرُ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي الْأَنْصَارَ، فَدَعَوْتُهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ فَسَلَكُوا سَبِيلَ الْمُهَاجِرِينَ وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلَافِهِمْ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَاهُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْفَتْحِ، فَدَعَوْتُهُمْ فَلَمْ يَخْتَلِفْ عَلَيْهِ مِنْهُمُ رَجُلَانِ، فَقَالُوا: نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَإِ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ: إِنِّي مُصْبِحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ إِبِلٌ فَهَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ إِحْدَاهُمَا خَصِبَةٌ وَالْأُخْرَى جَدْبَةٌ، أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصِبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، وَإِنْ رَعَيْتَ الْجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ؟ فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَكَانَ غَائِبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي مِنْ هَذَا عِلْمًا: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ"، قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ ثُمَّ انْصَرَفَ
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے(1)، جب سرغ میں پہنچے (سرغ ایک قریہ ہے وادی تبوک میں)، تو لشکر کے بڑے بڑے افسران سے ملے جیسے سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی(2)، انہوں نے کہا: شام میں آج کل وباء ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ بلاؤ بڑے بڑے مہاجرین کو جنہوں نے پہلے ہجرت کی ہے، تو بلایا ان کو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور بیان کیا ان سے کہ شام میں وباء ہو رہی ہے، انہوں نے اختلاف کیا، بعضوں نے کہا: آپ کام کے واسطے نکلے ہیں (رعیت کا حال دیکھنے کو)، لوٹنا مناسب نہیں ہے، بعض نے کہا کہ آپ کے ساتھ اور لوگ بھی ہیں اور صحابہ ہیں، مناسب نہیں کہ آپ ان کو اس وباء میں لے جائیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جاؤ، اور کہا بلاؤ انصار کو۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے انصار کو بلایا اور وہ آئے، ان سے مشورہ کیا، انہوں نے بھی مہاجرین کی مثل بیان کی اور اسی طرح اختلاف کیا۔ آپ نے کہا: جاؤ، پھر کہا: بلاؤ قریش کے بوڑھے بوڑھے لوگوں کو جہنوں نے ہجرت کی فتح مکّہ کے بعد، میں نے ان کو بلایا، ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہیں کیا، بلکہ سب نے کہا: ہمارے نزدیک مناسب یہ ہے کہ آپ لوٹ جائیں اور لوگوں کو اس وباء میں نہ لے جائیں۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں منادی کرادی کہ صبح کو میں اونٹ پر سوار ہوں گا (اور مدینہ کو لوٹ چلوں گا)، پھر صبح کو سب لوگ اونٹ پر سوار ہو کر چلے، اور اس وقت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ جل جلالہُ کی تقدیر سے بھاگے جاتے ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کاش یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی(3)۔ ہاں ہم بھاگتے ہیں اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف(4)۔ کیا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں، ایک کنارہ سر سبز اور شاداب ہو اور دوسرا خشک اور خراب ہو، اگر تو اپنے اونٹوں کو سر سبز اور شاداب میں چرائے تب بھی تو نے اللہ کی تقدیر سے چرایا، اور جو تو نے خشک اور خراب میں چرائے تب بھی تو نے اللہ کی تقدیر سے چرایا(5)۔ اتنے میں سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور وہ کہیں کام کو گئے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: میں اس مسئلے کا عالم ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جب تم سنو کہ کسی سر زمین میں وباء ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور جب کسی سر زمین میں وباء پڑے اور تم وہاں موجود ہو تو بھاگو بھی نہیں۔ کہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے: اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ جل جلالہُ کی حمد بیان کی اور لوٹ کھڑے ہوئے(6)۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5729، 5730، 6973، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2219، 2219، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2912، 2953، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 7479، 7480، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3103، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6652، 14357، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1683، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 22»
حدیث نمبر: 1614
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن محمد بن المنكدر ، وعن سالم ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه، انه سمعه يسال اسامة بن زيد، ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطاعون؟ فقال اسامة : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الطاعون رجز ارسل على طائفة من بني إسرائيل او على من كان قبلكم، فإذا سمعتم به بارض فلا تدخلوا عليه، وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه" . قال مالك: قال ابو النضر: لا يخرجكم إلا فرار منهوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، وَعَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَسْأَلُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّاعُونِ؟ فَقَالَ أُسَامَةُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الطَّاعُونُ رِجْزٌ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ" . قَالَ مَالِك: قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لَا يُخْرِجُكُمْ إِلَّا فِرَارٌ مِنْهُ
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تم نے کیا سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاعون ایک عذاب ہے جو بھیجا گیا تھا بنی اسرائیل کے گروہ پر، یا یہ کہا کہ ان پر جو تم سے پہلے تھے، تو جب سنو تم کسی زمین میں طاعون ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور جب کسی زمین میں طاعون پڑے اور تم وہاں موجود ہو تو بھاگو بھی نہیں۔ ابوالنصر نے کہا: نہ نکلو بھاگنے کے قصد سے۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3473، 5728، 6974، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2218، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2952، 2954، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7481، 7482، 7483، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1065، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6653، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22016، والحميدي فى «مسنده» برقم: 554، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 728، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20158، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 7042، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 23»
حدیث نمبر: 1615
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة ، ان عمر بن الخطاب خرج إلى الشام فلما جاء سرغ بلغه ان الوبا قد وقع بالشام، فاخبره عبد الرحمن بن عوف ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا سمعتم به بارض فلا تقدموا عليه، وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه"، فرجع عمر بن الخطاب من سرغ . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ إِلَى الشَّامِ فَلَمَّا جَاءَ سَرْغَ بَلَغَهُ أَنَّ الْوَبَأَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ، فَأَخْبَرَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ"، فَرَجَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ سَرْغَ .
حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے، جب سرغ میں پہنچے ان کو خبر ملی شام میں وباء پڑی ہے۔ تو سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی زمین میں سنو کہ وباء ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور جب وباء پڑے اس زمین میں جس میں تم ہو تو اس سے نکل نہ بھاگو۔ یہ سن کر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سرغ سے لوٹ آئے۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5729، 5730، 6973، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2219، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2912، 2953، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 7479، 7480، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3103، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6652، 14357، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1682، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20159، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 1616
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله ، ان عمر بن الخطاب إنما رجع بالناس من سرغ، عن حديث عبد الرحمن بن عوفوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ إِنَّمَا رَجَعَ بِالنَّاسِ مِنْ سَرْغَ، عَنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ
حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سرغ سے لوٹ آئے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث سن کر۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5729، 5730، 6973، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2219، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3103، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6652، 14357، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1688، والطبراني فى «الكبير» برقم: 266، 267، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 25»
حدیث نمبر: 1617
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، انه قال: بلغني، ان عمر بن الخطاب، قال: " لبيت بركبة احب إلي من عشرة ابيات بالشام" . قال مالك: يريد لطول الاعمار والبقاء ولشدة الوبإ بالشاموَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ قَالَ: بَلَغَنِي، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: " لَبَيْتٌ بِرُكْبَةَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ عَشَرَةِ أَبْيَاتٍ بِالشَّامِ" . قَالَ مَالِك: يُرِيدُ لِطُولِ الْأَعْمَارِ وَالْبَقَاءِ وَلِشِدَّةِ الْوَبَإِ بِالشَّامِ
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک گھر رکبہ میں (رکبہ ایک مقام ہے درمیان میں عمرہ اور ذات عرق کے) پسند ہے مجھ کو شام میں دس گھروں سے۔
امام مالک رحمہ اللہ نےفرمایا: اس لیے کہ شام میں وباء تھی، اور رکبہ میں کوئی بیماری نہ تھی، وہاں طولِ عمر کا خیال تھا۔

تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 26»
8. بَابُ النَّهْيِ عَنِ الْقَوْلِ بِالْقَدَرِ
8. تقدیر میں گفتگو کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1618
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " تحاج آدم، وموسى فحج آدم، موسى، قال له موسى: انت آدم الذي اغويت الناس واخرجتهم من الجنة، فقال له آدم: انت موسى الذي اعطاه الله علم كل شيء واصطفاه على الناس برسالته؟ قال: نعم، قال: افتلومني على امر قد قدر علي قبل ان اخلق؟" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تَحَاجَّ آدَمُ، وَمُوسَى فَحَجَّ آدَمُ، مُوسَى، قَالَ لَهُ مُوسَى: أَنْتَ آدَمُ الَّذِي أَغْوَيْتَ النَّاسَ وَأَخْرَجْتَهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى الَّذِي أَعْطَاهُ اللَّهُ عِلْمَ كُلِّ شَيْءٍ وَاصْطَفَاهُ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَتِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَفَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِّرَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ؟"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بحث کی آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے، تو غالب ہوئے آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: تو وہی آدم (علیہ السلام) ہے کہ گمراہ کیا تو نے لوگوں کو، اور نکالا ان کو جنت سے۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا: تو وہی موسیٰ (علیہ السلام) ہے کہ اللہ نے تجھے علم دیا ہر چیز کا، اور برگزیدہ کیا رسالت سے۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر آدم (علیہ السلام) نے کہا: باوجود اس کے تو مجھے ملامت کرتا ہے ایسے کام پر جو میری تقدیر میں لکھا جا چکا تھا، قبل میرے پیدا ہونے کے۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3409، 4736، 4738، 6614، 7515، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2652، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6179، 6180، 6210، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10918، 10919، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4701، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2134، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 80، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7578، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1148، 1149، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20067، والطبراني فى «الكبير» برقم: 1663، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 1»
حدیث نمبر: 1619
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني وحدثني يحيى، عن مالك، عن زيد بن ابي انيسة ، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب انه اخبره، عن مسلم بن يسار الجهني ، ان عمر بن الخطاب سئل عن هذه الآية: وإذ اخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم واشهدهم على انفسهم الست بربكم قالوا بلى شهدنا ان تقولوا يوم القيامة إنا كنا عن هذا غافلين سورة الاعراف آية 172، فقال عمر بن الخطاب : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسال عنها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله تبارك وتعالى خلق آدم ثم مسح ظهره بيمينه فاستخرج منه ذرية، فقال: " خلقت هؤلاء للجنة وبعمل اهل الجنة يعملون"، ثم مسح ظهره فاستخرج منه ذرية، فقال:" خلقت هؤلاء للنار وبعمل اهل النار يعملون"، فقال رجل: يا رسول الله، ففيم العمل؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله إذا خلق العبد للجنة استعمله بعمل اهل الجنة حتى يموت على عمل من اعمال اهل الجنة فيدخله ربه الجنة، وإذا خلق العبد للنار استعمله بعمل اهل النار حتى يموت على عمل من اعمال اهل النار فيدخله ربه النار" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ سورة الأعراف آية 172، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ عَنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: " خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ"، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ:" خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُدْخِلُهُ رَبُّهُ الْجَنَّةَ، وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ فَيُدْخِلُهُ رَبُّهُ النَّارَ"
حضرت مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا اس آیت کے متعلق: «﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ﴾ [الأعراف: 172] » یعنی: یاد کر اس وقت کو جب تیرے پروردگار نے آدم کی پیٹھ سے ان کی تمام اولاد کو نکالا، اور ان کو گواہ کیا ان پر اس بات کا کہ کیا میں نہیں ہوں پروردگار تمہارا۔ بولے کیوں نہیں، تو پروردگار ہے ہمارا۔ ہم نے اس واسطے گواہ کیا کہ کہیں ایسا نہ کہو تم قیامت کے روز کہ ہم تو اس سے غافل تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس آیت کی تفسیر کا سوال ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جل جلالہُ نے آدم کو پیدا کیا، پھر ان میں اپنا داہنا ہاتھ پھیرا اور اولاد نکالی، اور فرمایا: میں نے ان کو جنت کے لئے پیدا کیا، اور یہ لوگ جنتیوں کے کام کریں گے۔ پھر بایاں ہاتھ پھیرا ان کی پیٹھ پر اور اولاد نکالی، فرمایا: میں نے ان کو جہنم کے لیے پیدا کیا، اور یہ جہنمیوں کے کام کریں گے۔ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر عمل کرنے سے کیا فائدہ(1)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جب پیدا کرتا ہے کسی بندے کو جنت کے واسطے، تو اس سے جنتیوں کے کام کراتا ہے، اور موت کے وقت بھی وہ نیک عمل کر کے مرتا ہے، تو اللہ جل جلالہُ اسے جنت میں داخل کرتا ہے۔ اور جب کسی بندے کو جہنم کے لئے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ موت بھی اسے برے کام پر آتی ہے، تو اسے جہنم میں داخل کرتا ہے۔(2)

تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 4703، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6166، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 75، 3275، 4023، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 11126، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3075، وأحمد فى «مسنده» برقم: 311، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 3886، 3887، 3888، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 2»
حدیث نمبر: 1620
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك انه بلغه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " تركت فيكم امرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما: كتاب الله، وسنة نبيه" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ"
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: چھوڑے جاتا ہوں میں تم میں دو چیزوں کو، نہیں گمراہ ہو گے جب تک پکڑے رہو گے ان کو، کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، انفرد به المصنف من هذا الطريق
شیخ سلیم ہلالی نے اس روایت کو شواہد کی بناء پر صحیح لغیرہ قرار دیا ہے اور شیخ احمد علی سلیمان نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 3»
حدیث نمبر: 1621
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني يحيى، عن مالك، عن زياد بن سعد ، عن عمرو بن مسلم ، عن طاوس اليماني ، انه قال: ادركت ناسا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقولون: كل شيء بقدر، قال طاوس: وسمعت عبد الله بن عمر ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل شيء بقدر حتى العجز والكيس او الكيس والعجز" وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ الْيَمَانِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: أَدْرَكْتُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُونَ: كُلُّ شَيْءٍ بِقَدَرٍ، قَالَ طَاوُسٌ: وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ شَيْءٍ بِقَدَرٍ حَتَّى الْعَجْزِ وَالْكَيْسِ أَوِ الْكَيْسِ وَالْعَجْزِ"
حضرت طاؤس الیمانی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے چند صحابہ کو پایا، کہتے تھے: ہر چیز تقدیر سے ہے۔ طاؤس نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، کہتے تھے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ہر چیز تقدیر سے ہے، یہاں تک کہ عاجزی اور ہوشیاری بھی۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6149، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20941، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5893، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 4»

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.