الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الإيمان والنذور
--. نذر کا کفارہ
حدیث نمبر: 3436
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من نذر نذرا لم يسمه فكفارته كفارة يمين. ومن نذر نذرا لا يطيقه فكفارته كفارة يمين. ومن نذر نذرا اطاقه فليف به» . رواه ابو داود وابن ماجه ووقفه بعضهم على ابن عباس وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ نَذَرَ نَذْرًا لم يسمه فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ. وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا لَا يُطِيقُهُ فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ. وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا أَطَاقَهُ فَلْيَفِ بِهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَوَقفه بَعضهم على ابْن عَبَّاس
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے کسی چیز کا نام لیے بغیر نذر مانی تو اس کا کفارہ قسم کے کفارہ کی طرح ہے، جس نے معصیت کی نذر مانی تو اس کا کفارہ قسم کے کفارے کی طرح ہے، جس نے کسی ایسی چیز کی نذر مانی جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا تو اس کا کفارہ قسم کے کفارے کی طرح ہے۔ اور جس نے کوئی ایسی نذر مانی جس کی وہ طاقت رکھتا ہے تو وہ اسے پورا کرے۔ ابوداؤد، ابن ماجہ۔ اور بعض نے اسے ابن عباس رضی اللہ عنہ پر موقوف قرار دیا ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه أبو داود (3322) و ابن ماجه (2128)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. وہ نذر پوری کی جائے جو جائز ہے
حدیث نمبر: 3437
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ثابت بن الضحاك قال: نذر رجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ينحر إبلا ببوانة فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هل كان فيها وثن من اوثان الجاهلية يعبد؟» قالوا: لا قال: «فهل كان فيه عيد من اعيادهم؟» قالوا: لا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اوف بنذرك فإنه لا وفاء لنذر في معصية الله ولا فيما لا يملك ابن آدم» . رواه ابو داود وَعَن ثَابت بن الضَّحَّاك قَالَ: نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟» قَالُوا: لَا قَالَ: «فَهَلْ كَانَ فِيهِ عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟» قَالُوا: لَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أوف بِنَذْرِك فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دور میں بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تو وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو (اس کے متعلق) بتایا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا وہاں دور جاہلیت کا کوئی بت تھا جس کی پوجا کی جاتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا وہاں ان کی عیدوں میں سے کوئی عید تھی؟ انہوں نے عرض کیا، نہیں، تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی معصیت میں نذر پوری کرنا ضروری نہیں اور نہ اس میں جس کا انسان مالک نہیں۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده صحيح، رواه أبو داود (3313)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
--. دف بجانے کی نذر کو پورا کرنے کا حکم
حدیث نمبر: 3438
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده رضي الله عنه ان امراة قالت: يا رسول الله إني نذرت ان اضرب على راسك بالدف قال: «اوفي بنذرك» . رواه ابو داود وزاد رزين: قالت: ونذرت ان اذبح بمكان كذا وكذا مكان يذبح فيه اهل الجاهلية فقال: «هل كان بذلك المكان وثن من اوثان الجاهلية يعبد؟» قالت: لا قال: «هل كان فيه عيد من اعيادهم؟» قالت: لا قال: «اوفي بنذرك» وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جده رَضِي الله عَنهُ أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلَى رَأْسِكَ بِالدُّفِّ قَالَ: «أَوْفِي بِنَذْرِكِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَزَادَ رَزِينٌ: قَالَتْ: وَنَذَرْتُ أَنْ أَذْبَحَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا مَكَانٌ يَذْبَحُ فِيهِ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ: «هَلْ كَانَ بِذَلِكِ الْمَكَانِ وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟» قَالَتْ: لَا قَالَ: «هَلْ كَانَ فِيهِ عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟» قَالَتْ: لَا قَالَ: «أَوْفِي بِنَذْرِك»
عمر وبن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی ہے کہ میں آپ کی موجودگی میں دف بجاؤں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرو۔ اور رزین نے یہ اضافہ نقل کیا، اس (عورت) نے عرض کیا: میں نے فلاں فلاں جگہ جہاں اہل جاہلیت ذبح کرتے تھے، ذبح کرنے کی نذر مانی ہے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس جگہ جاہلیت کا کوئی بت تھا جس کی پوجا کی جاتی تھی؟ اس نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس جگہ ان کی کوئی عید تھی؟ اس نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرو۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و رزین۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه أبو دود (3312) و رزين (لم أجده)
٭ و أصله عند أبي داود بالاختصار و رواه أبو داود (3313) قريبًا من لفظ المصنف عن ثابت بن الضحاک رضي الله عنه، انظر الحديث السابق.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. تہائی مال سے زیادہ صدقہ کرنا منع ہے
حدیث نمبر: 3439
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابي لبابة: انه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن من توبتي ان اهجر دار قومي التي اصبت فيها الذنب وان انخلع من مالي كله صدقة قال: «يجزئ عنك الثلث» . رواه رزين وَعَن أبي لبَابَة: أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَهْجُرَ دَارَ قَوْمِي الَّتِي أَصَبْتُ فِيهَا الذَّنْبَ وَأَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي كُلِّهِ صَدَقَةً قَالَ: «يُجْزِئُ عَنْكَ الثُّلُثُ» . رَوَاهُ رزين
ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا، میری توبہ (کے اتمام میں) سے ہے کہ میں اپنی آبائی جگہ سے ہجرت کر جاؤں جہاں میں نے گناہ کیا تھا اور میں اپنا سارا مال صدقہ کر دوں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہاری طرف سے ایک تہائی کافی ہے۔ حسن، رواہ رزین۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«حسن، رواه رزين (لم أجده)
٭ وله شواھد عند أبي داود (3319) و غيره.»

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
--. کسی خاص جگہ نماز پڑھنے کی نذر مان کر دوسری جگہ پڑھ لی جائے تو نذر پوری ہو جائے گی
حدیث نمبر: 3440
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن جابر بن عبد الله: ان رجلا قام يوم الفتح فقال: يا رسول الله لله عز وجل إن فتح الله عليك مكة ان اصلي في بيت المقدس ركعتين قال: «صلى الله عليه وسلم ههنا» ثم عاد فقال: «صل ههنا» ثم اعاد عليه فقال: «شانك إذا» . رواه ابو داود والدارمي وَعَن جَابر بن عبد الله: أَنَّ رَجُلًا قَامَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَقَالَ: يَا رَسُول الله لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِنْ فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكَ مَكَّةَ أَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ رَكْعَتَيْنِ قَالَ: «صلى الله عَلَيْهِ وَسلم هَهُنَا» ثمَّ عَاد فَقَالَ: «صل هَهُنَا» ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهِ فَقَالَ: «شَأْنَكَ إِذًا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد والدارمي
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے روز ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں نے اللہ عزوجل کے لیے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مکہ میں فتح عطا فرمائے تو میں بیت المقدس میں دو رکعتیں پڑھوں گا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہیں (بیت اللہ میں) پڑھ لو۔ اس نے پھر یہی بات دہرائی تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہیں پڑھ لو۔ اس نے پھر یہی بات دہرائی تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تب تیری مرضی ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد و الدارمی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده صحيح، رواه أبو داود (3305) و الدارمي (184/2. 185 ح 2344)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
--. پیدل حج کرنے کی نذر ایک ناپسندیدہ فعل
حدیث نمبر: 3441
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابن عباس: ان اخت عقبة بن عامر رضي الله عنهم نذرت ان تحج ماشية وانها لا تطيق ذلك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن الله لغني عن مشي اختك فلتركب ولتهد بدنة» . رواه ابو داود والدارمي وفي رواية لابي داود: فامرها النبي صلى الله عليه وسلم ان تركب وتهدي هديا وفي رواية له: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن الله لا يصنع بشقاء اختك شيئا فلتركب ولتحج وتكفر يمينها» وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ أُخْتَ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ مَاشِيَة وَأَنَّهَا لَا تطِيق ذَلِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ مَشْيِ أُخْتِكَ فَلْتَرْكَبْ وَلْتُهْدِ بَدَنَةً» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ وَفِي رِوَايَةٍ لِأَبِي دَاوُدَ: فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَرْكَبَ وَتُهْدِيَ هَدْيًا وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَصْنَعُ بِشَقَاءِ أُخْتِكَ شَيْئًا فَلْتَرْكَبْ ولتحج وتكفر يَمِينهَا»
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی جبکہ وہ اس کی طاقت نہیں رکھتی تھی تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تیری بہن کے پیدل چلنے سے بے نیاز ہے، وہ سوار ہو اور قربانی کرے۔ اور ابوداؤد کی ایک روایت میں ہے: نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو حکم فرمایا کہ وہ سواری کرے اور قربانی کرے۔ اور انہی کی ایک روایت میں ہے: نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تیری بہن کو مشقت و تھکاوٹ میں ڈال کر کیا کرے گا، وہ سواری کرے، حج کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔ صحیح، رواہ ابوداؤد و الدارمی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«صحيح، رواه أبو داود (2297 و الرواية الثانية له: 3292 الرواية الثالثة: 3295) و الدارمي (183/2 ح 2340)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. پیدل حج کرنے کی نذر ماننے کا معاملہ
حدیث نمبر: 3442
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن عبد الله بن مالك ان عقبة بن عامر سال النبي صلى الله عليه وسلم عن اخت له نذرت ان تحج حافية غير مختمرة فقال: «مروها فلتختمر ولتركب ولتصم ثلاثة ايام» . رواه ابو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عُقْبَةَ بن عَامر سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أُخْتٍ لَهُ نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ حَافِيَةً غَيْرَ مُخْتَمِرَةٍ فَقَالَ: «مُرُوهَا فَلْتَخْتَمِرْ وَلْتَرْكَبْ وَلْتَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ والدارمي
عبداللہ بن مالک سے روایت ہے کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کے متعلق نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مسئلہ دریافت کیا کہ اس نے ننگے پاؤں ننگے سر حج کرنے کی نذر مانی ہے۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے حکم دو کہ وہ سر پر کپڑا لے، سواری کرے اور تین روزے رکھے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3293) و الترمذي (1544 و قال: حسن) و النسائي (20/7 ح 3846) و ابن ماجه (2134) والدارمي (183/2 ح 2339)
٭ عبيد الله بن زحر: ضعفه الجمھور و تابعه بکر بن سوادة عند أحمد (147/4) و في السند إليه ابن لھيعة وھو ضعيف لسوء حفظه بعد اختلاطه.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. نافرمانی والی نذر کا کفارہ دیا جائے گا
حدیث نمبر: 3443
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن سعيد بن المسيب: ان اخوين من الانصار كان بينهما ميراث فسال احدهما صاحبه القسمة فقال: إن عدت تسالني القسمة فكل مالي في رتاج الكعبة فقال له عمر: إن الكعبة غنية عن مالك كفر عن يمينك وكلم اخاك فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا يمين عليك ولا نذر في معصية الرب ولا في قطيعة الرحم ولا فيما لا يملك» . رواه ابو داود وَعَن سعيد بن الْمسيب: أَنَّ أَخَوَيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ بَيْنَهُمَا مِيرَاثٌ فَسَأَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ الْقِسْمَةَ فَقَالَ: إِنْ عُدْتَ تَسْأَلُنِي الْقِسْمَةَ فَكُلُّ مَالِي فِي رِتَاجِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: إِنَّ الْكَعْبَةَ غَنِيَّةٌ عَنْ مَالِكَ كَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ وَكَلِّمْ أَخَاكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا يَمِينَ عَلَيْكَ وَلَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ الرَّبِّ وَلَا فِي قَطِيعَةِ الرَّحِمِ وَلَا فِيمَا لَا يملك» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سعید بن مسیّب ؒ سے روایت ہے کہ انصار کے دو بھائیوں کے درمیان میراث تھی۔ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے تقسیم کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا: اگر تم نے دوبارہ مجھ سے تقسیم کا مطالبہ کیا تو میرا سارا مال کعبہ کے اخراجات کے لیے وقف ہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا: کعبہ کو تیرے مال کی ضرورت نہیں، اپنی قسم کا کفارہ ادا کر اور اپنے بھائی سے کلام کر، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: رب کی معصیت، قطع رحمی اور اس چیز کے بارے میں جس کا تو مالک نہیں تجھ پر نہ تو کوئی نذر ہے اور نہ قسم۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه أبو داود (3272) [و صححه الحاکم (300/4) ووافقه الذهبي]»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. نذر دو قسم کی
حدیث نمبر: 3444
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن عمران بن حصين قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: النذر نذران: فمن كان نذر في طاعة فذلك لله فيه الوفاء ومن كان نذر في معصية فذلك للشيطان ولا وفاء فيه ويكفره ما يكفر اليمين. رواه النسائي عَن عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: النَّذْرُ نَذْرَانِ: فَمَنْ كَانَ نَذَرَ فِي طَاعَةٍ فَذَلِكَ لِلَّهِ فِيهِ الْوَفَاءُ وَمَنْ كَانَ نَذَرَ فِي مَعْصِيَةٍ فَذَلِكَ لِلشَّيْطَانِ وَلَا وَفَاء فِيهِ وَيُكَفِّرُهُ مَا يُكَفِّرُ الْيَمِينَ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: نذر کی دو قسمیں ہیں، جو شخص اطاعت میں نذر مانے تو نذر اللہ کے لیے ہے اور اسے پورا کرنا ہے، اور جس نے معصیت میں نذر مانی تو وہ شیطان کے لیے ہے وہ پوری نہیں کرنی چاہیے، اور وہ اس کا کفارہ قسم کے کفارہ کی مثل ادا کرے۔ صحیح، رواہ النسائی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«صحيح، رواه النسائي (28/7. 29 ح 3876)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. جان قربان کرنے کی نذر کا مسئلہ
حدیث نمبر: 3445
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن محمد بن المنتشر قال: إن رجلا نذر ان ينحر نفسه إن نجاه الله من عدوه فسال ابن عباس فقال له: سل مسروقا فساله فقال له: لا تنحر نفسك فإنك إن كنت مؤمنا قتلت نفسا مؤمنة وإن كنت كافرا تعجلت إلى النار واشتر كبشا فاذبحه للمساكين فإن إسحاق خير منك وفدي بكبش فاخبر ابن عباس فقال: هكذا كنت اردت ان افتيك. رواه رزين وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا نَذَرَ أَنْ يَنْحَرَ نَفْسَهُ إِنْ نَجَّاهُ اللَّهُ مِنْ عَدُوِّهِ فَسَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَهُ: سَلْ مَسْرُوقًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ لَهُ: لَا تَنْحَرْ نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ كُنْتَ مُؤْمِنًا قَتَلْتَ نَفْسًا مُؤْمِنَةً وَإِنْ كُنْتَ كَافِرًا تَعَجَّلْتَ إِلَى النَّارِ وَاشْتَرِ كَبْشًا فَاذْبَحْهُ لِلْمَسَاكِينِ فَإِنَّ إِسْحَاقَ خَيْرٌ مِنْكَ وَفُدِيَ بِكَبْشٍ فَأَخْبَرَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: هَكَذَا كُنْتُ أَرَدْتُ أَنْ أُفْتِيَكَ. رَوَاهُ رَزِينٌ
محمد بن منتشر بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے اسے اس کے دشمن سے نجات دی تو وہ اپنے آپ کو ذبح کرے گا، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے اسے فرمایا: مسروق سے پوچھو، اس نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اپنے آپ کو ذبح نہ کرو، کیونکہ اگر تم مومن ہو تو تم نے ایک مومن کی جان کو قتل کیا، اور اگر تم کافر ہو تو تم نے آگ میں جانے کی جلدی کی، ایک مینڈھا خریدو اور اسے مساکین کے لیے ذبح کرو، کیونکہ اسحاق ؑ تم سے بہتر تھے اور ان کے فدیہ میں ایک مینڈھا دیا گیا، جب ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں بھی تمہیں اسی طرح کا فتوی دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لم اجدہ، رواہ رزین۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«لم أجده، رواه رزين (لم أجده)
٭ و لأصل الحديث شواھد ضعيفة عند الطبراني في الکبير (354/11 ح 11995) و عبد الرزاق (186/11 ح 11443، 15905) وغيرهما عن ابن عباس بغير ھذا اللفظ مختصرًا.»

قال الشيخ زبير على زئي: لم أجده

Previous    1    2    3    4    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.