الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 19803
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال: وقتلت عبد العزى بن خطل وهو متعلق بستر الكعبة، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة: " الناس آمنون غير عبد العزى بن خطل" .قَالَ: وَقَتَلْتُ عَبْدَ الْعُزَّى بْنَ خَطَلٍ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِسِتْرِ الْكَعْبَةِ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: " النَّاسُ آمِنُونَ غَيْرَ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ خَطَلٍ" .
حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس وقت عبد العزی بن خطل غلاف کعبہ کے ساتھ چھٹا ہوا تھا تو (نبی (علیہ السلام) کے حکم سے) میں نے ہی اسے قتل کیا تھا اور فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا عبد العزی بن خطل کے علاوہ تمام لوگ مامون ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 19804
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن لي حوضا ما بين ايلة إلى صنعاء، عرضه كطوله، فيه ميزابان ينثعبان من الجنة، من ورق، والآخر من ذهب، احلى من العسل، وابرد من الثلج، وابيض من اللبن، من شرب منه لم يظما حتى يدخل الجنة، فيه اباريق عدد نجوم السماء" .وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ لِي حَوْضًا مَا بَيْنَ أَيْلَةَ إِلَى صَنْعَاءَ، عَرْضُهُ كَطُولِهِ، فِيهِ مِيزَابَانِ يَنْثَعِبَانِ مِنَ الْجَنَّةِ، مِنْ وَرِقٍ، وَالْآخَرُ مِنْ ذَهَبٍ، أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَأَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ، وَأَبْيَضُ مِنَ اللَّبَنِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ، فِيهِ أَبَارِيقُ عَدَدَ نُجُومِ السَّمَاءِ" .
اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ میرا ایک حوض ہوگا جس کی مسافت اتنی ہوگی جتنی ایلہ اور صنعاء کے درمیان ہے اور اس کی لمبائی اور چوڑائی دونوں برابر ہوں گی، اس میں جنت سے دو پر نالے بہتے ہوں گے جن میں سے ایک چاندی کا اور دوسرا سونے کا ہوگا، اس کا پانی شہد سے زیادہ شیریں، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور دودھ سے زیادہ سفید ہوگا، جو شخص ایک مرتبہ اس کا پانی پی لے گا وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا اور اس کے کٹورے آسمان کے ستاروں کے برابر ہوں گے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 19805
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا سكين بن عبد العزيز ، عن سيار بن سلامة ابي المنهال الرياحي ، قال: دخلت مع ابي على ابي برزة الاسلمي ، وإن في اذني يومئذ لقرطين، قال: وإني لغلام , قال: فقال ابو برزة إني احمد الله اني اصبحت لائما لهذا الحي من قريش، فلان هاهنا يقاتل على الدنيا وفلان هاهنا يقاتل على الدنيا يعني عبد الملك بن مروان , قال: حتى ذكر ابن الازرق , قال: ثم قال: إن احب الناس إلي لهذه العصابة الملبدة، الخميصة بطونهم من اموال المسلمين، والخفيفة ظهورهم من دمائهم , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الامراء من قريش، الامراء من قريش , الامراء من قريش , لي عليهم حق ولهم عليكم حق، ما فعلوا ثلاثا: ما حكموا فعدلوا، واسترحموا فرحموا، وعاهدوا فوفوا، فمن لم يفعل ذلك منهم، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا سُكَيْنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ أَبِي الْمِنْهَالِ الرِّيَاحِيِّ ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، وَإِنَّ فِي أُذُنَيَّ يَوْمَئِذٍ لَقُرْطَيْنِ، قَالَ: وَإِنِّي لَغُلَامٌ , قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَرْزَةَ إِنِّي أَحْمَدُ اللَّهَ أَنِّي أَصْبَحْتُ لَائِمًا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ، فُلَانٌ هَاهُنَا يُقَاتِلُ عَلَى الدُّنْيَا وَفُلَانٌ هَاهُنَا يُقَاتِلُ عَلَى الدُّنْيَا يَعْنِي عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ , قَالَ: حَتَّى ذَكَرَ ابْنَ الْأَزْرَقِ , قَالَ: ثُمَّ قَالَ: إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيَّ لَهَذِهِ الْعِصَابَةُ الْمُلَبَّدَةُ، الْخَمِيصَةُ بُطُونُهُمْ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِينَ، وَالْخَفِيفَةُ ظُهُورُهُمْ مِنْ دِمَائِهِمْ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأُمَرَاءُ مِنْ قُرَيْشٍ، الْأُمَرَاءُ مِنْ قُرَيْشٍ , الْأُمَرَاءُ مِنْ قُرَيْشٍ , لِي عَلَيْهِمْ حَقٌّ وَلَهُمْ عَلَيْكُمْ حَقٌّ، مَا فَعَلُوا ثَلَاثًا: مَا حَكَمُوا فَعَدَلُوا، وَاسْتُرْحِمُوا فَرَحِمُوا، وَعَاهَدُوا فَوَفَوْا، فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ مِنْهُمْ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ" .
سیار بن سلالہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میرے کانوں میں بالیاں تھیں، میں نوعمر تھا، حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ قریش کے اس قبیلے کو ملامت کرتا رہتا ہوں، یہاں فلاں فلاں آدمی دنیا کی، خاطر قتال کرتا ہے یعنی عبدالملک بن مروان، حتیٰ کہ انہوں نے ابن ازرق کا بھی تذکرہ کیا، پھر فرمایا میرے نزدیک اس گروہ میں تمام لوگوں سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کا پیٹ مسلمانوں کے مال سے خالی ہو اور اس کی پشت ان کے خون سے بوجھل نہ ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے حکمران قریش میں سے ہوں گے، جب ان سے رحم کی درخواست کی جائے تو وہ رحم کریں، وعدہ کریں تو پورا کریں اور فیصلہ کریں تو انصاف کریں اور جو شخص ایسا نہ کرے اس پر اللہ کی، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده قوي
حدیث نمبر: 19806
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سليمان بن داود ، اخبرنا شعبة ، عن علي بن زيد ، قال: سمعت المغيرة بن ابي برزة يحدث , عن ابيه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " غفار غفر الله لها، واسلم سالمها الله، ما انا قلته، ولكن الله قاله" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بَرْزَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِيهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ، مَا أَنَا قُلْتُهُ، وَلَكِنَّ اللَّهَ قَالَهُ" .
حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنی (علیہ السلام) نے فرمایا قبیلہ اسلم کو اللہ سلامت رکھے اور قبیلہ غفار کی بخشش فرمائے، یہ بات میں نہیں کہہ رہا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہی یہ بات فرمائی ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: ما أنا قلته ولكن الله قاله وهى زيادة منكرة، تفرد بها على بن زيد، وهو ضعيف، والمغيرة بن أبى برزة مجهول
حدیث نمبر: 19807
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عبد الصمد ، حدثنا عبد السلام ابو طالوت ، حدثنا العباس الجريري , ان عبيد الله بن زياد ، قال لابي برزة : " هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ذكره قط يعني الحوض؟ قال: نعم، لا مرة ولا مرتين، فمن كذب به، فلا سقاه الله منه" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ أَبُو طَالُوتَ ، حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْجُرَيْرِيُّ , أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زِيَادٍ ، قَالَ لِأَبِي بَرْزَةَ : " هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَهُ قَطُّ يَعْنِي الْحَوْضَ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَا مَرَّةً وَلَا مَرَّتَيْنِ، فَمَنْ كَذَّبَ بِهِ، فَلَا سَقَاهُ اللَّهُ مِنْهُ" .
عبیداللہ بن زیاد نے ایک مرتبہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا آپ نے حوض کوثر کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک دو مرتبہ نہیں، اب جو اس کی تکذیب کرتا ہے، اللہ اسے اس حوض سے سیراب نہ کرے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، العباس الجريري أصغر من أن يروي عن أبى برزة
حدیث نمبر: 19808
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الصمد ، ويونس , قالا: ثنا حماد يعني ابن سلمة ، عن الازرق بن قيس ، ان شريك بن شهاب ، قال يونس: الحارثي وهذا حديث عبد الصمد , قال: ليت اني رايت رجلا من اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم يحدثني عن الخوارج , قال فلقيت ابا برزة في نفر من اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم , فقلت: حدثني شيئا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الخوارج , قال: احدثكم بشيء قد سمعته اذناي، وراته عيناي: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بدنانير، فقسمها، وثم رجل مطموم الشعر، آدم او اسود بين عينيه اثر السجود، عليه ثوبان ابيضان، فجعل ياتيه من قبل يمينه، ويتعرض له، فلم يعطه شيئا , قال يا محمد، ما عدلت اليوم في القسمة، فغضب غضبا شديدا، ثم قال: " والله لا تجدون بعدي احدا اعدل عليكم مني" ثلاث مرار، ثم قال:" يخرج من قبل المشرق رجال، كان هذا منهم، هديهم هكذا يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، ثم لا يرجعون فيه، سيماهم التحليق، لا يزالون يخرجون حتى يخرج آخرهم مع الدجال، فإذا لقيتموهم فاقتلوهم، هم شر الخلق والخليقة" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَيُونُسُ , قَالَا: ثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، عَنِ الْأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ ، أَنَّ شَرِيكَ بْنَ شِهَابٍ ، قَالَ يُونُسُ: الْحَارِثِيُّ وَهَذَا حَدِيثُ عَبْدِ الصَّمَدِ , قَالَ: لَيْتَ أَنِّي رَأَيْتُ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُنِي عَنْ الْخَوَارِجِ , قَالَ فَلَقِيتُ أَبَا بَرْزَةَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: حَدِّثْنِي شَيْئًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَوَارِجِ , قَالَ: أُحَدِّثُكُمْ بِشَيْءٍ قَدْ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَرَأَتْهُ عَيْنَايَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَنَانِيرَ، فَقَسَمَهَا، وَثَمَّ رَجُلٌ مَطْمُومُ الشَّعْرِ، آدَمُ أَوْ أَسْوَدُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ أَثَرُ السُّجُودِ، عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَبْيَضَانِ، فَجَعَلَ يَأْتِيهِ مِنْ قِبَلِ يَمِينِهِ، وَيَتَعَرَّضُ لَهُ، فَلَمْ يُعْطِهِ شَيْئًا , قَالَ يَا مُحَمَّدُ، مَا عَدَلْتَ الْيَوْمَ فِي الْقِسْمَةِ، فَغَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا، ثُمَّ قَالَ: " وَاللَّهِ لَا تَجِدُونَ بَعْدِي أَحَدًا أَعْدَلَ عَلَيْكُمْ مِنِّي" ثَلَاثَ مَرَّار، ثُمَّ قَالَ:" يَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ رِجَالٌ، كَانَ هَذَا مِنْهُمْ، هَدْيُهُمْ هَكَذَا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَرْجِعُونَ فِيهِ، سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ، لَا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ حَتَّى يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الدَّجَّالِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ" ..
شریک بن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میری یہ خواہش تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے ملاقات ہوجائے اور وہ مجھ سے خوارج کے متعلق حدیث بیان کریں، چناچہ یوم عرفہ کے موقع پر حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے ان کے چند ساتھیوں کے ساتھ میری ملاقات ہوگئی، میں نے ان سے عرض کیا اے ابوبرزہ! خوارج کے حوالے سے آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کچھ فرماتے ہوئے سنا ہو تو وہ حدیث ہمیں بھی بتائیے، انہوں نے فرمایا میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو میرے کانوں نے سنی اور میری آنکھوں نے دیکھی۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے کچھ دینار آئے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ تقسیم فرما رہے تھے، وہاں ایک سیاہ فام آدمی بھی تھا جس کے بال کٹے ہوئے تھے، اس نے دو سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدے کے نشانات تھے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ نہیں دیا، دائیں جانب سے آیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں دیا، بائیں جانب سے اور پیچھے سے آیا تب بھی کچھ نہیں دیا، یہ دیکھ کر وہ کہنے لگا واللہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آج آپ جب سے تقسیم کر رہے ہیں، آپ نے انصاف نہیں کیا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید غصہ آیا اور فرمایا بخدا! میرے بعد تم مجھ سے زیادہ عادل کسی کو نہ پاؤ گے، یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا کہ مشرق کی طرف سے کچھ لوگ نکلیں گے، غالباً یہ بھی ان ہی میں سے ہے اور ان کی شکل و صورت بھی ایسی ہی ہوگی، وہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ اس کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے، یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا، ان کی علامت سر منڈانا ہوگی، یہ لوگ ہر زمانے میں نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری شخص بھی نکل آئے گا، جب تم انہیں دیکھنا تو انہیں قتل کردینا، تین مرتبہ فرمایا اور یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں، تین مرتبہ فرمایا۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: حتى يخرج آخرهم مع الدجال ، وهذا إسناد ضعيف لجهالة شريك بن شهاب
حدیث نمبر: 19809
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا الازرق بن قيس، عن شريك بن شهاب ، قال: كنت اتمنى ان القى رجلا من اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم يحدثني عن الخوارج، فلقيت ابا برزة في يوم عرفة في نفر من اصحابه، فذكر الحديث.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا الْأَزْرَقُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: كُنْتُ أَتَمَنَّى أَنْ أَلْقَى رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُنِي عَنْ الْخَوَارِجِ، فَلَقِيتُ أَبَا بَرْزَةَ فِي يَوْمِ عَرَفَةَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة شريك بن شهاب
حدیث نمبر: 19810
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن كنانة بن نعيم ، عن ابي برزة : ان جليبيبا كان من الانصار , وكان اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان لاحدهم ايم لم يزوجها حتى يعلم اللنبي صلى الله عليه وسلم فيها حاجة ام لا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم لرجل من الانصار: " زوجني ابنتك" , فقال: نعم ونعمة عين , فقال له:" إني لست لنفسي اريدها" قال: فلمن؟ قال:" لجليبيب" قال: حتى استامر امها , فاتاها , فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب ابنتك , قالت: نعم ونعمة عين، زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: إنه ليس يريدها لنفسه , قالت: فلمن؟ قال: لجليبيب , قالت: حلقى، اجليبيب ابنه مرتين , لا لعمر الله، لا ازوج جليبيبا , قال: فلما قام ابوها لياتي النبي صلى الله عليه وسلم، قالت الفتاة لامها من خدرها: من خطبني إليكما؟ قالت النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: فتردون على النبي صلى الله عليه وسلم امره، ادفعوني إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فإنه لا يضيعني , فاتى ابوها النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: شانك بها , فزوجها جليبيبا . فبينما النبي صلى الله عليه وسلم في مغزى له، وافاء الله عليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل تفقدون من احد؟" قالوا: نفقد فلانا، ونفقد فلانا , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لكني افقد جليبيبا، فانظروه في القتلى" فنظروه، فوجدوه إلى جنب سبعة قد قتلهم، ثم قتلوه، قال: فوقف النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " قتل سبعة، ثم قتلوه! هذا مني وانا منه" ثم حمله رسول الله صلى الله عليه وسلم على ساعديه، ما له سرير غير ساعدي رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى حفر له، ثم وضعه في لحده , وما ذكر غسلا .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ كِنَانَةَ بْنِ نُعَيْمٍ ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ : أَنَّ جُلَيْبِيبًا كَانَ مِنَ الْأَنْصَارِ , وكان أصحابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ لِأَحَدِهِمْ أَيِّمٌ لَمْ يُزَوِّجْهَا حَتَّى يَعْلَمَ أَلِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا حَاجَةٌ أَمْ لَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ: " زَوِّجْنِي ابْنَتَكَ" , فَقَالَ: نِعِمَّ وَنُعْمَةُ عَيْنٍ , فَقَالَ لَهُ:" إِنِّي لَسْتُ لِنَفْسِي أُرِيدُهَا" قَالَ: فَلِمَنْ؟ قَالَ:" لِجُلَيْبِيبٍ" قَالَ: حَتَّى أَسْتَأْمِرَ أُمَّهَا , فَأَتَاهَا , فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ ابْنَتَكِ , قَالَتْ: نِعِمَّ وَنُعْمَةُ عَيْنٍ، زَوِّجْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ يُرِيدُهَا لِنَفْسِهِ , قَالَتْ: فَلِمَنْ؟ قَالَ: لِجُلَيْبِيبٍ , قَالَتْ: حَلْقَى، أَجُلَيْبِيبٌ ابنه مَرَّتَيْنِ , لَا لَعَمْرُ اللَّهِ، لَا أُزَوِّجُ جُلَيْبِيبًا , قَالَ: فَلَمَّا قَامَ أَبُوهَا لِيَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ الْفَتَاةُ لِأُمِّهَا مِنْ خِدْرِهَا: مَنْ خَطَبَنِي إِلَيْكُمَا؟ قَالَتْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَتَرُدُّونَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَهُ، ادْفَعُونِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَا يُضَيِّعُنِي , فَأَتَى أَبُوهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: شَأْنَكَ بِهَا , فَزَوَّجَهَا جُلَيْبِيبًا . فَبَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَغْزًى لَهُ، وَأَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟" قَالُوا: نَفْقِدُ فُلَانًا، وَنَفْقِدُ فُلَانًا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَكِنِّي أَفْقِدُ جُلَيْبِيبًا، فَانْظُرُوهُ فِي الْقَتْلَى" فَنَظَرُوهُ، فَوَجَدُوهُ إِلَى جَنْبِ سَبْعَةٍ قَدْ قَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَتَلُوهُ، قَالَ: فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " قَتَلَ سَبْعَةً، ثُمَّ قَتَلُوهُ! هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ" ثُمَّ حَمَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَاعِدَيْهِ، مَا لَهُ سَرِيرٌ غَيْرَ سَاعِدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى حُفِرَ لَهُ، ثُمَّ وَضَعَهُ فِي لَحْدِهِ , وَمَا ذَكَرَ غُسْلًا .
حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جلیبیب عورتوں کے پاس سے گذرتا اور انہیں تفریح مہیا کرتا تھا، میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ تمہارے پاس جلیبیب کو نہیں آنا چاہیے، اگر وہ آیا تو میں ایسا ایسا کردوں گا، انصار کی عادت تھی کہ وہ کسی بیوہ عورت کی شادی اس وقت تک نہیں کرتے تھے جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے مطلع نہ کردیتے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس سے کوئی ضرورت نہیں ہے، چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری آدمی سے کہا کہ اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردو، اس نے کہا زہے نصیب یارسول اللہ! بہت بہتر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنی ذات کے لئے اس کا مطالبہ نہیں کر رہا، اس نے پوچھا یارسول اللہ! پھر کس کے لئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جلیبیب کے لئے، اس نے کہا یا رسول اللہ! میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کرلوں، چناچہ وہ اس کی ماں کے پاس پہنچا اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری بیٹی کو پیغام نکاح دیتے ہیں، اس نے کہا بہت اچھا، ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، اس نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے پیغام نہیں دے رہے بلکہ جلیبیب کے لئے پیغام دے رہے ہیں، اس نے فوراً انکار کرتے ہوئے کہہ دیا بخدا! کسی صورت میں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جلیبیب کے علاوہ اور کوئی نہیں ملا، ہم نے تو فلاں فلاں رشتے سے انکار کردیا تھا، ادھر وہ لڑکی اپنے پردے میں سے سن رہی تھی۔ باہم صلاح مشورے کے بعد جب وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے مطلع کرنے کے لئے روانہ ہونے لگا تو وہ لڑکی کہنے لگی کہ کیا آپ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کریں گے، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی اس میں شامل ہے تو آپ نکاح کردیں، یہ کہہ کر اس نے اپنے والدین کی آنکھیں کھول دیں اور وہ کہنے لگے کہ تم سچ کہہ رہی ہو، چناچہ اس کا باپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر آپ اس رشتے سے راضی ہیں تو ہم بھی راضی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں راضی ہوں، چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جلیبیب سے اس لڑکی کا نکاح کردیا، کچھ ہی عرصے بعد اہل مدینہ پر حملہ ہوا، جلیبیب بھی سوار ہو کر نکلے۔ جب جنگ سے فراغت ہوئی تو لوگوں سے پوچھا کہ تم کسی کو غائب پا رہے ہو، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! فلاں فلاں لوگ ہمیں نہیں مل رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن مجھے جلیبیب غائب نظر آ رہا ہے، اسے تلاش کرو، لوگوں نے انہیں تلاش کیا تو وہ سات آدمیوں کے پاس مل گئے، حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ نے ان ساتوں کو قتل کیا تھا بعد میں خود بھی شہید ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا اس نے سات آدمیوں کو قتل کیا ہے، بعد میں مشرکین نے اسے شہید کردیا، یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، یہ جملے دو مرتبہ دہرائے، پھر جب اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اٹھایا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے بازوؤں پر اٹھا لیا اور تدفین تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں بازو ہی تھے جو ان کے لئے جنازے کی چارپائی تھی، راوی نے غسل کا ذکر نہیں کیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 19811
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حجاج ، حدثنا شعبة ، عن سيار بن سلامة ، قال: دخلت انا وابي على ابي برزة فسالناه عن وقت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" كان يصلي الظهر حين تزول الشمس، والعصر يرجع الرجل إلى اقصى المدينة والشمس حية , والمغرب , قال سيار: نسيتها , والعشاء لا يبالي بعد تاخيرها إلى ثلث الليل، وكان لا يحب النوم قبلها والحديث بعدها، وكان يصلي الصبح فينصرف الرجل فيعرف وجه جليسه، وكان يقرا فيهما ما بين الستين إلى المائة , قال سيار: لا ادري في إحدى الركعتين او في كلتيهما" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ فَسَأَلْنَاهُ عَنْ وَقْتِ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَالْعَصْرَ يَرْجِعُ الرَّجُلُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ , وَالْمَغْرِبَ , قَالَ سَيَّارٌ: نَسِيتُهَا , وَالْعِشَاءَ لَا يُبَالِي بَعْدَ تَأْخِيرِهَا إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، وَكَانَ لَا يُحِبُّ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يُصَلِّي الصُّبْحَ فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ فَيَعْرِفُ وَجْهَ جَلِيسِهِ، وَكَانَ يَقْرَأُ فِيهمَا مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى المِائةِ , قَالَ سَيَّارٌ: لَا أَدْرِي فِي إِحْدَى الرَّكْعَتَيْنِ أَوْ فِي كِلْتَيْهِمَا" .
سیار ابومنہال کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے والد نے ان سے عرض کیا کہ یہ بتائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کس طرح پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ نماز ظہر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا، عصر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے کہ جب ہم میں سے کوئی شخص مدینہ میں اپنے گھر واپس پہنچتا تو سورج نظر آ رہا ہوتا تھا، مغرب کے متعلق انہوں نے جو فرمایا وہ میں بھول گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کو مؤخر کرنے کو پسند فرماتے تھے، نیز اس سے پہلے سونا اور اس کے بعد باتیں کرنا پسند نہیں فرماتے تھے اور فجر کی نماز پڑھ کر اس وقت فارغ ہوتے جب ہم اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کو پہچان سکتے تھے اور اس میں ساٹھ سے لے کر سو آیات تک تلاوت فرماتے تھے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 541، م: 647
حدیث نمبر: 19812
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يعلى ، حدثنا الحجاج بن دينار ، عن ابي هاشم ، عن رفيع ابي العالية ، عن ابي برزة الاسلمي ، قال: لما كان بآخرة كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس في المجلس، فاراد ان يقوم، قال: " سبحانك اللهم وبحمدك، اشهد ان لا إله إلا انت، استغفرك واتوب إليك" , فقالوا: يا رسول الله، إنك تقول الآن كلاما ما كنت تقوله فيما خلا، قال:" هذا كفارة ما يكون في المجلس" .حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ ، عَنْ رُفَيْعٍ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ بِآخِرَةٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ فِي الْمَجْلِسِ، فَأَرَادَ أَنْ يَقُومَ، قَالَ: " سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ" , فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تَقُولُ الْآنَ كَلَامًا مَا كُنْتَ تَقُولُهُ فِيمَا خَلَا، قَالَ:" هَذَا كَفَّارَةُ مَا يَكُونُ فِي الْمَجْلِسِ" .
حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زندگی کے آخری ایام میں جب کوئی مجلس طویل ہوجاتی تو آخر میں اٹھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہتے سبحانک اللھم وبحمدک اشہد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک ایک مرتبہ ہم میں سے کسی نے عرض کیا کہ یہ جملہ ہم نے آپ سے پہلے کبھی نہیں سنا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مجلس میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.