سنن ابي داود
ثابت بن أسلم البناني (حدثنا / عن) أنس بن مالك الأنصاري
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
258
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،" أَنَّ الْيَهُودَ كَانَتْ إِذَا حَاضَتْ مِنْهُمُ امْرَأَةٌ، أَخْرَجُوهَا مِنَ الْبَيْتِ وَلَمْ يُؤَاكِلُوهَا وَلَمْ يُشَارِبُوهَا وَلَمْ يُجَامِعُوهَا فِي الْبَيْتِ، فَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ سورة البقرة آية 222 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: جَامِعُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ وَاصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ غَيْرَ النِّكَاحِ، فَقَالَتْ الْيَهُودُ: مَا يُرِيدُ هَذَا الرَّجُلُ أَنْ يَدَعَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِنَا إِلَّا خَالَفَنَا فِيهِ، فَجَاءَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ، وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْيَهُودَ تَقُولُ كَذَا وَكَذَا، أَفَلَا نَنْكِحُهُنَّ فِي الْمَحِيضِ؟ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ قَدْ وَجَدَ عَلَيْهِمَا. فَخَرَجَا، هَدِيَّةٌ مِنْ لَبَنٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمَا فَسَقَاهُمَا، فَظَنَنَّا أَنَّهُ لَمْ يَجِدْ عَلَيْهِمَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہود کی عورتوں میں جب کسی کو حیض آتا تو وہ اسے گھر سے نکال دیتے تھے، نہ اس کو ساتھ کھلاتے پلاتے، نہ اس کے ساتھ ایک گھر میں رہتے تھے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض» لوگ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو کہہ دیجئیے کہ وہ گندگی ہے، لہٰذا حالت حیض میں تم عورتوں سے الگ رہو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے ساتھ گھروں میں رہو اور سارے کام کرو سوائے جماع کے، یہ سن کر یہودیوں نے کہا: یہ شخص کوئی بھی ایسی چیز نہیں چھوڑنا چاہتا ہے جس میں وہ ہماری مخالفت نہ کرے، چنانچہ اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہود ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں، پھر ہم کیوں نہ ان سے حالت حیض میں جماع کریں؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں پر خفا ہو گئے ہیں، وہ دونوں ابھی نکلے ہی تھے کہ اتنے میں آپ کے پاس دودھ کا ہدیہ آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلا بھیجا اور (جب وہ آئے تو) انہیں دودھ پلایا، تب جا کر ہم کو یہ پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے ناراض نہیں ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
416
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي الْمَغْرِبَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَرْمِي، فَيَرَى أَحَدُنَا مَوْضِعَ نَبْلِهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب پڑھتے تھے، پھر تیر مارتے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
542
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ عَنِ الرَّجُلِ يَتَكَلَّمُ بَعْدَ مَا تُقَامُ الصَّلَاةُ، فَحَدَّثَنِي، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَعَرَضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَحَبَسَهُ بَعْدَ مَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ".
حمید کہتے ہیں میں نے ثابت بنانی سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو نماز کی تکبیر ہو جانے کے بعد بات کرتا ہو، تو انہوں نے مجھ سے انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حدیث بیان کی کہ نماز کی تکبیر کہہ دی گئی تھی کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور اس نے آپ کو تکبیر ہو جانے کے بعد (باتوں کے ذریعے) روکے رکھا۔
صحيح
سنن ابي داود
608
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ فَأَتَوْهُ بِسَمْنٍ وَتَمْرٍ، فَقَالَ: رُدُّوا هَذَا فِي وِعَائِهِ وَهَذَا فِي سِقَائِهِ فَإِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ تَطَوُّعًا، فَقَامَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ، وَأُمُّ حَرَامٍ خَلْفَنَا، قَالَ ثَابِتٌ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ: أَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ عَلَى بِسَاطٍ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو ان کے گھر والوں نے گھی اور کھجور پیش کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے (کھجور کو) اس کی تھیلی میں اور اسے (گھی کو) اس کے برتن میں لوٹا دو کیونکہ میں روزے سے ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں دو رکعت نفل نماز پڑھائی تو ام سلیم (انس رضی اللہ عنہ کی والدہ) اور ام حرام رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ ثابت کہتے ہیں: میں تو یہی جانتا ہوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی داہنی طرف چٹائی پر کھڑا کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
1120
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ جَرِيرٍ هُوَ ابْنُ حَازِمٍ، لَا أَدْرِي كَيْفَ قَالَهُ مُسْلِمٌ أَوْ لَا، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَنْزِلُ مِنْ الْمِنْبَرِ فَيَعْرِضُ لَهُ الرَّجُلُ فِي الْحَاجَةِ، فَيَقُومُ مَعَهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي". قَالَ أَبُو دَاوُد: الْحَدِيثُ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ عَنْ ثَابِتٍ هُوَ مِمَّا تَفَرَّدَ بِهِ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ (خطبہ دے کر) منبر سے اترتے تو آدمی کوئی ضرورت آپ کے سامنے رکھتا تو آپ اس کے ساتھ کھڑے باتیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت پوری کر لیتا، یعنی اپنی گفتگو مکمل کر لیتا، پھر آپ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھاتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ثابت سے معروف نہیں ہے، یہ جریر بن حازم کے تفردات میں سے ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
1171
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَسْتَسْقِي هَكَذَا، يَعْنِي، وَمَدَّ يَدَيْهِ وَجَعَلَ بُطُونَهُمَا مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبِطَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا میں اس طرح دعا کرتے تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتے اور ان کی پشت اوپر رکھتے اور ہتھیلی زمین کی طرف یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی۔
صحيح
سنن ابي داود
1689
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَى رَبَّنَا يَسْأَلُنَا مِنْ أَمْوَالِنَا فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ أَرْضِي بِأَرِيحَاءَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْعَلْهَا فِي قَرَابَتِكَ"، فَقَسَمَهَا بَيْنَ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ وَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: بَلَغَنِي عَنِ الْأَنْصَارِيِّ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ زَيْدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ حَرَامِ بْنِ عَمْرِو بْنِ زَيْدِ مَنَاةَ بْنِ عَدِيِّ بْنِ عَمْرِو بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ وَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ الْمُنْذِرِ بْنِ حَرَامٍ، يَجْتَمِعَانِ إِلَى حَرَامٍ وَهُوَ الْأَبُ الثَّالِثُ، وَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبِ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَتِيكِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ، فَعَمْرٌو يَجْمَعُ حَسَّانَ وَ أَبَا طَلْحَةَ وَ أُبَيًّا: قَالَ الْأَنْصَارِيُّ: بَيْنَ أُبَيٍّ وَ أَبِي طَلْحَةَ سِتَّةُ آبَاءٍ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» کی آیت نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا خیال ہے کہ ہمارا رب ہم سے ہمارے مال مانگ رہا ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اریحاء نامی اپنی زمین اسے دے دی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو، تو انہوں نے اسے حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کے درمیان تقسیم کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے محمد بن عبداللہ انصاری سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابوطلحہ کا نام: زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو ابن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار ہے، اور حسان: ثابت بن منذر بن حرام کے بیٹے ہیں، اس طرح ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور حسان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب حرام پر مل جاتا ہے وہی دونوں کے تیسرے باپ (پردادا) ہیں، اور ابی رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: ابی بن کعب بن قیس بن عتیک بن زید بن معاویہ بن عمرو بن مالک بن نجار، اس طرح عمرو: حسان، ابوطلحہ اور ابی تینوں کو سمیٹ لیتے ہیں یعنی تینوں کے جد اعلیٰ ہیں، انصاری (محمد بن عبداللہ) کہتے ہیں: ابی رضی اللہ عنہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے نسب میں چھ آباء کا فاصلہ ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2165
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ الْيَهُودَ كَانَتْ إِذَا حَاضَتْ مِنْهُمُ امْرَأَةٌ أَخْرَجُوهَا مِنَ الْبَيْتِ وَلَمْ يُؤَاكِلُوهَا وَلَمْ يُشَارِبُوهَا وَلَمْ يُجَامِعُوهَا فِي الْبَيْتِ، فَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ سورة البقرة آية 222 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" جَامِعُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ وَاصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ غَيْرَ النِّكَاحِ"، فَقَالَتْ الْيَهُودُ: مَا يُرِيدُ هَذَا الرَّجُلُ أَنْ يَدَعَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِنَا إِلَّا خَالَفَنَا فِيهِ، فَجَاءَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَ عَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْيَهُودَ تَقُولُ كَذَا وَكَذَا، أَفَلَا نَنْكِحُهُنَّ فِي الْمَحِيضِ؟ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ قَدْ وَجَدَ عَلَيْهِمَا، فَخَرَجَا هَدِيَّةٌ مِنْ لَبَنٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمَا، فَظَنَنَّا أَنَّهُ لَمْ يَجِدْ عَلَيْهِمَا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودیوں میں جب کوئی عورت حائضہ ہو جاتی تو اسے گھر سے نکال دیتے نہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ ہی اسے گھر میں رکھتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں دریافت کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «يسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض» لوگ آپ سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجئیے کہ وہ گندگی ہے لہٰذا تم حیض کی حالت میں عورتوں سے علیحدہ رہو (سورۃ البقرہ: ۲۲۲)، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: انہیں گھروں میں رکھو اور جماع کے علاوہ ہر کام کرو، اس پر یہودیوں نے کہا کہ: یہ شخص تو ہمارے ہر کام کی مخالفت کرتا ہے، چنانچہ اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! یہودی ایسا ایسا کہہ رہے ہیں، تو کیا ہم (ان کی مخالفت میں) عورتوں سے حالت حیض میں جماع نہ کرنے لگیں؟ یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا، یہاں تک کہ ہمیں اپنے اوپر آپ کی ناراضگی کا گمان ہونے لگا چنانچہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکل آئے، اسی اثناء میں آپ کے پاس دودھ کا ہدیہ آ گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلوا بھیجا جس سے ہمیں لگا کہ آپ ان سے ناراض نہیں ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
2356
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ عَلَى رُطَبَاتٍ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَعَلَى تَمَرَاتٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز (مغرب) پڑھنے سے پہلے چند تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے تھے، اگر تازہ کھجوریں نہ ملتیں تو خشک کھجوروں سے افطار کر لیتے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ مل پاتیں تو چند گھونٹ پانی نوش فرما لیتے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2375
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ:" مَا كُنَّا نَدَعُ الْحِجَامَةَ لِلصَّائِمِ إِلَّا كَرَاهِيَةَ الْجَهْدِ".
ثابت کہتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم روزے دار کو صرف مشقت کے پیش نظر سینگی (پچھنا) نہیں لگانے دیتے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
2531
حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ مُطَهِّرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ لِيَسْقِينَ الْمَاءَ وَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کو اور انصار کی کچھ عورتوں کو جہاد میں لے جاتے تھے تاکہ وہ مجاہدین کو پانی پلائیں اور زخمیوں کا علاج کریں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2618
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: بَعَثَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُسْبَسَةَ عَيْنًا يَنْظُرُ مَا صَنَعَتْ عِيرُ أَبِي سُفْيَانَ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسیسہ کو جاسوس بنا کر بھیجا تاکہ وہ دیکھیں کہ ابوسفیان کا قافلہ کیا کر رہا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2634
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يُغِيرُ عِنْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ، وَكَانَ يَتَسَمَّعُ فَإِذَا سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ وَإِلَّا أَغَارَ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور غور سے (اذان) سننے کی کوشش کرتے تھے جب اذان سن لیتے تو رک جاتے، ورنہ حملہ کر دیتے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2681
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَدَبَ أَصْحَابَهُ فَانْطَلَقُوا إِلَى بَدْرٍ فَإِذَا هُمْ بِرَوَايَا قُرَيْشٍ فِيهَا عَبْدٌ أَسْوَدُ لِبَنِي الْحَجَّاجِ، فَأَخَذَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلُوا يَسْأَلُونَهُ أَيْنَ أَبُو سُفْيَانَ؟ فَيَقُولُ: وَاللَّهِ مَالِي بِشَيْءٍ مِنْ أَمْرِهِ عِلْمٌ وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ جَاءَتْ فِيهِمْ أَبُو جَهْلٍ، وَعُتْبَةُ، وَشَيْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ فَإِذَا قَالَ لَهُمْ ذَلِكَ ضَرَبُوهُ فَيَقُولُ: دَعُونِي، دَعُونِي أُخْبِرْكُمْ فَإِذَا تَرَكُوهُ قَالَ: وَاللَّهِ مَالِي بِأَبِي سُفْيَانَ مِنْ عِلْمٍ، وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ فِيهِمْ أَبُو جَهْلٍ، وَعُتْبَةُ، وَشَيْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ،وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ، قَدْ أَقْبَلُوا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَهُوَ يَسْمَعُ ذَلِكَ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَتَضْرِبُونَهُ إِذَا صَدَقَكُمْ وَتَدَعُونَهُ إِذَا كَذَبَكُمْ، هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ لِتَمْنَعَ أَبَا سُفْيَانَ قَالَ أَنَسٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ وَهَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ وَهَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا جَاوَزَ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَأَمَرَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخِذَ بِأَرْجُلِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بلایا، وہ سب بدر کی طرف چلے، اچانک قریش کے پانی والے اونٹ ملے ان میں بنی حجاج کا ایک کالا کلوٹا غلام تھا، صحابہ کرام نے اسے پکڑ لیا اور اس سے پوچھنے لگے کہ بتاؤ ابوسفیان کہاں ہے؟ وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم! مجھے ابوسفیان کے سلسلہ میں کوئی علم نہیں، البتہ قریش کے لوگ آئے ہیں ان میں ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف بھی آئے ہوئے ہیں، جب اس نے یہ کہا تو صحابہ کرام اسے مارنے لگے، وہ بولا: مجھے چھوڑ دو، مجھے چھوڑ دو، میں تمہیں بتاتا ہوں، جب اس کو چھوڑا تو پھر وہ یہی بات کہنے لگا: اللہ کی قسم مجھے ابوسفیان کے سلسلہ میں کوئی علم نہیں البتہ قریش آئے ہیں ان میں ابوجہل، ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ و شیبہ اور امیہ بن خلف بھی آئے ہوئے ہیں، (اس وقت) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور اسے سن رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب وہ تم سے سچ کہتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب جھوٹ بولتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو، (ابوسفیان تو شام کے قافلہ کے ساتھ مال لیے ہوئے آ رہا ہے) اور یہ قریش کے لوگ ہیں اس کو بچانے کے لیے آئے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل یہاں فلاں کی لاش گرے گی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا، کل یہ فلاں کا مقتل ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا، اور کل یہ فلاں کا مقتل ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا ۱؎۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی جگہ سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھ سکا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سلسلہ میں حکم دیا تو ان کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے انہیں بدر کے کنوئیں میں ڈال دیا گیا۔
صحيح
سنن ابي داود
2688
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ ثَمَانِينَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ هَبَطُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ مِنْ جِبَالِ التَّنْعِيمِ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ لِيَقْتُلُوهُمْ فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِلْمًا فَأَعْتَقَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ سورة الفتح آية 24 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں میں سے اسی آدمی جبل تنعیم سے نماز فجر کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے لیے اترے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی مزاحمت کے بغیر گرفتار کر لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم ببطن مكة» إلى آخر الآية (سورۃ الفتح: ۲۴) اللہ ہی نے ان کا ہاتھ تم سے اور تمہارا ہاتھ ان سے وادی مکہ میں روک دیا۔
صحيح
سنن ابي داود
2780
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ فَتًى مِنْ أَسْلَمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ الْجِهَادَ وَلَيْسَ لِي مَالٌ أَتَجَهَّزُ بِهِ قَالَ: اذْهَبْ إِلَى فُلَانٍ الْأَنْصَارِيِّ فَإِنَّهُ كَانَ قَدْ تَجَهَّزَ فَمَرِضَ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: ادْفَعْ إِلَيَّ مَا تَجَهَّزْتَ بِهِ فَأَتَاهُ، فَقَالَ لَهُ: ذَلِكَ فَقَالَ: لِامْرَأَتِهِ يَا فُلَانَةُ ادْفَعِي لَهُ مَا جَهَّزْتِنِي بِهِ، وَلَا تَحْبِسِي مِنْهُ شَيْئًا، فَوَاللَّهِ لَا تَحْبِسِينَ مِنْهُ شَيْئًا فَيُبَارِكَ اللَّهُ فِيهِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک جوان نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن میرے پاس مال نہیں ہے جس سے میں اس کی تیاری کر سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلاں انصاری کے پاس جاؤ اس نے جہاد کا سامان تیار کیا تھا لیکن بیمار ہو گیا، اس سے جا کر کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں سلام کہا ہے، اور یہ کہو کہ جو اسباب تم نے جہاد کے لیے تیار کیا تھا وہ مجھے دے دو، وہ شخص اس انصاری کے پاس آیا اور آ کر اس نے یہی بات کہی، انصاری نے اپنی بیوی سے کہا: جتنا سامان تو نے میرے لیے جمع کیا تھا وہ سب اسے دیدے، اس میں سے کچھ مت رکھنا، اللہ کی قسم اس میں سے کچھ نہیں رکھے گی تو اللہ اس میں برکت دے گا ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2997
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: وَقَعَ فِي سَهْمِ دِحْيَةَ جَارِيَةٌ جَمِيلَةٌ،فَاشْتَرَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعَةِ أَرْؤُسٍ ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّ سُلَيْمٍ تَصْنَعُهَا وَتُهَيِّئُهَا، قَالَ حَمَّادٌ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: وَتَعْتَدُّ فِي بَيْتِهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں ایک خوبصورت لونڈی آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سات غلام دے کر خرید لیا اور انہیں ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا کہ انہیں بنا سنوار دیں۔ حماد کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا کہ وہ وہاں عدت گزار کر پاک و صاف ہو لیں۔
صحيح م لكن قوله وأحسبه فيه نظر لأنه بنى بها في سد الصهباء
سنن ابي داود
3095
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ غُلَامًا مِنَ الْيَهُودِ كَانَ مَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ لَهُ:" أَسْلِمْ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ لَهُ أَبُوهُ: أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ، فَأَسْلَمَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ بِي مِنَ النَّارِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا بیمار پڑا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس عیادت کے لیے آئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا: تم مسلمان ہو جاؤ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے سرہانے تھا تو اس سے اس کے باپ نے کہا: ابوالقاسم ۱؎ کی اطاعت کرو، تو وہ مسلمان ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے: تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اس کو میری وجہ سے آگ سے نجات دی ۲؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3097
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ رَوْحِ بْنِ خُلَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دَلْهَمٍ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، وَعَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ مُحْتَسِبًا، بُوعِدَ مِنْ جَهَنَّمَ مَسِيرَةَ سَبْعِينَ خَرِيفًا". قُلْتُ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، وَمَا الْخَرِيفُ؟ قَالَ: الْعَامُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَالَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ الْبَصْرِيُّونَ مِنْهُ الْعِيَادَةُ، وَهُوَ مُتَوَضِّئٌ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اچھی طرح سے وضو کرے اور ثواب کی نیت سے اپنے مسلم بھائی کی عیادت کرے تو وہ دوزخ سے ستر «خریف» کی مسافت کی مقدار دور کر دیا جاتا ہے، میں نے کہا! اے ابوحمزہ! «خریف» کیا ہے؟ انہوں نے کہا: سال۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اہل بصرہ جن چیزوں میں منفرد ہیں ان میں بحالت وضو عیادت کا مسئلہ بھی ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
3124
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَتَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ تَبْكِي عَلَى صَبِيٍّ لَهَا، فَقَالَ لَهَا" اتَّقِي اللَّهَ، وَاصْبِرِي، فَقَالَتْ: وَمَا تُبَالِي أَنْتَ بِمُصِيبَتِي؟ فَقِيلَ لَهَا: هَذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَتْهُ، فَلَمْ تَجِدْ عَلَى بَابِهِ بَوَّابِينَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَعْرِفْكَ. فَقَالَ: إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى، أَوْ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بچے کی موت کے غم میں (بآواز) رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور صبر کرو ۱؎، اس عورت نے کہا: آپ کو میری مصیبت کا کیا پتا ۲؎؟، تو اس سے کہا گیا: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں (جب اس کو اس بات کی خبر ہوئی) تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ کے دروازے پہ اسے کوئی دربان نہیں ملا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو یا فرمایا: صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو۔
صحيح
سنن ابي داود
3126
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ أَنَسٌ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَكِيدُ بِنَفْسِهِ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَمَعَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَدْمَعُ الْعَيْنُ، وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا، إِنَّا بِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات میرے یہاں بچہ پیدا ہوا، میں نے اس کا نام اپنے والد ابراہیم کے نام پر رکھا، اس کے بعد راوی نے پوری حدیث بیان کی، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے، آپ نے فرمایا: آنکھ آنسو بہا رہی ہے، دل غمگین ہے ۱؎، اور ہم وہی کہہ رہے ہیں جو ہمارے رب کو پسند آئے، اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں ۲؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3222
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَقْرَ فِي الْإِسْلَامِ"، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: كَانُوا يَعْقِرُونَ عِنْدَ الْقَبْرِ بَقَرَةً أَوْ شَاةً.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں «عقر» نہیں ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: لوگ زمانہ جاہلیت میں قبر کے پاس جا کر گائے بکری وغیرہ ذبح کیا کرتے تھے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3301
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" رَأَى رَجُلًا يُهَادَى بَيْنَ ابْنَيْهِ، فَسَأَلَ عَنْهُ: فَقَالُوا: نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ، وَأَمَرَهُ أَنْ يَرْكَبَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ عَمْرُو بْنُ أَبِي عَمْرٍو، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنے دونوں بیٹوں کے درمیان (سہارا لے کر) چلتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس کے متعلق پوچھا، لوگوں نے بتایا: اس نے (خانہ کعبہ) پیدل جانے کی نذر مانی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے کہ یہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالے آپ نے حکم دیا کہ وہ سوار ہو کر جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمرو بن ابی عمرو نے اعرج سے، اعرج نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3673
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" كُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ حَيْثُ حُرِّمَتِ الْخَمْرُ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ، وَمَا شَرَابُنَا يَوْمَئِذٍ إِلَّا الْفَضِيخُ، فَدَخَلَ عَلَيْنَا رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ، وَنَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: هَذَا مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ شراب کی حرمت کے وقت میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر لوگوں کو شراب پلا رہا تھا، ہماری شراب اس روز کھجور ہی سے تیار کی گئی تھی، اتنے میں ایک شخص ہمارے پاس آیا اور اس نے کہا کہ شراب حرام کر دی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے بھی آواز لگائی تو ہم نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3743
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ:" ذُكِرَ تَزْوِيجُ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْلَمَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَائِهِ مَا أَوْلَمَ عَلَيْهَا أَوْلَمَ بِشَاةٍ".
ثابت کہتے ہیں`: انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے نکاح کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں میں سے کسی کے نکاح میں زینب کے نکاح کی طرح ولیمہ کرتے نہیں دیکھا، آپ نے ان کے نکاح میں ایک بکری کا ولیمہ کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
3845
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا أَكَلَ طَعَامًا لَعِقَ أَصَابِعَهُ الثَّلَاثَ، وَقَالَ: إِذَا سَقَطَتْ لُقْمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيُمِطْ عَنْهَا الْأَذَى وَلْيَأْكُلْهَا وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ، وَأَمَرَنَا أَنْ نَسْلُتَ الصَّحْفَةَ، وَقَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي فِي أَيِّ طَعَامِهِ يُبَارَكُ لَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیاں چاٹتے اور فرماتے: جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے چاہیئے کہ لقمہ صاف کر کے کھا لے اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پلیٹ صاف کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس کے کھانے کے کس حصہ میں اس کے لیے برکت ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3854
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" جَاءَ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَجَاءَ بِخُبْزٍ وَزَيْتٍ فَأَكَلَ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ آپ کی خدمت میں روٹی اور تیل لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا پھر آپ نے یہ دعا پڑھی: «أفطر عندكم الصائمون وأكل طعامكم الأبرار وصلت عليكم الملائكة» تمہارے پاس روزے دار افطار کیا کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں، اور فرشتے تمہارے لیے دعائیں کریں۔‏‏‏‏
صحيح
سنن ابي داود
4034
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ" أَنَّ مَلِكَ ذِي يَزَنَ أَهْدَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةً أَخَذَهَا بِثَلَاثَةٍ وَثَلَاثِينَ بَعِيرًا أَوْ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ نَاقَةً، فَقَبِلَهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ شاہ ذی یزن ۱؎ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جوڑا ہدیہ میں بھیجا جسے اس نے (۳۳) اونٹ یا اونٹنیاں دے کر لیا تھا تو آپ نے اسے قبول فرمایا۔
ضعيف
سنن ابي داود
4106
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَبُو جُمَيْعٍ سَالِمُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ:" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى فَاطِمَةَ بِعَبْدٍ كَانَ قَدْ وَهَبَهُ لَهَا، قَالَ: وَعَلَى فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ثَوْبٌ إِذَا قَنَّعَتْ بِهِ رَأْسَهَا لَمْ يَبْلُغْ رِجْلَيْهَا، وَإِذَا غَطَّتْ بِهِ رِجْلَيْهَا لَمْ يَبْلُغْ رَأْسَهَا، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَلْقَى قَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكِ بَأْسٌ إِنَّمَا هُوَ أَبُوكِ وَغُلَامُكِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک غلام لے کر آئے جس کو آپ نے انہیں ہبہ کیا تھا، اس وقت فاطمہ رضی اللہ عنہا ایک ایسا کپڑا پہنے تھیں کہ جب اس سے سر ڈھانکتیں تو پاؤں کھل جاتا اور جب پاؤں ڈھانکتیں تو سر کھل جاتا، فاطمہ رضی اللہ عنہا جن صورت حال سے دو چار تھیں اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: تم پر کوئی مضائقہ نہیں، یہاں صرف تمہارے والد ہیں یا تمہارا غلام ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
4185
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" كَانَ شَعْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپ کے دونوں کانوں کی لو تک رہتے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
4196
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كَانَتْ لِي ذُؤَابَةٌ، فَقَالَتْ لِي أُمِّي: لَا أَجُزُّهَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمُدُّهَا وَيَأْخُذُ بِهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ایک چوٹی تھی، میری ماں نے مجھ سے کہا: میں اس کو نہیں کاٹوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ازراہ شفقت) اسے پکڑ کر کھینچتے تھے۔
ضعيف الإسناد
سنن ابي داود
4209
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ خِضَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَنَّهُ لَمْ يَخْضِبْ وَلَكِنْ قَدْ خَضَبَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خضاب کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خضاب لگایا ہی نہیں، ہاں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے لگایا ہے۔
صحيح ق دون ذكر العمرين لكن م ذكر أبا بكر
سنن ابي داود
4718
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ فِي النَّارِ فَلَمَّا قَفَّى، قَالَ: إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد کہاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے والد جہنم میں ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے والد اور تیرے والد دونوں جہنم میں ہیں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
4719
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ:" إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان ابن آدم (انسان) کے بدن میں اسی طرح دوڑتا ہے جس طرح خون رگوں میں گردش کرتا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
4774
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ بِالْمَدِينَةِ، وَأَنَا غُلَامٌ لَيْسَ كُلُّ أَمْرِي كَمَا يَشْتَهِي صَاحِبِي أَنْ أَكُونَ عَلَيْهِ، مَا قَالَ لِي فِيهَا: أُفٍّ قَطُّ، وَمَا قَالَ لِي: لِمَ فَعَلْتَ هَذَا، أَوْ: أَلَّا فَعَلْتَ هَذَا".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس سال مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، میں ایک کمسن بچہ تھا، میرا ہر کام اس طرح نہ ہوتا تھا جیسے میرے آقا کی مرضی ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی مجھ سے اف تک نہیں کہا اور نہ مجھ سے یہ کہا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ یا تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟۔
صحيح
سنن ابي داود
4794
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ، أَخْبَرَنَا مُبَارَكٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ رَجُلًا الْتَقَمَ أُذُنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُنَحِّي رَأْسَهُ، حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ هُوَ الَّذِي يُنَحِّي رَأَسَهُ، وَمَا رَأَيْتُ رَجُلًا أَخَذَ بِيَدِهِ فَتَرَكَ يَدَهُ حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ هُوَ الَّذِي يَدَعُ يَدَهُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کان پر منہ رکھا ہو (کچھ کہنے کے لیے) تو آپ نے اپنا سر ہٹا لیا ہو یہاں تک کہ خود وہی شخص نہ ہٹا لے، اور میں نے ایسا بھی کوئی شخص نہیں دیکھا، جس نے آپ کا ہاتھ پکڑا ہو، تو آپ نے اس سے ہاتھ چھڑا لیا ہو، یہاں تک کہ خود اس شخص نے آپ کا ہاتھ نہ چھوڑ دیا ہو۔
حسن
سنن ابي داود
4802
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" كَانَتِ الْعَضْبَاءُ لَا تُسْبَقُ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ لَهُ، فَسَابَقَهَا فَسَبَقَهَا الْأَعْرَابِيُّ، فَكَأَنَّ ذَلِكَ شَقَّ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يَرْفَعَ شَيْئًا مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا وَضَعَهُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی) عضباء مقابلے میں کبھی پیچھے نہیں رہی تھی (ایک بار) ایک اعرابی اپنے ایک نوعمر اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اور اس نے اس سے مقابلہ کیا تو اعرابی اس سے آگے نکل گیا تو ایسا لگا کہ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر گراں گزری ہے تو آپ نے فرمایا: اللہ کا یہ دستور ہے کہ جو چیز بھی اوپر اٹھے اسے نیچا کر دے۔
صحيح
سنن ابي داود
4812
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنَّ الْمُهَاجِرِينَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَتْ الْأَنْصَارُ بِالْأَجْرِ كُلِّهِ، قَالَ: لَا، مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مہاجرین نے کہا: اللہ کے رسول! سارا اجر تو انصار لے گئے، آپ نے فرمایا: نہیں (ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم اجر سے محروم رہو) جب تک تم اللہ سے ان کے لیے دعا کرتے رہو گے اور ان کی تعریف کرتے رہو گے۔
صحيح
سنن ابي داود
4819
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ امْرَأَةً كَانَ فِي عَقْلِهَا شَيْءٌ، بِمَعْنَاهُ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت تھی جس کی عقل میں کچھ فتور تھا پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔
صحيح
سنن ابي داود
4923
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ لَعِبَتْ الْحَبَشَةُ لَقُدُومِهِ فَرَحًا بِذَلِكَ لَعِبُوا بِحِرَابِهِمْ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے آئے تو حبشی آپ کی آمد پر خوش ہو کر خوب کھیلے اور اپنی برچھیاں لے کر کھیلے۔
صحيح الإسناد
سنن ابي داود
4951
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" ذَهَبْتُ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وُلِدَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَبَاءَةٍ يَهْنَأُ بَعِيرًا لَهُ، قَالَ: هَلْ مَعَكَ تَمْرٌ , قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: فَنَاوَلْتُهُ تَمَرَاتٍ، فَأَلْقَاهُنَّ فِي فِيهِ فَلَاكَهُنَّ، ثُمَّ فَغَرَ فَاهُ فَأَوْجَرَهُنَّ إِيَّاهُ، فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حُبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ، وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی طلحہ کی پیدائش پر میں ان کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ اس وقت عبا پہنے ہوئے تھے، اور اپنے ایک اونٹ کو دوا لگا رہے تھے، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کھجور ہے؟ میں نے کہا: ہاں، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی کھجوریں پکڑائیں، آپ نے ان کو اپنے منہ میں ڈالا اور چبا کر بچے کا منہ کھولا اور اس کے منہ میں ڈال دیا تو بچہ منہ چلا کر چوسنے لگا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار کی پسندیدہ چیز کھجور ہے اور آپ نے اس لڑکے کا نام عبداللہ رکھا۔
صحيح
سنن ابي داود
4969
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَيْنَا، وَلِي أَخٌ صَغِيرٌ يُكْنَى: أَبَا عُمَيْرٍ، وَكَانَ لَهُ نُغَرٌ يَلْعَبُ بِهِ فَمَاتَ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَرَآهُ حَزِينًا , فَقَالَ: مَا شَأْنُهُ؟ قَالُوا: مَاتَ نُغَرُهُ , فَقَالَ: يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں آتے تھے، اور میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کی کنیت ابوعمیر تھی، اس کے پاس ایک چڑیا تھی، وہ اس سے کھیلتا تھا، وہ مر گئی، پھر ایک دن اچانک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے تو اسے رنجیدہ و غمگین دیکھ کر فرمایا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اس کی چڑیا مر گئی، تو آپ نے فرمایا: اے ابوعمیر! کیا ہوا نغیر (چڑیا) کو؟۔
صحيح
سنن ابي داود
5025
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ كَأَنَّا فِي دَارِ عُقْبَةَ بْنِ رَافِعٍ، وَأُتِينَا بِرُطَبٍ مِنْ رُطَبِ ابْنِ طَابٍ، فَأَوَّلْتُ أَنَّ الرِّفْعَةَ لَنَا فِي الدُّنْيَا وَالْعَاقِبَةَ فِي الْآخِرَةِ، وَأَنَّ دِينَنَا قَدْ طَابَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے آج رات دیکھا جیسے ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہوں، اور ہمارے پاس ابن طاب ۱؎ کی رطب تازہ (کھجوریں) لائی گئیں، تو میں نے یہ تعبیر کی کہ دنیا میں بلندی ہمارے واسطے ہے اور آخرت کی عاقبت ۲؎ بھی اور ہمارا دین سب سے عمدہ اور اچھا ہو گیا۔
صحيح
سنن ابي داود
5053
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَكَفَانَا وَآوَانَا، فَكَمْ مِمَّنْ لَا كَافِيَ لَهُ وَلَا مُؤْوِيَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر آتے تو یہ دعا پڑھتے «الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وكفانا وآوانا فكم ممن لا كافي له ولا مئوي» تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو کھلایا اور پلایا، دشمن کے شر سے بچایا، ہم کو پناہ دی، کتنے بندے تو ایسے ہیں جنہیں نہ کوئی بچانے والا ہے، اور نہ کوئی پناہ دینے والا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
5125
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،" أَنَّ رَجُلًا كَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَأُحِبُّ هَذَا , فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعْلَمْتَهُ؟ قَالَ: لَا , قَالَ: أَعْلِمْهُ , قال: فَلَحِقَهُ، فَقَالَ: إِنِّي أُحِبُّكَ فِي اللَّهِ , فَقَالَ: أَحَبَّكَ الَّذِي أَحْبَبْتَنِي لَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، اتنے میں ایک شخص اس کے سامنے سے گزرا تو اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میں اس سے محبت رکھتا ہوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تم نے اسے یہ بات بتا دی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: اسے بتا دو یہ سن کر وہ شخص اٹھا اور اس شخص سے جا کر ملا اور اسے بتایا کہ میں تم سے اللہ واسطے کی محبت رکھتا ہوں، اس نے کہا: تم سے وہ ذات محبت کرے، جس کی خاطر تم نے مجھ سے محبت کی ہے۔
حسن
سنن ابي داود
5127
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرِحُوا بِشَيْءٍ لَمْ أَرَهُمْ فَرِحُوا بِشَيْءٍ أَشَدَّ مِنْهُ، قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يُحِبُّ الرَّجُلَ عَلَى الْعَمَلِ مِنَ الْخَيْرِ يَعْمَلُ بِهِ وَلَا يَعْمَلُ بِمِثْلِهِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو کسی چیز سے اتنا خوش ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا جتنا وہ اس بات سے خوش ہوئے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! آدمی ایک آدمی سے اس کے بھلے اعمال کی وجہ سے محبت کرتا ہے اور وہ خود اس جیسا عمل نہیں کر پاتا، تو آپ نے فرمایا: آدمی اسی کے ساتھ ہو گا، جس سے اس نے محبت کی ہے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
5202
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ , حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ , عَنْ ثَابِتٍ , قَالَ: قَالَ أَنَسٌ" أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى غِلْمَانٍ يَلْعَبُونَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ایسے بچوں کے پاس آئے جو کھیل رہے تھے تو آپ نے انہیں سلام کیا۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.