سنن ابي داود
حماد بن زيد الأزدي (حدثنا / عن) أيوب السختياني
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
79
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ. ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" كَانَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ يَتَوَضَّئُونَ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُسَدَّدٌ: مِنَ الْإِنَاءِ الْوَاحِدِ جَمِيعًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مرد اور عورتیں ایک ہی برتن سے ایک ساتھ وضو کرتے تھے۔
صحيح دون قوله من الإناء الواحد
سنن ابي داود
479
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمًا إِذْ رَأَى نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ فَتَغَيَّظَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ حَكَّهَا، قَالَ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: فَدَعَا بِزَعْفَرَانٍ فَلَطَّخَهُ بِهِ، وَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِ أَحَدِكُمْ إِذَا صَلَّى، فَلَا يَبْزُقْ بَيْنَ يَدَيْهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ إِسْمَاعِيلُ، وَعَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، وَمَالِكٍ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ، وَمُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، نَحْوَ حَمَّادٍ، إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرُوا الزَّعْفَرَانَ، وَرَوَاهُ مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، وَأَثْبَتَ الزَّعْفَرَانَ فِيهِ، وَذَكَرَ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ الْخَلُوقَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو آپ لوگوں پر ناراض ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھرچ کر صاف کیا۔ راوی کہتے ہیں: میرے خیال میں ابن عمر نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زعفران منگا کر اس میں رگڑ دیا اور فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے ۱؎، لہٰذا وہ اپنے سامنے نہ تھوکے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسماعیل اور عبدالوارث نے یہ حدیث ایوب سے اور انہوں نے نافع سے روایت کی ہے اور مالک، عبیداللہ اور موسیٰ بن عقبہ نے (براہ راست) نافع سے حماد کی طرح روایت کی ہے مگر ان لوگوں نے زعفران کا ذکر نہیں کیا ہے، اور معمر نے اسے ایوب سے روایت کیا ہے اور اس میں زعفران کا لفظ موجود ہے، اور یحییٰ بن سلیم نے عبیداللہ کے واسطہ سے اور انہوں نے نافع کے واسطہ سے (زعفران کے بجائے) «خلوق» (ایک قسم کی خوشبو) کا ذکر کیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
566
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔
0
سنن ابي داود
635
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْ قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" إِذَا كَانَ لِأَحَدِكُمْ ثَوْبَانِ فَلْيُصَلِّ فِيهِمَا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ فَلْيَتَّزِرْ بِهِ وَلَا يَشْتَمِلِ اشْتِمَالَ الْيَهُودِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو چاہیئے کہ ان دونوں میں نماز پڑھے، اور اگر ایک ہی کپڑا ہو تو چاہیئے کہ اسے تہہ بند بنا لے اور اسے یہودیوں کی طرح نہ لٹکائے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
642
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، أَنَّ عَائِشَةَ نَزَلَتْ عَلَى صَفِيَّةَ أُمِّ طَلْحَةَ الطَّلَحَاتِ فَرَأَتْ بَنَاتٍ لَهَا، فَقَالَتْ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ وَفِي حُجْرَتِي جَارِيَةٌ فَأَلْقَى لِي حَقْوَهُ، وَقَالَ لِي:" شُقِّيهِ بِشُقَّتَيْنِ، فَأَعْطِي هَذِهِ نِصْفًا وَالْفَتَاةَ الَّتِي عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ نِصْفًا، فَإِنِّي لَا أَرَاهَا إِلَّا قَدْ حَاضَتْ، أَوْ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا قَدْ حَاضَتَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ هِشَامٌ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ.
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا طلحہ رضی اللہ عنہ کی والدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور ان کی لڑکیوں کو دیکھا تو کہا کہ (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میرے حجرے میں ایک لڑکی موجود تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لنگی مجھے دی اور کہا: اسے پھاڑ کر دو ٹکڑے کر لو، ایک ٹکڑا اس لڑکی کو دے دو، اور دوسرا ٹکڑا اس لڑکی کو دے دو جو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ہے، اس لیے کہ میرا خیال ہے کہ وہ بالغ ہو چکی ہے، یا میرا خیال ہے کہ وہ دونوں بالغ ہو چکی ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے اسی طرح ہشام نے ابن سیرین سے روایت کیا ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
1137
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيَّوبُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ:" وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ مُصَلَّى الْمُسْلِمِينَ" وَلَمْ يَذْكُرْ: الثَّوْبَ، قَالَ: وَحَدَّثَ عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ امْرَأَة تُحَدِّثُهُ، عَنِ امْرَأَةٍ أُخْرَى، قَالَتْ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ مُوسَى فِي الثَّوْبِ.
اس سند سے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: حائضہ عورتیں مسلمانوں کی نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں، محمد بن عبید نے اپنی روایت میں کپڑے کا ذکر نہیں کیا ہے، وہ کہتے ہیں: حماد نے ایوب سے ایوب نے حفصہ سے، حفصہ نے ایک عورت سے اور اس عورت نے ایک دوسری عورت سے روایت کی ہے کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول!، پھر محمد بن عبید نے کپڑے کے سلسلے میں موسیٰ بن اسماعیل کے ہم معنیٰ حدیث ذکر کی۔
صحيح
سنن ابي داود
1144
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُعْطِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ، وَجَعَلَ بِلَالٌ يَجْعَلُهُ فِي كِسَائِهِ، قَالَ: فَقَسَمَهُ عَلَى فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی اسی حدیث میں ہے عورتیں بالی اور انگوٹھی (صدقہ میں) دینے لگیں اور بلال رضی اللہ عنہ انہیں اپنی چادر میں رکھتے جاتے تھے وہ کہتے ہیں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمان فقراء کے درمیان تقسیم کر دیا۔
صحيح
سنن ابي داود
1207
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ اسْتُصْرِخَ عَلَى صَفِيَّةَ وَهُوَ بِمَكَّةَ، فَسَارَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَبَدَتِ النُّجُومُ، فَقَالَ" إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ فِي سَفَرٍ جَمَعَ بَيْنَ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ، فَسَارَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ، فَنَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا".
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو صفیہ ۱؎ کی موت کی خبر دی گئی اس وقت مکہ میں تھے تو آپ چلے (اور چلتے رہے) یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور ستارے نظر آنے لگے، تو عرض کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جب کسی کام کی عجلت ہوتی تو آپ یہ دونوں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا کرتے، پھر وہ شفق غائب ہونے تک چلتے رہے ٹھہر کر دونوں کو ایک ساتھ ادا کیا۔
صحيح خ م المرفوع منه
سنن ابي داود
1844
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں نکاح کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
1865
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ،" أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا قَدِمَ مَكَّةَ بَاتَ بِذِي طَوًى حَتَّى يُصْبِحَ وَيَغْتَسِلَ ثُمَّ يَدْخُلَ مَكَّةَ نَهَارًا، وَيَذْكُرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ فَعَلَهُ.
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب مکہ آتے تو ذی طویٰ میں رات گزارتے یہاں تک کہ صبح کرتے اور غسل فرماتے، پھر دن میں مکہ میں داخل ہوتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتاتے کہ آپ نے ایسے ہی کیا ہے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1886
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ حَدَّثَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَقَدْ وَهَنَتْهُمْ حُمَّى يَثْرِبَ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ قَوْمٌ قَدْ وَهَنَتْهُمُ الْحُمَّى وَلَقُوا مِنْهَا شَرًّا، فَأَطْلَعَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا قَالُوهُ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ الثَّلَاثَةَ، وَأَنْ يَمْشُوا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ، فَلَمَّا رَأَوْهُمْ رَمَلُوا، قَالُوا: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ ذَكَرْتُمْ أَنَّ الْحُمَّى قَدْ وَهَنَتْهُمْ، هَؤُلَاءِ أَجْلَدُ مِنَّا"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" وَلَمْ يَأْمُرْهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ كُلَّهَا إِلَّا إِبْقَاءً عَلَيْهِمْ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے اور لوگوں کو مدینہ کے بخار نے کمزور کر دیا تھا، تو مشرکین نے کہا: تمہارے پاس وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں بخار نے ضعیف بنا دیا ہے، اور انہیں بڑی تباہی اٹھانی پڑی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس گفتگو سے مطلع کر دیا، تو آپ نے حکم دیا کہ لوگ (طواف کعبہ کے) پہلے تین پھیروں میں رمل کریں اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلیں، تو جب مشرکین نے انہیں رمل کرتے دیکھا تو کہنے لگے: یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم لوگوں نے یہ کہا تھا کہ انہیں بخار نے کمزور کر دیا ہے، یہ لوگ تو ہم لوگوں سے زیادہ تندرست ہیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تمام پھیروں میں رمل نہ کرنے کا حکم صرف ان پر نرمی اور شفقت کی وجہ سے دیا تھا ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2097
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَذْكُرْ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ النَّاسُ مُرْسَلًا مَعْرُوفٌ.
اس سند سے عکرمہ سے یہ حدیث مرسلاً مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں: اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں ہے، اس روایت کا اسی طرح لوگوں کا مرسلاً روایت کرنا ہی معروف ہے۔
0
سنن ابي داود
2106
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ، فَقَالَ:" أَلَا لَا تُغَالُوا بِصُدُقِ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً".
ابوعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے، اللہ ان پر رحم کرے، ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: خبردار! عورتوں کے مہر بڑھا چڑھا کر مت باندھو اس لیے کہ اگر یہ (مہر کی زیادتی) دنیا میں باعث شرف اور اللہ کے یہاں تقویٰ اور پرہیزگاری کا ذریعہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار تھے، آپ نے تو اپنی کسی بھی بیوی اور بیٹی کا بارہ اوقیہ (چار سو اسی درہم) سے زیادہ مہر نہیں رکھا۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2199
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ: أَبُو الصَّهْبَاءِ، كَانَ كَثِيرَ السُّؤَالِ لِابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ؟" قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" بَلَى، كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ، فَلَمَّا رَأَى النَّاسَ قَدْ تَتَابَعُوا فِيهَا، قَالَ: أَجِيزُوهُنَّ عَلَيْهِمْ".
طاؤس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابوصہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں ایک ہی طلاق مانا جاتا تھا، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ ایسا کرنے لگے ہیں تو کہا کہ میں انہیں تین ہی نافذ کروں گا ۱؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
2204
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَيُّوبَ:" هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ بِقَوْلِ الْحَسَنِ فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ؟" قَالَ:" لَا، إِلَّا شَيْئًا حَدَّثَنَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى ابْنِ سَمُرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ". قَالَ أَيُّوبُ: فَقَدِمَ عَلَيْنَا كَثِيرٌ فَسَأَلْتُهُ. فَقَالَ: مَا حَدَّثْتُ بِهَذَا قَطُّ. فَذَكَرْتُهُ لِقَتَادَةَ، فَقَالَ: بَلَى، وَلَكِنَّهُ نَسِيَ.
حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایوب سے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ کسی اور نے بھی «أمرك بيدك» کے سلسلہ میں وہی بات کہی ہے جو حسن نے کہی تو انہوں نے کہا: نہیں، مگر وہی روایت ہے جسے ہم سے قتادہ نے بیان کیا، قتادہ نے کثیر مولی ابن سبرہ سے کثیر نے ابوسلمہ سے ابوسلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ ایوب کہتے ہیں: تو کثیر ہمارے پاس آئے تو میں نے ان سے دریافت کیا، وہ بولے: میں نے تو کبھی یہ حدیث بیان نہیں کی، پھر میں نے قتادہ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ہاں کیوں نہیں انہوں نے اسے بیان کیا تھا لیکن وہ بھول گئے۔
ضعيف
سنن ابي داود
2226
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2320
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ، فَلَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ ثَلَاثِينَ". قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا كَانَ شَعْبَانُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ نُظِرَ لَهُ، فَإِنْ رُؤِيَ فَذَاكَ، وَإِنْ لَمْ يُرَ وَلَمْ يَحُلْ دُونَ مَنْظَرِهِ سَحَابٌ وَلَا قَتَرَةٌ أَصْبَحَ مُفْطِرًا، فَإِنْ حَالَ دُونَ مَنْظَرِهِ سَحَابٌ أَوْ قَتَرَةٌ أَصْبَحَ صَائِمًا، قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُفْطِرُ مَعَ النَّاسِ وَلَا يَأْخُذُ بِهَذَا الْحِسَابِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہینہ انتیس دن کا (بھی) ہوتا ہے لہٰذا چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو، اور نہ ہی دیکھے بغیر روزے چھوڑو، اگر آسمان پر بادل ہوں تو تیس دن پورے کرو۔ راوی کا بیان ہے کہ جب شعبان کی انتیس تاریخ ہوتی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما چاند دیکھتے اگر نظر آ جاتا تو ٹھیک اور اگر نظر نہ آتا اور بادل اور کوئی سیاہ ٹکڑا اس کے دیکھنے کی جگہ میں حائل نہ ہوتا تو دوسرے دن روزہ نہ رکھتے اور اگر بادل یا کوئی سیاہ ٹکڑا دیکھنے کی جگہ میں حائل ہو جاتا تو صائم ہو کر صبح کرتے۔ راوی کا یہ بھی بیان ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما لوگوں کے ساتھ ہی روزے رکھنا چھوڑتے تھے، اور اپنے حساب کا خیال نہیں کرتے تھے۔
صحيح قد دون قوله فكان ابن عمر
سنن ابي داود
2324
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ فِي حَدِيثِ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ، قَالَ:" وَفِطْرُكُمْ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَأَضْحَاكُمْ يَوْمَ تُضَحُّونَ، وَكُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ، وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ مَنْحَرٌ، وَكُلُّ جَمْعٍ مَوْقِفٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بیان کی، اس میں ہے: تمہاری عید الفطر اس دن ہے جس دن تم افطار کرتے ہو ۱؎ اور عید الاضحی اس دن ہے جس دن تم قربانی کرتے ہو، پورا کا پورا میدان عرفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے اور سارا میدان منیٰ قربانی کرنے کی جگہ ہے نیز مکہ کی ساری گلیاں قربان گاہ ہیں، اور سارا مزدلفہ وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2561
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ، فَسَمِعَ لَعْنَةً فَقَالَ:" مَا هَذِهِ؟ قَالُوا: هَذِهِ فُلَانَةُ لَعَنَتْ رَاحِلَتَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ضَعُوا عَنْهَا فَإِنَّهَا مَلْعُونَةٌ، فَوَضَعُوا عَنْهَا، قَالَ عِمْرَانُ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهَا نَاقَةٌ وَرْقَاءُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے، آپ نے لعنت کی آواز سنی تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: فلاں عورت ہے جو اپنی سواری پر لعنت کر رہی ہے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اونٹنی سے کجاوہ اتار لو کیونکہ وہ ملعون ہے ۱؎، لوگوں نے اس پر سے (کجاوہ) اتار لیا۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں، وہ ایک سیاہی مائل اونٹنی تھی۔
صحيح
سنن ابي داود
3146
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، بِمَعْنَى حَدِيثِ مَالِكٍ، زَادَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ بِنَحْوِ هَذَا، وَزَادَتْ فِيهِ: أَوْ سَبْعًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، إِنْ رَأَيْتُنَّهُ.
اس سند سے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مالک کی روایت کے ہم معنی حدیث مروی ہے اور حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں جسے انہوں نے ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے اسی طرح کا اضافہ ہے اور اس میں انہوں نے یہ اضافہ بھی کیا ہے: یا سات بار غسل دینا، یا اس سے زیادہ اگر تم اس کی ضرورت سمجھنا۔
صحيح
سنن ابي داود
3167
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ:" نُهِينَا أَنْ نَتَّبِعَ الْجَنَائِزَ، وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا".
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہمیں جنازہ کے پیچھے پیچھے جانے سے روکا گیا ہے لیکن (روکنے میں) ہم پر سختی نہیں برتی گئی۔
صحيح
سنن ابي داود
3240
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ، بِمَعْنَى سُلَيْمَانَ: فِي ثَوْبَيْنِ.
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سلیمان کی حدیث کے ہم معنی حدیث مروی ہے اس میں «في ثوبين» ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3396
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ يَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ، أَنِّي سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، بِمَعْنَى إِسْنَادِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَحَدِيثِهِ.
ایوب کہتے ہیں: یعلیٰ بن حکیم نے مجھے لکھا کہ میں نے سلیمان بن یسار سے عبیداللہ کی سند اور ان کی حدیث کے ہم معنی حدیث سنی ہے۔
0
سنن ابي داود
3603
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، حَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ، وَحَدَّثَنِيهِ صَاحِبٌ لِي عَنْهُ، وَأَنَا لِحَدِيثِ صَاحِبِي أَحْفَظُ، قَالَ:" تَزَوَّجْتُ أُمَّ يَحْيَى بِنْتَ أَبِي إِهَابٍ، فَدَخَلَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ، فَزَعَمَتْ أَنَّهَا أَرْضَعَتْنَا جَمِيعًا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَأَعْرَضَ عَنِّي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا لَكَاذِبَةٌ، قَالَ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ وَقَدْ قَالَتْ: مَا قَالَتْ دَعْهَا عَنْكَ".
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عقبہ بن حارث نے اور میرے ایک دوست نے انہیں کے واسطہ سے بیان کیا اور مجھے اپنے دوست کی روایت زیادہ یاد ہے وہ (عقبہ) کہتے ہیں: میں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی، پھر ہمارے پاس ایک کالی عورت آ کر بولی: میں نے تم دونوں (میاں، بیوی) کو دودھ پلایا ہے ۱؎، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چہرہ پھیر لیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ عورت جھوٹی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا معلوم؟ اسے جو کہنا تھا اس نے کہہ دیا، تم اسے اپنے سے علیحدہ کر دو۔
صحيح
سنن ابي داود
3942
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ أَيُّوبُ: فَلَا أَدْرِي هُوَ فِي الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ شَيْءٌ قَالَهُ نَافِعٌ وَإِلَّا عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ.
اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے ایوب کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ «وإلا عتق منه ما عتق» نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا حصہ ہے یا نافع کا قول ہے۔
صحيح الإسناد
سنن ابي داود
3958
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْن،" أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةَ أَعْبُدٍ عِنْدَ مَوْتِهِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: قَوْلًا شَدِيدًا ثُمَّ دَعَاهُمْ، فَجَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا، یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے اس اسے سخت سست کہا پھر انہیں بلایا اور ان کے تین حصے کئے: پھر ان میں قرعہ اندازی کی پھر ان میں سے دو کو (جن کے نام قرعہ میں نکلے) آزاد کر دیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا۔
صحيح
سنن ابي داود
4268
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، وَيُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: خَرَجْتُ وَأَنَا أُرِيدُ يَعْنِي فِي الْقِتَالِ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ، فَقَالَ: ارْجِعْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ".
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں لڑائی کے ارادہ سے نکلا (تاکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑوں) تو مجھے (راستہ میں) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے کہا: تم لوٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جب دو مسلمان اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کو مارنے اٹھیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قاتل (کا جہنم میں جانا) تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کا حال ایسا کیوں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہا تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
4364
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ قَوْمًا مِنْ عُكْلٍ أَوْ قَالَ مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ" فَأَمَرَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلِقَاحٍ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، فَانْطَلَقُوا فَلَمَّا صَحُّوا قَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرُهُمْ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آثَارِهِمْ فَمَا ارْتَفَعَ النَّهَارُ حَتَّى جِيءَ بِهِمْ فَأَمَرَ بِهِمْ فَقُطِعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ وَسُمِرَ أَعْيُنُهُمْ وَأُلْقُوا فِي الْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ فَلَا يُسْقَوْنَ"، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: فَهَؤُلَاءِ قَوْمٌ سَرَقُوا وَقَتَلُوا وَكَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عکل، یا قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہ آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دودھ والی چند اونٹنیاں دلوائیں، اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے پیشاب اور دودھ پئیں، وہ (اونٹنیاں لے کر) چلے گئے جب وہ صحت یاب ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر ڈالا، اور اونٹ ہانک لے گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح ہی صبح اس کی خبر مل گئی، چنانچہ آپ نے ان کے تعاقب میں لوگوں کو روانہ کیا، تو ابھی دن بھی اوپر نہیں چڑھنے پایا تھا کہ انہیں پکڑ کر لے آیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دئیے گئے، ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں، اور وہ گرم سیاہ پتھریلی زمین میں ڈال دیئے گئے، وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا، ابوقلابہ کہتے ہیں: ان لوگوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا، ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے تھے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی تھی۔
صحيح
سنن ابي داود
4622
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَيُّوبَ، يَقُولُ:" كَذَبَ عَلَى الْحَسَنِ ضَرْبَانِ مِنَ النَّاسِ: قَوْمٌ الْقَدَرُ رَأْيُهُمْ وَهُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يُنَفِّقُوا بِذَلِكَ رَأْيَهُمْ، وَقَوْمٌ لَهُ فِي قُلُوبِهِمْ شَنَآنٌ وَبُغْضٌ، يَقُولُونَ: أَلَيْسَ مِنْ قَوْلِهِ كَذَا؟ أَلَيْسَ مِنْ قَوْلِهِ كَذَا؟".
ایوب کہتے ہیں حسن پر جھوٹ دو قسم کے لوگ باندھتے ہیں: ایک تو قدریہ، جو چاہتے ہیں کہ اس طرح سے ان کے خیال و نظریہ کا لوگ اعتبار کریں گے، اور دوسرے وہ لوگ جن کے دلوں میں ان کے خلاف عداوت اور بغض ہے، وہ کہتے ہیں: کیا یہ ان کا قول نہیں؟ کیا یہ ان کا قول نہیں؟۔
صحيح لغيره
سنن ابي داود
4625
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: قَالَ لِي الْحَسَنُ" مَا أَنَا بِعَائِدٍ إِلَى شَيْءٍ مِنْهُ أَبَدًا".
ایوب کہتے ہیں کہ مجھ سے حسن بصری نے کہا: میں اب دوبارہ کبھی اس میں سے کوئی بات نہیں کہوں گا، (جس سے تقدیر کی نفی کا گمان ہوتا)۔
صحيح لغيره
سنن ابي داود
5254
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ نَافِعٍ , أَنَّ ابْنَ عُمَرَ وَجَدَ بَعْدَ ذَلِكَ يَعْنِي بَعْد مَا حَدَّثَهُ أَبُو لُبابةَ , حَيَّةً فِي دَارِهِ , فَأَمَرَ بِهَا , فَأُخْرِجَتْ يَعْنِي إِلَى الْبَقِيعِ.
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے لبابہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سننے کے بعد ایک سانپ اپنے گھر میں پایا، تو اسے (باہر کرنے کا) حکم دیا تو وہ بقیع کی طرف بھگا دیا گیا۔
صحيح الإسناد

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.