سنن ابي داود
حماد بن سلمة البصري (حدثنا / عن) ثابت بن أسلم البناني
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
258
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،" أَنَّ الْيَهُودَ كَانَتْ إِذَا حَاضَتْ مِنْهُمُ امْرَأَةٌ، أَخْرَجُوهَا مِنَ الْبَيْتِ وَلَمْ يُؤَاكِلُوهَا وَلَمْ يُشَارِبُوهَا وَلَمْ يُجَامِعُوهَا فِي الْبَيْتِ، فَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ سورة البقرة آية 222 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: جَامِعُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ وَاصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ غَيْرَ النِّكَاحِ، فَقَالَتْ الْيَهُودُ: مَا يُرِيدُ هَذَا الرَّجُلُ أَنْ يَدَعَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِنَا إِلَّا خَالَفَنَا فِيهِ، فَجَاءَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ، وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْيَهُودَ تَقُولُ كَذَا وَكَذَا، أَفَلَا نَنْكِحُهُنَّ فِي الْمَحِيضِ؟ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ قَدْ وَجَدَ عَلَيْهِمَا. فَخَرَجَا، هَدِيَّةٌ مِنْ لَبَنٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمَا فَسَقَاهُمَا، فَظَنَنَّا أَنَّهُ لَمْ يَجِدْ عَلَيْهِمَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہود کی عورتوں میں جب کسی کو حیض آتا تو وہ اسے گھر سے نکال دیتے تھے، نہ اس کو ساتھ کھلاتے پلاتے، نہ اس کے ساتھ ایک گھر میں رہتے تھے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض» لوگ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو کہہ دیجئیے کہ وہ گندگی ہے، لہٰذا حالت حیض میں تم عورتوں سے الگ رہو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے ساتھ گھروں میں رہو اور سارے کام کرو سوائے جماع کے، یہ سن کر یہودیوں نے کہا: یہ شخص کوئی بھی ایسی چیز نہیں چھوڑنا چاہتا ہے جس میں وہ ہماری مخالفت نہ کرے، چنانچہ اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہود ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں، پھر ہم کیوں نہ ان سے حالت حیض میں جماع کریں؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں پر خفا ہو گئے ہیں، وہ دونوں ابھی نکلے ہی تھے کہ اتنے میں آپ کے پاس دودھ کا ہدیہ آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلا بھیجا اور (جب وہ آئے تو) انہیں دودھ پلایا، تب جا کر ہم کو یہ پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے ناراض نہیں ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
416
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي الْمَغْرِبَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَرْمِي، فَيَرَى أَحَدُنَا مَوْضِعَ نَبْلِهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب پڑھتے تھے، پھر تیر مارتے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
437
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ لَهُ، فَمَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِلْتُ مَعَهُ، فَقَالَ: انْظُرْ، فَقُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ، هَذَانِ رَاكِبَانِ، هَؤُلَاءِ ثَلَاثَةٌ، حَتَّى صِرْنَا سَبْعَةً، فَقَالَ: احْفَظُوا عَلَيْنَا صَلَاتَنَا يَعْنِي صَلَاةَ الْفَجْرِ، فَضُرِبَ عَلَى آذَانِهِمْ فَمَا أَيْقَظَهُمْ إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، فَقَامُوا فَسَارُوا هُنَيَّةً ثُمَّ نَزَلُوا فَتَوَضَّئُوا وَأَذَّنَ بِلَالٌ فَصَلَّوْا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ ثُمَّ صَلَّوْا الْفَجْرَ وَرَكِبُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: قَدْ فَرَّطْنَا فِي صَلَاتِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ لَا تَفْرِيطَ فِي النَّوْمِ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ، فَإِذَا سَهَا أَحَدُكُمْ عَنْ صَلَاةٍ، فَلْيُصَلِّهَا حِينَ يَذْكُرُهَا وَمِنَ الْغَدِ لِلْوَقْتِ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک سفر میں تھے، تو آپ ایک طرف مڑے، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرف مڑ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو، (یہ کون آ رہے ہیں)؟، اس پر میں نے کہا: یہ ایک سوار ہے، یہ دو ہیں، یہ تین ہیں، یہاں تک کہ ہم سات ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ہماری نماز کا (یعنی نماز فجر کا) خیال رکھنا، اس کے بعد انہیں نیند آ گئی اور وہ ایسے سوئے کہ انہیں سورج کی تپش ہی نے بیدار کیا، چنانچہ لوگ اٹھے اور تھوڑی دور چلے، پھر سواری سے اترے اور وضو کیا، بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی تو سب نے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھیں، پھر دو رکعت فرض ادا کی، اور سوار ہو کر آپس میں کہنے لگے: ہم نے اپنی نماز میں کوتاہی کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سو جانے میں کوئی کوتاہی اور قصور نہیں ہے، کوتاہی اور قصور تو جاگنے کی حالت میں ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی نماز بھول جائے تو جس وقت یاد آئے اسے پڑھ لے اور دوسرے دن اپنے وقت پر پڑھے۔
صحيح
سنن ابي داود
471
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَزَالُ الْعَبْدُ فِي صَلَاةٍ مَا كَانَ فِي مُصَلَّاهُ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ، تَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، حَتَّى يَنْصَرِفَ أَوْ يُحْدِثَ، فَقِيلَ: مَا يُحْدِثُ؟ قَالَ: يَفْسُو أَوْ يَضْرِطُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ برابر نماز ہی میں رہتا ہے، جب تک اپنے مصلی میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرتا رہے، فرشتے کہتے ہیں: اے اللہ! تو اسے بخش دے، اے اللہ! تو اس پر رحم فرما، جب تک کہ وہ نماز سے فارغ ہو کر گھر نہ لوٹ جائے، یا حدث نہ کرے۔ عرض کیا گیا: حدث سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حدث یہ ہے کہ وہ) بغیر آواز کے یا آواز کے ساتھ ہوا خارج کرے (یعنی وضو توڑ دے)۔
صحيح
سنن ابي داود
608
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ فَأَتَوْهُ بِسَمْنٍ وَتَمْرٍ، فَقَالَ: رُدُّوا هَذَا فِي وِعَائِهِ وَهَذَا فِي سِقَائِهِ فَإِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ تَطَوُّعًا، فَقَامَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ، وَأُمُّ حَرَامٍ خَلْفَنَا، قَالَ ثَابِتٌ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ: أَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ عَلَى بِسَاطٍ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو ان کے گھر والوں نے گھی اور کھجور پیش کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے (کھجور کو) اس کی تھیلی میں اور اسے (گھی کو) اس کے برتن میں لوٹا دو کیونکہ میں روزے سے ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں دو رکعت نفل نماز پڑھائی تو ام سلیم (انس رضی اللہ عنہ کی والدہ) اور ام حرام رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ ثابت کہتے ہیں: میں تو یہی جانتا ہوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی داہنی طرف چٹائی پر کھڑا کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
853
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، وَحُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" مَا صَلَّيْتُ خَلْفَ رَجُلٍ أَوْجَزَ صَلَاةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَمَامٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، قَامَ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ أَوْهَمَ، ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَسْجُدُ، وَكَانَ يَقْعُدُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ أَوْهَمَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مختصر اور مکمل نماز کسی کے پیچھے نہیں پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «سمع الله لمن حمده» کہتے تو کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہم لوگ سمجھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہم ہو گیا ہے، پھر آپ «اللہ اکبر» کہتے اور سجدہ کرتے اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہم لوگ سمجھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہم ہو گیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
904
حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي وَفِي صَدْرِهِ أَزِيزٌ كَأَزِيزِ الرَّحَى مِنَ الْبُكَاءِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے چکی کی آواز کے مانند آواز آتی تھی۔
صحيح
سنن ابي داود
1171
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَسْتَسْقِي هَكَذَا، يَعْنِي، وَمَدَّ يَدَيْهِ وَجَعَلَ بُطُونَهُمَا مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبِطَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا میں اس طرح دعا کرتے تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتے اور ان کی پشت اوپر رکھتے اور ہتھیلی زمین کی طرف یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی۔
صحيح
سنن ابي داود
1329
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي يَخْفِضُ مِنْ صَوْتِهِ، قَالَ: وَمَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَهُوَ يُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَهُ، قَالَ: فَلَمَّا اجْتَمَعَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي تَخْفِضُ صَوْتَكَ" قَالَ: قَدْ أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَيْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: وَقَالَ لِعُمَرَ:" مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَكَ" قَالَ: فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوقِظُ الْوَسْنَانَ، وَأَطْرُدُ الشَّيْطَانَ. زَادَ الْحَسَنُ فِي حَدِيثِهِ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا"، وَقَالَ لِعُمَرَ:" اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات باہر نکلے تو دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہے ہیں اور پست آواز سے قرآت کر رہے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر کے پاس سے گزرے اور وہ بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے، جب دونوں (ابوبکر و عمر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! میں تمہارے پاس سے گزرا اور دیکھا کہ تم دھیمی آواز سے نماز پڑھ رہے ہو، آپ نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں نے اس کو (یعنی اللہ تعالیٰ کو) سنا دیا ہے، جس سے میں سرگوشی کر رہا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے، تو انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں سوتے کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔ حسن بن الصباح کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر! تم اپنی آواز تھوڑی بلند کر لو، اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: تم اپنی آواز تھوڑی دھیمی کر لو ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1434
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ السَّيْلَحِينِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ:" مَتَى تُوتِرُ"، قَالَ: أُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ، وَقَالَ لِعُمَرَ:" مَتَى تُوتِرُ"، قَالَ: آخِرَ اللَّيْلِ، فَقَالَ لِأَبِي بَكْرٍ:" أَخَذَ هَذَا بِالْحَزْمِ"، وَقَالَ لِعُمَرَ:" أَخَذَ هَذَا بِالْقُوَّةِ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تم وتر کب پڑھتے ہو؟، انہوں نے عرض کیا: میں اول شب میں وتر پڑھتا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تم کب پڑھتے ہو؟، انہوں نے عرض کیا: آخر شب میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر سے فرمایا کہ انہوں نے احتیاط پر عمل کیا، اور عمر سے فرمایا کہ انہوں نے مشکل کام اختیار کیا جو طاقت و قوت کا متقاضی ہے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1526
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، وَسَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَلَمَّا دَنَوْا مِنْ الْمَدِينَةِ كَبَّرَ النَّاسُ وَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَهُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ أَعْنَاقِ رِكَابِكُمْ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا مُوسَى، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟" فَقُلْتُ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ".
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے تکبیر کہی اور اپنی آوازیں بلند کیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تم کسی بہرے یا غائب کو آواز نہیں دے رہے ہو، بلکہ جسے تم پکار رہے ہو وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے ۱؎، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوموسیٰ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟، میں نے عرض کیا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے۔
صحيح ق دون قوله إن الذي تدعونه بينكم وبين أعناق ركائبكم وهو منكر
سنن ابي داود
1689
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَى رَبَّنَا يَسْأَلُنَا مِنْ أَمْوَالِنَا فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ أَرْضِي بِأَرِيحَاءَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْعَلْهَا فِي قَرَابَتِكَ"، فَقَسَمَهَا بَيْنَ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ وَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: بَلَغَنِي عَنِ الْأَنْصَارِيِّ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ زَيْدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ حَرَامِ بْنِ عَمْرِو بْنِ زَيْدِ مَنَاةَ بْنِ عَدِيِّ بْنِ عَمْرِو بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ وَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ الْمُنْذِرِ بْنِ حَرَامٍ، يَجْتَمِعَانِ إِلَى حَرَامٍ وَهُوَ الْأَبُ الثَّالِثُ، وَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبِ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَتِيكِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ، فَعَمْرٌو يَجْمَعُ حَسَّانَ وَ أَبَا طَلْحَةَ وَ أُبَيًّا: قَالَ الْأَنْصَارِيُّ: بَيْنَ أُبَيٍّ وَ أَبِي طَلْحَةَ سِتَّةُ آبَاءٍ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» کی آیت نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا خیال ہے کہ ہمارا رب ہم سے ہمارے مال مانگ رہا ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اریحاء نامی اپنی زمین اسے دے دی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو، تو انہوں نے اسے حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کے درمیان تقسیم کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے محمد بن عبداللہ انصاری سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابوطلحہ کا نام: زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو ابن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار ہے، اور حسان: ثابت بن منذر بن حرام کے بیٹے ہیں، اس طرح ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور حسان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب حرام پر مل جاتا ہے وہی دونوں کے تیسرے باپ (پردادا) ہیں، اور ابی رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: ابی بن کعب بن قیس بن عتیک بن زید بن معاویہ بن عمرو بن مالک بن نجار، اس طرح عمرو: حسان، ابوطلحہ اور ابی تینوں کو سمیٹ لیتے ہیں یعنی تینوں کے جد اعلیٰ ہیں، انصاری (محمد بن عبداللہ) کہتے ہیں: ابی رضی اللہ عنہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے نسب میں چھ آباء کا فاصلہ ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2165
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ الْيَهُودَ كَانَتْ إِذَا حَاضَتْ مِنْهُمُ امْرَأَةٌ أَخْرَجُوهَا مِنَ الْبَيْتِ وَلَمْ يُؤَاكِلُوهَا وَلَمْ يُشَارِبُوهَا وَلَمْ يُجَامِعُوهَا فِي الْبَيْتِ، فَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ سورة البقرة آية 222 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" جَامِعُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ وَاصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ غَيْرَ النِّكَاحِ"، فَقَالَتْ الْيَهُودُ: مَا يُرِيدُ هَذَا الرَّجُلُ أَنْ يَدَعَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِنَا إِلَّا خَالَفَنَا فِيهِ، فَجَاءَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَ عَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْيَهُودَ تَقُولُ كَذَا وَكَذَا، أَفَلَا نَنْكِحُهُنَّ فِي الْمَحِيضِ؟ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ قَدْ وَجَدَ عَلَيْهِمَا، فَخَرَجَا هَدِيَّةٌ مِنْ لَبَنٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمَا، فَظَنَنَّا أَنَّهُ لَمْ يَجِدْ عَلَيْهِمَا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودیوں میں جب کوئی عورت حائضہ ہو جاتی تو اسے گھر سے نکال دیتے نہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ ہی اسے گھر میں رکھتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں دریافت کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «يسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض» لوگ آپ سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجئیے کہ وہ گندگی ہے لہٰذا تم حیض کی حالت میں عورتوں سے علیحدہ رہو (سورۃ البقرہ: ۲۲۲)، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: انہیں گھروں میں رکھو اور جماع کے علاوہ ہر کام کرو، اس پر یہودیوں نے کہا کہ: یہ شخص تو ہمارے ہر کام کی مخالفت کرتا ہے، چنانچہ اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! یہودی ایسا ایسا کہہ رہے ہیں، تو کیا ہم (ان کی مخالفت میں) عورتوں سے حالت حیض میں جماع نہ کرنے لگیں؟ یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا، یہاں تک کہ ہمیں اپنے اوپر آپ کی ناراضگی کا گمان ہونے لگا چنانچہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکل آئے، اسی اثناء میں آپ کے پاس دودھ کا ہدیہ آ گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلوا بھیجا جس سے ہمیں لگا کہ آپ ان سے ناراض نہیں ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
2463
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ فَلَمْ يَعْتَكِفْ عَامًا، فَلَمَّا كَانَ فِي الْعَامِ الْمُقْبِلِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ لَيْلَةً".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے، ایک سال (کسی وجہ سے) اعتکاف نہیں کر سکے تو اگلے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رات کا اعتکاف کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
2634
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يُغِيرُ عِنْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ، وَكَانَ يَتَسَمَّعُ فَإِذَا سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ وَإِلَّا أَغَارَ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور غور سے (اذان) سننے کی کوشش کرتے تھے جب اذان سن لیتے تو رک جاتے، ورنہ حملہ کر دیتے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2681
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَدَبَ أَصْحَابَهُ فَانْطَلَقُوا إِلَى بَدْرٍ فَإِذَا هُمْ بِرَوَايَا قُرَيْشٍ فِيهَا عَبْدٌ أَسْوَدُ لِبَنِي الْحَجَّاجِ، فَأَخَذَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلُوا يَسْأَلُونَهُ أَيْنَ أَبُو سُفْيَانَ؟ فَيَقُولُ: وَاللَّهِ مَالِي بِشَيْءٍ مِنْ أَمْرِهِ عِلْمٌ وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ جَاءَتْ فِيهِمْ أَبُو جَهْلٍ، وَعُتْبَةُ، وَشَيْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ فَإِذَا قَالَ لَهُمْ ذَلِكَ ضَرَبُوهُ فَيَقُولُ: دَعُونِي، دَعُونِي أُخْبِرْكُمْ فَإِذَا تَرَكُوهُ قَالَ: وَاللَّهِ مَالِي بِأَبِي سُفْيَانَ مِنْ عِلْمٍ، وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ فِيهِمْ أَبُو جَهْلٍ، وَعُتْبَةُ، وَشَيْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ،وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ، قَدْ أَقْبَلُوا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَهُوَ يَسْمَعُ ذَلِكَ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَتَضْرِبُونَهُ إِذَا صَدَقَكُمْ وَتَدَعُونَهُ إِذَا كَذَبَكُمْ، هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ لِتَمْنَعَ أَبَا سُفْيَانَ قَالَ أَنَسٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ وَهَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ وَهَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا جَاوَزَ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَأَمَرَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخِذَ بِأَرْجُلِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بلایا، وہ سب بدر کی طرف چلے، اچانک قریش کے پانی والے اونٹ ملے ان میں بنی حجاج کا ایک کالا کلوٹا غلام تھا، صحابہ کرام نے اسے پکڑ لیا اور اس سے پوچھنے لگے کہ بتاؤ ابوسفیان کہاں ہے؟ وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم! مجھے ابوسفیان کے سلسلہ میں کوئی علم نہیں، البتہ قریش کے لوگ آئے ہیں ان میں ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف بھی آئے ہوئے ہیں، جب اس نے یہ کہا تو صحابہ کرام اسے مارنے لگے، وہ بولا: مجھے چھوڑ دو، مجھے چھوڑ دو، میں تمہیں بتاتا ہوں، جب اس کو چھوڑا تو پھر وہ یہی بات کہنے لگا: اللہ کی قسم مجھے ابوسفیان کے سلسلہ میں کوئی علم نہیں البتہ قریش آئے ہیں ان میں ابوجہل، ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ و شیبہ اور امیہ بن خلف بھی آئے ہوئے ہیں، (اس وقت) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور اسے سن رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب وہ تم سے سچ کہتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب جھوٹ بولتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو، (ابوسفیان تو شام کے قافلہ کے ساتھ مال لیے ہوئے آ رہا ہے) اور یہ قریش کے لوگ ہیں اس کو بچانے کے لیے آئے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل یہاں فلاں کی لاش گرے گی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا، کل یہ فلاں کا مقتل ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا، اور کل یہ فلاں کا مقتل ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا ۱؎۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی جگہ سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھ سکا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سلسلہ میں حکم دیا تو ان کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے انہیں بدر کے کنوئیں میں ڈال دیا گیا۔
صحيح
سنن ابي داود
2688
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ ثَمَانِينَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ هَبَطُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ مِنْ جِبَالِ التَّنْعِيمِ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ لِيَقْتُلُوهُمْ فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِلْمًا فَأَعْتَقَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ سورة الفتح آية 24 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں میں سے اسی آدمی جبل تنعیم سے نماز فجر کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے لیے اترے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی مزاحمت کے بغیر گرفتار کر لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم ببطن مكة» إلى آخر الآية (سورۃ الفتح: ۲۴) اللہ ہی نے ان کا ہاتھ تم سے اور تمہارا ہاتھ ان سے وادی مکہ میں روک دیا۔
صحيح
سنن ابي داود
2780
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ فَتًى مِنْ أَسْلَمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ الْجِهَادَ وَلَيْسَ لِي مَالٌ أَتَجَهَّزُ بِهِ قَالَ: اذْهَبْ إِلَى فُلَانٍ الْأَنْصَارِيِّ فَإِنَّهُ كَانَ قَدْ تَجَهَّزَ فَمَرِضَ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: ادْفَعْ إِلَيَّ مَا تَجَهَّزْتَ بِهِ فَأَتَاهُ، فَقَالَ لَهُ: ذَلِكَ فَقَالَ: لِامْرَأَتِهِ يَا فُلَانَةُ ادْفَعِي لَهُ مَا جَهَّزْتِنِي بِهِ، وَلَا تَحْبِسِي مِنْهُ شَيْئًا، فَوَاللَّهِ لَا تَحْبِسِينَ مِنْهُ شَيْئًا فَيُبَارِكَ اللَّهُ فِيهِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک جوان نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن میرے پاس مال نہیں ہے جس سے میں اس کی تیاری کر سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلاں انصاری کے پاس جاؤ اس نے جہاد کا سامان تیار کیا تھا لیکن بیمار ہو گیا، اس سے جا کر کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں سلام کہا ہے، اور یہ کہو کہ جو اسباب تم نے جہاد کے لیے تیار کیا تھا وہ مجھے دے دو، وہ شخص اس انصاری کے پاس آیا اور آ کر اس نے یہی بات کہی، انصاری نے اپنی بیوی سے کہا: جتنا سامان تو نے میرے لیے جمع کیا تھا وہ سب اسے دیدے، اس میں سے کچھ مت رکھنا، اللہ کی قسم اس میں سے کچھ نہیں رکھے گی تو اللہ اس میں برکت دے گا ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2997
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: وَقَعَ فِي سَهْمِ دِحْيَةَ جَارِيَةٌ جَمِيلَةٌ،فَاشْتَرَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعَةِ أَرْؤُسٍ ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّ سُلَيْمٍ تَصْنَعُهَا وَتُهَيِّئُهَا، قَالَ حَمَّادٌ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: وَتَعْتَدُّ فِي بَيْتِهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں ایک خوبصورت لونڈی آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سات غلام دے کر خرید لیا اور انہیں ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا کہ انہیں بنا سنوار دیں۔ حماد کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا کہ وہ وہاں عدت گزار کر پاک و صاف ہو لیں۔
صحيح م لكن قوله وأحسبه فيه نظر لأنه بنى بها في سد الصهباء
سنن ابي داود
3119
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَصَابَتْ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ، فَلْيَقُلْ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ عِنْدَكَ أَحْتَسِبُ مُصِيبَتِي، فَآجِرْنِي فِيهَا، وَأَبْدِلْ لِي خَيْرًا مِنْهَا".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت پہنچے (تھوڑی ہو یا زیادہ) تو اسے چاہیئے کہ: «إنا لله وإنا إليه راجعون»، «اللهم عندك أحتسب مصيبتي فآجرني فيها وأبدل لي خيرا منها» بیشک ہم اللہ کے ہیں اور لوٹ کر بھی اسی کے پاس جانے والے ہیں، اے اللہ! میں تیرے ہی پاس اپنی مصیبت کو پیش کرتا ہوں تو مجھے اس مصیبت کے بدلے جو مجھے پہنچ چکی ہے ثواب عطا کر اور اس مصیبت کو خیر سے بدل دے، کہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3770
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" مَا رُئِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مُتَّكِئًا قَطُّ، وَلَا يَطَأُ عَقِبَهُ رَجُلَانِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ٹیک لگا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھے گئے، اور نہ ہی آپ کے پیچھے دو آدمیوں کو چلتے دیکھا گیا (بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیچ میں یا سب سے پیچھے چلا کرتے تھے)۔
صحيح
سنن ابي داود
3845
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا أَكَلَ طَعَامًا لَعِقَ أَصَابِعَهُ الثَّلَاثَ، وَقَالَ: إِذَا سَقَطَتْ لُقْمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيُمِطْ عَنْهَا الْأَذَى وَلْيَأْكُلْهَا وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ، وَأَمَرَنَا أَنْ نَسْلُتَ الصَّحْفَةَ، وَقَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي فِي أَيِّ طَعَامِهِ يُبَارَكُ لَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیاں چاٹتے اور فرماتے: جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے چاہیئے کہ لقمہ صاف کر کے کھا لے اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پلیٹ صاف کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس کے کھانے کے کس حصہ میں اس کے لیے برکت ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3865
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمُّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ:" نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَيِّ، فَاكْتَوَيْنَا فَمَا أَفْلَحْنَ وَلَا أَنْجَحْنَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَانَ يَسْمَعُ تَسْلِيمَ الْمَلَائِكَةِ، فَلَمَّا اكْتَوَى انْقَطَعَ عَنْهُ، فَلَمَّا تَرَكَ رَجَعَ إِلَيْهِ.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے داغنے سے منع فرمایا، اور ہم نے داغ لگایا تو نہ تو اس سے ہمیں کوئی فائدہ ہوا، نہ وہ ہمارے کسی کام آیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ فرشتوں کا سلام سنتے تھے جب داغ لگوانے لگے تو سننا بند ہو گیا، پھر جب اس سے رک گئے تو سابقہ حالت کی طرف لوٹ آئے (یعنی پھر ان کا سلام سننے لگے)۔
صحيح
سنن ابي داود
3982
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ:" أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ: 0 إِنَّهُ عَمِلَ غَيْرَ صَالِحٍ 0".
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «إنه عمل غير صالح» (بصیغہ ماضی) یعنی: اس نے ناسائشہ کام کیا (سورۃ ہود: ۴۶) پڑھتے سنا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
4602
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ سُمَيَّةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا" أَنَّهُ اعْتَلَّ بَعِيرٌ لِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ وَعِنْدَ زَيْنَبَ فَضْلُ ظَهْرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْنَبَ: أَعْطِيهَا بَعِيرًا، فَقَالَتْ: أَنَا أُعْطِي تِلْكَ الْيَهُودِيَّةَ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهَجَرَهَا ذَا الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمَ وَبَعْضَ صَفَرٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کا ایک اونٹ بیمار ہو گیا اور ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ایک فاضل سواری تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب سے فرمایا: تم اسے ایک اونٹ دے دو وہ بولیں: میں اس یہودن کو دے دوں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے اور ذی الحجہ، محرم اور صفر کے چند دنوں تک ان سے بات چیت ترک رکھی۔
ضعيف
سنن ابي داود
4718
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ فِي النَّارِ فَلَمَّا قَفَّى، قَالَ: إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد کہاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے والد جہنم میں ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے والد اور تیرے والد دونوں جہنم میں ہیں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
4719
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ:" إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان ابن آدم (انسان) کے بدن میں اسی طرح دوڑتا ہے جس طرح خون رگوں میں گردش کرتا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
4802
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" كَانَتِ الْعَضْبَاءُ لَا تُسْبَقُ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ لَهُ، فَسَابَقَهَا فَسَبَقَهَا الْأَعْرَابِيُّ، فَكَأَنَّ ذَلِكَ شَقَّ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يَرْفَعَ شَيْئًا مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا وَضَعَهُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی) عضباء مقابلے میں کبھی پیچھے نہیں رہی تھی (ایک بار) ایک اعرابی اپنے ایک نوعمر اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اور اس نے اس سے مقابلہ کیا تو اعرابی اس سے آگے نکل گیا تو ایسا لگا کہ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر گراں گزری ہے تو آپ نے فرمایا: اللہ کا یہ دستور ہے کہ جو چیز بھی اوپر اٹھے اسے نیچا کر دے۔
صحيح
سنن ابي داود
4812
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنَّ الْمُهَاجِرِينَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَتْ الْأَنْصَارُ بِالْأَجْرِ كُلِّهِ، قَالَ: لَا، مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مہاجرین نے کہا: اللہ کے رسول! سارا اجر تو انصار لے گئے، آپ نے فرمایا: نہیں (ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم اجر سے محروم رہو) جب تک تم اللہ سے ان کے لیے دعا کرتے رہو گے اور ان کی تعریف کرتے رہو گے۔
صحيح
سنن ابي داود
4819
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ امْرَأَةً كَانَ فِي عَقْلِهَا شَيْءٌ، بِمَعْنَاهُ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت تھی جس کی عقل میں کچھ فتور تھا پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔
صحيح
سنن ابي داود
4951
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" ذَهَبْتُ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وُلِدَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَبَاءَةٍ يَهْنَأُ بَعِيرًا لَهُ، قَالَ: هَلْ مَعَكَ تَمْرٌ , قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: فَنَاوَلْتُهُ تَمَرَاتٍ، فَأَلْقَاهُنَّ فِي فِيهِ فَلَاكَهُنَّ، ثُمَّ فَغَرَ فَاهُ فَأَوْجَرَهُنَّ إِيَّاهُ، فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حُبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ، وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی طلحہ کی پیدائش پر میں ان کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ اس وقت عبا پہنے ہوئے تھے، اور اپنے ایک اونٹ کو دوا لگا رہے تھے، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کھجور ہے؟ میں نے کہا: ہاں، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی کھجوریں پکڑائیں، آپ نے ان کو اپنے منہ میں ڈالا اور چبا کر بچے کا منہ کھولا اور اس کے منہ میں ڈال دیا تو بچہ منہ چلا کر چوسنے لگا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار کی پسندیدہ چیز کھجور ہے اور آپ نے اس لڑکے کا نام عبداللہ رکھا۔
صحيح
سنن ابي داود
4969
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَيْنَا، وَلِي أَخٌ صَغِيرٌ يُكْنَى: أَبَا عُمَيْرٍ، وَكَانَ لَهُ نُغَرٌ يَلْعَبُ بِهِ فَمَاتَ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَرَآهُ حَزِينًا , فَقَالَ: مَا شَأْنُهُ؟ قَالُوا: مَاتَ نُغَرُهُ , فَقَالَ: يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں آتے تھے، اور میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کی کنیت ابوعمیر تھی، اس کے پاس ایک چڑیا تھی، وہ اس سے کھیلتا تھا، وہ مر گئی، پھر ایک دن اچانک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے تو اسے رنجیدہ و غمگین دیکھ کر فرمایا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اس کی چڑیا مر گئی، تو آپ نے فرمایا: اے ابوعمیر! کیا ہوا نغیر (چڑیا) کو؟۔
صحيح
سنن ابي داود
5025
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ كَأَنَّا فِي دَارِ عُقْبَةَ بْنِ رَافِعٍ، وَأُتِينَا بِرُطَبٍ مِنْ رُطَبِ ابْنِ طَابٍ، فَأَوَّلْتُ أَنَّ الرِّفْعَةَ لَنَا فِي الدُّنْيَا وَالْعَاقِبَةَ فِي الْآخِرَةِ، وَأَنَّ دِينَنَا قَدْ طَابَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے آج رات دیکھا جیسے ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہوں، اور ہمارے پاس ابن طاب ۱؎ کی رطب تازہ (کھجوریں) لائی گئیں، تو میں نے یہ تعبیر کی کہ دنیا میں بلندی ہمارے واسطے ہے اور آخرت کی عاقبت ۲؎ بھی اور ہمارا دین سب سے عمدہ اور اچھا ہو گیا۔
صحيح
سنن ابي داود
5053
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَكَفَانَا وَآوَانَا، فَكَمْ مِمَّنْ لَا كَافِيَ لَهُ وَلَا مُؤْوِيَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر آتے تو یہ دعا پڑھتے «الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وكفانا وآوانا فكم ممن لا كافي له ولا مئوي» تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو کھلایا اور پلایا، دشمن کے شر سے بچایا، ہم کو پناہ دی، کتنے بندے تو ایسے ہیں جنہیں نہ کوئی بچانے والا ہے، اور نہ کوئی پناہ دینے والا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
5228
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيِّ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ فِي سَفَرٍ لَهُ , فَعَطِشُوا , فَانْطَلَقَ سَرْعَانُ النَّاسِ , فَلَزِمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ , فَقَالَ: حَفِظَكَ اللَّهُ بِمَا حَفِظْتَ بِهِ نَبِيَّهُ".
عبداللہ بن رباح انصاری کہتے ہیں کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک سفر میں تھے، لوگ پیاسے ہوئے تو جلدباز لوگ آگے نکل گئے، لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی اس رات رہا (آپ کو چھوڑ کر نہ گیا) تو آپ نے فرمایا: اللہ تیری حفاظت فرمائے جس طرح تو نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.