سنن ابي داود
سليمان بن داود المهري (حدثنا / عن) عبد الله بن وهب القرشي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
490
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ وَيَحْيَى بْنُ أَزْهَرَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ الْمُرَادِيِّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْغِفَارِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَرَّ بِبَابِلَ وَهُوَ يَسِيرُ فَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ يُؤَذِّنُ بِصَلَاةِ الْعَصْرِ، فَلَمَّا بَرَزَ مِنْهَا أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ:" إِنَّ حَبِيبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانِي أَنْ أُصَلِّيَ فِي الْمَقْبَرَةِ وَنَهَانِي أَنْ أُصَلِّيَ فِي أَرْضِ بَابِلَ فَإِنَّهَا مَلْعُونَةٌ".
ابوصالح غفاری کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ بابل سے گزر رہے تھے کہ ان کے پاس مؤذن انہیں نماز عصر کی خبر دینے آیا، تو جب آپ بابل کی سر زمین پار کر گئے تو مؤذن کو حکم دیا اس نے عصر کے لیے تکبیر کہی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قبرستان میں اور سر زمین بابل میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۱؎ کیونکہ اس پر لعنت کی گئی ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
497
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي مُعَاذُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُبَيْبٍ الْجُهَنِيُّ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَقَالَ لِامْرَأَتِه: مَتَى يُصَلِّي الصَّبِيُّ؟ فَقَالَتْ: كَانَ رَجُلٌ مِنَّا يَذْكُرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" إِذَا عَرَفَ يَمِينَهُ مِنْ شِمَالِهِ، فَمُرُوهُ بِالصَّلَاةِ".
ہشام بن سعد کا بیان ہے کہ مجھ سے معاذ بن عبداللہ بن خبیب جہنی نے بیان کیا، ہشام کہتے ہیں: ہم معاذ کے پاس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی سے پوچھا: بچے کب نماز پڑھنا شروع کریں؟ تو انہوں نے کہا: ہم میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر رہا تھا کہ اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: جب بچہ اپنے داہنے اور بائیں ہاتھ میں تمیز کرنے لگے تو تم اسے نماز کا حکم دو۔
ضعيف
سنن ابي داود
580
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْهَمْدَانِيِّ، قَالَ:سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِر، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ أَمَّ النَّاسَ فَأَصَابَ الْوَقْتَ فَلَهُ وَلَهُمْ، وَمَنِ انْتَقَصَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعَلَيْهِ وَلَا عَلَيْهِمْ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے لوگوں کی امامت کی اور وقت پر اسے اچھی طرح ادا کیا تو اسے بھی اس کا ثواب ملے گا اور مقتدیوں کو بھی، اور جس نے اس میں کچھ کمی کی تو اس کا وبال صرف اسی پر ہو گا ان (مقتدیوں) پر نہیں۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
707
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ. ح وحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ نَزَلَ بِتَبُوكَ وَهُوَ حَاجٌّ، فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُقْعَدٍ فَسَأَلَهُ عَنْ أَمْرِهِ، فَقَالَ لَهُ: سَأُحَدِّثُكَ حَدِيثًا فَلَا تُحَدِّثْ بِهِ مَا سَمِعْتَ أَنِّي حَيٌّ،" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ بِتَبُوكَ إِلَى نَخْلَةٍ، فَقَالَ: هَذِهِ قِبْلَتُنَا، ثُمَّ صَلَّى إِلَيْهَا، فَأَقْبَلْتُ وَأَنَا غُلَامٌ أَسْعَى حَتَّى مَرَرْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا، فَقَالَ: قَطَعَ صَلَاتَنَا قَطَعَ اللَّهُ أَثَرَهُ"، فَمَا قُمْتُ عَلَيْهَا إِلَى يَوْمِي هَذَا.
غزوان کہتے ہیں کہ وہ حج کو جاتے ہوئے تبوک میں اترے، انہیں ایک اپاہج آدمی نظر آیا، انہوں نے اس سے اس کا حال پوچھا، تو اس آدمی نے غزوان سے کہا کہ میں تم سے ایک حدیث بیان کروں گا، بشرطیکہ تم اس حدیث کو کسی سے اس وقت تک بیان نہ کرنا جب تک تم یہ سننا کہ میں زندہ ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں ایک درخت کی آڑ میں اترے اور فرمایا: یہ ہمارا قبلہ ہے، پھر آپ نے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی شروع کی، میں ایک لڑکا تھا، دوڑتا ہوا آیا یہاں تک کہ آپ کے اور درخت کے بیچ سے ہو کر گزر گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے ہماری نماز کاٹ دی، اللہ اس کا قدم کاٹ دے، چنانچہ اس روز سے آج تک میں اس پر کھڑا نہ ہو سکا۔
ضعيف
سنن ابي داود
1219
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ،حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عُقَيْلٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ بِإِسْنَادِهِ، قَالَ:" وَيُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ".
اس طریق سے بھی عقیل سے یہی روایت اسی سند سے منقول ہے البتہ اس میں اضافہ ہے کہ مغرب کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ جب شفق غائب ہو جاتی تو اسے اور عشاء کو ملا کر پڑھتے۔
صحيح
سنن ابي داود
1456
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي الصُّفَّةِ، فَقَالَ:" أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يَغْدُوَ إِلَى بُطْحَانَ، أَوْ الْعَقِيقِ فَيَأْخُذَ نَاقَتَيْنِ كَوْمَاوَيْنِ زَهْرَاوَيْنِ بِغَيْرِ إِثْمٍ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَا قَطْعِ رَحِمٍ؟" قَالُوا: كُلُّنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" فَلَأَنْ يَغْدُوَ أَحَدُكُمْ كُلَّ يَوْمٍ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَتَعَلَّمَ آيَتَيْنِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَيْنِ، وَإِنْ ثَلَاثٌ فَثَلَاثٌ مِثْلُ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الْإِبِلِ".
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ہم صفہ (چبوترے) پر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ صبح کو بطحان یا عقیق جائے، پھر بڑی کوہان والے موٹے تازے دو اونٹ بغیر کوئی گناہ یا قطع رحمی کئے لے کر آئے؟، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے سبھوں کی یہ خواہش ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم میں سے کوئی اگر روزانہ صبح کو مسجد جائے اور قرآن مجید کی دو آیتیں سیکھے تو یہ اس کے لیے ان دو اونٹنیوں سے بہتر ہے اور اسی طرح سے تین آیات سیکھے تو تین اونٹنیوں سے بہتر ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1573
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، وَسَمَّى آخَرَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، وَالْحَارِثِ الْأَعْوَرِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَوَّلِ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ:" فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ، يَعْنِي فِي الذَّهَبِ، حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا، فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي، أَعَلِيٌّ يَقُولُ: فَبِحِسَابِ ذَلِكَ؟ أَوْ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ"، إِلَّا أَنَّ جَرِيرًا، قَالَ: ابْنُ وَهْبٍ يَزِيدُ فِي الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ".
علی رضی اللہ عنہ اس حدیث کے ابتدائی کچھ حصہ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: جب تمہارے پاس دو سو (۲۰۰) درہم ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان میں پانچ (۵) درہم زکاۃ ہو گی، اور سونا جب تک بیس (۲۰) دینار نہ ہو اس میں تم پر زکاۃ نہیں، جب بیس (۲۰) دینار ہو جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار زکاۃ ہے، پھر جتنا زیادہ ہو اس میں اسی حساب سے زکاۃ ہو گی (یعنی چالیسواں حصہ)۔ راوی نے کہا: مجھے یاد نہیں کہ «فبحساب ذلك» علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے یا اسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع کیا ہے؟ اور کسی بھی مال میں زکاۃ نہیں ہے جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، مگر جریر نے کہا ہے کہ ابن وہب اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا اضافہ کرتے ہیں: کسی مال میں زکاۃ نہیں ہے جب تک اس پر سال نہ گزر جائے۔
صحيح
سنن ابي داود
1747
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ مُلَبِّدًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ پڑھتے سنا اور آپ اپنے سر کی تلبید ۱؎ کئے ہوئے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
2001
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَمْ يَرْمُلْ فِي السَّبْعِ الَّذِي أَفَاضَ فِيهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کے سات پھیروں میں رمل نہیں کیا ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2292
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَقَدْ عَابَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَشَدَّ الْعَيْبِ يَعْنِي حَدِيثَ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، وَقَالَتْ: إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحْشٍ فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا، فَلِذَلِكَ رَخَّصَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث پر سخت نکیر کرتی تھیں اور کہتی تھیں: چونکہ فاطمہ ایک ویران مکان میں رہتی تھیں جس کی وجہ سے ان کے بارے میں خدشہ لاحق ہوا اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (مکان بدلنے کی) رخصت دی تھی۔
حسن
سنن ابي داود
2394
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ. حدَّثَهُ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ. حدَّثَهُ أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ. حدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: أَتَى رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، احْتَرَقْتُ. فَسَأَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَأْنُهُ. قَالَ:" أَصَبْتُ أَهْلِي. قَالَ: تَصَدَّقْ. قَالَ: وَاللَّهِ مَا لِي شَيْءٌ وَلَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ. قَالَ: اجْلِسْ. فَجَلَسَ، فَبَيْنَمَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ أَقْبَلَ رَجُلٌ يَسُوقُ حِمَارًا عَلَيْهِ طَعَامٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ آنِفًا؟ فَقَامَ الرَّجُلُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْ بِهَذَا. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعَلَى غَيْرِنَا؟ فَوَاللَّهِ إِنَّا لَجِيَاعٌ مَا لَنَا شَيْءٌ. قَالَ: كُلُوهُ".
عباد بن عبداللہ بن زبیر کا بیان ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص رمضان میں مسجد کے اندر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں تو بھسم ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگا: میں نے اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ کر دو، وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم! میرے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، اور نہ میرے اندر استطاعت ہے، فرمایا: بیٹھ جاؤ، وہ بیٹھ گیا، اتنے میں ایک شخص غلے سے لدا ہوا گدھا ہانک کر لایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی بھسم ہونے والا کہاں ہے؟ وہ شخص کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے صدقہ کر دو، بولا: اللہ کے رسول! کیا اپنے علاوہ کسی اور پر صدقہ کروں؟ اللہ کی قسم! ہم بھوکے ہیں، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، فرمایا: اسے تم ہی کھا لو۔
صحيح
سنن ابي داود
2445
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، أَنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ أُمَيَّةَ الْقُرَشِيَّ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَطَفَانَ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: حِينَ صَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَنَا بِصِيَامِهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ صُمْنَا يَوْمَ التَّاسِعِ". فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا اور ہمیں بھی اس کے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے کہ یہود و نصاری اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگلے سال ہم نویں محرم کا بھی روزہ رکھیں گے، لیکن آئندہ سال نہیں آیا کہ آپ وفات فرما گئے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2465
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، أَنَّ نَافِعًا، أَخْبَرَهُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ". قَالَ نَافِعٌ: وَقَدْ أَرَانِي عَبْدُ اللَّهِ الْمَكَانَ الَّذِي كَانَ يَعْتَكِفُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَسْجِدِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے۔ نافع کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمر نے مجھے مسجد کے اندر وہ جگہ دکھائی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کیا کرتے تھے۔
صحيح م خ دون قول نافع وقد
سنن ابي داود
2642
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ الْمُشْرِكِينَ بِمَعْنَاهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مشرکوں سے قتال کروں، پھر آگے اسی مفہوم کی حدیث ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2879
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بِنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ صَدَقَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: نَسَخَهَا لِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا مَا كَتَبَ عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ فِي ثَمْغٍ فَقَصَّ مِنْ خَبَرِهِ نَحْوَ حَدِيثِ نَافِعٍ قَالَ: غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا فَمَا عَفَا عَنْهُ مِنْ ثَمَرِهِ فَهُوَ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ، قَالَ: وَسَاقَ الْقِصَّةَ قَالَ: وَإِنْ شَاءَ وَلِيُّ ثَمْغٍ اشْتَرَى مِنْ ثَمَرِهِ رَقِيقًا لِعَمَلِهِ وَكَتَبَ مُعَيْقِيبٌ وَشَهِدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الأَرْقَمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا مَا أَوْصَى بِهِ عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ، أَنَّ ثَمْغًا، وَصِرْمَةَ بْنَ الأَكْوَعِ، وَالْعَبْدَ الَّذِي فِيهِ، وَالْمِائَةَ سَهْمٍ الَّتِي بِخَيْبَرَ، وَرَقِيقَهُ الَّذِي فِيهِ، وَالْمِائَةَ الَّتِي أَطْعَمَهُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْوَادِي تَلِيهِ حَفْصَةُ مَا عَاشَتْ، ثُمَّ يَلِيهِ ذُو الرَّأْيِ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ لَا يُبَاعَ وَلَا يُشْتَرَى يُنْفِقُهُ حَيْثُ رَأَى مِنَ السَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ وَذَوِي الْقُرْبَى وَلَا حَرَجَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ إِنْ أَكَلَ أَوْ آكَلَ أَوِ اشْتَرَى رَقِيقًا مِنْهُ.
یحییٰ بن سعید سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صدقہ کے متعلق روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ عبدالحمید بن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب نے مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صدقے کی کتاب نقل کر کے دی، اس میں یوں لکھا ہوا تھا: «بسم الله الرحمن الرحيم»، یہ وہ کتاب ہے جسے اللہ کے بندے عمر نے ثمغ (اس مال یا باغ کا نام ہے جس کو عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ یا خیبر میں وقف کیا تھا) کے متعلق لکھا ہے، پھر وہی تفصیل بیان کی جو نافع کی حدیث میں ہے اس میں ہے: مال جوڑنے والے نہ ہوں، جو پھل اس سے گریں وہ مانگنے اور نہ مانگنے والے فقیروں اور محتاجوں کے لیے ہیں، راوی کہتے ہیں: اور انہوں نے پورا قصہ بیان کیا، اور کہا کہ: ثمغ کا متولی پھلوں کے بدلے (باغ کے) کام کاج کے لیے غلام خریدنا چاہے تو اس کے پھل سے خرید سکتا ہے، معیقیب نے اسے لکھا اور عبداللہ بن ارقم نے اس بات کی یوں گواہی دی۔ «بسم الله الرحمن الرحيم»، یہ وہ وصیت نامہ ہے جس کی اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی اگر مجھے کوئی حادثہ پیش آ جائے (یعنی مر جاؤں) تو ثمغ اور صرمہ بن اکوع اور غلام جو اس میں ہے اور خیبر کے میرے سو حصے اور جو غلام وہاں ہیں اور میرے سو وہ حصے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خیبر سے قریب کی وادی میں دیئے تھے ان سب کی متولیہ تاحیات حفصہ رہیں گی، حفصہ کے بعد ان کے اہل میں سے جو صاحب رائے ہو گا وہ متولی ہو گا لیکن کوئی چیز نہ بیچی جائے گی، نہ خریدی جائے گی، سائل و محروم اور اقرباء پر ان کی ضروریات کو دیکھ کر خرچ کیا جائے گا، ان کا متولی اگر اس میں سے کھائے یا کھلائے یا ان کی حفاظت و خدمت کے لیے ان کی آمدنی سے غلام خرید لے تو کوئی حرج و مضائقہ نہیں۔
صحيح وجادة
سنن ابي داود
3008
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا افْتُتِحَتْ خَيْبَرُ، سَأَلَتْ يَهُودُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقِرَّهُمْ عَلَى أَنْ يَعْمَلُوا عَلَى النِّصْفِ مِمَّا خَرَجَ مِنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أُقِرُّكُمْ فِيهَا عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا فَكَانُوا عَلَى ذَلِكَ"، وَكَانَ التَّمْرُ يُقْسَمُ عَلَى السُّهْمَانِ مِنْ نِصْفِ خَيْبَرَ وَيَأْخُذُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخُمُسَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْعَمَ كُلَّ امْرَأَةٍ مِنْ أَزْوَاجِهِ مِنَ الْخُمُسِ مِائَةَ وَسْقٍ تَمْرًا وَعِشْرِينَ وَسْقًا شَعِيرًا، فَلَمَّا أَرَادَ عُمَرُ إِخْرَاجَ الْيَهُودِ أَرْسَلَ إِلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُنَّ: مَنْ أَحَبَّ مِنْكُنَّ أَنْ أَقْسِمَ لَهَا نَخْلًا بِخَرْصِهَا مِائَةَ وَسْقٍ فَيَكُونَ لَهَا أَصْلُهَا وَأَرْضُهَا وَمَاؤُهَا وَمِنَ الزَّرْعِ مَزْرَعَةَ خَرْصٍ عِشْرِينَ وَسْقًا، فَعَلْنَا وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ نَعْزِلَ الَّذِي لَهَا فِي الْخُمُسِ كَمَا هُوَ فَعَلْنَا.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ: آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیداوار ہو گی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ہم تمہیں اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چاہیں گے رکھیں گے،، چنانچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے پانچواں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سو وسق کھجور اور بیس وسق جو (سال بھر میں) دیتے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہود کو نکال دینے کا ارادہ کر لیا تو امہات المؤمنین کو کہلا بھیجا کہ آپ میں سے جس کا جی چاہے کہ میں اس کو اتنے درخت دے دوں جن میں سے سو وسق کھجور نکلیں مع جڑ کھجور اور پانی کے اور اسی طرح کھیتی میں سے اس قدر زمین دے دوں جس میں بیس وسق جو پیدا ہو، تو میں دے دوں اور جو پسند کرے کہ میں خمس میں سے اس کا حصہ نکالا کروں جیسا کہ ہے تو میں ویسا ہی نکالا کروں گا۔
حسن الإسناد
سنن ابي داود
3045
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَجَدَ رَجُلًا وَهُوَ عَلَى حِمْصَ يُشَمِّسُ نَاسًا مِنَ الْقِبْطِ فِي أَدَاءِ الْجِزْيَةِ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا".
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما نے حمص کے ایک عامل (محصل) کو دیکھا کہ وہ کچھ قبطیوں (عیسائیوں) سے جزیہ وصول کرنے کے لیے انہیں دھوپ میں کھڑا کر کے تکلیف دے رہا تھا، تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ اللہ عزوجل ایسے لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیا کرتے ہیں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3052
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ الْمَدِينِيُّ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ سُلَيْمٍ، أَخْبَرَهُ عَنْ عِدَّةٍ، مِنْ أَبْنَاءِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَن آبَائِهِمْ دِنْيَةً، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوصخر مدینی کا بیان ہے کہ صفوان بن سلیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے کچھ بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے آبائ سے (جو ایک دوسرے کے عزیز تھے) اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے وکیل ۱؎ ہوں گا۔
صحيح
سنن ابي داود
3068
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَبْرَةُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ الرَّبِيعِ الْجُهَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ فِي مَوْضِعِ الْمَسْجِدِ تَحْتَ دَوْمَةٍ، فَأَقَامَ ثَلَاثًا ثُمَّ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَإِنَّ جُهَيْنَةَ لَحِقُوهُ بِالرَّحْبَةِ فَقَالَ لَهُمْ:" مَنْ أَهْلُ ذِي الْمَرْوَةِ؟ فَقَالُوا: بَنُو رِفَاعَةَ مِنْ جُهَيْنَةَ فَقَالَ: قَدْ أَقْطَعْتُهَا لِبَنِي رِفَاعَةَ فَاقْتَسَمُوهَا فَمِنْهُمْ مَنْ بَاعَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَمْسَكَ فَعَمِلَ"، ثُمَّ سَأَلْتُ أَبَاهُ عَبْدَ الْعَزِيزِ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِي بِبَعْضِهِ وَلَمْ يُحَدِّثْنِي بِهِ كُلِّهِ.
ربیع جہنی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ جہاں اب مسجد ہے ایک بڑے درخت کے نیچے پڑاؤ کیا، وہاں تین دن قیام کیا، پھر تبوک ۱؎ کے لیے نکلے، اور جہینہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وسیع میدان میں جا کر ملے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: مروہ والوں میں سے یہاں کون رہتا ہے؟، لوگوں نے کہا: بنو رفاعہ کے لوگ رہتے ہیں جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:،، میں یہ زمین (علاقہ) بنو رفاعہ کو بطور جاگیر دیتا ہوں تو انہوں نے اس زمین کو آپس میں بانٹ لیا، پھر کسی نے اپنا حصہ بیچ ڈالا اور کسی نے اپنے لیے روک لیا، اور اس میں محنت و مشقت (یعنی زراعت) کی۔ ابن وہب کہتے ہیں: میں نے پھر اس حدیث کے متعلق سبرہ کے والد عبدالعزیز سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اس کا کچھ حصہ بیان کیا پورا بیان نہیں کیا۔
حسن الإسناد
سنن ابي داود
3139
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ: بِهَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ.
اس سند سے بھی لیث سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک ساتھ ایک ہی کپڑے میں دفن کرتے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
3342
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْقُرَشِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَةَ بْنَ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ، يَقُولُ: عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" إِنَّ أَعْظَمَ الذُّنُوبِ عِنْدَ اللَّهِ، أَنْ يَلْقَاهُ بِهَا عَبْدٌ بَعْدَ الْكَبَائِرِ الَّتِي نَهَى اللَّهُ عَنْهَا، أَنْ يَمُوتَ رَجُلٌ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، لَا يَدَعُ لَهُ قَضَاءً".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ان کبائر کے بعد جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی مرے اور اس پر قرض ہو اور وہ کوئی ایسی چیز نہ چھوڑے جس سے اس کا قرض ادا ہو۔
ضعيف
سنن ابي داود
3471
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ الْحَكَمِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ:" الْجَوَائِحُ كُلُّ ظَاهِرٍ مُفْسِدٍ مِنْ مَطَرٍ، أَوْ بَرَدٍ، أَوْ جَرَادٍ، أَوْ رِيحٍ، أَوْ حَرِيقٍ".
عطاء کہتے ہیں «جائحہ» ہر وہ آفت و مصیبت ہے جو بالکل کھلی ہوئی اور واضح ہو جس کا کوئی انکار نہ کر سکے، جیسے بارش بہت زیادہ ہو گئی ہو، پالا پڑ گیا ہو، ٹڈیاں آ کر صاف کر گئی ہوں، آندھی آ گئی ہو، یا آگ لگ گئی ہو۔
حسن مقطوع
سنن ابي داود
3472
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ الْحَكَمِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ قَالَ:" لَا جَائِحَةَ فِيمَا أُصِيبَ دُونَ ثُلُثِ رَأْسِ الْمَالِ". قَالَ يَحْيَى: وَذَلِكَ فِي سُنَّةِ الْمُسْلِمِينَ.
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں راس المال کے ایک تہائی سے کم مال پر آفت آئے تو اسے آفت نہیں کہیں گے۔ یحییٰ کہتے ہیں: مسلمانوں میں یہی طریقہ مروج ہے ۱؎۔
حسن مقطوع
سنن ابي داود
3521
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَنِ يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ مَالِكٍ، زَادَ وَإِنْ قَضَى مِنْ ثَمَنِهَا شَيْئًا فَهُوَ أُسْوَةُ الْغُرَمَاءِ فِيهَا.
یونس، ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔۔۔ پھر آگے انہوں نے مالک کی حدیث جیسی روایت ذکر کی، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ اگر مشتری اس مال کی کسی قدر قیمت دے چکا ہے، تو وہ مال والا دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہو گا۔
صحيح
سنن ابي داود
3540
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَثَلُ الَّذِي يَسْتَرِدُّ مَا وَهَبَ كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَقِيءُ فَيَأْكُلُ قَيْئَهُ، فَإِذَا اسْتَرَدَّ الْوَاهِبُ فَلْيُوَقَّفْ، فَلْيُعَرَّفْ بِمَا اسْتَرَدَّ، ثُمَّ لِيُدْفَعْ إِلَيْهِ مَا وَهَبَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہدیہ دے کر واپس لے لینے والے کی مثال کتے کی ہے جو قے کر کے اپنی قے کھا لیتا ہے، تو جب ہدیہ دینے والا واپس مانگے تو پانے والے کو ٹھہر کر پوچھنا چاہیئے کہ وہ واپس کیوں مانگ رہا ہے، (اگر بدل نہ ملنا سبب ہو تو بدل دیدے یا اور کوئی وجہ ہو تو) پھر اس کا دیا ہوا اسے لوٹا دے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3586
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَوَ هُوَ عَلَى الْمِنْبَر:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الرَّأْيَ إِنَّمَا كَانَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصِيبًا لِأَنَّ اللَّهَ كَانَ يُرِيهِ وَإِنَّمَا هُوَ مِنَّا الظَّنُّ وَالتَّكَلُّفُ".
ابن شہاب کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر فرمایا: لوگو! رائے تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درست تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کو سجھاتا تھا، اور ہماری رائے محض ایک گمان اور تکلف ہے ۱؎۔
ضعيف مقطوع
سنن ابي داود
3655
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" أَلَا يُعْجِبُكَ أَبُو هُرَيْرَةَ؟ جَاءَ فَجَلَسَ إِلَى جَانِبِ حُجْرَتِي يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْمِعُنِي ذَلِكَ، وَكُنْتُ أُسَبِّحُ، فَقَامَ قَبْلَ أَنْ أَقْضِيَ سُبْحَتِي، وَلَوْ أَدْرَكْتُهُ لَرَدَدْتُ عَلَيْهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَسْرُدُ الْحَدِيثَ مِثْلَ سَرْدِكُمْ".
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا تمہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر تعجب نہیں کہ وہ آئے اور میرے حجرے کے ایک جانب بیٹھے اور مجھے سنانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے لگے، میں نفل نماز پڑھ رہی تھی، تو وہ قبل اس کے کہ میں اپنی نماز سے فارغ ہوتی اٹھے (اور چلے گئے) اور اگر میں انہیں پاتی تو ان سے کہتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری طرح جلدی جلدی باتیں نہیں کرتے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
4163
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ، فَلْيُكْرِمْهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس بال ہوں تو اسے چاہیئے کہ وہ انہیں اچھی طرح رکھے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4291
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ شَرَاحِيلَ بْنِ يَزِيدَ الْمُعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِيمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ الْإِسْكَنْدَرَانِيُّ لَمْ يَجُزْ بِهِ شَرَاحِيلَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔
صحيح
سنن ابي داود
4376
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ جُرَيْجٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" تَعَافُّوا الْحُدُودَ فِيمَا بَيْنَكُمْ فَمَا بَلَغَنِي مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حدود کو آپس میں نظر انداز کرو، جب حد میں سے کوئی چیز میرے پاس پہنچ گئی تو وہ واجب ہو گئی (اسے معاف نہیں کیا جا سکتا)۔
صحيح
سنن ابي داود
4487
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ الْمِصْرِيُّ ابْنُ أَخِي رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْآنَ وَهُوَ فِي الرِّحَالِ يَلْتَمِسُ رَحْلَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ، فَقَالَ لِلنَّاسِ: اضْرِبُوهُ، فَمِنْهُمْ مَنْ ضَرَبَهُ بِالنِّعَالِ وَمِنْهُمْ مَنْ ضَرَبَهُ بِالْعَصَا وَمِنْهُمْ مَنْ ضَرَبَهُ بِالْمِيتَخَةِ، قَالَ ابْنُ وَهْبٍ: الْجَرِيدَةُ الرَّطْبَةُ، ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُرَابًا مِنَ الْأَرْضِ فَرَمَى بِهِ فِي وَجْهِهِ".
عبدالرحمٰن بن ازہر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گویا میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں آپ کجاؤں کے درمیان میں کھڑے تھے، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا کجاوہ ڈھونڈ رہے تھے، آپ اسی حالت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا: اسے مارو، تو کسی نے جوتے سے، کسی نے چھڑی سے، اور کسی نے کھجور کی ٹہنی سے اسے مارا (ابن وہب کہتے ہیں) «ميتخة» کے معنی کھجور کی تر ٹہنی کے ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین سے مٹی لی اور اس کے چہرے پر ڈال دی۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4510
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ:" أَنَّ يَهُودِيَّةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَّةً ثُمَّ أَهْدَتْهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذِّرَاعَ فَأَكَلَ مِنْهَا وَأَكَلَ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ، وَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَدَعَاهَا، فَقَالَ لَهَا: أَسَمَمْتِ هَذِهِ الشَّاةَ، قَالَتِ الْيَهُودِيَّةُ: مَنْ أَخْبَرَكَ؟ قَالَ: أَخْبَرَتْنِي هَذِهِ فِي يَدِي لِلذِّرَاعِ، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا أَرَدْتِ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَتْ: قُلْتُ إِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلَنْ يَضُرَّهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا اسْتَرَحْنَا مِنْهُ، فَعَفَا عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُعَاقِبْهَا، وَتُوُفِّيَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ الَّذِينَ أَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ، وَاحْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كَاهِلِهِ مِنْ أَجْلِ الَّذِي أَكَلَ مِنَ الشَّاةِ، حَجَمَهُ أَبُو هِنْدٍ بِالْقَرْنِ وَالشَّفْرَةِ، وَهُوَ مَوْلًى لِبَنِي بَيَاضَةَ مِنْ الْأَنْصَارِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی بکری میں زہر ملایا، پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں بھیجا، آپ نے دست کا گوشت لے کر اس میں سے کچھ کھایا، آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی کھایا، پھر ان سے آپ نے فرمایا: اپنے ہاتھ روک لو اور آپ نے اس یہودیہ کو بلا بھیجا، اور اس سے سوال کیا: کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟ یہودیہ بولی: آپ کو کس نے بتایا؟ آپ نے فرمایا: دست کے اسی گوشت نے مجھے بتایا جو میرے ہاتھ میں ہے وہ بولی: ہاں (میں نے ملایا تھا)، آپ نے پوچھا: اس سے تیرا کیا ارادہ تھا؟ وہ بولی: میں نے سوچا: اگر نبی ہوں گے تو زہر نقصان نہیں پہنچائے گا، اور اگر نہیں ہوں گے تو ہم کو ان سے نجات مل جائے گی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا، کوئی سزا نہیں دی، اور آپ کے بعض صحابہ جنہوں نے بکری کا گوشت کھایا تھا انتقال کر گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے گوشت کھانے کی وجہ سے اپنے شانوں کے درمیان پچھنے لگوائے، جسے ابوہند نے آپ کو سینگ اور چھری سے لگایا، ابوہند انصار کے قبیلہ بنی بیاضہ کے غلام تھے۔
ضعيف
سنن ابي داود
4845
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر گھس کر دونوں میں جدائی ڈال دے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4974
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: الْكَرْمَ، فَإِنَّ الْكَرْمَ: الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ، وَلَكِنْ قُولُوا: حَدَائِقَ الْأَعْنَابِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی (انگور اور اس کے باغ کو) «كرم» نہ کہے ۱؎، اس لیے کہ «كرم» مسلمان مرد کو کہتے ہیں ۲؎، بلکہ اسے انگور کے باغ کہو۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.