سنن ابي داود
أحمد بن صالح المصري (حدثنا / عن) عبد الله بن وهب القرشي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
147
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي مَعْقِلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ قِطْرِيَّةٌ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ مِنْ تَحْتِ الْعِمَامَةِ فَمَسَحَ مُقَدَّمَ رَأْسِهِ وَلَمْ يَنْقُضْ الْعِمَامَةَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا، آپ کے سر مبارک پر قطری (یعنی قطر بستی کا بنا ہوا) عمامہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ عمامہ (پگڑی) کے نیچے داخل کیا اور عمامہ (پگڑی) کھولے بغیر اپنے سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔
ضعيف
سنن ابي داود
149
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عَبَّادُ بْنُ زِيَادٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ الْمُغِيرَةَ يَقُولُ:" عَدَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ قَبْلَ الْفَجْرِ، فَعَدَلْتُ مَعَهُ، فَأَنَاخَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَرَّزَ، ثُمَّ جَاءَ فَسَكَبْتُ عَلَى يَدِهِ مِنَ الْإِدَاوَةِ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ، ثُمَّ حَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ فَضَاقَ كُمَّا جُبَّتِهِ فَأَدْخَلَ يَدَيْهِ فَأَخْرَجَهُمَا مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ فَغَسَلَهُمَا إِلَى الْمِرْفَقِ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ رَكِبَ، فَأَقْبَلْنَا نَسِيرُ حَتَّى نَجِدَ النَّاسَ فِي الصَّلَاةِ قَدْ قَدَّمُوا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ فَصَلَّى بِهِمْ حِينَ كَانَ وَقْتُ الصَّلَاةِ، وَوَجَدْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَقَدْ رَكَعَ بِهِمْ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَفَّ مَعَ الْمُسْلِمِينَ فَصَلَّى وَرَاءَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ الرَّكْعَةَ الثَّانِيَةَ، ثُمَّ سَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاتِهِ، فَفَزِعَ الْمُسْلِمُونَ فَأَكْثَرُوا التَّسْبِيحَ لِأَنَّهُمْ سَبَقُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ، فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُمْ: قَدْ أَصَبْتُمْ، أَوْ قَدْ أَحْسَنْتُمْ".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں فجر سے پہلے مڑے، میں آپ کے ساتھ تھا، میں بھی مڑا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ بٹھایا اور قضائے حاجت کی، پھر آئے تو میں نے چھوٹے برتن (لوٹے) سے آپ کے ہاتھ پر پانی ڈالا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پہونچے دھوئے، پھر اپنا چہرہ دھویا، پھر آستین سے دونوں ہاتھ نکالنا چاہا مگر جبے کی آستین تنگ تھی اس لیے آپ نے ہاتھ اندر کی طرف کھینچ لیا، اور انہیں جبے کے نیچے سے نکالا، پھر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، اور اپنے سر کا مسح کیا، پھر دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر سوار ہو گئے، پھر ہم چل پڑے، یہاں تک کہ ہم نے لوگوں کو نماز کی حالت میں پایا، ان لوگوں نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو (امامت کے لیے) آگے بڑھا رکھا تھا، انہوں نے حسب معمول وقت پر لوگوں کو نماز پڑھائی، جب ہم پہنچے تو عبدالرحمٰن بن عوف فجر کی ایک رکعت پڑھا چکے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ صف میں شریک ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف کے پیچھے دوسری رکعت پڑھی، پھر جب عبدالرحمٰن نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، یہ دیکھ کر مسلمان گھبرا گئے، اور لوگ سبحان اللہ کہنے لگے، کیونکہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نماز شروع کر دی تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ان سے فرمایا: تم لوگوں نے ٹھیک کیا، یا فرمایا: تم لوگوں نے اچھا کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
214
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي بَعْضُ مَنْ أَرْضَي، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ ذَلِكَ رُخْصَةً لِلنَّاسِ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ لِقِلَّةِ الثِّيَابِ، ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُسْلِ وَنَهَى عَنْ ذَلِكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: يَعْنِي الْمَاءَ مِنَ الْمَاءِ.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ رخصت ابتدائے اسلام میں کپڑوں کی کمی کی وجہ سے دی تھی (کہ اگر کوئی دخول کرے اور انزال نہ ہو تو غسل واجب نہ ہو گا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دخول کرنے اور انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل کرنے کا حکم فرما دیا، اور غسل نہ کرنے کو منع فرما دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نهى عن ذلك» یعنی ممانعت سے مراد «الماء من الماء» (غسل منی نکلنے کی صورت میں واجب ہے) والی حدیث پر عمل کرنے سے منع کر دیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
217
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ"، وَكَانَ أَبُو سَلَمَةَ يَفْعَلُ ذَلِكَ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی پانی سے ہے (یعنی منی نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے) اور ابوسلمہ ایسا ہی کرتے تھے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
318
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، حَدَّثَهُ عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ،" أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّهُمْ تَمَسَّحُوا وَهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّعِيدِ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ، فَضَرَبُوا بِأَكُفِّهِمُ الصَّعِيدَ ثُمَّ مَسَحُوا وُجُوهَهُمْ مَسْحَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ عَادُوا فَضَرَبُوا بِأَكُفِّهِمُ الصَّعِيدَ مَرَّةً أُخْرَى فَمَسَحُوا بِأَيْدِيهِمْ كُلِّهَا إِلَى الْمَنَاكِبِ وَالْآبَاطِ مِنْ بُطُونِ أَيْدِيهِمْ".
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ لوگوں نے فجر کی نماز کے لیے پاک مٹی سے تیمم کیا، یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو انہوں نے مٹی پر اپنا ہاتھ مارا اور منہ پر ایک دفعہ پھیر لیا، پھر دوبارہ مٹی پر ہاتھ مارا اور اپنے پورے ہاتھوں پر پھیر لیا یعنی اپنی ہتھیلیوں سے لے کر کندھوں اور بغلوں تک ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
382
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ:" كُنْتُ أَبِيتُ فِي الْمَسْجِدِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُنْتُ فَتًى شَابًّا عَزَبًا، وَكَانَتْ الْكِلَابُ تَبُولُ وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رات کو مسجد میں سوتا تھا، میں ایک نوجوان کنوارا (غیر شادی شدہ) تھا، اور کتے مسجد میں آتے جاتے اور پیشاب کرتے، کوئی اس پر پانی نہ بہاتا تھا ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
435
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ فَسَارَ لَيْلَةً حَتَّى إِذَا أَدْرَكَنَا الْكَرَى عَرَّسَ، وَقَالَ لِبِلَالٍ: اكْلَأْ لَنَا اللَّيْلَ، قَالَ: فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَيْنَاهُ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا بِلَالٌ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا، فَفَزِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا بِلَالُ، فَقَالَ: أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاقْتَادُوا رَوَاحِلَهُمْ شَيْئًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ لَهُمُ الصَّلَاةَ وَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ: مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَالَ: 0 أَقِمْ الصَّلَاةَ لِلذِّكْرَى 0"، قَالَ يُونُسُ: وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ يَقْرَؤُهَا كَذَلِكَ، قَالَ أَحْمَدُ: قَالَ عَنْبَسَةُ يَعْنِي عَنْ يُونُسَ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ: لِذِكْرِي، قَالَ أَحْمَدُ: الْكَرَى النُّعَاسُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت غزوہ خیبر سے لوٹے تو رات میں چلتے رہے، یہاں تک کہ جب ہمیں نیند آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیر رات میں پڑاؤ ڈالا، اور بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: (تم جاگتے رہنا) اور رات میں ہماری نگہبانی کرنا، ابوہریرہ کہتے ہیں کہ بلال بھی سو گئے، وہ اپنی سواری سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نہ بلال رضی اللہ عنہ، اور نہ آپ کے اصحاب میں سے کوئی اور ہی، یہاں تک کہ جب ان پر دھوپ پڑی تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر بیدار ہوئے اور فرمایا: اے بلال! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بھی اسی چیز نے گرفت میں لے لیا جس نے آپ کو لیا، پھر وہ لوگ اپنی سواریاں ہانک کر آگے کچھ دور لے گئے ۱؎، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی، جب نماز پڑھا چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب بھی یاد آئے اسے پڑھ لے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: نماز قائم کرو جب یاد آئے۔ یونس کہتے ہیں: ابن شہاب اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے (یعنی «للذكرى» لیکن مشہور قرأت: «أقم الصلاة للذكرى» (سورۃ طہٰ: ۱۴) ہے)۔ احمد کہتے ہیں: عنبسہ نے یونس سے روایت کرتے ہوئے اس حدیث میں «للذكرى» کہا ہے۔ احمد کہتے ہیں: «الكرى» «نعاس» (اونگھ) کو کہتے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
481
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ الْجُذَامِيِّ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَيْوَانَ، عَنْ أَبِي سَهْلَةَ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادٍ، قَالَ أَحْمَدُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّ رَجُلًا أَمَّ قَوْمًا فَبَصَقَ فِي الْقِبْلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَ: لَا يُصَلِّي لَكُمْ، فَأَرَادَ بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ يُصَلِّيَ لَهُمْ فَمَنَعُوهُ وَأَخْبَرُوهُ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: نَعَمْ، وَحَسِبْتُ أَنَّهُ، قَالَ: إِنَّكَ آذَيْتَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ".
ابو سہلہ سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (احمد کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں) کہ ایک شخص نے کچھ لوگوں کی امامت کی تو قبلہ کی جانب تھوک دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ رہے تھے، جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شخص اب تمہاری امامت نہ کرے، اس کے بعد اس نے نماز پڑھانی چاہی تو لوگوں نے اسے امامت سے روک دیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، (میں نے منع کیا ہے)، صحابی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: تم نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے۔
حسن
سنن ابي داود
594
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الصَّلَاةُ الْمَكْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے چاہے وہ نیک ہو یا بد اگرچہ وہ کبائر کا مرتکب ہو۔
ضعيف
سنن ابي داود
816
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ جُهَيْنَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْرَأُ فِي الصُّبْحِ: إِذَا زُلْزِلَتِ الأَرْضُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا". فَلَا أَدْرِي أَنَسِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْ قَرَأَ ذَلِكَ عَمْدًا.
معاذ بن عبداللہ جہنی کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کے ایک آدمی نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی دونوں رکعتوں میں «إذا زلزلت الأرض» پڑھتے ہوئے سنا، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے تھے یا آپ نے عمداً اسے پڑھا۔
حسن
سنن ابي داود
873
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: قُمْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً" فَقَامَ فَقَرَأَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ لَا يَمُرُّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ فَسَأَلَ، وَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ فَتَعَوَّذَ، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ بِقَدْرِ قِيَامِهِ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ، ثُمَّ سَجَدَ بِقَدْرِ قِيَامِهِ، ثُمَّ قَالَ فِي سُجُودِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ بِآلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَرَأَ سُورَةً سُورَةً".
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (نماز پڑھنے کے لیے) کھڑا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے سورۃ البقرہ پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی رحمت والی آیت سے نہیں گزرتے مگر وہاں ٹھہرتے اور سوال کرتے، اور کسی عذاب والی آیت سے نہیں گزرتے مگر وہاں ٹھہرتے اور اس سے پناہ مانگتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قیام کے بقدر لمبا رکوع کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع میں: «سبحان ذي الجبروت والملكوت والكبرياء والعظمة» پڑھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قیام کے بقدر لمبا سجدہ کیا، سجدے میں بھی آپ نے وہی دعا پڑھی، جو رکوع میں پڑھی تھی پھر اس کے بعد کھڑے ہوئے اور سورۃ آل عمران پڑھی، پھر (بقیہ رکعتوں میں) ایک ایک سورۃ پڑھی۔
صحيح
سنن ابي داود
882
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ وَقُمْنَا مَعَهُ، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ فِي الصَّلَاةِ: اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي، وَمُحَمَّدًا، وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا، فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِلْأَعْرَابِيِّ:" لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا يُرِيدُ رَحْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے، ایک دیہاتی نے نماز میں کہا: «اللهم ارحمني ومحمدا ولا ترحم معنا أحدا» اے اللہ! تو مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو اس دیہاتی سے فرمایا: تم نے ایک وسیع چیز کو تنگ کر دیا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی رحمت مراد لے رہے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
909
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْأَحْوَصِ يُحَدِّثُنَا فِي مَجْلِسِ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَزَالُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُقْبِلًا عَلَى الْعَبْدِ وَهُوَ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ، فَإِذَا الْتَفَتَ انْصَرَفَ عَنْهُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ حالت نماز میں بندے پر اس وقت تک متوجہ رہتا ہے جب تک کہ وہ ادھر ادھر نہیں دیکھتا ہے، پھر جب وہ ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے منہ پھیر لیتا ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
1044
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهِ فِي مَسْجِدِي هَذَا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کی نماز اس کے اپنے گھر میں اس کی میری اس مسجد میں نماز سے افضل ہے سوائے فرض نماز کے۔
صحيح
سنن ابي داود
1048
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، أَنَّ الْجُلَاحَ مَوْلَى عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" يَوْمُ الْجُمُعَةِ ثِنْتَا عَشْرَةَ يُرِيدُ سَاعَةً لَا يُوجَدُ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا إِلَّا أَتَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَالْتَمِسُوهَا آخِرَ سَاعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کا دن بارہ ساعت (گھڑی) کا ہے، اس میں ایک ساعت (گھڑی) ایسی ہے کہ کوئی مسلمان اس ساعت کو پا کر اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے تو اللہ اسے ضرور دیتا ہے، لہٰذا تم اسے عصر کے بعد آخری ساعت (گھڑی) میں تلاش کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
1049
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ يَعْنِي ابْنَ بُكَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: أَسَمِعْتَ أَبَاكَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَأْنِ الْجُمُعَةِ؟ يَعْنِي السَّاعَةَ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" هِيَ مَا بَيْنَ أَنْ يَجْلِسَ الْإِمَامُ إِلَى أَنْ تُقْضَى الصَّلَاةُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: يَعْنِي عَلَى الْمِنْبَرِ.
ابوبردہ بن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے پوچھا: کیا تم نے اپنے والد سے جمعہ کے معاملہ میں یعنی قبولیت دعا والی گھڑی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے کچھ سنا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں نے سنا ہے، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ وہ (ساعت) امام کے بیٹھنے سے لے کر نماز کے ختم ہونے کے درمیان ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یعنی منبر پر (بیٹھنے سے لے کر)۔
ضعيف والمحفوظ موقوف
سنن ابي داود
1055
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ الْجُمُعَةَ مِنْ مَنَازِلِهِمْ، وَمِنَ الْعَوَالِي.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ جمعہ کے لیے اپنے اپنے گھروں سے اور عوالی ۱؎ سے باربار آتے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
1224
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَيَّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ عَلَيْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نفل پڑھتے تھے، خواہ آپ کسی بھی طرف متوجہ ہوتے اور اسی پر وتر پڑھتے، البتہ اس پر فرض نماز نہیں پڑھتے تھے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1273
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَرْسَلُوهُ إِلَى عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِيعًا وَسَلْهَا عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقُلْ: إِنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّكِ تُصَلِّينَهُمَا، وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْهُمَا"، فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا فَبَلَّغْتُهَا مَا أَرْسَلُونِي بِهِ، فَقَالَتْ: سَلْ أُمَّ سَلَمَةَ، فَخَرَجْتُ إِلَيْهِمْ فَأَخْبَرْتُهُمْ بِقَوْلِهَا، فَرَدُّونِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُونِي بِهِ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهُمَا ثُمَّ رَأَيْتُهُ يُصَلِّيهِمَا، أَمَّا حِينَ صَلَّاهُمَا فَإِنَّهُ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ وَعِنْدِي نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي حَرَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَصَلَّاهُمَا، فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ الْجَارِيَةَ، فَقُلْتُ: قُومِي بِجَنْبِهِ، فَقُولِي لَهُ: تَقُولُ أُمُّ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْمَعُكَ تَنْهَى عَنْ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ وَأَرَاكَ تُصَلِّيهِمَا، فَإِنْ أَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخِرِي عَنْهُ، قَالَتْ: فَفَعَلَتِ الْجَارِيَةُ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ، فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" يَا بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ، سَأَلْتِ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، إِنَّهُ أَتَانِي نَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ بِالْإِسْلَامِ مِنْ قَوْمِهِمْ فَشَغَلُونِي عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ فَهُمَا هَاتَانِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس، عبدالرحمٰن بن ازہر رضی اللہ عنہ اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ تینوں نے انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور کہا: ان سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعت نفل کے بارے میں پوچھنا اور کہنا: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ یہ دو رکعتیں پڑھتی ہیں، حالانکہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع فرمایا ہے، چنانچہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور انہیں ان لوگوں کا پیغام پہنچا دیا، آپ نے کہا: ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو! میں ان لوگوں کے پاس آیا اور ان کی بات انہیں بتا دی، تو ان سب نے مجھے ام المؤمنین ام سلمہ کے پاس اسی پیغام کے ساتھ بھیجا، جس کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تھا، تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا، پھر دیکھا کہ آپ انہیں پڑھ رہے ہیں، ایک روز آپ نے عصر پڑھی پھر میرے پاس آئے، اس وقت میرے پاس انصار کے قبیلہ بنی حرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، آپ نے یہ دونوں رکعتیں پڑھنا شروع کیں تو میں نے ایک لڑکی کو آپ کے پاس بھیجا اور اس سے کہا کہ تو جا کر آپ کے بغل میں کھڑی ہو جا اور آپ سے کہہ: اللہ کے رسول! ام سلمہ کہہ رہی ہیں: میں نے تو آپ کو ان دونوں رکعتوں کو پڑھنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور اب آپ ہی انہیں پڑھ رہے ہیں، اگر آپ ہاتھ سے اشارہ کریں تو پیچھے ہٹ جانا، اس لڑکی نے ایسا ہی کیا، آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا، تو وہ پیچھے ہٹ گئی، جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا: اے ابوامیہ کی بیٹی! تم نے مجھ سے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے بارے میں پوچھا ہے، دراصل میرے پاس عبدالقیس کے چند لوگ اپنی قوم کے اسلام کی خبر لے کر آئے تو ان لوگوں نے مجھے باتوں میں مشغول کر لیا اور میں ظہر کے بعد یہ دونوں رکعتیں نہیں پڑھ سکا، یہ وہی دونوں رکعتیں ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
1398
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، أَنَّ أَبَا سَوِيَّةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ حُجَيْرَةَ يُخْبِرُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آيَاتٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِينَ، وَمَنْ قَامَ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِينَ، وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِينَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: ابْنُ حُجَيْرَةَ الْأَصْغَرُ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ حُجَيْرَةَ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دس آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام اللیل کرے گا وہ غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا، جو سو آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کرے گا وہ عابدوں میں لکھا جائے گا، اور جو ایک ہزار آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کرے گا وہ بے انتہاء ثواب جمع کرنے والوں میں لکھا جائے گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن حجیرہ الاصغر سے مراد عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن حجیرہ ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
1410
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ ص، فَلَمَّا بَلَغَ السَّجْدَةَ نَزَلَ فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ مَعَهُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمٌ آخَرُ قَرَأَهَا فَلَمَّا بَلَغَ السَّجْدَةَ تَشَزَّنَ النَّاسُ لِلسُّجُودِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا هِيَ تَوْبَةُ نَبِيٍّ، وَلَكِنِّي رَأَيْتُكُمْ تَشَزَّنْتُمْ لِلسُّجُودِ، فَنَزَلَ، فَسَجَدَ وَسَجَدُوا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ ص پڑھی، آپ منبر پر تھے جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو اترے، سجدہ کیا، لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا، پھر ایک دن کی بات ہے کہ آپ نے اس سورۃ کی تلاوت کی، جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو لوگ سجدے کے لیے تیار ہو گئے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سجدہ دراصل ایک نبی ۱؎ کی توبہ تھی، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ سجدے کے لیے تیار ہو رہے ہو، چنانچہ آپ اترے، سجدہ کیا، لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
1500
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي هِلَالٍ حَدَّثَهُ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوًى أَوْ حَصًى تُسَبِّحُ بِهِ، فَقَالَ:" أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا، أَوْ أَفْضَلُ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الْأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مِثْلُ ذَلِكَ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک عورت ۱؎ کے پاس گئے، اس کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی تھیں، جن سے وہ تسبیح گنتی تھی ۲؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاتا ہوں جو تمہارے لیے اس سے زیادہ آسان ہے یا اس سے افضل ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس طرح کہا کرو: «سبحان الله عدد ما خلق في السماء وسبحان الله عدد ما خلق في الأرض وسبحان الله عدد ما خلق بين ذلك وسبحان الله عدد ما هو خالق والله أكبر مثل ذلك والحمد لله مثل ذلك ‏.‏ ولا إله إلا الله مثل ذلك ‏.‏ ولا حول ولا قوة إلا بالله مثل ذلك» ۔
ضعيف
سنن ابي داود
1597
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فِيمَا سَقَتِ الْأَنْهَارُ وَالْعُيُونُ الْعُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالسَّوَانِي فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے دریا یا چشمے کے پانی نے سینچا ہو، اس میں دسواں حصہ ہے اور جسے رہٹ کے پانی سے سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1793
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، أَخْبَرَنِي أَبُو عِيسَى الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمسَيِّبِ،" أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَشَهِدَ عِنْدَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ يَنْهَى عَنْ الْعُمْرَةِ قَبْلَ الْحَجِّ".
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے ان کے پاس گواہی دی کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الموت میں حج سے پہلے عمرہ کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا۔
ضعيف
سنن ابي داود
1877
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" طَافَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ عَلَى بَعِيرٍ يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، آپ چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
2247
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ،حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: حَضَرْتُ لِعَانَهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ خَرَجَتْ حَامِلًا، فَكَانَ الْوَلَدُ يُدْعَى إِلَى أُمِّهِ.
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان دونوں کے لعان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود رہا اور میں پندرہ سال کا تھا، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی لیکن اس میں اتنا اضافہ کیا کہ پھر وہ عورت حاملہ نکلی چنانچہ لڑکے کو اس کی ماں کی جانب منسوب کر کے پکارا جاتا تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
2262
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ،أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ وَإِنِّي أُنْكِرُهُ. فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میری عورت نے ایک کالا لڑکا جنا ہے اور میں اس کا انکار کرتا ہوں، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔
صحيح
سنن ابي داود
2263
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ حِينَ نَزَلَتْ آيَةُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ، فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ، وَلَنْ يُدْخِلَهَا اللَّهُ جَنَّتَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ وَفَضَحَهُ عَلَى رُءُوسِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت آیت لعان نازل ہوئی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس عورت نے کسی قوم میں ایسے فرد کو شامل کر دیا جو حقیقت میں اس قوم کا فرد نہیں ہے، تو وہ اللہ کی رحمت سے دور رہے گی، اسے اللہ تعالیٰ جنت میں ہرگز داخل نہ کرے گا، اسی طرح جس شخص نے اپنے بچے کا انکار کیا حالانکہ اسے معلوم ہے کہ وہ اس کا بچہ ہے، اسے اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب نہ ہو گا، اور وہ اگلی پچھلی ساری مخلوق کے سامنے اسے رسوا کرے گا ۱؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
2305
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ الضَّحَّاكِ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ حَكِيمٍ بِنْتُ أَسِيدٍ، عَنْ أُمِّهَا، أَنَّ زَوْجَهَا تُوُفِّيَ وَكَانَتْ تَشْتَكِي عَيْنَيْهَا فَتَكْتَحِلُ بِالْجِلَاءِ، قَالَ أَحْمَدُ: الصَّوَابُ: بِكُحْلِ الْجِلَاءِ، فَأَرْسَلَتْ مَوْلَاةً لَهَا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَأَلَتْهَا عَنْ كُحْلِ الْجِلَاءِ، فَقَالَتْ: لَا تَكْتَحِلِي بِهِ إِلَّا مِنْ أَمْرٍ لَا بُدَّ مِنْهُ يَشْتَدُّ عَلَيْكِ فَتَكْتَحِلِينَ بِاللَّيْلِ وَتَمْسَحِينَهُ بِالنَّهَارِ، ثُمّ قَالَتْ عِنْدَ ذَلِكَ أُمُّ سَلَمَةَ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ وَقَدْ جَعَلْتُ عَلَى عَيْنِي صَبْرًا، فَقَالَ:" مَا هَذَا يَا أُمَّ سَلَمَةَ؟" فَقُلْتُ: إِنَّمَا هُوَ صَبْرٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ فِيهِ طِيبٌ، قَالَ:" إِنَّهُ يَشُبُّ الْوَجْهَ، فَلَا تَجْعَلِيهِ إِلَّا بِاللَّيْلِ وَتَنْزَعِينَهُ بِالنَّهَارِ، وَلَا تَمْتَشِطِي بِالطِّيبِ وَلَا بِالْحِنَّاءِ فَإِنَّهُ خِضَابٌ"، قَالَتْ: قُلْتُ: بِأَيِّ شَيْءٍ أَمْتَشِطُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" بِالسِّدْرِ تُغَلِّفِينَ بِهِ رَأْسَكِ".
ام حکیم بنت اسید اپنی والدہ سے روایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا، ان کی آنکھوں میں تکلیف رہتی تھی تو وہ «جلاء» (سرمہ) لگا لیتیں تو اپنی ایک لونڈی کو انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تاکہ وہ «جلاء» کے سرمہ کے متعلق ان سے پوچھے، انہوں نے کہا: اس کا سرمہ نہ لگاؤ جب تک ایسی سخت ضرورت پیش نہ آ جائے جس کے بغیر چارہ نہ ہو اس صورت میں تم اسے رات میں لگاؤ، اور دن میں پونچھ لیا کرو، پھر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اسی وقت یہ بھی بتایا کہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اور میں نے اپنی آنکھ میں ایلوا لگا رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ام سلمہ یہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! یہ ایلوا ہے اور اس میں خوشبو نہیں ہے، فرمایا: یہ چہرے میں حسن پیدا کرتا ہے لہٰذا اسے رات ہی میں لگاؤ، اور دن میں ہٹا دو، اور خوشبو لگا کر کنگھی نہ کرو، اور نہ مہندی لگا کر، کیونکہ وہ خضاب ہے میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کنگھی کس چیز سے کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیری کے پتوں کو اپنے سر پر لپیٹ کر۔
ضعيف
سنن ابي داود
2400
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا فِي النَّذْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی جانب سے اس کا ولی روزے رکھے گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حکم نذر کے روزے کا ہے اور یہی احمد بن حنبل کا قول ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2454
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ، فَلَا صِيَامَ لَهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ اللَّيْثُ، وَإِسْحَاقُ بْنُ حَازِمٍ، أيضا جميعا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، مِثْلَهُ، وَوَقَفَهُ عَلَى حَفْصَةَ مَعْمَرٌوَالزُّبَيْدِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَيُونُسُ الْأَيْلِيُّ، كُلُّهُمْ عَنْ الزُّهْرِيِّ.
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے فجر ہونے سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہو گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے لیث اور اسحاق بن حازم نے عبداللہ بن ابی بکر سے اسی کے مثل (یعنی مرفوعاً) روایت کیا ہے، اور اسے معمر، زبیدی، ابن عیینہ اور یونس ایلی نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر موقوف کیا ہے، یہ سارے لوگ زہری سے روایت کرتے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
2457
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ زُمَيْلٍ مَوْلَى عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أُهْدِيَ لِي وَلِحَفْصَةَ طَعَامٌ وَكُنَّا صَائِمَتَيْنِ فَأَفْطَرْنَا، ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ فَاشْتَهَيْنَاهَا فَأَفْطَرْنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَلَيْكُمَا صُومَا مَكَانَهُ يَوْمًا آخَرَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے اور ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے کچھ کھانا ہدیے میں آیا، ہم دونوں روزے سے تھیں، ہم نے روزہ توڑ دیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہم نے آپ سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ہدیہ آیا تھا ہمیں اس کے کھانے کی خواہش ہوئی تو روزہ توڑ دیا (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ توڑ دیا تو کوئی بات نہیں، دوسرے دن اس کے بدلے رکھ لینا۔
ضعيف
سنن ابي داود
2527
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ، أَنَّ يَعْلَى ابْنَ مُنْيَةَ، قَالَ: آذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْغَزْوِ وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ لَيْسَ لِي خَادِمٌ، فَالْتَمَسْتُ أَجِيرًا يَكْفِينِي وَأُجْرِي لَهُ سَهْمَهُ، فَوَجَدْتُ رَجُلًا فَلَمَّا دَنَا الرَّحِيلُ أَتَانِي فَقَالَ: مَا أَدْرِي مَا السُّهْمَانِ وَمَا يَبْلُغُ سَهْمِي فَسَمِّ لِي شَيْئًا؟ كَانَ السَّهْمُ أَوْ لَمْ يَكُنْ فَسَمَّيْتُ لَهُ ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ، فَلَمَّا حَضَرَتْ غَنِيمَتُهُ أَرَدْتُ أَنْ أُجْرِيَ لَهُ سَهْمَهُ فَذَكَرْتُ الدَّنَانِيرَ، فَجِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ لَهُ أَمْرَهُ فَقَالَ:" مَا أَجِدُ لَهُ فِي غَزْوَتِهِ هَذِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ إِلَّا دَنَانِيرَهُ الَّتِي سَمَّى".
یعلیٰ بن منیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ کا اعلان کیا اور میں بہت بوڑھا تھا میرے پاس کوئی خادم نہ تھا، تو میں نے ایک مزدور تلاش کیا جو میری خدمت کرے اور میں اس کے لیے اس کا حصہ جاری کروں، آخر میں نے ایک مزدور پا لیا، تو جب روانگی کا وقت ہوا تو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نہیں جانتا کہ کتنے حصے ہوں گے اور میرے حصہ میں کیا آئے گا؟ لہٰذا میرے لیے کچھ مقرر کر دیجئیے خواہ حصہ ملے یا نہ ملے، لہٰذا میں نے اس کے لیے تین دینار مقرر کر دئیے، جب مال غنیمت آیا تو میں نے اس کا حصہ دینا چاہا، پھر خیال آیا کہ اس کے تو تین دینار مقرر ہوئے تھے، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا معاملہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس کے لیے اس کے اس غزوہ میں دنیا و آخرت میں کچھ نہیں پاتا سوائے ان تین دیناروں کے جو متعین ہوئے۔
صحيح
سنن ابي داود
2533
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَيْكُمْ مَعَ كُلِّ أَمِيرٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَالصَّلَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْكُمْ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ وَالصَّلَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد تم پر ہر امیر کے ساتھ واجب ہے خواہ وہ نیک ہو، یا بد اور نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد، اگرچہ وہ کبائر کا ارتکاب کرئے، اور نماز (جنازہ) واجب ہے ہر مسلمان پر نیک ہو یا بد اگرچہ کبائر کا ارتکاب کرے۔
ضعيف
سنن ابي داود
2538
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ أَحْمَدُ كَذَا قَالَ: هُوَ يَعْنِي ابْنَ وَهْبٍ، وَعَنْبَسَةُ يَعْنِي ابْنَ خالد جميعا، عَنْ يُونُسَ، قَالَ أَحْمَدُ: وَالصَّوَابُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ قَاتَلَ أَخِي قِتَالًا شَدِيدًا فَارْتَدَّ عَلَيْهِ سَيْفُهُ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي ذَلِكَ وَشَكُّوا فِيهِ رَجُلٌ مَاتَ بِسِلَاحِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ ابْنًا لِسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، فَحَدَّثَنِي عَنْ أَبِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَذَبُوا مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب جنگ خیبر ہوئی تو میرے بھائی بڑی شدت سے لڑے، ان کی تلوار اچٹ کر ان کو لگ گئی جس نے ان کا خاتمہ کر دیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے سلسلے میں باتیں کی اور ان کی شہادت کے بارے میں انہیں شک ہوا تو کہا کہ ایک آدمی جو اپنے ہتھیار سے مر گیا ہو (وہ کیسے شہید ہو سکتا ہے؟)، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اللہ کے راستہ میں کوشش کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: پھر میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے اسی کے مثل بیان کیا، مگر اتنا کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں نے جھوٹ کہا، وہ جہاد کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے، اسے دوہرا اجر ملے گا۔
صحيح
سنن ابي داود
2747
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا حُيَيٌّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ بَدْرٍ فِي ثَلَاثِ مِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ حُفَاةٌ فَاحْمِلْهُمْ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ عُرَاةٌ فَاكْسُهُمْ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ جِيَاعٌ فَأَشْبِعْهُمْ"، فَفَتَحَ اللَّهُ لَهُ يَوْمَ بَدْرٍ فَانْقَلَبُوا حِينَ انْقَلَبُوا، وَمَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَقَدْ رَجَعَ بِجَمَلٍ أَوْ جَمَلَيْنِ وَاكْتَسَوْا وَشَبِعُوا.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے دن تین سو پندرہ افراد کے ہم راہ نکلے تو آپ نے یہ دعا فرمائی: «اللهم إنهم حفاة فاحملهم اللهم إنهم عراة فاكسهم اللهم إنهم جياع فأشبعهم» اے اللہ! یہ لوگ پیدل ہیں تو ان کو سوار کر دے، اے اللہ! یہ لوگ ننگے ہیں ان کو کپڑا دیدے، اے اللہ! یہ لوگ بھوکے ہیں ان کو آسودہ کر دے، پھر اللہ نے بدر کے دن انہیں فتح دی، جب وہ لوٹے تو کوئی بھی آدمی ان میں سے ایسا نہ تھا جو ایک یا دو اونٹ لے کر نہ آیا ہو، اور ان کے پاس کپڑے بھی ہو گئے اور وہ آسودہ بھی ہو گئے۔
حسن
سنن ابي داود
2758
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: بَعَثَتْنِي قُرَيْشٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُلْقِيَ فِي قَلْبِي الْإِسْلَامُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي وَاللَّهِ لَا أَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَا أَخِيسُ بِالْعَهْدِ وَلَا أَحْبِسُ الْبُرُدَ، وَلَكِنْ ارْجِعْ فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِكَ الَّذِي فِي نَفْسِكَ الْآنَ فَارْجِعْ"، قَالَ: فَذَهَبْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ، قَالَ بُكَيْرٌ: وَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَا رَافِعٍ كَانَ قِبْطِيًّا، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا كَانَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا يَصْلُحُ.
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریش نے مجھے (صلح حدیبیہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں ان کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں جاؤں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہ تو بدعہدی کرتا ہوں اور نہ ہی قاصدوں کو گرفتار کرتا ہوں، تم واپس جاؤ، اگر تمہارے دل میں وہی چیز رہی جو اب ہے تو آ جانا، ابورافع کہتے ہیں: میں قریش کے پاس لوٹ آیا، پھر دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گیا۔ بکیر کہتے ہیں: مجھے حسن بن علی نے خبر دی ہے کہ ابورافع قبطی غلام تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ اس زمانہ میں تھا اب یہ مناسب نہیں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2763
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهَا أَجَارَتْ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے ام ہانی بنت ابوطالب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے دن ایک مشرک کو امان دی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے اس کو پناہ دی جس کو تم نے پناہ دی، اور ہم نے اس کو امان دیا جس کو تم نے امان دیا۔
صحيح ق دون قوله وأمنا
سنن ابي داود
2792
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، عَنْ ابْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ فَأُتِيَ بِهِ فَضَحَّى بِهِ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ هَلُمِّي الْمُدْيَةَ، ثُمَّ قَالَ: اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ فَفَعَلَتْ، فَأَخَذَهَا وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ وَذَبَحَهُ، وَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، ثُمَّ ضَحَّى بِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ دار مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی آنکھ سیاہ ہو، سینہ، پیٹ اور پاؤں بھی سیاہ ہوں، پھر اس کی قربانی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ چھری لاؤ، پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرو، تو میں نے چھری تیز کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہاتھ میں لیا اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور کہا: «بسم الله اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد» اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں، اے اللہ! محمد، آل محمد اور امت محمد کی جانب سے اسے قبول فرما پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قربانی کی۔
حسن
سنن ابي داود
2941
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه أخبرته عن بَيْعَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّسَاءَ، قَالَتْ: مَا مَسَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ إِلَّا أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا فَإِذَا أَخَذَ عَلَيْهَا فَأَعْطَتْهُ، قَالَ:"اذْهَبِي فَقَدْ بَايَعْتُكِ".
عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے کس طرح بیعت لیا کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی اجنبی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا، البتہ عورت سے عہد لیتے جب وہ عہد دے دیتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: جاؤ میں تم سے بیعت لے چکا۔
صحيح
سنن ابي داود
2987
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ الْحَسَنِ الضَّمْرِيِّ، أَنَّ أُمَّ الْحَكَمِ أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ حَدَّثَتْه , عَنْ إِحْدَاهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيًا فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي وَفَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْءٍ مِنَ السَّبْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ:" سَبَقَكُنَّ يَتَامَى بَدْرٍ لَكِنْ سَأَدُلُّكُنَّ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُنَّ مِنْ ذَلِكَ تُكَبِّرْنَ اللَّهَ عَلَى إِثْرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"، قَالَ عَيَّاشٌ: وَهُمَا ابْنَتَا عَمِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
فضل بن حسن ضمری کہتے ہیں کہ ام الحکم یا ضباعہ رضی اللہ عنہما (زبیر بن عبدالمطلب کی دونوں بیٹیوں) میں سے کسی ایک نے دوسرے کے واسطے سے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں اور میری بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم نے اپنی تکالیف ۱؎ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا اور درخواست کی کہ کوئی قیدی آپ ہمیں دلوا دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں (یعنی تم سے پہلے آ کر انہوں نے قیدیوں کی درخواست کی اور انہیں لے گئیں)، لیکن (دل گرفتہ ہونے کی بات نہیں) میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو تمہارے لیے اس سے بہتر ہے، ہر نماز کے بعد (۳۳) مرتبہ اللہ اکبر، (۳۳) مرتبہ سبحان اللہ، (۳۳) مرتبہ الحمداللہ، اور ایک بار «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شىء قدير» کہہ لیا کرو۔ عیاش کہتے ہیں کہ یہ (ضباعہ اور ام الحکم رضی اللہ عنہما) دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہنیں تھیں ۲؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3156
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" خَيْرُ الْكَفَنِ الْحُلَّةُ، وَخَيْرُ الْأُضْحِيَّةِ الْكَبْشُ الْأَقْرَنُ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بہترین کفن جوڑا (تہبند اور چادر) ہے، اور بہترین قربانی سینگ دار دنبہ ہے ۱؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
3311
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ، صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔
صحيح
سنن ابي داود
3318
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تِيبَ عَلَيْهِ: إِنِّي أَنْخَلِعُ مِنْ مَالِي، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، إِلَى خَيْرٌ لَكَ.
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب ان کی توبہ قبول ہو گئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میں اپنے مال سے دستبردار ہو جاتا ہوں، پھر آگے راوی نے اسی طرح حدیث بیان کی: «خير لك» تک۔
صحيح
سنن ابي داود
3362
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِالتَّمْرِ وَالرُّطَبِ".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خشک سے تر کھجور کی بیع کو عرایا میں اجازت دی ہے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3484
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مَعْرُوفُ بْنُ سُوَيْدٍ الْجُذَامِيُّ، أَنَّ عُلَيَّ بْنَ رَبَاحٍ اللَّخْمِيَّ، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحِلُّ ثَمَنُ الْكَلْبِ، وَلَا حُلْوَانُ الْكَاهِنِ، وَلَا مَهْرُ الْبَغِيِّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتے کی قیمت حلال نہیں ہے، نہ کاہن کی کمائی حلال ہے اور نہ فاحشہ کی کمائی۔
صحيح
سنن ابي داود
3485
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ بُخْتٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ الْخَمْرَ وَثَمَنَهَا، وَحَرَّمَ الْمَيْتَةَ وَثَمَنَهَا، وَحَرَّمَ الْخِنْزِيرَ وَثَمَنَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شراب اور اس کی قیمت کو حرام قرار دیا ہے، مردار اور اس کی قیمت کو حرام قرار دیا ہے، سور اور اس کی قیمت کو حرام قرار دیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3495
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ عُبَيْدٍ الْمَدِينِيِّ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْ يَبِيعَ أَحَدٌ طَعَامًا اشْتَرَاهُ بِكَيْلٍ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ کو جسے کسی نے ناپ تول کر خریدا ہو، جب تک اسے اپنے قبضہ و تحویل میں پوری طرح نہ لے لے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3595
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ أَخْبَرَهُ،" أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، حَتَّى سَمِعَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِهِ، وَنَادَى كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، فَقَالَ: يَا كَعْبُ، فَقَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَشَارَ لَه بِيَدِهِ أَنْ ضَعِ الشَّطْرَ مِنْ دَيْنِكَ، قَالَ كَعْبٌ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُمْ فَاقْضِهِ".
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ابن ابی حدرد سے اپنے اس قرض کا جو ان کے ذمہ تھا مسجد کے اندر تقاضا کیا تو ان دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا آپ اپنے گھر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کی طرف نکلے یہاں تک کہ اپنے کمرے کا پردہ اٹھا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو پکارا اور کہا: اے کعب! تو انہوں نے کہا: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! پھر آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا قرضہ معاف کر دو، کعب نے کہا: میں نے معاف کر دیا اللہ کے رسول! تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابن حدرد) سے فرمایا: اٹھو اور اسے ادا کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
3722
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي قُرَّةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشُّرْبِ مِنْ ثُلْمَةِ الْقَدَحِ، وَأَنْ يُنْفَخَ فِي الشَّرَابِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے، اور پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3822
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا، فَلْيَعْتَزِلْنَا أَوْ لِيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا، وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ، وَإِنَّهُ أُتِيَ بِبَدْرٍ فِيهِ خَضِرَاتٌ مِنَ الْبُقُولِ، فَوَجَدَ لَهَا رِيحًا، فَسَأَلَ فَأُخْبِرَ بِمَا فِيهَا مِنَ الْبُقُولِ، فَقَالَ: قَرِّبُوهَا إِلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ كَانَ مَعَهُ، فَلَمَّا رَآهُ كَرِهَ أَكْلَهَا، قَالَ: كُلْ فَإِنِّي أُنَاجِي مَنْ لَا تُنَاجِي"، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ بِبَدْرٍ: فَسَّرَهُ ابْنُ وَهْبٍ طَبَقٌ.
عطا بن ابی رباح کا بیان ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے الگ رہے یا آپ نے فرمایا: ہماری مسجد سے الگ رہے، اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک طبق لایا گیا جس میں کچھ سبزیاں تھیں، آپ نے اس میں بو محسوس کی تو پوچھا: کس چیز کی سبزی ہے؟ تو اس میں جس چیز کی سبزی تھی آپ کو بتایا گیا، تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض ساتھیوں کے پاس لے جانے کو کہا جو آپ کے ساتھ تھے تو جب دیکھا کہ یہ لوگ بھی اسے کھانا ناپسند کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کھاؤ کیونکہ میں ایسی ذات سے سرگوشی کرتا ہوں جس سے تم نہیں کرتے۔ احمد بن صالح کہتے ہیں: ابن وہب نے بدر کی تفسیر طبق سے کی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3823
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ بَكْرَ بْنَ سَوَادَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا النَّجِيبِ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثُّومُ وَالْبَصَلُ، وَقِيلَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَشَدُّ ذَلِكَ كُلُّهُ الثُّومُ أَفَتُحَرِّمُهُ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُوهُ، وَمَنْ أَكَلَهُ مِنْكُمْ فَلَا يَقْرَبْ هَذَا الْمَسْجِدَ حَتَّى يَذْهَبَ رِيحُهُ مِنْهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لہسن اور پیاز کا ذکر کیا گیا اور عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ان میں سب سے زیادہ سخت لہسن ہے کیا آپ اسے حرام کرتے ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھاؤ اور جو شخص اسے کھائے وہ اس مسجد (مسجد نبوی) میں اس وقت تک نہ آئے جب تک اس کی بو نہ جاتی رہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
3851
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي عَقِيلٍ الْقُرَشِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَ وَسَقَى، وَسَوَّغَهُ، وَجَعَلَ لَهُ مَخْرَجًا".
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھاتے یا پیتے تو کہتے: «الحمد لله الذي أطعم وسقى، وسوغه، وجعل له مخرجا» ہر طرح کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، اسے خوشگوار بنایا اور اس کے نکلنے کی راہ بنائی۔
صحيح
سنن ابي داود
3886
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَال: كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقُلْنَا:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ؟، فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ تَكُنْ شِرْكًا".
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اسے کیسا سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنا منتر میرے اوپر پیش کرو جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ شرک نہ ہو۔
صحيح
سنن ابي داود
4041
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: حُلَّةُ إِسْتَبْرَقٍ، وَقَالَ: فِيهِ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهِ بِجُبَّةِ دِيبَاجٍ، وَقَالَ: تَبِيعُهَا وَتُصِيبُ بِهَا حَاجَتَكَ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی واقعہ مروی ہے لیکن اس میں دھاری دار ریشمی جوڑے کے بجائے موٹے ریشم کا جوڑا ہے نیز اس میں ہے: پھر آپ نے انہیں دیباج ایک جوڑا بھیجا، اور فرمایا: اسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
4109
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ زَادَ وَأَخْرَجَهُ، فَكَانَ بِالْبَيْدَاءِ يَدْخُلُ كُلَّ جُمْعَةٍ يَسْتَطْعِمُ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکال دیا، اور وہ بیداء میں رہنے لگا، ہر جمعہ کو وہ کھانا مانگنے آیا کرتا تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
4126
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ فَرْقَدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكِ بْنِ حُذَافَةَ حَدَّثَهُ،عَنْ أُمِّهِ الْعَالِيَةِ بِنْتِ سُبَيْعٍ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ لِي غَنَمٌ بِأُحُدٍ فَوَقَعَ فِيهَا الْمَوْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ لِي مَيْمُونَةُ: لَوَ أَخَذْتِ جُلُودَهَا فَانْتَفَعْتِ بِهَا، فَقَالَتْ: أَوَ يَحِلُّ ذَلِكَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، مَرَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجَالٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَجُرُّونَ شَاةً لَهُمْ مِثْلَ الْحِمَارِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ أَخَذْتُمْ إِهَابَهَا، قَالُوا: إِنَّهَا مَيْتَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُطَهِّرُهَا الْمَاءُ وَالْقَرَظُ".
عالیہ بنت سبیع کہتی ہیں کہ میری کچھ بکریاں احد پہاڑ پر تھیں وہ مرنے لگیں تو میں ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور ان سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے مجھ سے کہا: اگر تم ان کی کھالوں سے فائدہ اٹھاتیں! تو میں بولی: کیا یہ درست ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے قریش کے کچھ لوگ ایک مری ہوئی بکری کو گدھے کی طرح گھسیٹتے ہوئے گزرے، تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے اس کی کھال لے لی ہوتی لوگوں نے عرض کیا: وہ تو مری ہوئی ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی اور بیر کی پتی اس کو پاک کر دے گی۔
صحيح
سنن ابي داود
4157
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ السَّبَّاقِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ وَعَدَنِي أَنْ يَلْقَانِي اللَّيْلَةَ فَلَمْ يَلْقَنِي ثُمَّ وَقَعَ فِي نَفْسِهِ جَرْوُ كَلْبٍ تَحْتَ بِسَاطٍ لَنَا فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهِ مَاءً فَنَضَحَ بِهِ مَكَانَهُ فَلَمَّا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ: إِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ فَأَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَأْمُرُ بِقَتْلِ كَلْبِ الْحَائِطِ الصَّغِيرِ وَيَتْرُكُ كَلْبَ الْحَائِطِ الْكَبِيرِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام نے آج رات مجھ سے ملنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ مجھ سے نہیں ملے پھر آپ کو خیال آیا کہ ہماری چارپائی کے نیچے کتے کا پلا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ نکالا گیا، پھر اپنے ہاتھ میں پانی لے کر آپ نے وہاں چھڑکاؤ کیا تو جبرائیل آپ سے ملے اور کہنے لگے: ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو پھر صبح ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا یہاں تک کہ آپ چھوٹے باغوں کے کتوں کو بھی مار ڈالنے کا حکم دے رہے تھے صرف آپ بڑے باغوں کے کتوں کو چھوڑ رہے تھے (کیونکہ بغیر کتوں کے ان کی دیکھ ریکھ دشوار ہوتی ہے)۔
صحيح
سنن ابي داود
4226
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: شَرِيكٌ، وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِهِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بھی بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی اپنے داہنے ہاتھ میں پہنتے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
4369
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبِدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ،قَالَ أَحْمَدُ هُوَ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ" أَنَّ نَاسًا أَغَارُوا عَلَى إِبِلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَاقُوهَا وَارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ وَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤْمِنًا فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ فَأُخِذُوا فَقَطَّعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَلَ أَعْيُنَهُمْ، قَالَ: وَنَزَلَتْ فِيهِمْ آيَةُ الْمُحَارَبَةِ، وَهُمُ الَّذِينَ أَخْبَرَ عَنْهُمْ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ الْحَجَّاجَ حِينَ سَأَلَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو لوٹ کر انہیں ہنکا لے گئے، اسلام سے مرتد ہو گئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن چرواہے کو قتل کر دیا، تو آپ نے ان کے تعاقب میں کچھ لوگوں کو بھیجا، وہ پکڑے گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیئے گئے، اور ان کی آنکھوں پر گرم سلائیاں پھیر دیں، انہیں لوگوں کے متعلق آیت محاربہ نازل ہوئی، اور انہیں لوگوں کے متعلق انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حجاج کو خبر دی تھی جس وقت اس نے آپ سے پوچھا تھا۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4492
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ بُكَيْرَ بْنَ الْأَشَجّ حَدَّثَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بُرْدَةَ الْأَنْصَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوبردہ انصاری سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔
0
سنن ابي داود
4536
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ عُبَيْدَةَ بْنِ مُسَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ قَسْمًا أَقْبَلَ رَجُلٌ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، فَطَعَنَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُرْجُونٍ كَانَ مَعَهُ فَجُرِحَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَالَ فَاسْتَقِدْ فَقَالَ بَلْ عَفَوْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ تقسیم کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص آیا اور آپ کے اوپر جھک گیا تو اس کے چہرے پر خراش آ گئی تو آپ نے ایک لکڑی جو آپ کے پاس تھی اسے چبھو دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: آؤ قصاص لے لو ۱؎ وہ بولا: اللہ کے رسول! میں نے معاف کر دیا۔
ضعيف
سنن ابي داود
4675
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ،قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِابْنِ مَرْيَمَ، الْأَنْبِيَاءُ أَوْلَادُ عَلَّاتٍ، وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں ابن مریم سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ہوں، انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
4702
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مُوسَى قَالَ: يَا رَبِّ أَرِنَا آدَمَ الَّذِي أَخْرَجَنَا وَنَفْسَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، فَأَرَاهُ اللَّهُ آدَمَ، فَقَالَ: أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: نَعَمْ، قَالَ: أَنْتَ الَّذِي نَفَخَ اللَّهُ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَعَلَّمَكَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ أَخْرَجْتَنَا وَنَفْسَكَ مِنَ الْجَنَّةِ؟ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: وَمَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: أَنْتَ نَبِيُّ بَنِي إِسْرَائِيلَ الَّذِي كَلَّمَكَ اللَّهُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ، لَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ رَسُولًا مِنْ خَلْقِهِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَفَمَا وَجَدْتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فِيمَ تَلُومُنِي فِي شَيْءٍ سَبَقَ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى فِيهِ الْقَضَاءُ قَبْلِي؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عِنْدَ ذَلِكَ فَحَجَّ آدَمُ، مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ، مُوسَى".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اے میرے رب! ہمیں آدم علیہ السلام کو دکھا جنہوں نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوایا، تو اللہ نے انہیں آدم علیہ السلام کو دکھایا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ ہمارے باپ آدم ہیں؟ تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: آپ ہی ہیں جس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی، جسے تمام نام سکھائے اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا؟ انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: تو پھر کس چیز نے آپ کو اس پر آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوا دیا؟ تو آدم نے ان سے کہا: اور تم کون ہو؟ وہ بولے: میں موسیٰ ہوں، انہوں نے کہا: تم بنی اسرائیل کے وہی نبی ہو جس سے اللہ نے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی اور تمہارے اور اپنے درمیان اپنی مخلوق میں سے کوئی قاصد مقرر نہیں کیا؟ کہا: ہاں، آدم علیہ السلام نے کہا: تو کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ وہ (جنت سے نکالا جانا) میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی کتاب میں لکھا ہوا تھا؟ کہا: ہاں معلوم ہے، انہوں نے کہا: پھر ایک چیز کے بارے میں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی مقدر ہو چکا تھا کیوں مجھے ملامت کرتے ہو؟ یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو آدم، موسیٰ پر غالب آ گئے، تو آدم موسیٰ پر غالب آ گئے۔
حسن
سنن ابي داود
4857
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي هِلَالٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ حَدَّثَهُ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ قَالَ:" كَلِمَاتٌ لَا يَتَكَلَّمُ بِهِنَّ أَحَدٌ فِي مَجْلِسِهِ عِنْدَ قِيَامِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ إِلَّا كُفِّرَ بِهِنَّ عَنْهُ، وَلَا يَقُولُهُنَّ فِي مَجْلِسِ خَيْرٍ وَمَجْلِسِ ذِكْرٍ إِلَّا خُتِمَ لَهُ بِهِنَّ عَلَيْهِ كَمَا يُخْتَمُ بِالْخَاتَمِ عَلَى الصَّحِيفَةِ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ تین کلمے ایسے ہیں جنہیں کوئی بھی مجلس سے اٹھتے وقت تین مرتبہ پڑھے تو یہ اس کے لیے (ان گناہوں کا جو اس مجلس میں اس سے ہوئے) کفارہ بن جاتے ہیں، اور اگر انہیں نیکی یا ذکر الٰہی کی مجلس میں کہے گا تو وہ مانند مہر کے ہوں گے جیسے کسی تحریر یا دستاویز پر اخیر میں مہر ہوتی ہے اور وہ کلمات یہ ہیں «سبحانك اللهم وبحمدك لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك» اے اللہ! تو پاک ہے، اور تو اپنی ساری تعریفوں کے ساتھ ہے، نہیں ہے معبود برحق مگر تو ہی اور میں تجھی سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔
صحيح دون قوله ثلاث مرات
سنن ابي داود
4858
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ عَمْرٌو، وحَدَّثَنِي بِنَحْوِ ذَلِكَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
4904
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْعَمْيَاءِ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي أُمَامَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ هُوَ وَأَبُوهُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِالْمَدِينَةِ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ، فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي صَلَاةً خَفِيفَةً دَقِيقَةً كَأَنَّهَا صَلَاةُ مُسَافِرٍ أَوْ قَرِيبًا مِنْهَا فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ أَبِي: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، أَرَأَيْتَ هَذِهِ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ أَوْ شَيْءٌ تَنَفَّلْتَهُ؟ , قَالَ: إِنَّهَا الْمَكْتُوبَةُ وَإِنَّهَا لَصَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَخْطَأْتُ إِلَّا شَيْئًا سَهَوْتُ عَنْهُ، فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ:" لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَيُشَدَّدَ عَلَيْكُمْ، فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَار وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ , ثُمَّ غَدَا مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: أَلَا تَرْكَبُ لِتَنْظُرَ وَلِتَعْتَبِرَ، قَالَ: نَعَمْ، فَرَكِبُوا جَمِيعًا فَإِذَا هُمْ بِدِيَارٍ بَادَ أَهْلُهَا وَانْقَضَوْا وَفَنُوا خَاوِيَةٍ عَلَى عُرُوشِهَا، فَقَالَ: أَتَعْرِفُ هَذِهِ الدِّيَارَ، فَقُلْتُ: مَا أَعْرَفَنِي بِهَا وَبِأَهْلِهَا، هَذِهِ دِيَارُ قَوْمٍ أَهْلَكَهُمُ الْبَغْيُ وَالْحَسَدُ إِنَّ الْحَسَدَ يُطْفِئُ نُورَ الْحَسَنَاتِ وَالْبَغْيُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ وَالْعَيْنُ تَزْنِي وَالْكَفُّ وَالْقَدَمُ وَالْجَسَدُ وَاللِّسَانُ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ.
سہل بن ابی امامہ کا بیان ہے کہ وہ اور ان کے والد عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں جب وہ مدینے کے گورنر تھے، مدینے میں انس رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو دیکھا، وہ ہلکی یا مختصر نماز پڑھ رہے ہیں، جیسے وہ مسافر کی نماز ہو یا اس سے قریب تر کوئی نماز، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میرے والد نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ بتائیے کہ یہ فرض نماز تھی یا آپ کوئی نفلی نماز پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا: یہ فرض نماز تھی، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، اور جب بھی مجھ سے کوئی غلطی ہوتی ہے، میں اس کے بدلے سجدہ سہو کر لیتا ہوں، پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ۲؎ کہ تم پر سختی کی جائے ۳؎ اس لیے کہ کچھ لوگوں نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کر دی تو ایسے ہی لوگوں کے باقی ماندہ لوگ گرجا گھروں میں ہیں انہوں نے رہبانیت کی شروعات کی جو کہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی پھر جب دوسرے دن صبح ہوئی تو کہا: کیا تم سواری نہیں کرتے یعنی سفر نہیں کرتے کہ دیکھو اور نصیحت حاصل کرو، انہوں نے کہا: ہاں (کرتے ہیں) پھر وہ سب سوار ہوئے تو جب وہ اچانک کچھ ایسے گھروں کے پاس پہنچے، جہاں کے لوگ ہلاک اور فنا ہو کر ختم ہو چکے تھے، اور گھر چھتوں کے بل گرے ہوئے تھے، تو انہوں نے کہا: کیا تم ان گھروں کو پہنچانتے ہو؟ میں نے کہا: مجھے کس نے ان کے اور ان کے لوگوں کے بارے میں بتایا؟ (یعنی میں نہیں جانتا) تو انس نے کہا: یہ ان لوگوں کے گھر ہیں جنہیں ان کے ظلم اور حسد نے ہلاک کر دیا، بیشک حسد نیکیوں کے نور کو گل کر دیتا ہے اور ظلم اس کی تصدیق کرتا ہے یا تکذیب اور آنکھ زنا کرتی ہے اور ہتھیلی، قدم جسم اور زبان بھی اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
4978
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: خَبُثَتْ نَفْسِي، وَلْيَقُلْ: لَقِسَتْ نَفْسِي".
سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی میرا نفس خبیث ہو گیا نہ کہے، بلکہ یوں کہے میرا جی پریشان ہو گیا۔
صحيح
سنن ابي داود
5023
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَسَيَرَانِي فِي الْيَقَظَةِ، أَوْ لَكَأَنَّمَا رَآنِي فِي الْيَقَظَةِ، وَلَا يَتَمَثَّلُ الشَّيْطَانُ بِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو وہ مجھے جاگتے ہوئے بھی عنقریب دیکھے گا، یا یوں کہا کہ گویا اس نے مجھے جاگتے ہوئے دیکھا، اور شیطان میری شکل میں نہیں آ سکتا۔
صحيح
سنن ابي داود
5066
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ حَسَنٍ الضَّمْرِيِّ، أَنَّ ابْنَ أُمِّ الْحَكَمِ أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ إِحْدَاهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ سَبْيًا، فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي فَاطِمَةُ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ، وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْءٍ مِنَ السَّبْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَبَقَكُنَّ يَتَامَى بَدْرٍ"، ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّةَ التَّسْبِيحِ، قَالَ: عَلَى أَثَرِ كُلِّ صَلَاةٍ لَمْ يَذْكُرِ النَّوْمَ.
زبیر کی بیٹیوں ام الحکم یا ضباعہ میں سے کسی ایک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں، میری بہن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم جس محنت و مشقت سے دو چار تھے اسے ہم نے بطور شکایت آپ کے سامنے پیش کیا، ہم نے آپ سے درخواست کی کہ ہمیں قیدی دیئے جانے کا آپ حکم فرمائیں، تو آپ نے فرمایا: بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں، (وہ پہلے آئیں اور پا گئیں اب قیدی نہیں بچے) پھر آپ نے تسبیح کے واقعہ کا ذکر کیا اس میں «في كل دبر صلاة» کے بجائے «على أثر كل صلاة» کہا اور سونے کا ذکر نہیں کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
5075
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ سَالِمًا الْفَرَّاءَ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ الْحَمِيدِ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أُمَّهُ حَدَّثَتْهُ، وَكَانَتْ تَخْدِمُ بَعْضَ بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ ابْنَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَتْهَا،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَلِّمُهَا، فَيَقُولُ: قُولِي حِينَ تُصْبِحِينَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ، فَإِنَّهُ مَنْ قَالَهُنَّ حِينَ يُصْبِحُ: حُفِظَ حَتَّى يُمْسِيَ، وَمَنْ قَالَهُنَّ حِينَ يُمْسِي: حُفِظَ حَتَّى يُصْبِحَ".
بنی ہاشم کے غلام عبدالحمید بیان کرتے ہیں کہ ان کی ماں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیٹی کی خدمت میں رہا کرتی تھیں انہیں بتایا کہ ان کی صاحبزادی نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سکھاتے تھے کہ جب تم صبح کرو تو کہو «سبحان الله وبحمده لا قوة إلا بالله ما شاء الله كان وما لم يشأ لم يكن أعلم أن الله على كل شىء قدير وأن الله قد أحاط بكل شىء علما» میں اللہ کی پاکی بیان کرتا، اور اس کی تعریف کرتا ہوں، کسی میں طاقت نہیں سوائے اللہ کے، جو اللہ چاہے گا وہی ہو گا، اور جو وہ نہیں چاہے وہ نہیں ہو گا، میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور اللہ اپنے علم سے ہر چیز کو محیط ہے جو شخص ان کلمات کو صبح کے وقت کہے گا اس کی (اللہ کی طرف سے) شام تک حفاظت کی جائے گی، اور جو شام کے وقت کہے گا اس کی صبح تک۔
ضعيف
سنن ابي داود
5086
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ فِي سَفَرٍ فَأَسْحَرَ، يَقُولُ: سَمِعَ سَامِعٌ بِحَمْدِ اللَّهِ وَنِعْمَتِهِ وَحُسْنِ بَلَائِهِ عَلَيْنَا، اللَّهُمَّ صَاحِبْنَا فَأَفْضِلْ عَلَيْنَا، عَائِذًا بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے اور سحر میں اٹھتے تو کہتے «سمع سامع بحمد الله ونعمته وحسن بلائه علينا اللهم صاحبنا فأفضل علينا عائذا بالله من النار» سننے والے نے اللہ کی حمد، اس کی نعمتوں کی شکر گزاری اور اپنے امتحان میں ہماری حسن کارکردگی کو (دیکھ اور) سن لیا، اے اللہ! تو ہمارے ساتھ رہ، اور ہمیں اپنے فضل سے نواز، اور میں جہنم سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔
صحيح
سنن ابي داود
5098
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ مُسْتَجْمِعًا ضَاحِكًا حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ وَكَانَ إِذَا رَأَى غَيْمًا أَوْ رِيحًا عُرِفَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، النَّاسُ إِذَا رَأَوْا الْغَيْمَ فَرِحُوا رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِ الْمَطَرُ، وَأَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَتْ فِي وَجْهِكَ الْكَرَاهِيَةُ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، مَا يُؤَمِّنُنِي أَنْ يَكُونَ فِيهِ عَذَابٌ قَدْ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ، وَقَدْ رَأَى قَوْمٌ الْعَذَابَ، فَقَالُوا: هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کھلکھلا کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کے کوے کو دیکھ سکوں، آپ تو صرف تبسم فرماتے (ہلکا سا مسکراتے) تھے، آپ جب بدلی یا آندھی دیکھتے تو اس کا اثر آپ کے چہرے پر دیکھا جاتا (آپ تردد اور تشویش میں مبتلا ہو جاتے) تو (ایک بار) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگ تو جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہو گی، اور آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے سے ناگواری (گھبراہٹ اور پریشانی) جھلکتی ہے (اس کی وجہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا: اے عائشہ! مجھے یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو، کیونکہ ایک قوم (قوم عاد) ہوا کے عذاب سے دو چار ہو چکی ہے، اور ایک قوم نے (بدلی کا) عذاب دیکھا، تو وہ کہنے لگی «هذا عارض ممطرنا» ۱؎: یہ بادل تو ہم پر برسے گا (وہ برسا تو لیکن، بارش پتھروں کی ہوئی، سب ہلاک کر دیے گئے)۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.