سنن ابي داود
عبد الله بن محمد القضاعي (حدثنا / عن) زهير بن معاوية الجعفي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
239
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّهُمْ ذَكَرُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغُسْلَ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا أَنَا، فَأُفِيضُ عَلَى رَأْسِي ثَلَاثًا، وَأَشَارَ بِيَدَيْهِ كِلْتَيْهِمَا".
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غسل جنابت کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو تین چلو اپنے سر پر ڈالتا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چلو بنا کر اشارہ کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
250
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْتَسِلُ وَيُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ وَصَلَاةَ الْغَدَاةِ، وَلَا أَرَاهُ يُحْدِثُ وُضُوءًا بَعْدَ الْغُسْلِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل (جنابت) کرتے تھے، اور دو رکعتیں اور فجر کی نماز ادا کرتے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل جنابت کے بعد تازہ وضو کرتے نہ دیکھتی ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
557
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، أَنَّ أَبَا عُثْمَانَ حَدَّثَهُ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ:" كَانَ رَجُلٌ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ مِمَّنْ يُصَلِّي الْقِبْلَةَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ أَبْعَدَ مَنْزِلًا مِنَ الْمَسْجِدِ مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ وَكَانَ لَا تُخْطِئُهُ صَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ، فَقُلْتُ: لَوِ اشْتَرَيْتَ حِمَارًا تَرْكَبُهُ فِي الرَّمْضَاءِ وَالظُّلْمَةِ، فَقَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ مَنْزِلِي إِلَى جَنْبِ الْمَسْجِدِ، فَنُمِيَ الْحَدِيثُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ قَوْلِهِ ذَلِكَ، فَقَالَ: أَرَدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ يُكْتَبَ لِي إِقْبَالِي إِلَى الْمَسْجِدِ وَرُجُوعِي إِلَى أَهْلِي إِذَا رَجَعْتُ، فَقَالَ: أَعْطَاكَ اللَّهُ ذَلِكَ كُلَّهُ، أَنْطَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا احْتَسَبْتَ كُلَّهُ أَجْمَعَ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اہل مدینہ میں نمازیوں میں ایک صاحب تھے، میری نظر میں کسی کا مکان مسجد سے ان کے مکان سے زیادہ دور نہیں تھا، اس کے باوجود ان کی کوئی نماز جماعت سے ناغہ نہیں ہوتی تھی، میں نے ان سے کہا: اگر آپ ایک گدھا خرید لیتے اور گرمی اور تاریکی میں اس پر سوار ہو کر (مسجد) آیا کرتے (تو زیادہ اچھا ہوتا) تو انہوں نے کہا: میں نہیں چاہتا کہ میرا گھر مسجد کے بغل میں ہو، یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے ان سے اس کے متعلق پوچھا، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میری غرض یہ تھی کہ مجھے مسجد آنے کا اور پھر لوٹ کر اپنے گھر والوں کے پاس جانے کا ثواب ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ سب عنایت فرما دیا، اور جو کچھ تم نے چاہا، اللہ نے وہ سب تمہیں دے دیا۔
صحيح
سنن ابي داود
586
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَكُنْتُ أَؤُمُّهُمْ فِي بُرْدَةٍ مُوَصَّلَةٍ فِيهَا فَتْقٌ، فَكُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ خَرَجَتِ اسْتِي.
اس سند سے بھی عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے، اس میں ہے میں ایک پیوند لگی ہوئی پھٹی چادر میں ان کی امامت کرتا تھا، تو جب میں سجدہ میں جاتا تو میری سرین کھل جاتی تھی۔
صحيح
سنن ابي داود
661
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: سَأَلْتُ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشَ عَنْ حَدِيثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ فِي الصُّفُوفِ الْمُقَدَّمَةِ، فَحَدَّثَنَا،عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهِمْ عَزَّ وَجَلَّ؟ قُلْنَا: وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهِمْ؟ قَالَ: يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْمُقَدَّمَةَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس کرتے ہیں؟، ہم نے عرض کیا: فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صف بندی کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے اگلی صف پوری کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے خوب مل کر (جڑ کر) کھڑے ہوتے ہیں (ان کے مابین کوئی خلا نہیں رہتا)۔
صحيح
سنن ابي داود
899
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ التَّمِيمِيِّ الَّذِي يُحَدِّثُ بِالتَّفْسِيرِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَلْفِهِ فَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبِطَيْهِ وَهُوَ مُجَخٍّ قَدْ فَرَّجَ بَيْنَ يَدَيْهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے پیچھے سے آیا (اور آپ سجدے میں تھے) تو میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح سجدہ کئے ہوئے تھے کہ اپنے دونوں بازو پسلیوں سے جدا کئے ہوئے تھے اور اپنا پیٹ زمین سے اٹھائے ہوئے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
926
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَرْسَلَنِي نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَنِى الْمُصْطَلَقِ فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ" يُصَلِّي عَلَى بَعِيرِهِ، فَكَلَّمْتُهُ، فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ، فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا، وَأَنَا أَسْمَعُهُ يَقْرَأُ وَيُومِئُ بِرَأْسِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: مَا فَعَلْتَ فِي الَّذِي أَرْسَلْتُكَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُكَلِّمَكَ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بنی مصطلق کے پاس بھیجا، میں (وہاں سے) لوٹ کر آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ سے بات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہاتھ سے اس طرح سے اشارہ کیا، میں نے پھر آپ سے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا یعنی خاموش رہنے کا حکم دیا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآت کرتے سن رہا تھا اور آپ اپنے سر سے اشارہ فرما رہے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: میں نے تم کو جس کام کے لیے بھیجا تھا اس سلسلے میں تم نے کیا کیا؟، میں نے تم سے بات اس لیے نہیں کی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
970
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، قَالَ: أَخَذَ عَلْقَمَةُ بِيَدِي فَحَدَّثَنِي، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ أَخَذَ بِيَدِهِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ" فَعَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ، فَذَكَرَ مِثْلَ دُعَاءِ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ، إِذَا قُلْتَ هَذَا أَوْ قَضَيْتَ هَذَا فَقَدْ قَضَيْتَ صَلَاتَكَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُومَ فَقُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ فَاقْعُدْ".
قاسم بن مخیمرہ کہتے ہیں کہ علقمہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑا (اور انہیں نماز میں تشہد کے کلمات سکھائے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور ان کو نماز میں تشہد کے کلمات سکھائے، پھر راوی نے اعمش کی حدیث کی دعا کے مثل ذکر کیا، اس میں (اتنا اضافہ) ہے کہ جب تم نے یہ دعا پڑھ لی یا پوری کر لی تو تمہاری نماز پوری ہو گئی، اگر کھڑے ہونا چاہو تو کھڑے ہو جاؤ اور اگر بیٹھے رہنا چاہو تو بیٹھے رہو۔
شاذ بزيادة إذا قلت
سنن ابي داود
1000
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمٍ الطَّائِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ رَافِعُوا أَيْدِيهِمْ، قَالَ زُهَيْرٌ: أُرَاهُ قَالَ: فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ:" مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ، أُسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ لوگ نماز میں اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا: مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تمہیں اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھ رہا ہوں، گویا کہ وہ شریر گھوڑوں کی دم ہیں؟ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
1093
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَخْطُبُ قَائِمًا، ثُمَّ يَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ قَائِمًا، فَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَانَ يَخْطُبُ جَالِسًا فَقَدْ كَذَبَ، فَقَالَ: فَقَدْ وَاللَّهِ صَلَّيْتُ مَعَهُ أَكْثَرَ مِنْ أَلْفَيْ صَلَاةٍ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جمعہ کے دن) کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر (تھوڑی دیر) بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، لہٰذا جو تم سے یہ بیان کرے کہ آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے تو وہ غلط گو ہے، پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کے ساتھ دو ہزار سے زیادہ نمازیں پڑھ چکا ہوں ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
1138
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ،عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: كُنَّا نُؤْمَرُ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَتْ: وَالْحُيَّضُ يَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَيُكَبِّرْنَ مَعَ النَّاسِ.
اس طریق سے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ انہوں نے کہا: ہمیں حکم دیا جاتا تھا، پھر یہی حدیث بیان کی، پھر آگے اس میں ہے کہ: انہوں نے بتایا: حائضہ عورتیں لوگوں کے پیچھے ہوتی تھیں اور لوگوں کے ساتھ تکبیریں کہتی تھیں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1426
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ فِي آخِرِهِ، قَالَ: هَذَا يَقُولُ فِي الْوِتْرِ فِي الْقُنُوتِ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَقُولُهُنَّ فِي الْوِتْرِ أَبُو الْحَوْرَاءِ رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ.
اس طریق سے بھی ابواسحاق سے اسی سند کے ساتھ اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے لیکن اس کے آخر میں ہے کہ اسے وہ وتر کی قنوت میں کہتے تھے اور «أقولهن في الوتر» کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوالحوراء کا نام ربیعہ بن شیبان ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1572
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، وَعَنْ الْحَارِثِ الأَعْوَرِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ زُهَيْرٌ: أَحْسَبُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّه قَالَ:" هَاتُوا رُبْعَ الْعُشُورِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ، وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ شَيْءٌ حَتَّى تَتِمَّ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ، فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، فَمَا زَادَ فَعَلَى حِسَابِ ذَلِكَ، وَفِي الْغَنَمِ فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ إِلَّا تِسْعٌ وَثَلَاثُونَ فَلَيْسَ عَلَيْكَ فِيهَا شَيْءٌ" وَسَاقَ صَدَقَةَ الْغَنَمِ مِثْلَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ:" وَفِي الْبَقَرِ فِي كُلِّ ثَلَاثِينَ تَبِيعٌ وَفِي الْأَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ، وَلَيْسَ عَلَى الْعَوَامِلِ شَيْءٌ، وَفِي الْإِبِلِ" فَذَكَرَ صَدَقَتَهَا كَمَا ذَكَرَ الزُّهْرِيُّ، قَالَ:" وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ خَمْسَةٌ مِنَ الْغَنَمِ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ بِنْتُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْجَمَلِ إِلَى سِتِّينَ" ثُمَّ سَاقَ مِثْلَ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ:" فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، يَعْنِي وَاحِدَةً وَتِسْعِينَ، فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْجَمَلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِنْ كَانَتِ الْإِبِلُ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَلَا تُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ وَلَا تَيْسٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ، وَفِي النَّبَاتِ مَا سَقَتْهُ الْأَنْهَارُ أَوْ سَقَتِ السَّمَاءُ الْعُشْرُ، وَمَا سَقَى الْغَرْبُ فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ"، وَفِي حَدِيثِ عَاصِمٍ، وَالْحَارِثِ: الصَّدَقَةُ فِي كُلِّ عَامٍ، قَالَ زُهَيْرٌ: أَحْسَبُهُ قَالَ: مَرَّةً، وَفِي حَدِيثِ عَاصِمٍ:" إِذَا لَمْ يَكُنْ فِي الْإِبِلِ ابْنَةُ مَخَاضٍ وَلَا ابْنُ لَبُونٍ فَعَشَرَةُ دَرَاهِمَ أَوْ شَاتَانِ".
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (زہیر کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: چالیسواں حصہ نکالو، ہر چالیس (۴۰) درہم میں ایک (۱) درہم، اور جب تک دو سو (۲۰۰) درہم پورے نہ ہوں تم پر کچھ لازم نہیں آتا، جب دو سو (۲۰۰) درہم پورے ہوں تو ان میں پانچ (۵) درہم زکاۃ کے نکالو، پھر جتنے زیادہ ہوں اسی حساب سے ان کی زکاۃ نکالو، بکریوں میں جب چالیس (۴۰) ہوں تو ایک (۱) بکری ہے، اگر انتالیس (۳۹) ہوں تو ان میں کچھ لازم نہیں، پھر بکریوں کی زکاۃ اسی طرح تفصیل سے بیان کی جو زہری کی روایت میں ہے۔ گائے بیلوں میں یہ ہے کہ ہر تیس (۳۰) گائے یا بیل پر ایک سالہ گائے دینی ہو گی اور ہر چا لیس (۴۰) میں دو سالہ گائے دینی ہو گی، باربرداری والے گائے بیلوں میں کچھ لازم نہیں ہے، اونٹوں کے بارے میں زکاۃ کی وہی تفصیل اسی طرح بیان کی جو زہری کی روایت میں گزری ہے، البتہ اتنے فرق کے ساتھ کہ پچیس (۲۵) اونٹوں میں پانچ (۵) بکریاں ہوں گی، ایک بھی زیادہ ہونے یعنی چھبیس (۲۶) ہو جانے پر پینتیس (۳۵) تک ایک (۱) بنت مخاض ہو گی، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون نر ہو گا، اور جب چھتیس (۳۶) ہو جائیں تو پینتالیس (۴۵) تک ایک (۱) بنت لبون ہے، جب چھیالیس (۴۶) ہو جائیں تو ساٹھ (۶۰) تک ایک (۱) حقہ ہے جو نر اونٹ کے لائق ہو جاتی ہے، اس کے بعد اسی طرح بیان کیا ہے جیسے زہری نے بیان کیا یہاں تک کہ جب اکیانوے (۹۱) ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو (۲) حقہ ہوں گی جو جفتی کے لائق ہوں، جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو ہر پچاس (۵۰) پر ایک (۱) حقہ دینا ہو گا، زکاۃ کے خوف سے نہ اکٹھا مال جدا کیا جائے اور نہ جدا مال اکٹھا کیا جائے، اسی طرح نہ کوئی بوڑھا جانور قابل قبول ہو گا اور نہ عیب دار اور نہ ہی نر، سوائے اس کے کہ مصدق کی چاہت ہو۔ (زمین سے ہونے والی)، پیداوار کے سلسلے میں کہا کہ نہر یا بارش کے پانی کی سینچائی سے جو پیداوار ہوئی ہو، اس میں دسواں حصہ لازم ہے اور جو پیداوار رہٹ سے پانی کھینچ کر کی گئی ہو، اس میں بیسواں حصہ لیا جائے گا۔ عاصم اور حارث کی ایک روایت میں ہے کہ زکاۃ ہر سال لی جائے گی۔ زہیر کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ہر سال ایک بار کہا۔ عاصم کی روایت میں ہے: جب بنت مخاض اور ابن لبون بھی نہ ہو تو دس درہم یا دو بکریاں دینی ہوں گی۔
صحيح
سنن ابي داود
1610
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ"، قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُؤَدِّيهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِالْيَوْمِ وَالْيَوْمَيْنِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ صدقہ فطر لوگوں کے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے، راوی کہتے ہیں: چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نماز عید کے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔
صحيح ق دون فعل ابن عمر ولـ خ نحوه
سنن ابي داود
1904
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ جُمْهَانَ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بَيْنَ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةِ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنِّي أَرَاكَ تَمْشِي وَالنَّاسُ يَسْعَوْنَ، قَالَ:" إِنْ أَمْشِ، فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي، وَإِنْ أَسْعَ، فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْعَى، وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ".
کثیر بن جمہان سے روایت ہے کہ صفا و مروہ کے درمیان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! میں آپ کو (عام چال چلتے) دیکھتا ہوں جب کہ لوگ دوڑتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اگر میں عام چال چلتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عام چال چلتے دیکھا ہے اور اگر میں دوڑ کر کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سعی (دوڑتے) کرتے دیکھا ہے اور میں بہت بوڑھا شخص ہوں۔
صحيح
سنن ابي داود
1965
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي حَارِثَةُ بْنُ وَهْبٍ الْخُزَاعِيُّ وَكَانَتْ أُمُّهُ تَحْتَ عُمَرَ فَوَلَدَتْ لَهُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ:" صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى وَالنَّاسُ أَكْثَرُ مَا كَانُوا، فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: حَارِثَةُ بْنُ خُزَاعَةَ وَدَارُهُمْ بِمَكَّةَ.
ابواسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے حارثہ بن وہب خزاعی نے بیان کیا اور ان کی والدہ عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں تو ان سے عبیداللہ بن عمر کی ولادت ہوئی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے منیٰ میں نماز پڑھی، اور لوگ بڑی تعداد میں تھے، تو آپ نے ہمیں حجۃ الوداع میں دو رکعتیں پڑھائیں ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارثہ کا تعلق خزاعہ سے ہے اور ان کا گھر مکہ میں ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1992
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ:" سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ كَمْ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَرَّتَيْنِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ:" لَقَدْ عَلِمَ ابْنُ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ اعْتَمَرَ ثَلَاثًا، سِوَى الَّتِي قَرَنَهَا بِحَجَّةِ الْوَدَاعِ".
مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے؟ انہوں نے جواب دیا: دو بار ۱؎، اس پر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمرے کے علاوہ جو آپ نے حجۃ الوداع کے ساتھ ملایا تھا تین عمرے کئے ہیں۔
ضعيف
سنن ابي داود
2056
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ فِي أُخْتِي؟ قَالَ:" فَأَفْعَلُ مَاذَا؟" قَالَتْ: فَتَنْكِحُهَا، قَالَ:" أُخْتَكِ؟" قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:" أَوَتُحِبِّينَ ذَلِكَ؟" قَالَتْ: لَسْتُ بِمُخْلِيَةٍ بِكَ، وَأَحَبُّ مَنْ شَرِكَنِي فِي خَيْرٍ أُخْتِي، قَالَ:" فَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِي"، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ لَقَدْ أُخْبِرْتُ أَنَّكَ تَخْطُبُ دُرَّةَ أَوْ ذُرَّةَ شَكَّ زُهَيْرٌ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ:" بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ"، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:" أَمَا وَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي فِي حِجْرِي مَا حَلَّتْ لِي، إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، أَرْضَعَتْنِي وَأَبَاهَا ثُوَيْبَةُ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو میری بہن (عزہ) میں رغبت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں کیا کروں، انہوں نے کہا: آپ ان سے نکاح کر لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری بہن سے؟ انہوں نے کہا، ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ (سوکن) پسند کرو گی؟ انہوں نے کہا: میں آپ کی اکیلی بیوی تو ہوں نہیں جتنی عورتیں میرے ساتھ خیر میں شریک ہیں ان سب میں اپنی بہن کا ہونا مجھے زیادہ پسند ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ میرے لیے حلال نہیں ہے کہا: اللہ کی قسم مجھے تو بتایا گیا ہے کہ آپ درہ یا ذرہ بنت ابی سلمہ (یہ شک زہیر کو ہوا ہے) کو پیغام دے رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام سلمہ کی بیٹی کو؟ کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم (وہ تو میری ربیبہ ہے) اگر ربیبہ نہ بھی ہوتی تو وہ میرے لیے حلال نہ ہوتی کیونکہ وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، مجھے اور اس کے باپ کو ثویبہ نے دودھ پلایا ہے لہٰذا تم اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ پر (نکاح کے لیے) پیش نہ کیا کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
2065
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، وَلَا الْعَمَّةُ عَلَى بِنْتِ أَخِيهَا، وَلَا الْمَرْأَةُ عَلَى خَالَتِهَا، وَلَا الْخَالَةُ عَلَى بِنْتِ أُخْتِهَا، وَلَا تُنْكَحُ الْكُبْرَى عَلَى الصُّغْرَى، وَلَا الصُّغْرَى عَلَى الْكُبْرَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھوپھی کے نکاح میں رہتے ہوئے بھتیجی سے نکاح نہیں کیا جا سکتا، اور نہ بھتیجی کے نکاح میں رہتے ہوئے پھوپھی سے نکاح درست ہے، اسی طرح خالہ کے نکاح میں رہتے ہوئے بھانجی سے نکاح نہیں کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی بھانجی کے نکاح میں رہتے ہوئے خالہ سے نکاح درست ہے، غرض یہ کہ چھوٹی کے رہتے ہوئے بڑی سے اور بڑی کے رہتے ہوئے چھوٹی سے نکاح جائز نہیں ہے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2662
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ يُحَدِّثُ، قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرُّمَاةِ يَوْمَ أُحُدٍ وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ وَقَالَ: إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخْطِفُنَا الطَّيْرُ فَلَا تَبْرَحُوا مِنْ مَكَانِكُمْ هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ فَلَا تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ قَالَ: فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ قَالَ: فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ عَلَى الْجَبَلِ فَقَالَ: أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ: الْغَنِيمَةَ أَيْ قَوْمِ الْغَنِيمَةَ ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ: أَنَسِيتُمْ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الْغَنِيمَةِ فَأَتَوْهُمْ فَصُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ وَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ.
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو تیر اندازوں کا امیر بنایا ان کی تعداد پچاس تھی اور فرمایا: اگر تم دیکھو کہ ہم کو پرندے اچک رہے ہیں پھر بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کافروں کو شکست دے دی ہے، انہیں روند ڈالا ہے، پھر بھی اس جگہ سے نہ ہٹنا، یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں، پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی اور اللہ کی قسم میں نے مشرکین کی عورتوں کو دیکھا کہ بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھنے لگیں، عبداللہ بن جبیر کے ساتھی کہنے لگے: لوگو! غنیمت، غنیمت، تمہارے ساتھی غالب آ گئے تو اب تمہیں کس چیز کا انتظار ہے؟ اس پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم وہ بات بھول گئے جو تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی ہے؟ تو ان لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ضرور مشرکین کے پاس جائیں گے اور مال غنیمت لوٹیں گے، چنانچہ وہ ہٹ گئے تو اللہ نے ان کے منہ پھیر دئیے اور وہ شکست کھا کر واپس آئے۔
صحيح
سنن ابي داود
2804
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ، وَكَانَ رَجُلَ صِدْقٍ عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالأُذُنَيْنِ، وَلَا نُضَحِّي بِعَوْرَاءَ وَلَا مُقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَةٍ وَلَا خَرْقَاءَ وَلَا شَرْقَاءَ، قَالَ زُهَيْرٌ: فَقُلْتُ لِأَبِي إِسْحَاق: أَذَكَرَ عَضْبَاءَ، قَالَ، لَا قُلْتُ: فَمَا الْمُقَابَلَةُ؟ قَال: يُقْطَعُ طَرَفُ الأُذُنِ، قُلْتُ: فَمَا الْمُدَابَرَةُ؟ قَالَ: يُقْطَعُ مِنْ مُؤَخَّرِ الأُذُنِ، قُلْتُ: فَمَا الشَّرْقَاءُ؟ قَالَ: تُشَقُّ الأُذُنُ، قُلْتُ: فَمَا الْخَرْقَاءُ؟ قَالَ: تُخْرَقُ أُذُنُهَا لِلسِّمَةِ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور کی آنکھ اور کان خوب دیکھ لیں (کہ اس میں ایسا نقص نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو) اور کانے جانور کی قربانی نہ کریں، اور نہ «مقابلة» کی، نہ «مدابرة» کی، نہ «خرقاء» کی اور نہ «شرقاء» کی۔ زہیر کہتے ہیں: میں نے ابواسحاق سے پوچھا: کیا «عضباء» کا بھی ذکر کیا؟ تو انہوں نے کہا: نہیں ( «عضباء» اس بکری کو کہتے ہیں جس کے کان کٹے ہوں اور سینگ ٹوٹے ہوں)۔ میں نے پوچھا «مقابلة» کے کیا معنی ہیں؟ کہا: جس کا کان اگلی طرف سے کٹا ہو، پھر میں نے کہا: «مدابرة» کے کیا معنی ہیں؟ کہا: جس کے کان پچھلی طرف سے کٹے ہوں، میں نے کہا: «خرقاء» کیا ہے؟ کہا: جس کے کان پھٹے ہوں (گولائی میں) میں نے کہا: «شرقاء» کیا ہے؟ کہا: جس بکری کے کان لمبائی میں چرے ہوئے ہوں (نشان کے لیے)۔
ضعيف إلا جملة الأمر بالاستشراف
سنن ابي داود
3185
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ، قَالَ: مَرِضَ رَجُلٌ، فَصِيحَ عَلَيْهِ، فَجَاءَ جَارُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: إِنَّهُ قَدْ مَاتَ، قَالَ:" وَمَا يُدْرِيكَ؟ قَالَ: أَنَا رَأَيْتُهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ لَمْ يَمُتْ، قَالَ: فَرَجَعَ، فَصِيحَ عَلَيْهِ، فَجَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ لَمْ يَمُتْ، فَرَجَعَ، فَصِيحَ عَلَيْهِ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبِرْهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: اللَّهُمَّ الْعَنْهُ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ الرَّجُلُ، فَرَآهُ قَدْ نَحَرَ نَفْسَهُ بِمِشْقَصٍ مَعَهُ، فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَقَالَ: مَا يُدْرِيكَ؟ قَالَ: رَأَيْتُهُ يَنْحَرُ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ مَعَهُ، قَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِذًا لَا أُصَلِّيَ عَلَيْهِ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک شخص بیمار ہوا پھر اس کی موت کی خبر پھیلی تو اس کا پڑوسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے عرض کیا کہ وہ مر گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں کیسے معلوم ہوا؟، وہ بولا: میں اسے دیکھ کر آیا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ نہیں مرا ہے، وہ پھر لوٹ گیا، پھر اس کے مرنے کی خبر پھیلی، پھر وہی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: وہ مر گیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ نہیں مرا ہے، تو وہ پھر لوٹ گیا، اس کے بعد پھر اس کے مرنے کی خبر مشہور ہوئی، تو اس کی بیوی نے کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور اس کے مرنے کی آپ کو خبر دو، اس نے کہا: اللہ کی لعنت ہو اس پر۔ پھر وہ شخص مریض کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس نے تیر کے پیکان سے اپنا گلا کاٹ ڈالا ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور اس نے آپ کو بتایا کہ وہ مر گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں کیسے پتا لگا؟، اس نے کہا: میں نے دیکھا ہے اس نے تیر کی پیکان سے اپنا گلا کاٹ لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے خود دیکھا ہے؟، اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تو میں اس کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھوں گا۔
صحيح
سنن ابي داود
3442
حَدَّثَنَا عُبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَذَرُوا النَّاسَ يَرْزُقُ اللَّهُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شہری کسی دیہاتی کی چیز نہ بیچے، لوگوں کو چھوڑ دو (انہیں خود سے لین دین کرنے دو) اللہ بعض کو بعض کے ذریعہ روزی دیتا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3702
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كَانَ يُنْبَذُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سِقَاءٍ، فَإِذَا لَمْ يَجِدُوا سِقَاءً نُبِذَ لَهُ فِي تَوْرٍ مِنْ حِجَارَةٍ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چمڑے کے برتن میں نبیذ تیار کی جاتی تھی اور اگر وہ چمڑے کا برتن نہیں پاتے تو پتھر کے برتن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نبیذ تیار کی جاتی۔
صحيح
سنن ابي داود
3784
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنِي قَبِيصَةُ بْنُ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ:" إِنَّ مِنَ الطَّعَامِ طَعَامًا أَتَحَرَّجُ مِنْهُ؟، فَقَالَ: لَا يَتَخَلَّجَنَّ فِي صَدْرِكَ شَيْءٌ ضَارَعْتَ فِيهِ النَّصْرَانِيَّةَ".
ہلب طائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور آپ سے ایک شخص نے پوچھا: کھانے کی چیزوں میں بعض ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں جن کے کھانے میں میں حرج محسوس کرتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے دل میں کوئی شبہ نہ آنے دو (اگر اس کے سلسلہ میں تم نے شک کیا اور اپنے اوپر سختی کی تو) تم نے اس میں نصرانیت کے مشابہت کی۔
حسن
سنن ابي داود
3840
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:" بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَّرَ عَلَيْنَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ نَتَلَقَّى عِيرًا لِقُرَيْشٍ، وَزَوَّدَنَا جِرَابًا مِنْ تَمْرٍ لَمْ نَجِدْ لَهُ غَيْرَهُ، فَكَانَ أَبُو عُبَيْدَةَ يُعْطِينَا تَمْرَةً تَمْرَةً كُنَّا نَمُصُّهَا كَمَا يَمُصُّ الصَّبِيُّ، ثُمَّ نَشْرَبُ عَلَيْهَا مِنَ الْمَاءِ، فَتَكْفِينَا يَوْمَنَا إِلَى اللَّيْلِ، وَكُنَّا نَضْرِبُ بِعِصِيِّنَا الْخَبَطَ، ثُمَّ نَبُلُّهُ بِالْمَاءِ، فَنَأْكُلُهُ، وَانْطَلَقْنَا عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، فَرُفِعَ لَنَا كَهَيْئَةِ الْكَثِيبِ الضَّخْمِ، فَأَتَيْنَاهُ فَإِذَا هُوَ دَابَّةٌ تُدْعَى الْعَنْبَرَ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: مَيْتَةٌ وَلَا تَحِلُّ لَنَا، ثُمَّ قَالَ: لَا، بَلْ نَحْنُ رُسُلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَقَدِ اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ فَكُلُوا، فَأَقَمْنَا عَلَيْهِ شَهْرًا، وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ حَتَّى سَمِنَّا، فَلَمَّا قَدِمْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: هُوَ رِزْقٌ أَخْرَجَهُ اللَّهُ لَكُمْ، فَهَلْ مَعَكُمْ مِنْ لَحْمِهِ شَيْءٌ فَتُطْعِمُونَا مِنْهُ؟، فَأَرْسَلْنَا مِنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ہم پر امیر بنا کر قریش کا ایک قافلہ پکڑنے کے لیے روانہ کیا اور زاد سفر کے لیے ہمارے ساتھ کھجور کا ایک تھیلہ تھا، اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے، ہم لوگ اسے اس طرح چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے، پھر پانی پی لیتے، اس طرح وہ کھجور ہمارے لیے ایک دن اور ایک رات کے لیے کافی ہو جاتی، نیز ہم اپنی لاٹھیوں سے درخت کے پتے جھاڑتے پھر اسے پانی میں تر کر کے کھاتے، پھر ہم ساحل سمندر پر چلے توریت کے ٹیلہ جیسی ایک چیز ظاہر ہوئی، جب ہم لوگ اس کے قریب آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک مچھلی ہے جسے عنبر کہتے ہیں۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ مردار ہے اور ہمارے لیے جائز نہیں۔ پھر وہ کہنے لگے: نہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لوگ ہیں اور اللہ کے راستے میں ہیں اور تم مجبور ہو چکے ہو لہٰذا اسے کھاؤ، ہم وہاں ایک مہینہ تک ٹھہرے رہے اور ہم تین سو آدمی تھے یہاں تک کہ ہم (کھا کھا کر) موٹے تازے ہو گئے، جب ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: وہ رزق تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا تھا، کیا تمہارے پاس اس کے گوشت سے کچھ بچا ہے، اس میں سے ہمیں بھی کھلاؤ ہم نے اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے اسے کھایا۔
صحيح
سنن ابي داود
3978
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ سَعْدٍ الْعَوْفِيِّ، قَالَ:" قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ سورة الروم آية 54، فَقَالَ: 0 مِنْ ضُعْفٍ 0 قَرَأْتُهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا قَرَأْتَهَا عَلَيَّ، فَأَخَذَ عَلَيَّ كَمَا أَخَذْتُ عَلَيْكَ".
عطیہ بن سعد عوفی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے: «الله الذي خلقكم من ضعف» اللہ وہی ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا (سورۃ الروم: ۵۴) (ضاد کے زبر کے ساتھ) پڑھا تو انہوں نے کہا «مِنْ ضُعْفٍ» (ضاد کے پیش کے ساتھ) ہے میں نے بھی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا تھا جیسے تم نے پڑھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گرفت فرمائی جیسے میں نے تمہاری گرفت کی ہے۔
حسن
سنن ابي داود
4012
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ الْعَرْزَمِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ /a>، عَنْ يَعْلَى: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَغْتَسِلُ بِالْبَرَازِ بِلَا إِزَارٍ، فَصَعَدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسَّتْرَ، فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَسْتَتِرْ".
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بغیر تہ بند کے (میدان میں) نہاتے دیکھا تو آپ منبر پر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ حیاء دار ہے پردہ پوشی کرنے والا ہے اور حیاء اور پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہائے تو ستر کو چھپا لے۔
صحيح
سنن ابي داود
4055
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" إِنَّمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الثَّوْبِ الْمُصْمَتِ مِنَ الْحَرِيرِ فَأَمَّا الْعَلَمُ مِنَ الْحَرِيرِ وَسَدَى الثَّوْبِ، فَلَا بَأْسَ بِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کپڑے سے جو خالص ریشمی ہو منع فرمایا ہے، رہا ریشمی بوٹا اور ریشمی کپڑے کا تانا تو کوئی مضائقہ نہیں۔
صحيح دون قوله فأما العلم
سنن ابي داود
4063
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَوْبٍ دُونٍ، فَقَالَ: أَلَكَ مَالٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ أَيِّ الْمَالِ؟ قَالَ: قَدْ آتَانِي اللَّهُ مِنَ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ وَالْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، قَالَ: فَإِذَا آتَاكَ اللَّهُ مَالًا، فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَيْكَ وَكَرَامَتِهِ".
مالک بن نضلۃ الجشمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک معمولی کپڑے میں آیا تو آپ نے فرمایا: کیا تم مالدار ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں مالدار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس قسم کا مال ہے؟ تو انہوں نے کہا: اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام (ہر طرح کے مال سے) اللہ نے مجھے نوازا ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ کی نعمت اور اس کے اعزاز کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیئے۔
صحيح
سنن ابي داود
4085
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ أَحَدَ جَانِبَيْ إِزَارِي يَسْتَرْخِي إِنِّي لَأَتَعَاهَدُ ذَلِكَ مِنْهُ، قَالَ: لَسْتَ مِمَّنْ يَفْعَلُهُ خُيَلَاءَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی غرور اور تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا تو اللہ اسے قیامت کے دن نہیں دیکھے گا یہ سنا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے تہبند کا ایک کنارہ لٹکتا رہتا ہے جب کہ میں اس کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم ان میں سے نہیں ہو جو غرور سے یہ کام کیا کرتے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
4141
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا لَبِسْتُمْ وَإِذَا تَوَضَّأْتُمْ فَابْدَءُوا بِأَيَامِنِكُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کپڑے پہنو اور جب وضو کرو تو اپنے داہنے سے شروع کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
4201
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، وَقَرَأَهُ عَبْدُ الْمَلِكِ عَلَى أَبِي الزُّبَيْرِ، وَرَوَاهُ أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:" كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الِاسْتِحْدَادُ حَلْقُ الْعَانَةِ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حج و عمرہ کے سوا ہمیشہ داڑھیوں کو لٹکتا رہنے دیتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «استحداد» کے معنی زیر ناف مونڈنے کے ہیں۔
ضعيف الإسناد
سنن ابي داود
4281
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ زَادَ فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ أَتَتْهُ قُرَيْشٌ فَقَالُوا: ثُمَّ يَكُونُ مَاذَا؟ قَالَ: ثُمَّ يَكُونُ الْهَرْجُ.
اس سند سے بھی جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس گئے تو قریش کے لوگ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا: پھر کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: پھر قتل ہو گا۔
صحيح دون قوله فلما رجع
سنن ابي داود
4759
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، أخبرنا مُطَرِّفُ بْنُ طَرِيفٍ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وَهْبَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أَنْتُمْ وَأَئِمَّةٌ مِنْ بَعْدِي يَسْتَأْثِرُونَ بِهَذَا الْفَيْءِ؟ , قُلْتُ: إِذَنْ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ أَضَعُ سَيْفِي عَلَى عَاتِقِي، ثُمَّ أَضْرِبُ بِهِ، حَتَّى أَلْقَاكَ، أَوْ أَلْحَقَكَ، قَالَ: أَوَلَا أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ، تَصْبِرُ حَتَّى تَلْقَانِي".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہو گا ۱؎ جب میرے بعد حکمراں اس مال فے کو اپنے لیے مخصوص کر لیں گے میں نے عرض کیا: تب تو اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھوں گا، پھر اس سے ان کے ساتھ لڑوں گا یہاں تک کہ میں آپ سے ملاقات کروں یا آ ملوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ تم صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو۔
ضعيف
سنن ابي داود
4776
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ الْهَدْيَ الصَّالِحَ، وَالسَّمْتَ الصَّالِحَ، وَالِاقْتِصَادَ، جُزْءٌ مِنْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راست روی، خوش خلقی اور میانہ روی نبوت کا پچیسواں حصہ ہے ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
4803
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يَرْتَفِعَ شَيْءٌ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا وَضَعَهُ.
اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ مرفوعاً مروی ہے اس میں ہے، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ دنیا کی جو بھی چیز بہت اوپر اٹھے تو اسے نیچا کر دے۔
صحيح
سنن ابي داود
4958
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ رَبِيعِ بْنِ عُمَيْلَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُسَمِّيَنَّ غُلَامَكَ يَسَارًا، وَلَا رَبَاحًا، وَلَا نَجِيحًا، وَلَا أَفْلَحَ فَإِنَّكَ تَقُولُ: أَثَمَّ هُوَ؟، فَيَقُولُ: لَا، إِنَّمَا هُنَّ أَرْبَعٌ فَلَا تَزِيدَنَّ عَلَيَّ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے بچے یا اپنے غلام کا نام یسار، رباح، نجیح اور افلح ہرگز نہ رکھو، اس لیے کہ تم پوچھو گے: کیا وہاں ہے وہ؟ تو جواب دینے والا کہے گا: نہیں (تو تم اسے بدفالی سمجھ کر اچھا نہ سمجھو گے) (سمرہ نے کہا) یہ تو بس چار ہیں اور تم اس سے زیادہ مجھ سے نہ نقل کرنا۔
صحيح
سنن ابي داود
5021
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ زُهَيْرًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا قَتَادَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الرُّؤْيَا مِنَ اللَّهِ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ شَيْئًا يَكْرَهُهُ، فَلْيَنْفُثْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ لِيَتَعَوَّذْ مِنْ شَرِّهَا، فَإِنَّهَا لَا تَضُرُّهُ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خیالات شیطان کی طرف سے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی (خواب میں) ایسی چیز دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے، تو اپنے بائیں جانب تین بار تھوکے، پھر اس کے شر سے پناہ طلب کرے تو یہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔
صحيح
سنن ابي داود
5055
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ فَرْوَةَ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ ّالنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِنَوْفَلٍ:" اقْرَأْ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، ثُمَّ نَمْ عَلَى خَاتِمَتِهَا، فَإِنَّهَا بَرَاءَةٌ مِنَ الشِّرْكِ".
نوفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: «قل يا أيها الكافرون»  پڑھو (یعنی پوری سورۃ) اور پھر اسے ختم کر کے سو جاؤ، کیونکہ یہ سورۃ شرک سے براءت ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
5117
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" مَنْ نَصَرَ قَوْمَهُ عَلَى غَيْرِ الْحَقِّ، فَهُوَ كَالْبَعِيرِ الَّذِي رُدِّيَ فَهُوَ يُنْزَعُ بِذَنَبِهِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس نے اپنی قوم کی ناحق مدد کی تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو کنوئیں میں گرا دیا گیا ہو اور پھر دم پکڑ کر نکالا جا رہا ہو ۱؎۔
صحيح موقوف مرفوع

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.