سنن ابي داود
عبد الله بن وهب القرشي (حدثنا / عن) عمرو بن الحارث الأنصاري
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
120
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّ حَبَّانَ بْنَ وَاسِعٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ الْمَازِنِيَّ يَذْكُرُ:" أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ وُضُوءَهُ، وَقَالَ: وَمَسَحَ رَأْسَهُ بِمَاءٍ غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْهِ، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ حَتَّى أَنْقَاهُمَا".
عبداللہ بن زید بن عاصم ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (وضو کرتے ہوئے) دیکھا، پھر آپ کے وضو کا ذکر کیا اور کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اپنے ہاتھ کے بچے ہوئے پانی کے علاوہ نئے پانی سے کیا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے یہاں تک کہ انہیں صاف کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
214
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي بَعْضُ مَنْ أَرْضَي، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ ذَلِكَ رُخْصَةً لِلنَّاسِ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ لِقِلَّةِ الثِّيَابِ، ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُسْلِ وَنَهَى عَنْ ذَلِكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: يَعْنِي الْمَاءَ مِنَ الْمَاءِ.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ رخصت ابتدائے اسلام میں کپڑوں کی کمی کی وجہ سے دی تھی (کہ اگر کوئی دخول کرے اور انزال نہ ہو تو غسل واجب نہ ہو گا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دخول کرنے اور انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل کرنے کا حکم فرما دیا، اور غسل نہ کرنے کو منع فرما دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نهى عن ذلك» یعنی ممانعت سے مراد «الماء من الماء» (غسل منی نکلنے کی صورت میں واجب ہے) والی حدیث پر عمل کرنے سے منع کر دیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
217
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ"، وَكَانَ أَبُو سَلَمَةَ يَفْعَلُ ذَلِكَ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی پانی سے ہے (یعنی منی نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے) اور ابوسلمہ ایسا ہی کرتے تھے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
481
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ الْجُذَامِيِّ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَيْوَانَ، عَنْ أَبِي سَهْلَةَ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادٍ، قَالَ أَحْمَدُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّ رَجُلًا أَمَّ قَوْمًا فَبَصَقَ فِي الْقِبْلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَ: لَا يُصَلِّي لَكُمْ، فَأَرَادَ بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ يُصَلِّيَ لَهُمْ فَمَنَعُوهُ وَأَخْبَرُوهُ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: نَعَمْ، وَحَسِبْتُ أَنَّهُ، قَالَ: إِنَّكَ آذَيْتَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ".
ابو سہلہ سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (احمد کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں) کہ ایک شخص نے کچھ لوگوں کی امامت کی تو قبلہ کی جانب تھوک دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ رہے تھے، جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شخص اب تمہاری امامت نہ کرے، اس کے بعد اس نے نماز پڑھانی چاہی تو لوگوں نے اسے امامت سے روک دیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، (میں نے منع کیا ہے)، صحابی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: تم نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے۔
حسن
سنن ابي داود
647
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّ بُكَيْرًا، حَدَّثَهُ أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ يُصَلِّي وَرَأْسُهُ مَعْقُوصٌ مِنْ وَرَائِهِ، فَقَامَ وَرَاءَهُ فَجَعَلَ يَحُلُّهُ وَأَقَرَّ لَهُ الْآخَرُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَرَأْسِي؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّمَا مَثَلُ هَذَا مَثَلُ الَّذِي يُصَلِّي وَهُوَ مَكْتُوفٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عباس نے عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کے پیچھے بالوں کا جوڑا بندھا ہوا ہے، تو وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے کھولنے لگے اور عبداللہ بن حارث چپ چاپ کھڑے رہے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: آپ نے میرا سر کیوں کھول دیا؟ تو انہوں نے کہا: اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ پیچھے رسی سے بندھے ہوں۔
صحيح
سنن ابي داود
816
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ جُهَيْنَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْرَأُ فِي الصُّبْحِ: إِذَا زُلْزِلَتِ الأَرْضُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا". فَلَا أَدْرِي أَنَسِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْ قَرَأَ ذَلِكَ عَمْدًا.
معاذ بن عبداللہ جہنی کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کے ایک آدمی نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی دونوں رکعتوں میں «إذا زلزلت الأرض» پڑھتے ہوئے سنا، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے تھے یا آپ نے عمداً اسے پڑھا۔
حسن
سنن ابي داود
1048
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، أَنَّ الْجُلَاحَ مَوْلَى عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" يَوْمُ الْجُمُعَةِ ثِنْتَا عَشْرَةَ يُرِيدُ سَاعَةً لَا يُوجَدُ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا إِلَّا أَتَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَالْتَمِسُوهَا آخِرَ سَاعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کا دن بارہ ساعت (گھڑی) کا ہے، اس میں ایک ساعت (گھڑی) ایسی ہے کہ کوئی مسلمان اس ساعت کو پا کر اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے تو اللہ اسے ضرور دیتا ہے، لہٰذا تم اسے عصر کے بعد آخری ساعت (گھڑی) میں تلاش کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
1055
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ الْجُمُعَةَ مِنْ مَنَازِلِهِمْ، وَمِنَ الْعَوَالِي.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ جمعہ کے لیے اپنے اپنے گھروں سے اور عوالی ۱؎ سے باربار آتے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
1203
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا عُشَّانَةَ الْمَعَافِرِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يَعْجَبُ رَبُّكُمْ مِنْ رَاعِي غَنَمٍ فِي رَأْسِ شَظِيَّةٍ بِجَبَلٍ، يُؤَذِّنُ بِالصَّلَاةِ وَيُصَلِّي، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ الصَّلَاةَ، يَخَافُ مِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي وَأَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تمہارا رب بکری کے اس چرواہے سے خوش ہوتا ہے جو کسی پہاڑ کی چوٹی میں رہ کر نماز کے لیے اذان دیتا ۱؎ اور نماز ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: دیکھو میرے اس بندے کو، یہ اذان دے رہا ہے اور نماز قائم کر رہا ہے، مجھ سے ڈرتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔
صحيح
سنن ابي داود
1273
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَرْسَلُوهُ إِلَى عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِيعًا وَسَلْهَا عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقُلْ: إِنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّكِ تُصَلِّينَهُمَا، وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْهُمَا"، فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا فَبَلَّغْتُهَا مَا أَرْسَلُونِي بِهِ، فَقَالَتْ: سَلْ أُمَّ سَلَمَةَ، فَخَرَجْتُ إِلَيْهِمْ فَأَخْبَرْتُهُمْ بِقَوْلِهَا، فَرَدُّونِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُونِي بِهِ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهُمَا ثُمَّ رَأَيْتُهُ يُصَلِّيهِمَا، أَمَّا حِينَ صَلَّاهُمَا فَإِنَّهُ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ وَعِنْدِي نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي حَرَامٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَصَلَّاهُمَا، فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ الْجَارِيَةَ، فَقُلْتُ: قُومِي بِجَنْبِهِ، فَقُولِي لَهُ: تَقُولُ أُمُّ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْمَعُكَ تَنْهَى عَنْ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ وَأَرَاكَ تُصَلِّيهِمَا، فَإِنْ أَشَارَ بِيَدِهِ فَاسْتَأْخِرِي عَنْهُ، قَالَتْ: فَفَعَلَتِ الْجَارِيَةُ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ، فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" يَا بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ، سَأَلْتِ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، إِنَّهُ أَتَانِي نَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ بِالْإِسْلَامِ مِنْ قَوْمِهِمْ فَشَغَلُونِي عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ فَهُمَا هَاتَانِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس، عبدالرحمٰن بن ازہر رضی اللہ عنہ اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ تینوں نے انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور کہا: ان سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعت نفل کے بارے میں پوچھنا اور کہنا: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ یہ دو رکعتیں پڑھتی ہیں، حالانکہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع فرمایا ہے، چنانچہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور انہیں ان لوگوں کا پیغام پہنچا دیا، آپ نے کہا: ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو! میں ان لوگوں کے پاس آیا اور ان کی بات انہیں بتا دی، تو ان سب نے مجھے ام المؤمنین ام سلمہ کے پاس اسی پیغام کے ساتھ بھیجا، جس کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تھا، تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا، پھر دیکھا کہ آپ انہیں پڑھ رہے ہیں، ایک روز آپ نے عصر پڑھی پھر میرے پاس آئے، اس وقت میرے پاس انصار کے قبیلہ بنی حرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، آپ نے یہ دونوں رکعتیں پڑھنا شروع کیں تو میں نے ایک لڑکی کو آپ کے پاس بھیجا اور اس سے کہا کہ تو جا کر آپ کے بغل میں کھڑی ہو جا اور آپ سے کہہ: اللہ کے رسول! ام سلمہ کہہ رہی ہیں: میں نے تو آپ کو ان دونوں رکعتوں کو پڑھنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور اب آپ ہی انہیں پڑھ رہے ہیں، اگر آپ ہاتھ سے اشارہ کریں تو پیچھے ہٹ جانا، اس لڑکی نے ایسا ہی کیا، آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا، تو وہ پیچھے ہٹ گئی، جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا: اے ابوامیہ کی بیٹی! تم نے مجھ سے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے بارے میں پوچھا ہے، دراصل میرے پاس عبدالقیس کے چند لوگ اپنی قوم کے اسلام کی خبر لے کر آئے تو ان لوگوں نے مجھے باتوں میں مشغول کر لیا اور میں ظہر کے بعد یہ دونوں رکعتیں نہیں پڑھ سکا، یہ وہی دونوں رکعتیں ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
1398
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، أَنَّ أَبَا سَوِيَّةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ حُجَيْرَةَ يُخْبِرُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آيَاتٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِينَ، وَمَنْ قَامَ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِينَ، وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِينَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: ابْنُ حُجَيْرَةَ الْأَصْغَرُ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ حُجَيْرَةَ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دس آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام اللیل کرے گا وہ غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا، جو سو آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کرے گا وہ عابدوں میں لکھا جائے گا، اور جو ایک ہزار آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کرے گا وہ بے انتہاء ثواب جمع کرنے والوں میں لکھا جائے گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن حجیرہ الاصغر سے مراد عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن حجیرہ ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
1410
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ ص، فَلَمَّا بَلَغَ السَّجْدَةَ نَزَلَ فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ مَعَهُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمٌ آخَرُ قَرَأَهَا فَلَمَّا بَلَغَ السَّجْدَةَ تَشَزَّنَ النَّاسُ لِلسُّجُودِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا هِيَ تَوْبَةُ نَبِيٍّ، وَلَكِنِّي رَأَيْتُكُمْ تَشَزَّنْتُمْ لِلسُّجُودِ، فَنَزَلَ، فَسَجَدَ وَسَجَدُوا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ ص پڑھی، آپ منبر پر تھے جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو اترے، سجدہ کیا، لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا، پھر ایک دن کی بات ہے کہ آپ نے اس سورۃ کی تلاوت کی، جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو لوگ سجدے کے لیے تیار ہو گئے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سجدہ دراصل ایک نبی ۱؎ کی توبہ تھی، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ سجدے کے لیے تیار ہو رہے ہو، چنانچہ آپ اترے، سجدہ کیا، لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
1500
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي هِلَالٍ حَدَّثَهُ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوًى أَوْ حَصًى تُسَبِّحُ بِهِ، فَقَالَ:" أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا، أَوْ أَفْضَلُ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الْأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مِثْلُ ذَلِكَ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک عورت ۱؎ کے پاس گئے، اس کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی تھیں، جن سے وہ تسبیح گنتی تھی ۲؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاتا ہوں جو تمہارے لیے اس سے زیادہ آسان ہے یا اس سے افضل ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس طرح کہا کرو: «سبحان الله عدد ما خلق في السماء وسبحان الله عدد ما خلق في الأرض وسبحان الله عدد ما خلق بين ذلك وسبحان الله عدد ما هو خالق والله أكبر مثل ذلك والحمد لله مثل ذلك ‏.‏ ولا إله إلا الله مثل ذلك ‏.‏ ولا حول ولا قوة إلا بالله مثل ذلك» ۔
ضعيف
سنن ابي داود
1597
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فِيمَا سَقَتِ الْأَنْهَارُ وَالْعُيُونُ الْعُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالسَّوَانِي فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے دریا یا چشمے کے پانی نے سینچا ہو، اس میں دسواں حصہ ہے اور جسے رہٹ کے پانی سے سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1714
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ حَدَّثَهُ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَجَدَ دِينَارًا فَأَتَى بِهِ فَاطِمَةَ، فَسَأَلَتْ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هُوَ رِزْقُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" فَأَكَلَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَكَلَ عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ تَنْشُدُ الدِّينَارَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَلِيُّ أَدِّ الدِّينَارَ".
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ایک دینار ملا تو وہ اسے لے کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، انہوں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: وہ اللہ عزوجل کا دیا ہوا رزق ہے، چنانچہ اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا اور علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما نے کھایا، اس کے بعد ان کے پاس ایک عورت دینار ڈھونڈھتی ہوئی آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی! دینار ادا کر دو۔
حسن
سنن ابي داود
2263
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ حِينَ نَزَلَتْ آيَةُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ، فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ، وَلَنْ يُدْخِلَهَا اللَّهُ جَنَّتَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ وَفَضَحَهُ عَلَى رُءُوسِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت آیت لعان نازل ہوئی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس عورت نے کسی قوم میں ایسے فرد کو شامل کر دیا جو حقیقت میں اس قوم کا فرد نہیں ہے، تو وہ اللہ کی رحمت سے دور رہے گی، اسے اللہ تعالیٰ جنت میں ہرگز داخل نہ کرے گا، اسی طرح جس شخص نے اپنے بچے کا انکار کیا حالانکہ اسے معلوم ہے کہ وہ اس کا بچہ ہے، اسے اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب نہ ہو گا، اور وہ اگلی پچھلی ساری مخلوق کے سامنے اسے رسوا کرے گا ۱؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
2394
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ. حدَّثَهُ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ. حدَّثَهُ أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ. حدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: أَتَى رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، احْتَرَقْتُ. فَسَأَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَأْنُهُ. قَالَ:" أَصَبْتُ أَهْلِي. قَالَ: تَصَدَّقْ. قَالَ: وَاللَّهِ مَا لِي شَيْءٌ وَلَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ. قَالَ: اجْلِسْ. فَجَلَسَ، فَبَيْنَمَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ أَقْبَلَ رَجُلٌ يَسُوقُ حِمَارًا عَلَيْهِ طَعَامٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ آنِفًا؟ فَقَامَ الرَّجُلُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْ بِهَذَا. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعَلَى غَيْرِنَا؟ فَوَاللَّهِ إِنَّا لَجِيَاعٌ مَا لَنَا شَيْءٌ. قَالَ: كُلُوهُ".
عباد بن عبداللہ بن زبیر کا بیان ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص رمضان میں مسجد کے اندر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں تو بھسم ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگا: میں نے اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ کر دو، وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم! میرے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، اور نہ میرے اندر استطاعت ہے، فرمایا: بیٹھ جاؤ، وہ بیٹھ گیا، اتنے میں ایک شخص غلے سے لدا ہوا گدھا ہانک کر لایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی بھسم ہونے والا کہاں ہے؟ وہ شخص کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے صدقہ کر دو، بولا: اللہ کے رسول! کیا اپنے علاوہ کسی اور پر صدقہ کروں؟ اللہ کی قسم! ہم بھوکے ہیں، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، فرمایا: اسے تم ہی کھا لو۔
صحيح
سنن ابي داود
2400
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا فِي النَّذْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی جانب سے اس کا ولی روزے رکھے گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حکم نذر کے روزے کا ہے اور یہی احمد بن حنبل کا قول ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2510
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى الْمَهْرِيِّ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى بَنِي لَحْيَانَ وَقَالَ: لِيَخْرُجْ مِنْ كُلِّ رَجُلَيْنِ رَجُلٌ، ثُمَّ قَالَ: لِلْقَاعِدِ أَيُّكُمْ خَلَفَ الْخَارِجَ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ بِخَيْرٍ، كَانَ لَهُ مِثْلُ نِصْفِ أَجْرِ الْخَارِجِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو لحیان کی طرف ایک لشکر بھیجا اور فرمایا: ہر دو آدمی میں سے ایک آدمی نکل کھڑا ہو، اور پھر خانہ نشینوں سے فرمایا: تم میں جو کوئی مجاہد کے اہل و عیال اور مال کی اچھی طرح خبرگیری کرے گا تو اسے جہاد کے لیے نکلنے والے کا نصف ثواب ملے گا۔
صحيح
سنن ابي داود
2514
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ ثُمَامَةَ بْنِ شُفَيٍّ الْهَمْدَانِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ:" وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ سورة الأنفال آية 60، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ".
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: آپ آیت کریمہ «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة» تم ان کے مقابلہ کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو (سورۃ الأنفال: ۶۰) پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے: سن لو، قوت تیر اندازی ہی ہے، سن لو قوت تیر اندازی ہی ہے، سن لو قوت تیر اندازی ہی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2530
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ دَرَّاجًا أَبَا السَّمْحِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَجُلًا هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْيَمَنِ فَقَالَ:" هَلْ لَكَ أَحَدٌ بِالْيَمَنِ، قَالَ: أَبَوَايَ، قَالَ: أَذِنَا لَكَ، قَالَ: لَا، قَالَ: ارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَاسْتَأْذِنْهُمَا، فَإِنْ أَذِنَا لَكَ فَجَاهِدْ وَإِلَّا فَبِرَّهُمَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے ہجرت کر کے آیا، آپ نے اس سے فرمایا: کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، میرے ماں باپ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: انہوں نے تمہیں اجازت دی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس جاؤ اور اجازت لو، اگر وہ اجازت دیں تو جہاد کرو ورنہ ان دونوں کی خدمت کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
2706
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ ابْنَ حَرْشَفٍ الْأَزْدِيَّ، حَدَّثَهُ عَنْ الْقَاسِمِ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَن بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كُنَّا نَأْكُلُ الْجَزَرَ فِي الْغَزْوِ وَلَا نَقْسِمُهُ حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَرْجِعُ إِلَى رِحَالِنَا وَأَخْرِجَتُنَا مِنْهُ مُمْلاةٌ.
بعض صحابہ کرام سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غزوات میں گاجر کھاتے تھے، ہم اسے تقسیم نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ ہم اپنے مکانوں کی طرف لوٹتے اور ہمارے برتن اس سے بھرے ہوتے تھے۔
ضعيف
سنن ابي داود
2758
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: بَعَثَتْنِي قُرَيْشٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُلْقِيَ فِي قَلْبِي الْإِسْلَامُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي وَاللَّهِ لَا أَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَا أَخِيسُ بِالْعَهْدِ وَلَا أَحْبِسُ الْبُرُدَ، وَلَكِنْ ارْجِعْ فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِكَ الَّذِي فِي نَفْسِكَ الْآنَ فَارْجِعْ"، قَالَ: فَذَهَبْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ، قَالَ بُكَيْرٌ: وَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَا رَافِعٍ كَانَ قِبْطِيًّا، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا كَانَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا يَصْلُحُ.
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریش نے مجھے (صلح حدیبیہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں ان کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں جاؤں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہ تو بدعہدی کرتا ہوں اور نہ ہی قاصدوں کو گرفتار کرتا ہوں، تم واپس جاؤ، اگر تمہارے دل میں وہی چیز رہی جو اب ہے تو آ جانا، ابورافع کہتے ہیں: میں قریش کے پاس لوٹ آیا، پھر دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گیا۔ بکیر کہتے ہیں: مجھے حسن بن علی نے خبر دی ہے کہ ابورافع قبطی غلام تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ اس زمانہ میں تھا اب یہ مناسب نہیں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3219
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ الْهَمْدَانِيّ حَدَّثَهُ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ بِرُودِسَ مِنْ أَرْضِ الرُّومِ، فَتُوُفِّيَ صَاحِبٌ لَنَا، فَأَمَرَ فَضَالَةُ بِقَبْرِهِ فَسُوِّيَ، ثُمّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِتَسْوِيَتِهَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رُودِسُ جَزِيرَةٌ فِي الْبَحْرِ.
ابوعلی ہمدانی کہتے ہیں ہم سر زمین روم میں رودس ۱؎ میں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، وہاں ہمارا ایک ساتھی انتقال کر گیا تو فضالہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس کی قبر کھودنے کا حکم دیا، پھر وہ (دفن کے بعد) برابر کر دی گئی، پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ اسے برابر کر دینے کا حکم دیتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: رودس سمندر کے اندر ایک جزیرہ ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3311
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ، صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔
صحيح
سنن ابي داود
3365
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ:"الْعَرِيَّةُ الرَّجُلُ يُعْرِي النَّخْلَةَ أَوِ الرَّجُلُ يَسْتَثْنِي مِنْ مَالِهِ النَّخْلَةَ أَوِ الِاثْنَتَيْنِ، يَأْكُلُهَا، فَيَبِيعُهَا بِتَمْرٍ".
عبدربہ بن سعید انصاری کہتے ہیں عرایا یہ ہے کہ ایک آدمی ایک شخص کو کھجور کا ایک درخت دیدے یا اپنے باغ میں سے دو ایک درخت اپنے کھانے کے لیے الگ کر لے پھر اسے سوکھی کھجور سے بیچ دے۔
صحيح الإسناد مقطوع
سنن ابي داود
3495
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ عُبَيْدٍ الْمَدِينِيِّ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْ يَبِيعَ أَحَدٌ طَعَامًا اشْتَرَاهُ بِكَيْلٍ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ کو جسے کسی نے ناپ تول کر خریدا ہو، جب تک اسے اپنے قبضہ و تحویل میں پوری طرح نہ لے لے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3823
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ بَكْرَ بْنَ سَوَادَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا النَّجِيبِ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثُّومُ وَالْبَصَلُ، وَقِيلَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَشَدُّ ذَلِكَ كُلُّهُ الثُّومُ أَفَتُحَرِّمُهُ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُوهُ، وَمَنْ أَكَلَهُ مِنْكُمْ فَلَا يَقْرَبْ هَذَا الْمَسْجِدَ حَتَّى يَذْهَبَ رِيحُهُ مِنْهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لہسن اور پیاز کا ذکر کیا گیا اور عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ان میں سب سے زیادہ سخت لہسن ہے کیا آپ اسے حرام کرتے ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھاؤ اور جو شخص اسے کھائے وہ اس مسجد (مسجد نبوی) میں اس وقت تک نہ آئے جب تک اس کی بو نہ جاتی رہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
4126
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ فَرْقَدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكِ بْنِ حُذَافَةَ حَدَّثَهُ،عَنْ أُمِّهِ الْعَالِيَةِ بِنْتِ سُبَيْعٍ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ لِي غَنَمٌ بِأُحُدٍ فَوَقَعَ فِيهَا الْمَوْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ لِي مَيْمُونَةُ: لَوَ أَخَذْتِ جُلُودَهَا فَانْتَفَعْتِ بِهَا، فَقَالَتْ: أَوَ يَحِلُّ ذَلِكَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، مَرَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجَالٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَجُرُّونَ شَاةً لَهُمْ مِثْلَ الْحِمَارِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ أَخَذْتُمْ إِهَابَهَا، قَالُوا: إِنَّهَا مَيْتَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُطَهِّرُهَا الْمَاءُ وَالْقَرَظُ".
عالیہ بنت سبیع کہتی ہیں کہ میری کچھ بکریاں احد پہاڑ پر تھیں وہ مرنے لگیں تو میں ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور ان سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے مجھ سے کہا: اگر تم ان کی کھالوں سے فائدہ اٹھاتیں! تو میں بولی: کیا یہ درست ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے قریش کے کچھ لوگ ایک مری ہوئی بکری کو گدھے کی طرح گھسیٹتے ہوئے گزرے، تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے اس کی کھال لے لی ہوتی لوگوں نے عرض کیا: وہ تو مری ہوئی ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی اور بیر کی پتی اس کو پاک کر دے گی۔
صحيح
سنن ابي داود
4369
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبِدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ،قَالَ أَحْمَدُ هُوَ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ" أَنَّ نَاسًا أَغَارُوا عَلَى إِبِلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَاقُوهَا وَارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ وَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤْمِنًا فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ فَأُخِذُوا فَقَطَّعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَلَ أَعْيُنَهُمْ، قَالَ: وَنَزَلَتْ فِيهِمْ آيَةُ الْمُحَارَبَةِ، وَهُمُ الَّذِينَ أَخْبَرَ عَنْهُمْ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ الْحَجَّاجَ حِينَ سَأَلَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو لوٹ کر انہیں ہنکا لے گئے، اسلام سے مرتد ہو گئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن چرواہے کو قتل کر دیا، تو آپ نے ان کے تعاقب میں کچھ لوگوں کو بھیجا، وہ پکڑے گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیئے گئے، اور ان کی آنکھوں پر گرم سلائیاں پھیر دیں، انہیں لوگوں کے متعلق آیت محاربہ نازل ہوئی، اور انہیں لوگوں کے متعلق انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حجاج کو خبر دی تھی جس وقت اس نے آپ سے پوچھا تھا۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4492
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ بُكَيْرَ بْنَ الْأَشَجّ حَدَّثَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بُرْدَةَ الْأَنْصَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوبردہ انصاری سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔
0
سنن ابي داود
4536
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ عُبَيْدَةَ بْنِ مُسَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ قَسْمًا أَقْبَلَ رَجُلٌ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، فَطَعَنَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُرْجُونٍ كَانَ مَعَهُ فَجُرِحَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَالَ فَاسْتَقِدْ فَقَالَ بَلْ عَفَوْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ تقسیم کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص آیا اور آپ کے اوپر جھک گیا تو اس کے چہرے پر خراش آ گئی تو آپ نے ایک لکڑی جو آپ کے پاس تھی اسے چبھو دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: آؤ قصاص لے لو ۱؎ وہ بولا: اللہ کے رسول! میں نے معاف کر دیا۔
ضعيف
سنن ابي داود
4857
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي هِلَالٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ حَدَّثَهُ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ قَالَ:" كَلِمَاتٌ لَا يَتَكَلَّمُ بِهِنَّ أَحَدٌ فِي مَجْلِسِهِ عِنْدَ قِيَامِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ إِلَّا كُفِّرَ بِهِنَّ عَنْهُ، وَلَا يَقُولُهُنَّ فِي مَجْلِسِ خَيْرٍ وَمَجْلِسِ ذِكْرٍ إِلَّا خُتِمَ لَهُ بِهِنَّ عَلَيْهِ كَمَا يُخْتَمُ بِالْخَاتَمِ عَلَى الصَّحِيفَةِ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ تین کلمے ایسے ہیں جنہیں کوئی بھی مجلس سے اٹھتے وقت تین مرتبہ پڑھے تو یہ اس کے لیے (ان گناہوں کا جو اس مجلس میں اس سے ہوئے) کفارہ بن جاتے ہیں، اور اگر انہیں نیکی یا ذکر الٰہی کی مجلس میں کہے گا تو وہ مانند مہر کے ہوں گے جیسے کسی تحریر یا دستاویز پر اخیر میں مہر ہوتی ہے اور وہ کلمات یہ ہیں «سبحانك اللهم وبحمدك لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك» اے اللہ! تو پاک ہے، اور تو اپنی ساری تعریفوں کے ساتھ ہے، نہیں ہے معبود برحق مگر تو ہی اور میں تجھی سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔
صحيح دون قوله ثلاث مرات
سنن ابي داود
4858
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ عَمْرٌو، وحَدَّثَنِي بِنَحْوِ ذَلِكَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
4976
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا يُونُسَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا الْخَبَرِ وَلَمْ يَذْكُرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَلْيَقُلْ: سَيِّدِي وَمَوْلَايَ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے لیکن اس میں انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس میں یہ ہے فرمایا: اور چاہیئے کہ وہ «سيدي» (میرے آقا) اور «مولاى» (میرے مولی) کہے۔
صحيح
سنن ابي داود
5075
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ سَالِمًا الْفَرَّاءَ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ الْحَمِيدِ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أُمَّهُ حَدَّثَتْهُ، وَكَانَتْ تَخْدِمُ بَعْضَ بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ ابْنَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَتْهَا،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَلِّمُهَا، فَيَقُولُ: قُولِي حِينَ تُصْبِحِينَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ، فَإِنَّهُ مَنْ قَالَهُنَّ حِينَ يُصْبِحُ: حُفِظَ حَتَّى يُمْسِيَ، وَمَنْ قَالَهُنَّ حِينَ يُمْسِي: حُفِظَ حَتَّى يُصْبِحَ".
بنی ہاشم کے غلام عبدالحمید بیان کرتے ہیں کہ ان کی ماں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیٹی کی خدمت میں رہا کرتی تھیں انہیں بتایا کہ ان کی صاحبزادی نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سکھاتے تھے کہ جب تم صبح کرو تو کہو «سبحان الله وبحمده لا قوة إلا بالله ما شاء الله كان وما لم يشأ لم يكن أعلم أن الله على كل شىء قدير وأن الله قد أحاط بكل شىء علما» میں اللہ کی پاکی بیان کرتا، اور اس کی تعریف کرتا ہوں، کسی میں طاقت نہیں سوائے اللہ کے، جو اللہ چاہے گا وہی ہو گا، اور جو وہ نہیں چاہے وہ نہیں ہو گا، میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور اللہ اپنے علم سے ہر چیز کو محیط ہے جو شخص ان کلمات کو صبح کے وقت کہے گا اس کی (اللہ کی طرف سے) شام تک حفاظت کی جائے گی، اور جو شام کے وقت کہے گا اس کی صبح تک۔
ضعيف
سنن ابي داود
5098
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ مُسْتَجْمِعًا ضَاحِكًا حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ وَكَانَ إِذَا رَأَى غَيْمًا أَوْ رِيحًا عُرِفَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، النَّاسُ إِذَا رَأَوْا الْغَيْمَ فَرِحُوا رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِ الْمَطَرُ، وَأَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَتْ فِي وَجْهِكَ الْكَرَاهِيَةُ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، مَا يُؤَمِّنُنِي أَنْ يَكُونَ فِيهِ عَذَابٌ قَدْ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ، وَقَدْ رَأَى قَوْمٌ الْعَذَابَ، فَقَالُوا: هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کھلکھلا کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کے کوے کو دیکھ سکوں، آپ تو صرف تبسم فرماتے (ہلکا سا مسکراتے) تھے، آپ جب بدلی یا آندھی دیکھتے تو اس کا اثر آپ کے چہرے پر دیکھا جاتا (آپ تردد اور تشویش میں مبتلا ہو جاتے) تو (ایک بار) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگ تو جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہو گی، اور آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے سے ناگواری (گھبراہٹ اور پریشانی) جھلکتی ہے (اس کی وجہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا: اے عائشہ! مجھے یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو، کیونکہ ایک قوم (قوم عاد) ہوا کے عذاب سے دو چار ہو چکی ہے، اور ایک قوم نے (بدلی کا) عذاب دیکھا، تو وہ کہنے لگی «هذا عارض ممطرنا» ۱؎: یہ بادل تو ہم پر برسے گا (وہ برسا تو لیکن، بارش پتھروں کی ہوئی، سب ہلاک کر دیے گئے)۔
صحيح
سنن ابي داود
5145
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ السَّائِبِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ جَالِسًا، فَأَقْبَلَ أَبُوهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ فَوَضَعَ لَهُ بَعْضَ ثَوْبِهِ فَقَعَدَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَتْ أُمُّهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَوَضَعَ لَهَا شِقَّ ثَوْبِهِ مِنْ جَانِبِهِ الْآخَرِ فَجَلَسَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ أَخُوهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَقَامَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَجْلَسَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ".
عمر بن سائب کا بیان ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ اتنے میں آپ کے رضاعی باپ آئے، آپ نے ان کے لیے اپنے کپڑے کا ایک کونہ بچھا دیا، وہ اس پر بیٹھ گئے، پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں آپ نے ان کے لیے اپنے کپڑے کا دوسرا کنارہ بچھا دیا، وہ اس پر بیٹھ گئیں، پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ کھڑے ہو گئے اور انہیں اپنے سامنے بٹھایا۔
ضعيف الإسناد

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.