سنن ابي داود
عبيد الله بن معاذ العنبري (حدثنا / عن) معاذ بن معاذ العنبري
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
153
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ حَفْصِ بْنِ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ، سَمِعَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، أَنَّهُ شَهِدَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ يَسْأَلُ بِلَالًا عَنْ وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" كَانَ يَخْرُجُ يَقْضِي حَاجَتَهُ فَآتِيهِ بِالْمَاءِ فَيَتَوَضَّأُ، وَيَمْسَحُ عَلَى عِمَامَتِهِ وَمُوقَيْهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هُوَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى بَنِي تَيْمِ بْنِ مُرَّةَ.
ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ وہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت موجود تھے جب وہ بلال رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بارے میں پوچھ رہے تھے، بلال نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے تشریف لے جاتے، پھر میں آپ کے پاس پانی لاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے اور اپنے عمامہ (پگڑی) اور دونوں موق (جسے موزوں کے اوپر پہنا جاتا ہے) پر مسح کرتے۔
صحيح
سنن ابي داود
294
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اسْتُحِيضَتِ امْرَأَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَأُمِرَتْ أَنْ تُعَجِّلَ الْعَصْرَ وَتُؤَخِّرَ الظُّهْرَ وَتَغْتَسِلَ لَهُمَا غُسْلًا، وَأَنْ تُؤُخِّرَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلَ الْعِشَاءَ وَتَغْتَسِلَ لَهُمَا غُسْلًا، وَتَغْتَسِلَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ غُسْلًا"، فَقُلْتُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ ہوا تو اسے حکم دیا گیا کہ عصر جلدی پڑھے اور ظہر میں دیر کرے، اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور مغرب کو مؤخر کرے، اور عشاء میں جلدی کرے اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور فجر کے لیے ایک غسل کرے۔ شعبہ کہتے ہیں: تو میں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے پوچھا: کیا یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے؟ اس پر انہوں نے کہا: میں جو کچھ تم سے بیان کرتا ہوں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے مروی ہوتا ہے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
316
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ يَعْنِي ابْنَ مُهَاجِرٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَسْمَاءَ سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ: فِرْصَةً مُمَسَّكَةً، قَالَتْ: كَيْفَ أَتَطَهَّرُ بِهَا؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، تَطَهَّرِي بِهَا وَاسْتَتِرِي بِثَوْبٍ، وَزَادَ: وَسَأَلَتْهُ عَنِ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَقَالَ: تَأْخُذِينَ مَاءَكِ فَتَطَّهَّرِينَ أَحْسَنَ الطُّهُورِ وَأَبْلَغَهُ، ثُمَّ تَصُبِّينَ عَلَى رَأْسِكِ الْمَاءَ ثُمَّ تَدْلُكِينَهُ حَتَّى يَبْلُغَ شُؤُونَ رَأْسِكِ، ثُمَّ تُفِيضِينَ عَلَيْكِ الْمَاءَ، قَالَ: وَقَالَتْ عَائِشَةُ: نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ، لَمْ يَكُنْ يَمْنَعُهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَسْأَلْنَ عَنِ الدِّينِ وَأَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِيهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، پھر آگے اسی مفہوم کی حدیث ہے، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشک لگا ہوا روئی کا پھاہا (لے کر اس سے پاکی حاصل کرو)، اسماء نے کہا: اس سے میں کیسے پاکی حاصل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! اس سے پاکی حاصل کرو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے سے (اپنا چہرہ) چھپا لیا۔ اس حدیث میں اتنا اضافہ ہے کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے غسل جنابت کے بارے میں بھی دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پانی لے لو، پھر اس سے خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرو، پھر اپنے سر پر پانی ڈالو، پھر اسے اتنا ملو کہ پانی بالوں کی جڑوں میں پہنچ جائے، پھر اپنے اوپر پانی بہاؤ۔ راوی کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں انہیں دین کا مسئلہ دریافت کرنے اور اس کو سمجھنے میں حیاء مانع نہیں ہوتی۔
حسن
سنن ابي داود
367
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَلِّي فِي شُعُرِنَا أَوْ فِي لُحُفِنَا"، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: شَكَّ أَبِي.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شعار یا لحافوں میں نماز نہیں پڑھتے تھے ۱؎۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ شک میرے والد (معاذ) کو ہوا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
396
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، سَمِعَ أَبَا أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" وَقْتُ الظُّهْرِ مَا لَمْ تَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَسْقُطْ فَوْرُ الشَّفَقِ، وَوَقْتُ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ عصر کا وقت نہ آ جائے، عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہو جائے، مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ شفق کی سرخی ختم نہ ہو جائے، عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے، اور فجر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج نہ نکل آئے۔
صحيح
سنن ابي داود
576
حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ بِمِنًى، بِمَعْنَاهُ.
یزید بن اسود خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز منیٰ میں پڑھی، پھر آگے راوی نے سابقہ معنی کی حدیث بیان کی۔
صحيح
سنن ابي داود
583
حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ فِيهِ وَلَا يَؤُمُّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد وَكَذَا قَالَ يَحْيَى الْقَطَّانُ، عَنْ شُعْبَةَ، أَقْدَمُهُمْ قِرَاءَةً.
اس سند سے بھی شعبہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: «ولا يؤم الرجل الرجل في سلطانه» کوئی شخص کسی کی سربراہی کی جگہ میں اس کی امامت نہ کرے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح یحییٰ قطان نے شعبہ سے «أقدمهم قرائة» (لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو قرأت میں سب سے فائق ہو) کی روایت کی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
645
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَلِّي فِي شُعُرِنَا أَوْ لُحُفِنَا"، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: شَكَّ أَبِي.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شعار یا لحاف ۱؎ میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ عبیداللہ نے کہا: میرے والد (معاذ) کو شک ہوا ہے (کہ ام المؤمنین عائشہ نے لفظ: «شعرنا» کہا، یا: «لحفنا»)۔
صحيح
سنن ابي داود
657
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَجُلٌ ضَخْمٌ وَكَانَ ضَخْمًا لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أُصَلِّيَ مَعَكَ، وَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا وَدَعَاهُ إِلَى بَيْتِهِ فَصَلِّ، حَتَّى أَرَاكَ كَيْفَ تُصَلِّي فَأَقْتَدِيَ بِكَ، فَنَضَحُوا لَهُ طَرَفَ حَصِيرٍ كَانَ لَهُمْ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ"، قَالَ فُلَانُ بْنُ الْجَارُودِ، لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَكَانَ يُصَلِّي الضُّحَى؟ قَالَ: لَمْ أَرَهُ صَلَّى إِلَّا يَوْمَئِذٍ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بھاری بھر کم آدمی ہوں - وہ بھاری بھر کم تھے بھی، میں آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا ہوں، انصاری نے آپ کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ کو اپنے گھر بلایا اور کہا: آپ یہاں نماز پڑھ دیجئیے تاکہ میں آپ کو دیکھ لوں کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ تو میں آپ کی پیروی کیا کروں، پھر ان لوگوں نے اپنی ایک چٹائی کا کنارہ دھویا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ راوی کہتے ہیں: فلاں بن جارود نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے آپ کو کبھی اسے پڑھتے نہیں دیکھا سوائے اس دن کے۔
صحيح خ دون قوله فصل حتى أراك كيف تصلي فأقتدي بك
سنن ابي داود
760
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَمِّهِ الْمَاجِشُونِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ،عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ كَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ لِي إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ، وَإِذَا رَكَعَ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعِظَامِي وَعَصَبِي، وَإِذَا رَفَعَ، قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ، وَإِذَا سَجَدَ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُورَتَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ وَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ، وَإِذَا سَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَالْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو «الله اكبر» کہتے پھر یہ دعا پڑھتے: «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا مسلما وما أنا من المشركين إن صلاتي ونسكي ومحياى ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا أول المسلمين اللهم أنت الملك لا إله لي إلا أنت أنت ربي وأنا عبدك ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها لا يصرف سيئها إلا أنت لبيك وسعديك والخير كله في يديك والشر ليس إليك أنا بك وإليك تباركت وتعاليت أستغفرك وأتوب إليك‏» میں نے اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف متوجہ کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں تمام ادیان سے کٹ کر سچے دین کا تابع دار اور مسلمان ہوں، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اللہ کے ساتھ دوسرے کو شریک ٹھہراتے ہیں، میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہاں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا تابعدار ہوں، اے اللہ! تو بادشاہ ہے، تیرے سوا میرا کوئی اور معبود برحق نہیں، تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، مجھے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا اعتراف ہے، تو میرے تمام گناہوں کی مغفرت فرما، تیرے سوا گناہوں کی مغفرت کرنے والا کوئی نہیں، مجھے حسن اخلاق کی ہدایت فرما، ان اخلاق حسنہ کی جانب صرف تو ہی رہنمائی کرنے والا ہے، بری عادتوں اور بدخلقی کو مجھ سے دور کر دے، صرف تو ہی ان بری عادتوں کو دور کرنے والا ہے، میں حاضر ہوں، تیرے حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہوں، تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں، تیری طرف برائی کی نسبت نہیں کی جا سکتی، میں تیرا ہوں، اور میرا ٹھکانا تیری ہی طرف ہے، تو بڑی برکت والا اور بہت بلند و بالا ہے، میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے تو یہ دعا پڑ ھتے: «اللهم لك ركعت وبك آمنت ولك أسلمت خشع لك سمعي وبصري ومخي وعظامي وعصبي» اے اللہ! میں نے تیرے لیے رکوع کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرا تابعدار ہوا، میری سماعت، میری بصارت، میرا دماغ، میری ہڈی اور میرے پٹھے تیرے لیے جھک گئے)، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے تو فرماتے: «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد ملء السموات والأرض وملء ما بينهما وملء ما شئت من شىء بعد» اللہ نے اس شخص کی سن لی (قبول کر لیا) جس نے اس کی تعریف کی، اے ہمارے رب! تیرے لیے حمد و ثنا ہے آسمانوں اور زمین کے برابر، اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کے برابر، اور اس کے بعد جو کچھ تو چاہے اس کے برابر۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو کہتے: «اللهم لك سجدت وبك آمنت ولك أسلمت سجد وجهي للذي خلقه وصوره فأحسن صورته وشق سمعه وبصره وتبارك الله أحسن الخالقين» اے اللہ! میں نے تیرے لیے سجدہ کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرا فرماں بردار و تابعدار ہوا، میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کا جس نے اسے پیدا کیا اور پھر اس کی صورت بنائی تو اچھی صورت بنائی، اس کے کان اور آنکھ پھاڑے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے وہ بہترین تخلیق فرمانے والا ہے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے تو کہتے: «اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم والمؤخر لا إله إلا أنت» اے اللہ! میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے گناہوں کی مغفرت فرما، اور مجھ سے جو زیادتی ہوئی ہو ان سے اور ان سب باتوں سے درگزر فرما جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے، تو ہی آگے بڑھانے والا اور پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی برحق معبود نہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
806
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا دَحَضَتِ الشَّمْسُ صَلَّى الظُّهْرَ، وَقَرَأَ بِنَحْوٍ مِنْ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، وَالْعَصْرِ كَذَلِكَ، وَالصَّلَوَاتِ كَذَلِكَ إِلَّا الصُّبْحَ فَإِنَّهُ كَانَ يُطِيلُهَا".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھتے اور اس میں «والليل إذا يغشى» جیسی سورت پڑھتے تھے، اسی طرح عصر میں اور اسی طرح بقیہ نمازوں میں پڑھتے سوائے فجر کے کہ اسے لمبی کرتے۔
صحيح
سنن ابي داود
815
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا قُرَّةُ، عَنْ النَّزَّالِ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، أَنَّهُ" صَلَّى خَلْفَ ابْنِ مَسْعُودٍ الْمَغْرِبَ، فَقَرَأَ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ".
ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے مغرب پڑھی تو انہوں نے «قل هو الله أحد» پڑھی۔
ضعيف
سنن ابي داود
915
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزِّنَادِ، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامًا يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: وَأَخَذَ كُرْدِيًّا كَانَ لِأَبِي جَهْمٍ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْخَمِيصَةُ كَانَتْ خَيْرًا مِنَ الْكُرْدِيِّ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم کی کر دی چادر لے لی، تو آپ سے کہا گیا: اللہ کے رسول! وہ (باریک نقش و نگار والی) چادر اس (کر دی چادر) سے اچھی تھی۔
حسن
سنن ابي داود
1014
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعَ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى الظُّهْرَ فَسَلَّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ، فَقِيلَ لَهُ: نَقَصْتَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی تو دو ہی رکعت پڑھنے کے بعد سلام پھیر دیا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ نے نماز کم کر دی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں اور پڑھیں پھر (سہو کے) دو سجدے کئے۔
صحيح
سنن ابي داود
1237
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى بِأَصْحَابِهِ فِي خَوْفٍ فَجَعَلَهُمْ خَلْفَهُ صَفَّيْنِ، فَصَلَّى بِالَّذِينَ يَلُونَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ قَامَ فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى صَلَّى الَّذِينَ خَلْفَهُمْ رَكْعَةً، ثُمَّ تَقَدَّمُوا وَتَأَخَّرَ الَّذِينَ كَانُوا قُدَّامَهُمْ فَصَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً، ثُمَّ قَعَدَ حَتَّى صَلَّى الَّذِينَ تَخَلَّفُوا رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ".
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے ساتھ حالت خوف میں نماز ادا کی تو اپنے پیچھے دو صفیں بنائیں پھر جو آپ سے قریب تھے ان کو ایک رکعت پڑھائی، پھر کھڑے ہو گئے اور برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے جو پہلی صف کے پیچھے تھے، ایک رکعت ادا کی، پھر وہ لوگ آگے بڑھ گئے اور جو لوگ دشمن کے سامنے تھے، آپ کے پیچھے آ گئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک رکعت پڑھائی پھر آپ بیٹھے رہے یہاں تک کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے ایک رکعت اور پڑھی پھر آپ نے سلام پھیرا۔
صحيح
سنن ابي داود
1248
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ:" صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَوْفٍ الظُّهْرَ، فَصَفَّ بَعْضُهُمْ خَلْفَهُ، وَبَعْضُهُمْ بِإِزَاءِ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ فَانْطَلَقَ الَّذِينَ صَلَّوْا مَعَهُ فَوَقَفُوا مَوْقِفَ أَصْحَابِهِمْ، ثُمَّ جَاءَ أُولَئِكَ فَصَلَّوْا خَلْفَهُ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا وَلِأَصْحَابِهِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ". وَبِذَلِكَ كَانَ يُفْتِي الْحَسَنُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ فِي الْمَغْرِبِ يَكُونُ لِلْإِمَامِ سِتُّ رَكَعَاتٍ وَلِلْقَوْمِ ثَلَاثٌ ثَلَاثٌ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَذَلِكَ قَالَ سُلَيْمَانُ الْيَشْكُرِيُّ: عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کی حالت میں ظہر ادا کی تو بعض لوگوں نے آپ کے پیچھے صف بندی کی اور بعض دشمن کے سامنے رہے، آپ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا، تو جو لوگ آپ کے ساتھ نماز میں تھے، وہ اپنے ساتھیوں کی جگہ جا کر کھڑے ہو گئے اور وہ لوگ یہاں آ گئے پھر آپ کے پیچھے انہوں نے نماز پڑھی تو آپ نے انہیں بھی دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیرا، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں اور صحابہ کرام کی دو دو رکعتیں ہوئیں، اور حسن بصری اسی کا فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح مغرب میں امام کی چھ، اور دیگر لوگوں کی تین تین رکعتیں ہوں گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوسلمہ سے، ابوسلمہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے اور جابر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور اسی طرح سلیمان یشکری نے «عن جابر عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم » کہا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1386
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُطَرِّفًا، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ، قَالَ:" لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ".
معاویہ بن ابی سفیان سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کے متعلق فرمایا: شب قدر ستائیسویں رات ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1509
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَمِّهِ الْمَاجِشُونِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے سلام پھیرتے تو کہتے: «اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، وما أسرفت، وما أنت أعلم به مني، أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت» اے اللہ! میرے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے اور وہ تمام گناہ جنہیں میں نے چھپ کر اور کھلم کھلا کیا ہو، اور جو زیادتی کی ہو اسے اور اس گناہ کو جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، بخش دے۔ تو جسے چاہے آگے کرے، جسے چاہے پیچھے کرے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
1643
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: وَكَانَ ثَوْبَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَكْفُلُ لِي أَنْ لَا يَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا وَأَتَكَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ؟" فَقَالَ ثَوْبَانُ: أَنَا، فَكَانَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا.
ثوبان رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا اور میں اسے جنت کی ضمانت دوں؟، ثوبان نے کہا: میں (ضمانت دیتا ہوں)، چنانچہ وہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
1669
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ مَنْظُورٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا: بُهَيْسَةُ،عَنْ أَبِيهَا، قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ أَبِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَمِيصِهِ فَجَعَلَ يُقَبِّلُ وَيَلْتَزِمُ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ:" الْمَاءُ"، قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ:" الْمِلْحُ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ:" أَنْ تَفْعَلَ الْخَيْرَ خَيْرٌ لَكَ".
بہیسہ اپنے والد (عمیر) کہتی ہیں کہ میرے والد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (آپ کے پاس آنے کی) اجازت طلب کی، (اجازت دے دی تو وہ آئے) اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی قمیص کے درمیان داخل ہو گئے (یعنی آپ کی قمیص اٹھا لی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک کو چومنے اور آپ سے لپٹنے لگے، پھر انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سی چیز ہے جس کا نہ دینا جائز نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! وہ کون سی چیز ہے جس کا نہ دینا جائز نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نمک، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! وہ کون سی چیز ہے جس کا نہ دینا جائز نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جتنی نیکی کرو اتنی ہی وہ تمہارے لیے بہتر ہے (یعنی پانی نمک تو مت روکو اس کے علاوہ اگر ممکن ہو تو دوسری چیزیں بھی نہ روکو)۔
ضعيف
سنن ابي داود
1791
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا النَّهَّاسُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا أَهَلَّ الرَّجُلُ بِالْحَجِّ ثُمَّ قَدِمَ مَكَّةَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَ بِالصَّفَا وَ الْمَرْوَةِ فَقَدْ حَلَّ، وَهِيَ عُمْرَةٌ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عَطَاءٍ، دَخَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ خَالِصًا، فَجَعَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمْرَةً.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب آدمی حج کا احرام باندھ کر مکہ آئے اور بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لے تو وہ حلال ہو گیا اور یہ عمرہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن جریج نے ایک شخص سے انہوں نے عطا سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ خالص حج کا احرام باندھ کر مکہ میں داخل ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عمرہ سے بدل دیا۔
صحيح
سنن ابي داود
1804
حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، أَخْبَرَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُسْلِمٍ الْقُرِّيِّ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ:" أَهَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُمْرَةٍ، وَأَهَلَّ أَصْحَابُهُ بِحَجٍّ".
مسلم قری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا۔
صحيح
سنن ابي داود
2271
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ سَمِعَ الشَّعْبِيَّ، عَنْ الْخَلِيلِ، أَوْ ابْنِ الْخَلِيلِ، قَالَ:" أُتِيَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي امْرَأَةٍ وَلَدَتْ مِنْ ثَلَاثَةٍ، نَحْوَهُ، لَمْ يَذْكُرِ الْيَمَنَ، وَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا قَوْلَهُ طِيبَا بِالْوَلَدِ".
خلیل یا ابن خلیل کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت کا مقدمہ لایا گیا جس نے تین آدمیوں سے صحبت کے بعد ایک لڑکا جنا تھا، آگے اسی طرح کی روایت ہے اس میں نہ تو انہوں نے یمن کا ذکر کیا ہے، نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا، اور نہ (علی رضی اللہ عنہ کے) اس قول کا کہ خوشی سے تم دونوں لڑکے کو اسے (تیسرے کو) دے دو۔
ضعيف
سنن ابي داود
2333
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ، عَنْ الْحَسَنِ، فِي رَجُلٍ كَانَ بِمِصْرٍ مِنَ الْأَمْصَارِ فَصَامَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَشَهِدَ رَجُلَانِ أَنَّهُمَا رَأَيَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْأَحَدِ، فَقَالَ:" لَا يَقْضِي ذَلِكَ الْيَوْمَ الرَّجُلُ وَلَا أَهْلُ مِصْرِهِ، إِلَّا أَنْ يَعْلَمُوا أَنَّ أَهْلَ مِصْرٍ مِنْ أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ قَدْ صَامُوا يَوْمَ الْأَحَدِ، فَيَقْضُونَهُ".
حسن بصری سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی شہر میں ہو اور اس نے دوشنبہ (پیر) کے دن کا روزہ رکھ لیا ہو اور دو آدمی اس بات کی گواہی دیں کہ انہوں نے اتوار کی رات چاند دیکھا ہے (اور اتوار کو روزہ رکھا ہے) تو انہوں نے کہا: وہ شخص اور اس شہر کے باشندے اس دن کا روزہ قضاء نہیں کریں گے، ہاں اگر معلوم ہو جائے کہ مسلم آبادی والے کسی شہر کے باشندوں نے سنیچر کا روزہ رکھا ہے تو انہیں بھی ایک روزے کی قضاء کرنی پڑے گی ۱؎۔
صحيح مقطوع
سنن ابي داود
2620
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، قَالَ: أَصَابَتْنِي سَنَةٌ فَدَخَلْتُ حَائِطًا مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ، فَفَرَكْتُ سُنْبُلًا فَأَكَلْتُ، وَحَمَلْتُ فِي ثَوْبِي، فَجَاءَ صَاحِبُهُ فَضَرَبَنِي وَأَخَذَ ثَوْبِي فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ: مَا عَلَّمْتَ إِذْ كَانَ جَاهِلًا، وَلَا أَطْعَمْتَ إِذْ كَانَ جَائِعًا، أَوْ قَالَ: سَاغِبًا وَأَمَرَهُ فَرَدَّ عَلَيَّ ثَوْبِي وَأَعْطَانِي وَسْقًا أَوْ نِصْفَ وَسْقٍ مِنْ طَعَامٍ.
عباد بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے قحط نے ستایا تو میں مدینہ کے باغات میں سے ایک باغ میں گیا اور کچھ بالیاں توڑیں، انہیں مل کر کھایا، اور (باقی) اپنے کپڑے میں باندھ لیا، اتنے میں اس کا مالک آ گیا، اس نے مجھے مارا اور میرا کپڑا چھین لیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (اور آپ سے سارا ماجرا بتایا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک سے فرمایا: تم نے اسے بتایا نہیں جب کہ وہ جاہل تھا اور نہ کھلایا ہی جب کہ وہ بھوکا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا اس نے میرا کپڑا واپس کر دیا اور ایک وسق (ساٹھ صاع) یا نصف وسق (تیس صاع) غلہ مجھے دیا۔
صحيح
سنن ابي داود
2791
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُسْلِمٍ اللَّيْثِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ:سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ": مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أَهَلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: اخْتَلَفُوا عَلَى مَالِكٍ، وَعَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو فِي عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ بَعْضُهُمْ: عُمَرُ وَأَكْثَرُهُمْ قَالَ: عَمْرٌو، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهُوَ عَمْرُو بْنُ مُسْلِمِ بْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيُّ الْجُنْدُعِيُّ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس قربانی کا جانور ہو اور وہ اسے عید کے روز ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو جب عید کا چاند نکل آئے تو اپنے بال اور ناخن نہ کترے ۱؎۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3178
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، قَالَ:" صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنِ الدَّحْدَاحِ، وَنَحْنُ شُهُودٌ، ثُمَّ أُتِيَ بِفَرَسٍ، فَعُقِلَ حَتَّى رَكِبَهُ، فَجَعَلَ يَتَوَقَّصُ بِهِ، وَنَحْنُ نَسْعَى حَوْلَهُ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن دحداح کی نماز جنازہ پڑھی، اور ہم موجود تھے، پھر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے لیے) ایک گھوڑا لایا گیا اسے باندھ کر رکھا گیا یہاں تک کہ آپ سوار ہوئے، وہ اکڑ کر ٹاپ رکھنے لگا، اور ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد ہو کر تیز چلنے لگے (تاکہ آپ کا ساتھ نہ چھوٹے)۔
صحيح
سنن ابي داود
3211
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ:" أَوْصَى الْحَارِثُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أَدْخَلَهُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيِ الْقَبْرِ، وَقَالَ: هَذَا مِنَ السُّنَّةِ".
ابواسحاق کہتے ہیں کہ حارث نے وصیت کی کہ ان کی نماز (نماز جنازہ) عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ پڑھائیں، تو انہوں نے ان کی نماز پڑھائی اور انہیں قبر میں پاؤں کی طرف سے داخل کیا اور کہا: یہ مسنون طریقہ ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3248
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، وَلَا بِأُمَّهَاتِكُمْ، وَلَا بِالْأَنْدَادِ، وَلَا تَحْلِفُوا إِلَّا بِاللَّهِ، وَلَا تَحْلِفُوا بِاللَّهِ إِلَّا وَأَنْتُمْ صَادِقُونَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاؤ، نہ اپنی ماؤں کی قسم کھانا، اور نہ ان کی قسم کھانا جنہیں لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، تم صرف اللہ کی قسم کھانا، اور اللہ کی بھی قسم اسی وقت کھاؤ جب تم سچے ہو۔
صحيح
سنن ابي داود
3336
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ:" جَلَبْتُ أَنَا وَمَخْرَفَةُ الْعَبْدِيُّ بَزًّا مِنْ هَجَرَ، فَأَتَيْنَا بِهِ مَكَّةَ، فَجَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي، فَسَاوَمَنَا بِسَرَاوِيلَ، فَبِعْنَاهُ، وَثَمَّ رَجُلٌ يَزِنُ بِالْأَجْرِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: زِنْ، وَأَرْجِحْ".
سوید بن قیس کہتے ہیں میں نے اور مخرمہ عبدی نے ہجر ۱؎ سے کپڑا لیا اور اسے (بیچنے کے لیے) مکہ لے کر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس پیدل آئے، اور ہم سے پائجامہ کے کپڑے کے لیے بھاؤ تاؤ کیا تو ہم نے اسے بیچ دیا اور وہاں ایک شخص تھا جو معاوضہ لے کر وزن کیا کرتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تولو اور جھکا ہوا تولو۔
صحيح
سنن ابي داود
3420
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ، عَنْ عَمِّهِ،" أَنَّهُ مَرَّ بِقَوْمٍ فَأَتَوْهُ، فَقَالُوا: إِنَّكَ جِئْتَ مِنْ عِنْدِ هَذَا الرَّجُلِ بِخَيْرٍ، فَارْقِ لَنَا هَذَا الرَّجُلَ، فَأَتَوْهُ بِرَجُلٍ مَعْتُوهٍ فِي الْقُيُودِ، فَرَقَاهُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً، وَكُلَّمَا خَتَمَهَا جَمَعَ بُزَاقَهُ، ثُمَّ تَفَلَ، فَكَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَأَعْطَوْهُ شَيْئًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَهُ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلْ فَلَعَمْرِي لَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةٍ بَاطِلٍ، لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةٍ حَقٍّ".
خارجہ بن صلت کے چچا علاقہ بن صحار تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا گزر ایک قوم کے پاس سے ہوا تو وہ لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ آدمی (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس سے بھلائی لے کر آئے ہیں، تو ہمارے اس آدمی کو ذرا جھاڑ پھونک دیں، پھر وہ لوگ رسیوں میں بندھے ہوئے ایک پاگل لے کر آئے، تو انہوں نے اس پر تین دن تک صبح و شام سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا، جب وہ اسے ختم کرتے تو (منہ میں) تھوک جمع کرتے پھر تھو تھو کرتے، پھر وہ شخص ایسا ہو گیا، گویا اس کی گرہیں کھل گئیں، ان لوگوں نے ان کو کچھ دیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بے دھڑک) کھاؤ، قسم ہے (یعنی اس ذات کی جس کے اختیار میں میری زندگی ہے) لوگ تو جھوٹا منتر پڑھ کر کھاتے ہیں، آپ تو سچا منتر پڑھ کر کھا رہے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
3425
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَسْبِ الْإِمَاءِ".
ابوحازم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کی کمائی لینے سے منع فرمایا ہے۔  
صحيح
سنن ابي داود
3476
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ مَنْظُورٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا: بُهَيْسَةُ،عَنْ أَبِيهَا، قَالَتْ:" اسْتَأْذَنَ أَبِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَمِيصِهِ، فَجَعَلَ يُقَبِّلُ وَيَلْتَزِمُ، ثُمَّ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ: الْمَاءُ، قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ: الْمِلْحُ، قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ: أَنْ تَفْعَلَ الْخَيْرَ خَيْرٌ لَكَ".
بہیسہ نامی خاتون اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ میرے والد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی، (اجازت ملی) پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتہ اٹھا کر آپ کو بوسہ دینے اور آپ سے لپٹنے لگے پھر پوچھا: اللہ کے نبی! وہ کون سی چیز ہے جس کے دینے سے انکار کرنا جائز نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی پھر پوچھا: اللہ کے نبی! (اور) کون سی چیز ہے جس کا روکنا درست نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نمک پھر پوچھا: اللہ کے نبی! (اور) کون سی چیز ہے جس کا روکنا درست نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جتنی بھی تو نیکی کرے (یعنی جو چیزیں بھی دے سکتا ہے دے) تیرے لیے بہتر ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
4097
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ لَعَنَ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ، وَالْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں پر اور عورتوں سے مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
4331
حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَحْلِفُ بِاللَّهِ أَنَّ ابْنَ صَائِدٍ الدَّجَّالُ، فَقُلْتُ: تَحْلِفُ بِاللَّهِ؟ فَقَالَ:" إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يَحْلِفُ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنْكِرْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے، میں نے کہا: آپ اللہ کی قسم کھا رہے ہیں؟ تو بولے: میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قسم کھاتے سنا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ان پر کوئی نکیر نہیں فرمائی ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
4334
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلَاثُونَ كَذَّابًا دَجَّالًا كُلُّهُمْ يَكْذِبُ عَلَى اللَّهِ وَعَلَى رَسُولِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ تیس جھوٹے دجال ظاہر نہ ہو جائیں، اور ان میں سے ہر ایک اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھے گا۔
حسن الإسناد
سنن ابي داود
4357
حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَ: فَلَمْ يَنْزِلْ حَتَّى ضُرِبَ عُنُقُهُ وَمَا اسْتَتَابَهُ.
قاسم سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں ہے کہ جب تک اس کی گردن مار نہیں دی گئی وہ سواری سے نیچے نہیں اترے اور انہوں نے اس سے توبہ نہیں کرائی ۱؎۔
ضعيف الإسناد
سنن ابي داود
4909
حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" سُرِقَ لَهَا شَيْءٌ فَجَعَلَتْ تَدْعُو عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُسَبِّخِي عَنْهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ان کی کوئی چیز چوری ہو گئی، تو وہ اس پر بد دعا کرنے لگیں، تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس (چور) سے عذاب کو ہلکا نہ کر۔
ضعيف
سنن ابي داود
5087
حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ، قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ، يَقُولُ:" مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ: اللَّهُمَّ مَا حَلَفْتُ مِنْ حَلِفٍ، أَوْ قُلْتُ مِنْ قَوْلٍ، أَوْ نَذَرْتُ مِنْ نَذْرٍ، فَمَشِيئَتُكَ بَيْنَ يَدَيْ ذَلِكَ كُلِّهِ، مَا شِئْتَ كَانَ وَمَا لَمْ تَشَأْ لَمْ يَكُنْ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَتَجَاوَزْ لِي عَنْهُ، اللَّهُمَّ فَمَنْ صَلَّيْتَ عَلَيْهِ فَعَلَيْهِ صَلَاتِي، وَمَنْ لَعَنْتَ فَعَلَيْهِ لَعْنَتِي، كَانَ فِي اسْتِثْنَاءٍ يَوْمَهُ ذَلِكَ، أَوْ قَالَ: ذَلِكَ الْيَوْمَ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے تھے جو شخص صبح کرتے وقت کہے «اللهم ما حلفت من حلف أو قلت من قول أو نذرت من نذر فمشيئتك بين يدى ذلك كله ما شئت كان وما لم تشأ لم يكن اللهم اغفر لي وتجاوز لي عنه اللهم فمن صليت عليه فعليه صلاتي ومن لعنت فعليه لعنتي» اے اللہ! میں جو بھی قسم کھاؤں یا جو بھی بات کہوں یا جو بھی نذر مانوں ان تمام میں تیری مشیت ہی میری نظروں میں مقدم ہے، جو تو، چاہے گا ہو گا، جو تو نہیں چاہے گا نہیں ہو گا، اے اللہ! تو مجھے بخش دے، اور مجھ سے درگزر فرما، اے اللہ! جس پر تیری رحمت ہو تو اسے میری دعا بھی شامل حال رہے اور جس پر تو لعنت فرمائے اس پر میری طرف سے بھی لعنت ہو۔ تو وہ اس دن کے (فتنوں) سے محفوظ و مستثنٰی رہے گا، راوی کو شک ہے «يومه ذلك» کہا یا «ذلك اليوم» کہا۔
ضعيف الإسناد موقوف
سنن ابي داود
5179
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ رَجُلٍ مَنْ بَنِي عَامِرٍ، أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ، فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟.
بنو عامر کے ایک شخص سے روایت ہے کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی، اس میں ہے: میں نے اسے سن لیا تو میں نے کہا: السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟۔
0

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.