سنن ابي داود
عمرو بن شعيب القرشي (حدثنا / عن) شعيب بن محمد السهمي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
135
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الطُّهُورُ؟" فَدَعَا بِمَاءٍ فِي إِنَاءٍ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ فَأَدْخَلَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّاحَتَيْنِ فِي أُذُنَيْهِ وَمَسَحَ بِإِبْهَامَيْهِ عَلَى ظَاهِرِ أُذُنَيْهِ بَاطِنَ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا الْوُضُوءُ، فَمَنْ زَادَ عَلَى هَذَا أَوْ نَقَصَ، فَقَدْ أَسَاءَ وَظَلَمَ، أَوْ ظَلَمَ وَأَسَاءَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وضو کس طرح کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن میں پانی منگوایا اور اپنے دونوں پہونچوں کو تین بار دھویا، پھر چہرہ تین بار دھویا، پھر دونوں ہاتھ تین بار دھلے، پھر سر کا مسح کیا، اور شہادت کی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں داخل کیا، اور اپنے دونوں انگوٹھوں سے اپنے دونوں کانوں کے اوپری حصہ کا مسح کیا اور شہادت کی دونوں انگلیوں سے اپنے دونوں کانوں کے اندرونی حصہ کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں تین تین بار دھلے، پھر فرمایا: وضو (کا طریقہ) اسی طرح ہے جس شخص نے اس پر زیادتی یا کمی کی اس نے برا کیا، اور ظلم کیا، یا فرمایا: ظلم کیا اور برا کیا۔
حسن صحيح دون قوله أو نقص فإنه شاذ
سنن ابي داود
653
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حَافِيًا وَمُنْتَعِلًا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ ننگے پاؤں نماز پڑھتے اور جوتے پہن کر بھی۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
708
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" هَبَطْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثَنِيَّةِ أَذَاخِرَ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ يَعْنِي فَصَلَّى إِلَى جِدَارٍ، فَاتَّخَذَهُ قِبْلَةً وَنَحْنُ خَلْفَهُ، فَجَاءَتْ بَهْمَةٌ تَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ فَمَا زَالَ يُدَارِئُهَا حَتَّى لَصَقَ بَطْنَهُ بِالْجِدَارِ وَمَرَّتْ مِنْ وَرَائِهِ"، أَوْ كَمَا قَالَ مُسَدَّدٌ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اذاخر ۱؎ کی گھاٹی میں اترے تو نماز کا وقت ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیوار کو قبلہ بنا کر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور ہم آپ کے پیچھے تھے، اتنے میں بکری کا ایک بچہ آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرنے لگا، تو آپ اسے دفع کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کا پیٹ دیوار میں چپک گیا، وہ سامنے سے نہ جا سکے، آخر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے ہو کر چلا گیا، مسدد نے اسی کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
814
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ السَّرْخَسِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ، يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ قَالَ:" مَا مِنْ الْمُفَصَّلِ سُورَةٌ صَغِيرَةٌ وَلَا كَبِيرَةٌ إِلَّا وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّ النَّاسَ بِهَا فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں مفصل ۱؎ کی چھوٹی بڑی کوئی سورت ایسی نہیں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نماز میں لوگوں کی امامت کرتے ہوئے نہ سنا ہو۔
ضعيف
سنن ابي داود
1079
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الشِّرَاءِ وَالْبَيْعِ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنْ تُنْشَدَ فِيهِ ضَالَّةٌ، وَأَنْ يُنْشَدَ فِيهِ شِعْرٌ، وَنَهَى عَنِ التَّحَلُّقِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید و فروخت کرنے، کوئی گمشدہ چیز تلاش کرنے، شعر پڑھنے اور جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
1151
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" التَّكْبِيرُ فِي الْفِطْرِ سَبْعٌ فِي الْأُولَى، وَخَمْسٌ فِي الْآخِرَةِ، وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَيْهِمَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اور دونوں میں قرأت تکبیر (زوائد) کے بعد ہے۔
حسن
سنن ابي داود
1152
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ حَيَّانَ، عَنْ أَبِي يَعْلَى الطَّائِفِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْفِطْرِ الْأُولَى سَبْعًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُكَبِّرُ أَرْبَعًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يَرْكَعُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ وَكِيعٌ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَا:" سَبْعًا وَخَمْسًا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہتے تھے پھر قرأت کرتے پھر الله أكبر کہتے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو چار تکبیریں کہتے پھر قرأت کرتے پھر رکوع کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے وکیع اور ابن مبارک نے بھی روایت کیا ہے، ان دونوں نے سات اور پانچ تکبیریں نقل کی ہیں۔
حسن صحيح دون قوله أربعا والصواب خمسا كما يأتي من المؤلف معلقا
سنن ابي داود
1563
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، الْمَعْنَى أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهَا:" أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا؟" قَالَتْ: لَا، قَالَ:" أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟" قَالَ: فَخَلَعَتْهُمَا، فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ: هُمَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی، اس بچی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تم ان کی زکاۃ دیتی ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ اچھا لگے گا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے دو کنگن ان کے بدلے میں پہنائے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس عورت نے دونوں کنگن اتار کر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دئیے اور بولی: یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔
حسن
سنن ابي داود
1591
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا جَلَبَ، وَلَا جَنَبَ، وَلَا تُؤْخَذُ صَدَقَاتُهُمْ إِلَّا فِي دُورِهِمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ «جلب» صحیح ہے نہ «جنب» لوگوں سے زکاۃ ان کے ٹھکانوں میں ہی لی جائے گی ۱؎۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
1600
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ الْمِصْرِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: جَاءَ هِلَالٌ أَحَدُ بَنِي مُتْعَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُشُورِ نَحْلٍ لَهُ، وَكَانَ سَأَلَهُ أَنْ يَحْمِيَ لَهُ وَادِيًا يُقَالُ لَهُ: سَلَبَةُ،" فَحَمَى لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ الْوَادِي"، فَلَمَّا وُلِّيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَتَبَ سُفْيَانُ بْنُ وَهْبٍ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَكَتَبَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنْ أَدَّى إِلَيْكَ مَا كَانَ يُؤَدِّي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عُشُورِ نَحْلِهِ فَاحْمِ لَهُ سَلَبَةَ، وَإِلَّا فَإِنَّمَا هُوَ ذُبَابُ غَيْثٍ يَأْكُلُهُ مَنْ يَشَاءُ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنی متعان کے ایک فرد متعان اپنے شہد کا عشر (دسواں حصہ) لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کے ایک سلبہ نامی جنگل کا ٹھیکا طلب کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگل کو ٹھیکے پردے دیا، جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو سفیان بن وہب نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، وہ ان سے اس کے متعلق پوچھ رہے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں (جواب میں) لکھا اگر ہلال تم کو اسی قدر دیتے ہیں، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے یعنی اپنے شہد کا دسواں حصہ، تو سلبہ کا ان کا ٹھیکا قائم رکھو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو مکھیاں بھی جنگل کی دوسری مکھیوں کی طرح ہیں، جو چاہے ان کا شہد کھا سکتا ہے۔
حسن
سنن ابي داود
1601
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ، وَنَسَبَهُ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ شَبَابَةَ بَطْنٌ مِنْ فَهْمٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، قَالَ: مِنْ كُلِّ عَشْرِ قِرَبٍ قِرْبَةٌ، وَقَالَ سُفْيَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: وَكَانَ يَحْمِي لَهُمْ وَادِيَيْنِ، زَادَ: فَأَدَّوْا إِلَيْهِ مَا كَانُوا يُؤَدُّونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَمَى لَهُمْ وَادِيَيْهِمْ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ شبابہ جو قبیلہ فہم کی ایک شاخ ہے، پھر راوی نے اسی طرح ذکر کیا اور کہا: ہر دس مشک میں سے ایک مشک زکاۃ ہے۔ سفیان بن عبداللہ ثقفی کہتے ہیں: وہ ان کے لیے دو وادیوں کو ٹھیکہ پر دیئے ہوئے تھے، اور مزید کہتے ہیں: تو وہ لوگ انہیں اسی قدر شہد دیتے تھے جتنا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے اور آپ نے ان کے لیے دو وادیوں کو ٹھیکہ پر دیا تھا۔
حسن
سنن ابي داود
1602
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ بَطْنًا مِنْ فَهْمٍ بِمَعْنَى الْمُغِيرَةِ، قَالَ: مِنْ عَشْرِ قِرَبٍ قِرْبَةٌ، وَقَالَ: وَادِيَيْنِ لَهُمْ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مغیرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے ہم معنی روایت ہے اس میں «إن شبابة بطن من فهم» کے بجائے «إن بطنا من فهم» ہے اور «من كل عشر قرب قربة» کے بجائے «من عشر قرب قربة» اور «لهم وادييهم» کے بجائے «واديين لهم» ہے۔
حسن
سنن ابي داود
1710
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ؟ فَقَالَ:" مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ، وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ يُؤْوِيَهُ الْجَرِينُ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ"، وَذَكَرَ فِي ضَالَّةِ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ كَمَا ذَكَرَهُ غَيْرُهُ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ:" مَا كَانَ مِنْهَا فِي طَرِيقِ الْمِيتَاءِ أَوِ الْقَرْيَةِ الْجَامِعَةِ فَعَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَأْتِ فَهِيَ لَكَ، وَمَا كَانَ فِي الْخَرَابِ يَعْنِي فَفِيهَا وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت پر لٹکتے ہوئے پھل کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حاجت مند اسے کھائے اور چھپا کر نہ لے جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، اور جو اس میں سے کچھ چھپا کر لے جائے تو اس کا دو گنا جرمانہ دے اور سزا الگ ہو گی، اور جب میوہ پک کر سوکھنے کے لیے کھلیان میں ڈال دیا جائے اور اس میں سے کوئی اس قدر چرا کر لے جائے جس کی قیمت سپر (ڈھال) کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس کے بعد گمشدہ اونٹ اور بکری کا ذکر کیا جیسا کہ اوروں نے ذکر کیا ہے، اس میں ہے: آپ سے لقطے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لقطہٰ گزر گاہ عام یا آباد گاؤں میں ملے تو ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو اور اگر نہ آئے تو وہ تمہارا ہے اور جو لقطہٰ کسی اجڑے یا غیر آباد مقام پر ملے تو اس میں اور رکاز (جاہلیت کے دفینہ) میں پانچواں حصہ حاکم کو دینا ہو گا۔
حسن
سنن ابي داود
1899
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" طُفْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ، فَلَمَّا جِئْنَا دُبُرَ الْكَعْبَةِ، قُلْتُ: أَلَا تَتَعَوَّذُ؟ قَالَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، ثُمَّ مَضَى حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ وَأَقَامَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْبَابِ فَوَضَعَ صَدْرَهُ وَوَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَكَفَّيْهِ هَكَذَا وَبَسَطَهُمَا بَسْطًا، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ".
شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے ساتھ طواف کیا، جب ہم لوگ کعبہ کے پیچھے آئے تو میں نے کہا: کیا آپ پناہ نہیں مانگیں گے؟ اس پر انہوں نے کہا: ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی آگ سے، پھر وہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، اور حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان کھڑے رہے اور اپنا سینہ، اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں ہتھیلیاں اس طرح رکھیں اور انہوں نے انہیں پوری طرح پھیلایا، پھر بولے: اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے ۱؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
2051
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ مَرْثَدَ بْنَ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ كَانَ يَحْمِلُ الْأَسَارَى بِمَكَّةَ، وَكَانَ بِمَكَّةَ بَغِيٌّ يُقَالُ لَهَا: عَنَاقُ، وَكَانَتْ صَدِيقَتَهُ، قَالَ: جِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْكِحُ عَنَاقَ؟ قَالَ: فَسَكَتَ عَنِّي، فَنَزَلَتْ: وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ سورة النور آية 3، فَدَعَانِي، فَقَرَأَهَا عَلَيَّ، وَقَالَ:" لَا تَنْكِحْهَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ قیدیوں کو مکہ سے اٹھا لایا کرتے تھے، مکہ میں عناق نامی ایک بدکار عورت تھی جو ان کی آشنا تھی، مرثد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں عناق سے شادی کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے تو آیت کریمہ «والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك» نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور اسے پڑھ کر سنایا اور فرمایا: تم اس سے شادی نہ کرنا۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2129
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ نُكِحَتْ عَلَى صَدَاقٍ أَوْ حِبَاءٍ أَوْ عِدَّةٍ قَبْلَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ فَهُوَ لَهَا، وَمَا كَانَ بَعْدَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ فَهُوَ لِمَنْ أُعْطِيَهُ وَأَحَقُّ مَا أُكْرِمَ عَلَيْهِ الرَّجُلُ ابْنَتُهُ أَوْ أُخْتُهُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے مہر یا عطیہ یا وعدے پر نکاح کیا تو نکاح سے قبل ملنے والی چیز عورت کی ہو گی اور جو کچھ نکاح کے بعد ملے گا وہ اسی کا ہے جس کو دیا گیا (انعام وغیرہ)، مرد جس چیز کے سبب اپنے اکرام کا مستحق ہے وہ اس کی بیٹی یا بہن ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
2192
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي هَذَا الْخَبَرِ: زَادَ:" وَلَا نَذْرَ إِلَّا فِيمَا ابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ".
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہی روایت آئی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہی نذر ماننا درست ہے جس کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔
حسن
سنن ابي داود
2274
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانًا ابْنِي عَاهَرْتُ بِأُمِّهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا دَعْوَةَ فِي الْإِسْلَامِ، ذَهَبَ أَمْرُ الْجَاهِلِيَّةِ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! فلاں میرا بیٹا ہے میں نے زمانہ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں اس طرح کا مطالبہ صحیح نہیں، زمانہ جاہلیت کی بات ختم ہوئی، بچہ صاحب بستر کا ہے اور زانی کے لیے سنگساری ہے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2276
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو يَعْنِي الْأَوْزَاعِيَّ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے، میرا پیٹ اس کا گھر رہا، میری چھاتی اس کے پینے کا برتن بنی، میری گود اس کا ٹھکانہ بنی، اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے، اور اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک تو (دوسرا) نکاح نہیں کر لیتی اس کی تو ہی زیادہ حقدار ہے۔
حسن
سنن ابي داود
2607
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الرَّاكِبُ شَيْطَانٌ وَالرَّاكِبَانِ شَيْطَانَانِ وَالثَّلَاثَةُ رَكْبٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک سوار شیطان ہے اور دو سوار دو شیطان ہیں، اور تین سوار قافلہ ہیں ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
2694
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ فَمَنْ مَسَكَ بِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَإِنَّ لَهُ بِهِ عَلَيْنَا سِتَّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْءٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَلَيْنَا، ثُمَّ دَنَا يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعِيرٍ فَأَخَذَ وَبَرَةً مِنْ سَنَامِهِ ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ هَذَا الْفَيْءِ شَيْءٌ وَلَا هَذَا، وَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ إِلَّا الْخُمُسَ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ فَأَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمِخْيَطَ. فَقَامَ رَجُلٌ فِي يَدِهِ كُبَّةٌ مِنْ شَعْرٍ فَقَالَ: أَخَذْتُ هَذِهِ لِأُصْلِحَ بِهَا بَرْذَعَةً لِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا مَا كَانَ لِي وَ لِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكَ، فَقَالَ: أَمَّا إِذْ بَلَغَتْ مَا أَرَى فَلَا أَرَبَ لِي فِيهَا وَنَبَذَهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اسی قصہ کی روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی عورتوں اور بچوں کو واپس لوٹا دو، اور جو کوئی اس مال غنیمت سے اپنا حصہ باقی رکھنا چاہے تو ہم اس کو اس پہلے مال غنیمت سے جو اللہ ہمیں دے گا چھ اونٹ دیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے قریب آئے اور اس کی کوہان سے ایک بال لیا پھر فرمایا: لوگو! میرے لیے اس مال غنیمت سے کچھ بھی حلال نہیں ہے، اور اپنی دونوں انگلیاں اٹھا کر کہا: یہاں تک کہ یہ (بال) بھی حلال نہیں سوائے خمس (پانچواں حصہ) کے، اور خمس بھی تمہارے ہی اوپر لوٹا دیا جاتا ہے، لہٰذا تم سوئی اور دھاگا بھی ادا کر دو (یعنی بیت المال میں جمع کر دو)، ایک شخص کھڑا ہو اس کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گچھا تھا، اس نے کہا: میں نے اس کو پالان کے نیچے کی کملی درست کرنے کے لیے لیا تھا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا میرا اور بنی عبدالمطلب کا حصہ تو وہ تمہارے لیے ہے، تو اس نے کہا: جب معاملہ اتنا اہم ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اس نے اسے (غنیمت کے مال میں) پھینک دیا ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
2715
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ حَرَّقُوا مَتَاعَ الْغَالِّ وَضَرَبُوهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَزَادَ فِيهِ عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ، عَنْ الْوَلِيدِ وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ وَمَنَعُوهُ سَهْمَهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وحَدَّثَنَا بِهِ الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ قَوْلَهُ: وَلَمْ يَذْكُرْ عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ مَنْعَ سَهْمِهِ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے خیانت کرنے والے کے سامان کو جلا دیا اور اسے مارا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: علی بن بحر نے اس حدیث میں ولید سے اتنا اضافہ کیا ہے کہ اسے اس کا حصہ نہیں دیا، لیکن میں نے یہ زیادتی علی بن بحر سے نہیں سنی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہم سے ولید بن عتبہ اور عبدالوہاب بن نجدہ نے بھی بیان کیا ہے ان دونوں نے کہا اسے ہم سے ولید (ولید بن مسلم) نے بیان کیا ہے انہوں نے زہیر بن محمد سے زہیر نے عمرو بن شعیب سے موقوفاً روایت کیا ہے اور عبدالوہاب بن نجدہ حوطی نے حصہ سے محروم کر دینے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
2857
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا يُقَالُ لَهُ أَبُو ثَعْلَبَةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي كِلَابًا مُكَلَّبَةً فَأَفْتِنِي فِي صَيْدِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ كَانَ لَكَ كِلَابٌ مُكَلَّبَةٌ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ، قَالَ: ذَكِيًّا أَوْ غَيْرَ ذَكِيٍّ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ، قَالَ: وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْتِنِي فِي قَوْسِي، قَالَ: كُلْ مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ، قَالَ: ذَكِيًّا أَوْ غَيْرَ ذَكِيٍّ، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَنِّي، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَنْكَ مَا لَمْ يَصِلَّ أَوْ تَجِدَ فِيهِ أَثَرًا غَيْرَ سَهْمِكَ، قَالَ: أَفْتِنِي فِي آنِيَةِ الْمَجُوسِ إِنِ اضْطُرِرْنَا إِلَيْهَا، قَالَ: اغْسِلْهَا وَكُلْ فِيهَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ نامی ایک دیہاتی نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس شکار کے لیے تیار سدھائے ہوئے کتے ہیں، ان کے شکار کے سلسلہ میں مجھے بتائیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے پاس سدھائے ہوئے کتے ہیں تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں انہیں کھاؤ۔ ابو ثعلبہ نے کہا: خواہ میں ان کو ذبح کر سکوں یا نہ کر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ ابو ثعلبہ نے کہا: اگرچہ وہ کتے اس جانور میں سے کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ وہ اس جانور میں سے کھا لیں۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے تیر کمان سے شکار کے متعلق بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا تیر کمان جو تمہیں لوٹا دے اسے کھاؤ، خواہ تم اسے ذبح کر پاؤ یا نہ کر پاؤ۔ انہوں نے کہا: اگرچہ وہ شکار تیر کھا کر میری نظروں سے اوجھل ہو جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اگرچہ وہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہو جائے جب تک کہ گلے سڑے نہیں، اور تمہارے تیر کے سوا اس کی ہلاکت کا کوئی اور اثر معلوم نہ ہو سکے۔ پھر انہوں نے کہا: مجوسیوں (پارسیوں) کے برتن کے متعلق بتائیے جب کہ ہمیں اس کے سوا دوسرا برتن نہ ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دھو ڈالو اور اس میں کھاؤ۔
حسن لكن قوله وإن أكل منه منكر
سنن ابي داود
2872
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْمُعَلِّمَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي فَقِيرٌ لَيْسَ لِي شَيْءٌ وَلِي يَتِيمٌ، قَالَ: فَقَالَ:" كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلَا مُبَادِرٍ وَلَا مُتَأَثِّلٍ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں محتاج ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے، البتہ ایک یتیم میرے پاس ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے یتیم کے مال سے کھاؤ، لیکن فضول خرچی نہ کرنا، نہ جلد بازی دکھانا (اس کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے) نہ اس کے مال سے کما کر اپنا مال بڑھانا ۱؎۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2883
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ أَوْصَى أَنْ يُعْتِقَ عَنْهُ مِائَةُ رَقَبَةٍ، فَأَعْتَقَ ابْنُهُ هِشَامٌ خَمْسِينَ رَقَبَةً، فَأَرَادَ ابْنُهُ عَمْرٌو أَنْ يُعْتِقَ عَنْهُ الْخَمْسِينَ الْبَاقِيَةَ، فَقَالَ: حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أَوْصَى بِعَتْقِ مِائَةِ رَقَبَةٍ، وَإِنَّ هِشَامًا أَعْتَقَ عَنْهُ خَمْسِينَ وَبَقِيَتْ عَلَيْهِ خَمْسُونَ رَقَبَة، أَفَأُعْتِقُ عَنْهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ، أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ، أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ"، بَلَغَهُ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عاص بن وائل نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تو اس کے بیٹے ہشام نے پچاس غلام آزاد کئے، اس کے بعد اس کے (دوسرے) بیٹے عمرو نے ارادہ کیا کہ باقی پچاس وہ اس کی طرف سے آزاد کر دیں، پھر انہوں نے کہا: (ہم رکے رہے) یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں، چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی تو ہشام نے اس کی طرف سے پچاس غلام آزاد کر دیئے ہیں، اور پچاس غلام ابھی آزاد کرنے باقی ہیں تو کیا میں انہیں اس کی طرف سے آزاد کر دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ (باپ) مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے آزاد کرتے یا صدقہ دیتے یا حج کرتے تو اسے ان کا ثواب پہنچتا ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
2908
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، أَخْبَرَنِي عِيسَى أَبُو مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ،عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل مروی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2911
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَبِيبٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْروٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ شَتَّى".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو دین والے (یعنی مسلمان اور کافر) کبھی ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2917
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رِئَابَ بْنَ حُذَيْفَةَ تَزَوَّجَ امْرَأَةً فَوَلَدَتْ لَهُ ثَلَاثَةَ غِلْمَةٍ، فَمَاتَتْ أُمُّهُمْ فَوَرَّثُوهَا رِبَاعَهَا، وَوَلَاءَ مَوَالِيهَا، وَكَانَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ عَصَبَةَ بَنِيهَا فَأَخْرَجَهُمْ إِلَى الشَّامِ فَمَاتُوا، فَقَدَّمَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَمَاتَ مَوْلًى لَهَا وَتَرَكَ مَالًا لَهُ فَخَاصَمَهُ إِخْوَتُهَا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ عُمَرُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَحْرَزَ الْوَلَدُ أَوِ الْوَالِدُ فَهُوَ لِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ"، قَالَ: فَكَتَبَ لَهُ كِتَابًا فِيهِ شَهَادَةُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَرَجُلٍ آخَرَ، فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عَبْدُ الْمَلِكِ اخْتَصَمُوا إِلَى هِشَامِ بْنِ إِسْمَاعِيل، أَوْ إِلَى إِسْمَاعِيل بْنِ هِشَامٍ فَرَفَعَهُمْ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ، فَقَالَ: هَذَا مِنَ الْقَضَاءِ الَّذِي مَا كُنْتُ أَرَاهُ، قَالَ: فَقَضَى لَنَا بِكِتَابِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَنَحْنُ فِيهِ إِلَى السَّاعَةِ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رئاب بن حذیفہ نے ایک عورت سے شادی کی، اس کے بطن سے تین لڑکے پیدا ہوئے، پھر لڑکوں کی ماں مر گئی، اور وہ لڑکے اپنی ماں کے گھر کے اور اپنی ماں کے آزاد کئے ہوئے غلاموں کی ولاء کے مالک ہوئے، اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان لڑکوں کے عصبہ (یعنی وارث) ہوئے اس کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں شام کی طرف نکال دیا، اور وہ وہاں مر گئے تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ آئے اور اس عورت کا ایک آزاد کیا ہوا غلام مر گیا اور مال چھوڑ گیا تو اس عورت کے بھائی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس اس عورت کے ولاء کا مقدمہ لے گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ولاء اولاد یا باپ حاصل کرے تو وہ اس کے عصبوں کو ملے گی خواہ کوئی بھی ہو (اولاد کے یا باپ کے مر جانے کے بعد ماں کے وارثوں کو نہ ملے گی) پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس باب میں ایک فیصلہ نامہ لکھ دیا اور اس پر عبدالرحمٰن بن عوف اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما اور ایک اور شخص کی گواہی ثابت کر دی، جب عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوئے تو پھر ان لوگوں نے جھگڑا کیا یہ لوگ اپنا مقدمہ ہشام بن اسماعیل یا اسماعیل بن ہشام کے پاس لے گئے انہوں نے عبدالملک کے پاس مقدمہ کو بھیج دیا، عبدالملک نے کہا: یہ فیصلہ تو ایسا لگتا ہے جیسے میں اس کو دیکھ چکا ہوں۔ راوی کہتے ہیں پھر عبدالملک نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ دیا اور وہ ولاء اب تک ہمارے پاس ہے۔
حسن
سنن ابي داود
3273
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نَذْرَ إِلَّا فِيمَا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ، وَلَا يَمِينَ فِي قَطِيعَةِ رَحِمٍ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف ان چیزوں میں نذر جائز ہے جس سے اللہ کی رضا و خوشنودی مطلوب ہو اور قسم (قطع رحمی) ناتا توڑنے کے لیے جائز نہیں۔
حسن
سنن ابي داود
3274
حَدَّثَنَا الْمُنْذِرُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا نَذْرَ وَلَا يَمِينَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ، وَلَا فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِي قَطِيعَةِ رَحِمٍ، وَمَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَلْيَدَعْهَا وَلْيَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، فَإِنَّ تَرْكَهَا كَفَّارَتُهَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْأَحَادِيثُ كُلُّهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ إِلَّا فِيمَا لَا يُعْبَأُ بِهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قُلْتُ لِأَحْمَدَ: رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: تَرَكَهُ بَعْدَ ذَلِكَ، وَكَانَ أَهْلًا لِذَلِكَ، قَالَ أَحْمَدُ: أَحَادِيثُهُ مَنَاكِيرُ، وَأَبُوهُ لَا يُعْرَفُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر اور قسم اس چیز میں نہیں جو ابن آدم کے اختیار میں نہ ہو، اور نہ اللہ کی نافرمانی میں، اور نہ ناتا توڑنے میں، جو قسم کھائے اور پھر اسے بھلائی اس کے خلاف میں نظر آئے تو اس قسم کو چھوڑ دے (پوری نہ کرے) اور اس کو اختیار کرے جس میں بھلائی ہو کیونکہ اس قسم کا چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ تمام حدیثیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ۱؎ اور چاہیئے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ دیں مگر جو قسمیں بے سوچے کھائی جاتی ہیں اور ان کا خیال نہیں کیا جاتا تو ان کا کفارہ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد سے پوچھا: کیا یحییٰ بن سعید نے یحییٰ بن عبیداللہ سے روایت کی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں پہلے کی تھی، پھر ترک کر دیا، اور وہ اسی کے لائق تھے کہ ان سے روایت چھوڑ دی جائے، احمد کہتے ہیں: ان کی حدیثیں منکر ہیں اور ان کے والد غیر معروف ہیں ۲؎۔
حسن إلا قوله ومن حلف فهو منكر
سنن ابي داود
3312
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ أَبُو قُدَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ:" أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلَى رَأْسِكَ بِالدُّفِّ، قَالَ: أَوْفِي بِنَذْرِكِ، قَالَتْ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَذْبَحَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا مَكَانٌ كَانَ يَذْبَحُ فِيهِ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ: لِصَنَمٍ؟، قَالَتْ: لَا، قَالَ: لِوَثَنٍ؟، قَالَتْ: لَا، قَالَ: أَوْفِي بِنَذْرِكِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی ہے کہ میں آپ کے سر پر دف بجاؤں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بجا کر) اپنی نذر پوری کر لو اس نے کہا: میں نے ایسی ایسی جگہ قربانی کرنے کی نذر (بھی) مانی ہے جہاں جاہلیت کے زمانہ کے لوگ ذبح کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا کسی صنم (بت) کے لیے؟ اس نے کہا: نہیں، پوچھا: کسی وثن (بت) کے لیے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3456
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُتَبَايِعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَفْتَرِقَا إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَفْقَةَ خِيَارٍ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَ صَاحِبَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرید و فروخت کرنے والے دونوں جب تک جدا نہ ہوں معاملہ ختم کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں، مگر جب بیع خیار ہو، (تو جدا ہونے کے بعد بھی واپسی کا اختیار باقی رہتا ہے) بائع و مشتری دونوں میں سے کسی کے لیے حلال نہیں کہ چیز کو پھیر دینے کے ڈر سے اپنے ساتھی کے پاس سے اٹھ کر چلا جائے۔
حسن
سنن ابي داود
3502
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ"، قَالَ مَالِكٌ: وَذَلِكَ فِيمَا نَرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْعَبْدَ أَوْ يَتَكَارَى الدَّابَّةَ، ثُمَّ يَقُولُ: أُعْطِيكَ دِينَارًا عَلَى أَنِّي إِنْ تَرَكْتُ السِّلْعَةَ أَوِ الْكِرَاءَ فَمَا أَعْطَيْتُكَ لَكَ.
عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عربان سے منع فرمایا ہے۔ امام مالک کہتے ہیں: جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، اور اللہ بہتر جانتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بیچنے والے یا کرایہ دینے والے سے کہے کہ میں تجھے (مثلاً) ایک دینار اس شرط پر دیتا ہوں کہ اگر میں نے یہ سامان یا کرایہ کی سواری نہیں لی تو یہ جو (دینار) تجھے دے چکا ہوں تیرا ہو جائے گا (اور اگر لے لیا تو یہ دینار قیمت یا کرایہ میں کٹ جائے گا)۔
ضعيف
سنن ابي داود
3504
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ حَتَّى ذَكَرَ، عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ، وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ تَضْمَنْ، وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ۱؎ اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ۲؎ اور نہ اس چیز کا نفع لینا درست ہے، جس کا وہ ابھی ضامن نہ ہوا ہو، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہیں ۳؎ (کیونکہ چیز کے سامنے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے)۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3530
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالًا وَوَلَدًا وَإِنَّ وَالِدِي يَحْتَاجُ مَالِي، قَالَ: أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس مال ہے اور والد بھی ہیں اور میرے والد کو میرے مال کی ضرورت ہے ۱؎ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اور تمہارا مال تمہارے والد ہی کا ہے (یعنی ان کی خبرگیری تجھ پر لازم ہے) تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی ہے تو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3540
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَثَلُ الَّذِي يَسْتَرِدُّ مَا وَهَبَ كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَقِيءُ فَيَأْكُلُ قَيْئَهُ، فَإِذَا اسْتَرَدَّ الْوَاهِبُ فَلْيُوَقَّفْ، فَلْيُعَرَّفْ بِمَا اسْتَرَدَّ، ثُمَّ لِيُدْفَعْ إِلَيْهِ مَا وَهَبَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہدیہ دے کر واپس لے لینے والے کی مثال کتے کی ہے جو قے کر کے اپنی قے کھا لیتا ہے، تو جب ہدیہ دینے والا واپس مانگے تو پانے والے کو ٹھہر کر پوچھنا چاہیئے کہ وہ واپس کیوں مانگ رہا ہے، (اگر بدل نہ ملنا سبب ہو تو بدل دیدے یا اور کوئی وجہ ہو تو) پھر اس کا دیا ہوا اسے لوٹا دے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3547
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کے لیے اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو عطیہ دینا جائز نہیں ہے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3600
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ شَهَادَةَ الْخَائِنِ، وَالْخَائِنَةِ، وَذِي الْغِمْرِ عَلَى أَخِيهِ، وَرَدَّ شَهَادَةَ الْقَانِعِ لِأَهْلِ الْبَيْتِ، وَأَجَازَهَا لِغَيْرِهِمْ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْغِمْرُ الْحِنَةُ، وَالشَّحْنَاءُ، وَالْقَانِعُ الْأَجِيرُ التَّابِعُ مِثْلُ الْأَجِيرِ الْخَاصِّ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت کرنے والے مرد، خیانت کرنے والی عورت اور اپنے بھائی سے بغض و کینہ رکھنے والے شخص کی شہادت رد فرما دی ہے، اور خادم کی گواہی کو جو اس کے گھر والوں (مالکوں) کے حق میں ہو رد کر دیا ہے اور دوسروں کے لیے جائز رکھا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «غمر» کے معنیٰ: کینہ اور بغض کے ہیں، اور «قانع» سے مراد پرانا ملازم مثلاً خادم خاص ہے۔
حسن
سنن ابي داود
3639
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَضَى فِي السَّيْلِ الْمَهْزُورِ أَنْ يُمْسَكَ حَتَّى يَبْلُغَ الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ يُرْسِلُ الْأَعْلَى عَلَى الْأَسْفَلِ".
عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہزور کے نالے کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ پانی اس وقت تک روکا جائے جب تک کہ ٹخنے کے برابر نہ پہنچ جائے، پھر اوپر والا نیچے والے کے لیے چھوڑ دے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3811
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ،" عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، وَعَنِ الْجَلَّالَةِ عَنْ رُكُوبِهَا وَأَكْلِ لَحْمِهَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے اور نجاست خور جانور کی سواری کرنے اور اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3893
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُعَلِّمُهُمْ مِنَ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ" وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرٍو يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ كَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں (خواب میں) ڈرنے پر یہ کلمات کہنے کو سکھلاتے تھے: «أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون» میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلموں کی اس کے غصہ سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور ان کے میرے پاس آنے سے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اپنے ان بیٹوں کو جو سمجھنے لگتے یہ دعا سکھاتے اور جو نہ سمجھتے تو ان کے گلے میں اسے لکھ کر لٹکا دیتے۔
حسن دون قوله وكان عبدالله
سنن ابي داود
3926
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عُتْبَةَ إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُكَاتَبُ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ مُكَاتَبَتِهِ دِرْهَمٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکاتب ۱؎ اس وقت تک غلام ہے جب تک اس کے بدل کتابت (آزادی کی قیمت) میں سے ایک درہم بھی اس کے ذمہ باقی ہے۔
حسن
سنن ابي داود
3927
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَيُّمَا عَبْدٍ كَاتَبَ عَلَى مِائَةِ أُوقِيَّةٍ، فَأَدَّاهَا إِلَّا عَشْرَةَ أَوَاقٍ فَهُوَ عَبْدٌ، وَأَيُّمَا عَبْدٍ كَاتَبَ عَلَى مِائَةِ دِينَارٍ، فَأَدَّاهَا إِلَّا عَشْرَةَ دَنَانِيرَ فَهُوَ عَبْدٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَيْسَ هُوَ عَبَّاسٌ الْجُرَيْرِيُّ، قَالُوا: هُوَ وَهْمٌ وَلَكِنَّهُ هُوَ شَيْخٌ آخَرُ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس غلام نے سو اوقیہ پر مکاتبت کی ہو پھر اس نے اسے ادا کر دیا ہو سوائے دس اوقیہ کے تو وہ غلام ہی ہے (ایسا نہیں ہو گا کہ جتنا اس نے ادا کر دیا اتنا وہ آزاد ہو جائے) اور جس غلام نے سو دینار پر مکاتبت کی ہو پھر وہ اسے ادا کر دے سوائے دس دینار کے تو وہ غلام ہی رہے گا (جب تک اسے پورا نہ ادا کر دے)۔
حسن
سنن ابي داود
4066
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" هَبَطْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثَنِيَّةٍ، فَالْتَفَتَ إِلَيَّ وَعَلَيَّ رَيْطَةٌ مُضَرَّجَةٌ بِالْعُصْفُرِ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ الرَّيْطَةُ عَلَيْكَ؟ فَعَرَفْتُ مَا كَرِهَ فَأَتَيْتُ أَهْلِي وَهُمْ يَسْجُرُونَ تَنُّورًا لَهُمْ، فَقَذَفْتُهَا فِيهِ ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا فَعَلَتِ الرَّيْطَةُ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: أَلَا كَسَوْتَهَا بَعْضَ أَهْلِكَ فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ لِلنِّسَاءِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گھاٹی سے اترے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے، اس وقت میں کسم میں رنگی ہوئی چادر اوڑھے ہوئے تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تم نے کیسی اوڑھ رکھی ہے؟ میں سمجھ گیا کہ یہ آپ کو ناپسند لگی ہے، تو میں اپنے اہل خانہ کے پاس آیا وہ اپنا ایک تنور سلگا رہے تھے تو میں نے اسے اس میں ڈال دیا پھر میں دوسرے دن آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: عبداللہ! وہ چادر کیا ہوئی؟ تو میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے اسے تنور میں ڈال دیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اسے اپنے گھر کی کسی عورت کو کیوں نہیں پہنا دیا کیونکہ عورتوں کو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں۔
حسن
سنن ابي داود
4113
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمَيْمُونِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا زَوَّجَ أَحَدُكُمْ عَبْدَهُ أَمَتَهُ، فَلَا يَنْظُرْ إِلَى عَوْرَتِهَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے غلام کی اپنی لونڈی سے شادی کر دے تو پھر اس کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے۔
حسن
سنن ابي داود
4114
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ سَوَّارٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا زَوَّجَ أَحَدُكُمْ خَادِمَهُ عَبْدَهُ أَوْ أَجِيرَهُ، فَلَا يَنْظُرْ إِلَى مَا دُونَ السُّرَّةِ وَفَوْقَ الرُّكْبَةِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَصَوَابُهُ سَوَّارُ بْنُ دَاوُدَ الْمُزَنِيُّ الصَّيْرَفِيُّ وَهِمَ فِيهِ وَكِيعٌ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی لونڈی کی اپنے غلام یا مزدور سے شادی کر دے تو پھر وہ اس کے اس حصہ کو نہ دیکھے جو ناف کے نیچے اور گھٹنے کے اوپر ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: صحیح سوار بن داود مزنی صیرفی ہے وکیع کو ان کے نام میں وہم ہوا ہے۔
حسن
سنن ابي داود
4376
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ جُرَيْجٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" تَعَافُّوا الْحُدُودَ فِيمَا بَيْنَكُمْ فَمَا بَلَغَنِي مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حدود کو آپس میں نظر انداز کرو، جب حد میں سے کوئی چیز میرے پاس پہنچ گئی تو وہ واجب ہو گئی (اسے معاف نہیں کیا جا سکتا)۔
صحيح
سنن ابي داود
4390
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ، فَقَالَ:" مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ يُؤْيَهُ الْجَرِينُ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ وَمَنْ سَرَقَ دُونَ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْجَرِينُ الْجُوخَانُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لٹکے ہوئے پھلوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: جس ضرورت مند نے اسے کھا لیا، اور جمع کر کے نہیں رکھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جو اس میں سے کچھ لے جائے تو اس پر اس کا دوگنا تاوان اور سزا ہو گی اور جو اسے کھلیان میں جمع کئے جانے کے بعد چرائے اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ رہا ہو تو پھر اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔
حسن
سنن ابي داود
4506
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ، فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوهُ وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کافر کے بدلے مومن کو قتل نہیں کیا جائے گا، اور جو کسی مومن کو دانستہ طور پر قتل کرے گا، وہ مقتول کے وارثین کے حوالے کر دیا جائے گا، وہ چاہیں تو اسے قتل کریں اور چاہیں تو دیت لے لیں۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4519
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ تَسْنِيمٍ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا سَوَّارٌ أَبُو حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" جَاءَ رَجُلٌ مُسْتَصْرِخٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: جَارِيَةٌ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: وَيْحَكَ مَا لَكَ؟ قَالَ: شَرًّا أَبْصَرَ لِسَيِّدِهِ جَارِيَةً لَهُ فَغَارَ فَجَبَّ مَذَاكِيرَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَيَّ بِالرَّجُلِ، فَطُلِبَ فَلَمْ يُقْدَرْ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبْ فَأَنْتَ حُرٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى مَنْ نُصْرَتِي؟ قَالَ: عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ، أَوْ قَالَ: كُلِّ مُسْلِمٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الَّذِي عُتَقَ كَانَ اسْمُهُ رَوْحُ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: الَّذِي جَبَّهُ زِنْبَاعٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا زِنْبَاعٌ أَبُو رَوْحٍ كَانَ مَوْلَى الْعَبْدِ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص چیختا چلاتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس کی ایک لونڈی تھی، آپ نے فرمایا: ستیاناس ہو تمہارا، بتاؤ کیا ہوا؟ اس نے کہا: برا ہوا، میرے آقا کی ایک لونڈی تھی اسے میں نے دیکھ لیا، تو اسے غیرت آئی، اس نے میرا ذکر کٹوا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو میرے پاس لاؤ تو اسے بلایا گیا، مگر کوئی اسے نہ لا سکا تب آپ نے (اس غلام سے) فرمایا: جاؤ تم آزاد ہو اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری مدد کون کرے گا؟ آپ نے فرمایا: ہر مومن پر یا کہا: ہر مسلمان پر تیری مدد لازم ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جو آزاد ہوا اس کا نام روح بن دینار تھا، اور جس نے ذکر کاٹا تھا وہ زنباع تھا، یہ زنباع ابوروح ہیں جو غلام کے آقا تھے۔
حسن
سنن ابي داود
4531
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَلِيٍّ، زَادَ فِيهِ: وَيُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ وَيَرُدُّ مُشِدُّهُمْ عَلَى مُضْعِفِهِمْ وَمُتَسَرِّيهِمْ عَلَى قَاعِدِهِمْ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: … پھر راوی نے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرح ذکر کیا البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ان کا ادنی شخص بھی امان دے سکتا ہے اور مال غنیمت میں عمدہ جانور اور کمزور جانور والے دونوں برابر ہیں، جو لشکر سے باہر نکلے اور لڑے اور وہ جو لشکر میں بیٹھا رے دونوں برابر ہیں۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4542
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" كَانَتْ قِيمَةُ الدِّيَةِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانَ مِائَةِ دِينَارٍ أَوْ ثَمَانِيَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ، وَدِيَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ يَوْمَئِذٍ النِّصْفُ مِنْ دِيَةِ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَكَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ حَتَّى اسْتُخْلِفَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ الْإِبِلَ قَدْ غَلَتْ، قَالَ: فَفَرَضَهَا عُمَرُ عَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أَلْفَ دِينَارٍ، وَعَلَى أَهْلِ الْوَرِقِ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا، وَعَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَعَلَى أَهْلِ الشَّاءِ أَلْفَيْ شَاةٍ، وَعَلَى أَهْلِ الْحُلَلِ مِائَتَيْ حُلَّةٍ، قَالَ: وَتَرَكَ دِيَةَ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَرْفَعْهَا فِيمَا رَفَعَ مِنَ الدِّيَةِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیت کی قیمت ۱؎ آٹھ سو دینار، یا آٹھ ہزار درہم تھی، اور اہل کتاب کی دیت اس وقت مسلمانوں کی دیت کی آدھی تھی، پھر اسی طرح حکم چلتا رہا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا، اور فرمایا: سنو، اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی ہے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے سونے والوں پر ایک ہزار دینار، اور چاندی والوں پر بارہ ہزار (درہم) دیت ٹھہرائی، اور گائے بیل والوں پر دو سو گائیں، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑوں کی دیت مقرر کی، اور ذمیوں کی دیت چھوڑ دی، ان کی دیت میں (مسلمانوں کی دیت کی طرح) اضافہ نہیں کیا۔
حسن
سنن ابي داود
4562
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فِي خُطْبَتِهِ وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ فِي الْأَصَابِعِ: عَشْرٌ عَشْرٌ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں جبکہ آپ اپنی پیٹھ کعبہ سے ٹیکے ہوئے تھے فرمایا: انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4563
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فِي الْأَسْنَانِ: خَمْسٌ خَمْسٌ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دانتوں میں پانچ پانچ (اونٹ) ہیں۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4564
قَالَ أَبُو دَاوُد: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي، عَنْ شَيْبَانَ، وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ، فَحَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرٍ صَاحِبٌ لَنَا ثِقَةٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَوِّمُ دِيَةَ الْخَطَإِ عَلَى أَهْلِ الْقُرَى أَرْبَعَ مِائَةِ دِينَارٍ أَوْ عَدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ وَيُقَوِّمُهَا عَلَى أَثْمَانِ الْإِبِلِ، فَإِذَا غَلَتْ رَفَعَ فِي قِيمَتِهَا، وَإِذَا هَاجَتْ رُخْصًا نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا، وَبَلَغَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ أَرْبَعِ مِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِ مِائَةِ دِينَارٍ، وَعَدْلُهَا مِنَ الْوَرِقِ ثَمَانِيَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ، وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَمَنْ كَانَ دِيَةُ عَقْلِهِ فِي الشَّاءِ فَأَلْفَيْ شَاةٍ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْعَقْلَ مِيرَاثٌ بَيْنَ وَرَثَةِ الْقَتِيلِ عَلَى قَرَابَتِهِمْ فَمَا فَضَلَ فَلِلْعَصَبَةِ، قَالَ: وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَنْفِ إِذَا جُدِعَ الدِّيَةَ كَامِلَةً، وَإِنْ جُدِعَتْ ثَنْدُوَتُهُ فَنِصْفُ الْعَقْلِ خَمْسُونَ مِنَ الْإِبِلِ أَوْ عَدْلُهَا مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ أَوْ مِائَةُ بَقَرَةٍ أَوْ أَلْفُ شَاةٍ، وَفِي الْيَدِ إِذَا قُطِعَتْ نِصْفُ الْعَقْلِ، وَفِي الرِّجْلِ نِصْفُ الْعَقْلِ، وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ الْعَقْلِ ثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ مِنَ الْإِبِلِ وَثُلُثٌ أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الشَّاءِ وَالْجَائِفَةُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَفِي الْأَصَابِعِ فِي كُلِّ أُصْبُعٍ عَشْرٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي الْأَسْنَانِ فِي كُلِّ سِنٍّ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَقْلَ الْمَرْأَةِ بَيْنَ عَصَبَتِهَا مَنْ كَانُوا لَا يَرِثُونَ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا مَا فَضَلَ عَنْ وَرَثَتِهَا، وَإِنْ قُتِلَتْ فَعَقْلُهَا بَيْنَ وَرَثَتِهَا وَهُمْ يَقْتُلُونَ قَاتِلَهُمْ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ لِلْقَاتِلِ شَيْءٌ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَارِثٌ فَوَارِثُهُ أَقْرَبُ النَّاسِ إِلَيْهِ وَلَا يَرِثُ الْقَاتِلُ شَيْئًا"، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا كُلُّهُ حَدَّثَنِي بِهِ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ هَرَبَ إِلَى الْبَصْرَةِ مِنَ الْقَتْلِ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گاؤں والوں پر قتل خطا کی دیت کی قیمت چار سو دینار، یا اس کے برابر چاندی سے لگایا کرتے تھے، اور اس کی قیمت اونٹوں کی قیمتوں پر لگاتے، جب وہ مہنگے ہو جاتے تو آپ اس کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیتے، اور جب وہ سستے ہوتے تو آپ اس کی قیمت بھی گھٹا دیتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ قیمت چار سو دینار سے لے کر آٹھ سو دینار تک پہنچی، اور اسی کے برابر چاندی سے (دیت کی قیمت) آٹھ ہزار درہم پہنچی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے بیل والوں پر (دیت میں) دو سو گایوں کا فیصلہ کیا، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریوں کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیت کا مال مقتول کے وارثین کے درمیان ان کی قرابت کے مطابق تقسیم ہو گا، اب اگر اس سے کچھ بچ رہے تو وہ عصبہ کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناک کے سلسلے میں فیصلہ کیا کہ اگر وہ کاٹ دی جائے تو پوری دیت لازم ہو گی۔ اور اگر اس کا بانسہ (دونوں نتھنوں کے بیچ کی ہڈی) کاٹا گیا ہو تو آدھی دیت لازم ہو گی، یعنی پچاس اونٹ یا اس کے برابر سونا یا چاندی، یا سو گائیں، یا ایک ہزار بکریاں۔ اور ہاتھ جب کاٹا گیا ہو تو اس میں آدھی لازم ہو گی، پیر میں بھی آدھی دیت ہو گی۔ اور مامومہ ۱؎ میں ایک تہائی دیت ہو گی، تینتیس اونٹ اور ایک اونٹ کا تہائی یا اس کی قیمت کے برابر سونا، چاندی، گائے یا بکری اور جائفہ ۲؎ میں بھی یہی دیت ہے۔ اور انگلیوں میں ہر انگلی میں دس اونٹ اور دانتوں میں ہر دانت میں پانچ اونٹ کی دیت ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: عورت کی جنایت کی دیت اس کے عصبات میں تقسیم ہو گی (یعنی عورت اگر کوئی جنایت کرے تو اس کے عصبات کو دینا پڑے گا) یعنی ان لوگوں کو جو ذوی الفروض سے بچا ہوا مال لے لیتے ہیں (جیسے بیٹا، چچا، باپ، بھائی وغیرہ) اور اگر وہ قتل کر دی گئی ہو تو اس کی دیت اس کے وارثوں میں تقسیم ہو گی (نہ کہ عصبات میں) اور وہی اپنے قاتل کو قتل کریں گے (اگر قصاص لینا ہو)۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاتل کے لیے کچھ بھی نہیں، اور اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا وارث سب سے قریبی رشتے دار ہو گا لیکن قاتل کسی چیز کا وارث نہ ہو گا۔
حسن
سنن ابي داود
4565
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ الْعَامِلِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى،عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" عَقْلُ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظٌ مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ"، قَالَ: وَزَادَنَا خَلِيلٌ: عَنِ ابْنِ رَاشِدٍ: وَذَلِكَ أَنْ يَنْزُوَ الشَّيْطَانُ بَيْنَ النَّاسِ فَتَكُونُ دِمَاءٌ فِي عِمِّيَّا فِي غَيْرِ ضَغِينَةٍ وَلَا حَمْلِ سِلَاحٍ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شبہ عمد کی دیت عمد کی دیت کی طرح سخت ہے، البتہ اس کے قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ خلیل کی محمد بن راشد سے روایت میں یہ اضافہ ہے یہ (قتل شبہ عمد) لوگوں کے درمیان ایک شیطانی فساد ہے کہ بلا کسی کینے اور بغیر ہتھیار اٹھائے خون ہو جاتا ہے اور قاتل کا پتا نہیں چلتا۔
حسن
سنن ابي داود
4566
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْمُعَلِّمَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فِي الْمَوَاضِحِ: خَمْسٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مواضح» ۱؎ میں دیت پانچ اونٹ ہے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4567
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَيْنِ الْقَائِمَةِ السَّادَّةِ لِمَكَانِهَا بِثُلُثِ الدِّيَةِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی آنکھ میں جو اپنی جگہ باقی رہے لیکن بینائی جاتی رہے، تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔
حسن إحتمالا
سنن ابي داود
4845
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر گھس کر دونوں میں جدائی ڈال دے۔
حسن صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.