سنن ابي داود
محمد بن سلمة الباهلي (حدثنا / عن) ابن إسحاق القرشي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
117
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيَّ عَلِيٌّ يَعْنِي ابْنَ أَبِي طَالِبٍ وَقَدْ أَهْرَاقَ الْمَاءَ، فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَأَتَيْنَاهُ بِتَوْرٍ فِيهِ مَاءٌ حَتَّى وَضَعْنَاهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَلَا أُرِيكَ كَيْفَ كَانَ يَتَوَضَّأُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ:" فَأَصْغَى الْإِنَاءَ عَلَى يَدِهِ فَغَسَلَهَا، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى فَأَفْرَغَ بِهَا عَلَى الْأُخْرَى، ثُمَّ غَسَلَ كَفَّيْهِ، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَيْهِ فِي الْإِنَاءِ جَمِيعًا فَأَخَذَ بِهِمَا حَفْنَةً مِنْ مَاءٍ فَضَرَبَ بِهَا عَلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ أَلْقَمَ إِبْهَامَيْهِ مَا أَقْبَلَ مِنْ أُذُنَيْهِ ثُمَّ الثَّانِيَةَ ثُمَّ الثَّالِثَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ أَخَذَ بِكَفِّهِ الْيُمْنَى قَبْضَةً مِنْ مَاءٍ فَصَبَّهَا عَلَى نَاصِيَتِهِ فَتَرَكَهَا تَسْتَنُّ عَلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ وَظُهُورَ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَيْهِ جَمِيعًا فَأَخَذَ حَفْنَةً مِنْ مَاءٍ فَضَرَبَ بِهَا عَلَى رِجْلِهِ وَفِيهَا النَّعْلُ فَفَتَلَهَا بِهَا، ثُمَّ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: قُلْتُ: وَفِي النَّعْلَيْنِ؟ قَالَ: وَفِي النَّعْلَيْنِ، قَالَ: قُلْتُ: وَفِي النَّعْلَيْنِ؟ قَالَ: وَفِي النَّعْلَيْنِ، قَالَ: قُلْتُ: وَفِي النَّعْلَيْنِ؟ قَالَ: وَفِي النَّعْلَيْنِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ شَيْبَةَ، يُشْبِهُ حَدِيثَ عَلِيٍّ لِأَنَّهُ قَالَ فِيهِ حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جُرَيْجٍ: وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّةً وَاحِدَةً، وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ فِيهِ: عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ ثَلَاثًا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ استنجاء کر کے میرے پاس آئے، اور وضو کے لیے پانی مانگا، ہم ایک پیالہ لے کر ان کے پاس آئے جس میں پانی تھا یہاں تک کہ ہم نے انہیں ان کے سامنے رکھا تو انہوں نے مجھ سے کہا: اے ابن عباس! کیا میں تمہیں دکھاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کرتے تھے؟ میں نے کہا: ہاں، ضرور دکھائیے، تو آپ نے برتن جھکا کر ہاتھ پر پانی ڈالا پھر اسے دھویا پھر اپنا داہنا ہاتھ (برتن میں) داخل کیا (اور پانی لے کر) اسے دوسرے پر ڈالا پھر اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دھویا، پھر کلی کی اور ناک جھاڑی، پھر اپنے دونوں ہاتھ (ملا کر) ایک ساتھ برتن میں ڈالے اور لپ بھر پانی لیا اور اسے اپنے منہ پر مارا پھر دونوں انگوٹھوں کو کانوں کے اندر یعنی سامنے کے رخ پر پھیرا، پھر دوسری اور تیسری بار (بھی) ایسا ہی کیا، پھر اپنی داہنی ہتھیلی میں ایک چلو پانی لے کر اپنی پیشانی پر ڈالا اور اسے چھوڑ دیا، وہ آپ کے چہرے پر بہہ رہا تھا، پھر دونوں ہاتھ تین تین بار کہنیوں تک دھوئے، اس کے بعد سر اور دونوں کانوں کے اوپری حصہ کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں ہاتھ پانی میں ڈال کر ایک لپ بھر پانی لیا اور اسے (دائیں) پیر پر ڈالا، اس وقت وہ پیر میں جوتا پہنے ہوئے تھے اور اس سے پیر دھویا پھر دوسرے پیر پر بھی اسی طرح پانی ڈال کر اسے دھویا ۱؎۔ عبیداللہ خولانی کہتے ہیں کہ میں نے (عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے) پوچھا: علی رضی اللہ عنہ نے دونوں پیر میں جوتا پہنے پہنے ایسا کیا؟ آپ نے کہا: ہاں، جوتا پہنے پہنے کیا، میں نے کہا: جوتا پہنے پہنے؟ آپ نے کہا: ہاں، جوتا پہنے پہنے، پھر میں نے کہا: جوتا پہنے پہنے؟ آپ نے کہا: ہاں چپل پہنے پہنے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن جریج کی حدیث جسے انہوں نے شیبہ سے روایت کیا ہے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مشابہ ہے اس لیے کہ اس میں حجاج بن محمد نے ابن جریج سے «مسح برأسه مرة واحدة» کہا ہے اور ابن وہب نے اس میں ابن جریج سے «ومسح برأسه ثلاثا» روایت کیا ہے۔
حسن
سنن ابي داود
295
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ سَهْلَةَ بِنْتَ سُهَيْلٍ، اسْتُحِيضَتْ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَأَمَرَهَا أَنْ تَغْتَسِلَ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ، فَلَمَّا جَهَدَهَا ذَلِكَ، أَمَرَهَا أَنْ تَجْمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِغُسْلٍ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِغُسْلٍ، وَتَغْتَسِلَ لِلصُّبْحِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ امْرَأَةً اسْتُحِيضَتْ، فَسَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهَا بِمَعْنَاهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا کو استحاضہ ہوا، چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر نماز کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا، جب ان پر یہ شاق گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک غسل سے ظہر اور عصر پڑھنے، اور ایک غسل سے مغرب و عشاء پڑھنے اور ایک غسل سے فجر پڑھنے کا حکم دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسے ابن عیینہ نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت کو استحاضہ ہوا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے اسے حکم دیا، پھر اس راوی نے اوپر والی روایت کے ہم معنی روایت کی۔
0
سنن ابي داود
360
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ امْرَأَةً تَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ تَصْنَعُ إِحْدَانَا بِثَوْبِهَا إِذَا رَأَتِ الطُّهْرَ، أَتُصَلِّي فِيهِ؟ قَالَ:" تَنْظُرُ، فَإِنْ رَأَتْ فِيهِ دَمًا فَلْتَقْرُصْهُ بِشَيْءٍ مِنْ مَاءٍ، وَلْتَنْضَحْ مَا لَمْ تَرَ وَلْتُصَلِّي فِيهِ".
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے ایک عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے سنا: جب ہم میں سے کوئی عورت پاکی دیکھ لے تو ایام حیض میں پہنے ہوئے کپڑوں کو وہ کیا کرے؟ کیا اس میں نماز پڑھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اسے دیکھے اگر اس کپڑے میں خون لگا ہوا نظر آئے تو تھوڑے سے پانی سے اسے کھرچ دے اور دھو لے یہاں تک کہ وہ چھوٹ جائے، اور اس میں نماز پڑھے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
823
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ:" لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ، قُلْنَا: نَعَمْ، هَذًّا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز فجر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ نے قرآت شروع کی تو وہ آپ پر دشوار ہو گئی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟، ہم نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں تو ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
ضعيف
سنن ابي داود
1088
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ،عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ:" كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ،وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ" ثُمَّ سَاقَ نَحْوَ حَدِيثِ يُونُسَ.
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جمعہ کے روز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھ جاتے تو آپ کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی تھی اسی طرح ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں بھی مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی۔ پھر راوی نے یونس کی حدیث کی طرح روایت بیان کی۔
منكر
سنن ابي داود
1231
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:"أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ خَمْسَ عَشْرَةَ يَقْصُرُ الصَّلَاةَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَأَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ، وَسَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، لَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ ابْنَ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے سال مکہ میں پندرہ روز قیام فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز قصر کرتے رہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث عبدہ بن سلیمان، احمد بن خالد وہبی اور سلمہ بن فضل نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے، اس میں ان لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔
ضعيف منكر
سنن ابي داود
1359
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً بِرَكْعَتَيْهِ، قَبْلَ الصُّبْحِ يُصَلِّي سِتًّا مَثْنَى مَثْنَى، وَيُوتِرُ بِخَمْسٍ لَا يَقْعُدُ بَيْنَهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں کو لے کر تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے: دو دو کر کے چھ رکعتیں پڑھتے اور وتر کی پانچ رکعتیں پڑھتے اور صرف ان کے آخر میں قعدہ کرتے۔
صحيح
سنن ابي داود
1463
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْجُحْفَةِ، وَالْأَبْوَاءِ، إِذْ غَشِيَتْنَا رِيحٌ وَظُلْمَةٌ شَدِيدَةٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ بِ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ، وَيَقُولُ:" يَا عُقْبَةُ، تَعَوَّذْ بِهِمَا، فَمَا تَعَوَّذَ مُتَعَوِّذٌ بِمِثْلِهِمَا" قَالَ: وَسَمِعْتُهُ يَؤُمُّنَا بِهِمَا فِي الصَّلَاةِ.
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حجفہ اور ابواء کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ہمیں تیز آندھی اور شدید تاریکی نے ڈھانپ لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» پڑھنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: اے عقبہ! تم بھی ان دونوں کو پڑھ کر پناہ مانگو، اس لیے کہ ان جیسی سورتوں کے ذریعہ پناہ مانگنے والے کی طرح کسی پناہ مانگنے والے نے پناہ نہیں مانگی۔ عقبہ کہتے ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ انہیں دونوں کے ذریعہ ہماری امامت فرما رہے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
1662
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَ مِنْ كُلِّ جَادِّ عَشْرَةِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ بِقِنْوٍ يُعَلَّقُ فِي الْمَسْجِدِ لِلْمَسَاكِينِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جو دس وسق کھجور توڑے تو ایک خوشہ مسکینوں کے واسطے مسجد میں لٹکا دے۔
صحيح
سنن ابي داود
1864
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَاضِرٍ الْحِمْيَرِيَّ يُحَدِّثُ أَبِي مَيْمُونَ بْنَ مِهْرَانَ، قَالَ: خَرَجْتُ مُعْتَمِرًا عَامَ حَاصَرَ أَهْلُ الشَّامِ ابْنَ الزُّبَيْرِ بِمَكَّةَ وَبَعَثَ مَعِي رِجَالٌ مِنْ قَوْمِي بِهَدْيٍ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى أَهْلِ الشَّامِ مَنَعُونَا أَنْ نَدْخُلَ الْحَرَمَ، فَنَحَرْتُ الْهَدْيَ مَكَانِي ثُمَّ أَحْلَلْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ خَرَجْتُ لِأَقْضِيَ عُمْرَتِي، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" أَبْدِلِ الْهَدْيَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُبَدِّلُوا الْهَدْيَ الَّذِي نَحَرُوا عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے ابوحاضر حمیری سے سنا وہ میرے والد میمون بن مہران سے بیان کر رہے تھے کہ جس سال اہل شام مکہ میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا محاصرہ کئے ہوئے تھے میں عمرہ کے ارادے سے نکلا اور میری قوم کے کئی لوگوں نے میرے ساتھ ہدی کے جانور بھی بھیجے، جب ہم اہل شام (مکہ کے محاصرین) کے قریب پہنچے تو انہوں نے ہمیں حرم میں داخل ہونے سے روک دیا، چنانچہ میں نے اسی جگہ اپنی ہدی نحر کر دی اور احرام کھول دیا اور لوٹ آیا، جب دوسرا سال ہوا تو میں اپنا عمرہ قضاء کرنے کے لیے نکلا، چنانچہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور میں نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ قضاء کے عمرہ میں حدیبیہ کے سال جس ہدی کی نحر کر لی تھی اس کا بدل دو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو حکم دیا تھا کہ وہ عمرہ قضاء میں اس ہدی کا بدل دیں جو انہوں نے حدیبیہ کے سال نحر کی تھی۔
ضعيف
سنن ابي داود
2158
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي مَرْزُوقٍ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَامَ فِينَا خَطِيبًا، قَالَ:" أَمَا إِنِّي لَا أَقُولُ لَكُمْ إِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ حُنَيْنٍ، قَالَ: لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ، يَعْنِي إِتْيَانَ الْحَبَالَى، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتَّى يَسْتَبْرِئَهَا، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَبِيعَ مَغْنَمًا حَتَّى يُقْسَمَ".
حنش صنعانی کہتے ہیں کہ رویفع بن ثابت انصاری ہم میں بحیثیت خطیب کھڑے ہوئے اور کہا: سنو! میں تم سے وہی کہوں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ جنگ حنین کے دن فرما رہے تھے: اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب حاملہ لونڈی سے جماع کرنا تھا) اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی قیدی لونڈی سے جماع کرے یہاں تک کہ وہ استبراء رحم کر لے، (یعنی یہ جان لے کہ یہ عورت حاملہ نہیں ہے) اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے شخص کے لیے حلال نہیں کہ مال غنیمت کے سامان کو بیچے یہاں تک کہ وہ تقسیم کر دیا جائے۔
حسن
سنن ابي داود
2164
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْأَصْبَغِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" إِنَّ ابْنَ عُمَرَ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ أَوْهَمَ إِنَّمَا كَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهُمْ أَهْلُ وَثَنٍ مَعَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ يَهُودَ وَهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ، وَكَانُوا يَرَوْنَ لَهُمْ فَضْلًا عَلَيْهِمْ فِي الْعِلْمِ فَكَانُوا يَقْتَدُونَ بِكَثِيرٍ مِنْ فِعْلِهِمْ، وَكَانَ مِنْ أَمْرِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَنْ لَا يَأْتُوا النِّسَاءَ إِلَّا عَلَى حَرْفٍ وَذَلِكَ أَسْتَرُ مَا تَكُونُ الْمَرْأَةُ، فَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ الْأَنْصَارِ قَدْ أَخَذُوا بِذَلِكَ مِنْ فِعْلِهِمْ، وَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ يَشْرَحُونَ النِّسَاءَ شَرْحًا مُنْكَرًا وَيَتَلَذَّذُونَ مِنْهُنَّ مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ تَزَوَّجَ رَجُلٌ مِنْهُمُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ فَذَهَبَ يَصْنَعُ بِهَا ذَلِكَ فَأَنْكَرَتْهُ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: إِنَّمَا كُنَّا نُؤْتَى عَلَى حَرْفٍ، فَاصْنَعْ ذَلِكَ وَإِلَّا فَاجْتَنِبْنِي، حَتَّى شَرِيَ أَمْرُهُمَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223، أَيْ مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ، يَعْنِي بِذَلِكَ مَوْضِعَ الْوَلَدِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو بخشے ان کو «أنى شئتم» کے لفظ سے وہم ہو گیا تھا، اصل واقعہ یوں ہے کہ انصار کے اس بت پرست قبیلے کا یہود (جو کہ اہل کتاب ہیں کے) ایک قبیلے کے ساتھ میل جول تھا اور انصار علم میں یہود کو اپنے سے برتر مانتے تھے، اور بہت سے معاملات میں ان کی پیروی کرتے تھے، اہل کتاب کا حال یہ تھا کہ وہ عورتوں سے ایک ہی آسن سے صحبت کرتے تھے، اس میں عورت کے لیے پردہ داری بھی زیادہ رہتی تھی، چنانچہ انصار نے بھی یہودیوں سے یہی طریقہ لے لیا اور قریش کے اس قبیلہ کا حال یہ تھا کہ وہ عورتوں کو طرح طرح سے ننگا کر دیتے تھے اور آگے سے، پیچھے سے، اور چت لٹا کر ہر طرح سے لطف اندوز ہوتے تھے، مہاجرین کی جب مدینہ میں آمد ہوئی تو ان میں سے ایک شخص نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی اور اس کے ساتھ وہی طریقہ اختیار کرنے لگا اس پر عورت نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں تو ایک ہی (مشہور) آسن رائج ہے، لہٰذا یا تو اس طرح کرو، ورنہ مجھ سے دور رہو، جب اس بات کا چرچا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر لگ گئی چنانچہ اللہ عزوجل نے یہ آیت «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» نازل فرمائی یعنی آگے سے پیچھے سے، اور چت لٹا کر اس سے مراد لڑکا پیدا ہونے کی جگہ ہے یعنی شرمگاہ میں جماع ہے ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
2215
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْأَصْبَغِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَالْعَرَقُ مِكْتَلٌ يَسَعُ ثَلَاثِينَ صَاعًا. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ آدَمَ.
اس سند سے بھی ابن اسحاق سے اسی طرح کی روایت منقول ہے لیکن اس میں ہے کہ «عرق» ایسی زنبیل ہے جس میں تیس صاع کے بقدر کھجور آتی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث یحییٰ بن آدم کی روایت کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے۔
حسن دون قوله والعرق
سنن ابي داود
2246
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ:" أَمْسِكِ الْمَرْأَةَ عِنْدَكَ حَتَّى تَلِدَ".
سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: بچے کی ولادت تک عورت کو اپنے پاس روکے رکھو۔
حسن
سنن ابي داود
2573
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ أَبُو دَاوُد وَهُوَ يَحْيَى بْن عَبَّادٍ، حَدَّثَنِي أَبِي الَّذِي أَرْضَعَنِي وَهُوَ أَحَدُ بَنِي مُرَّةَ بْنِ عَوْفٍ، وَكَانَ فِي تِلْكَ الْغَزَاةِ غَزَاةِ مُؤْتَةَ قَالَ: وَاللَّهِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى جَعْفَرٍ حِينَ اقْتَحَمَ عَنْ فَرَسٍ لَهُ شَقْرَاءَ فَعَقَرَهَا ثُمَّ قَاتَلَ الْقَوْمَ حَتَّى قُتِلَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ.
عباد بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میرے رضاعی والد نے جو بنی مرہ بن عوف میں سے تھے مجھ سے بیان کیا کہ وہ غزوہ موتہ کے غازیوں میں سے تھے، وہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! گویا کہ میں جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہا ہوں جس وقت وہ اپنے سرخ گھوڑے سے کود پڑے اور اس کی کونچ کاٹ دی ۱؎، پھر دشمنوں سے لڑے یہاں تک کہ قتل کر دیئے گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے ۲؎۔
حسن
سنن ابي داود
2671
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمْ يُقْتَلْ مِنْ نِسَائِهِمْ تَعْنِي بَنِي قُرَيْظَةَ إِلَّا امْرَأَةٌ إِنَّهَا لَعِنْدِي تُحَدِّثُ تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا، وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يقتل رجالهم بالسيوف، إذ هتف هاتف باسمها أين فلانة؟ قَالَتْ: أَنَا، قُلْتُ: وَمَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: حَدَثٌ أَحْدَثْتُهُ، قَالَتْ: فَانْطَلَقَ بِهَا فَضُرِبَتْ عُنُقُهَا فَمَا أَنْسَى عَجَبًا مِنْهَا أَنَّهَا تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا وَقَدْ عَلِمَتْ أَنَّهَا تُقْتَلُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بنی قریظہ کی عورتوں میں سے کوئی بھی عورت نہیں قتل کی گئی سوائے ایک عورت کے جو میرے پاس بیٹھ کر اس طرح باتیں کر رہی تھی اور ہنس رہی تھی کہ اس کی پیٹھ اور پیٹ میں بل پڑ جا رہے تھے، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مردوں کو تلوار سے قتل کر رہے تھے، یہاں تک کہ ایک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا: فلاں عورت کہاں ہے؟ وہ بولی: میں ہوں، میں نے پوچھا: تجھ کو کیا ہوا کہ تیرا نام پکارا جا رہا ہے، وہ بولی: میں نے ایک نیا کام کیا ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر وہ پکارنے والا اس عورت کو لے گیا اور اس کی گردن مار دی گئی، اور میں اس تعجب کو اب تک نہیں بھولی جو مجھے اس کے اس طرح ہنسنے پر ہو رہا تھا کہ اس کی پیٹھ اور پیٹ میں بل پڑ پڑ جا رہے تھے، حالانکہ اس کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ قتل کر دی جائے گی ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
2692
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِي فِدَاءِ أَسْرَاهُمْ بَعَثَتْ زَيْنَبُ فِي فِدَاءِ أَبِي الْعَاصِ بِمَالٍ وَبَعَثَتْ فِيهِ بِقِلَادَةٍ لَهَا كَانَتْ عِنْدَ خَدِيجَةَ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِي الْعَاصِ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيدَةً وَقَالَ:" إِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِيرَهَا وَتَرُدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا، فَقَالُوا: نَعَمْ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ عَلَيْهِ أَوْ وَعَدَهُ أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَ زَيْنَبَ إِلَيْهِ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَرَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ:" كُونَا بِبَطْنِ يَأْجَجَ حَتَّى تَمُرَّ بِكُمَا زَيْنَبُ فَتَصْحَبَاهَا حَتَّى تَأْتِيَا بِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب اہل مکہ نے اپنے اپنے قیدیوں کے فدیے بھیجے تو اس وقت زینب رضی اللہ عنہا نے ابوالعاص رضی اللہ عنہ ۱؎ کے فدیہ میں کچھ مال بھیجا اور اس مال میں اپنا ایک ہار بھیجا جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا، انہوں نے یہ ہار زینب کو ابوالعاص سے نکاح کے موقع پر رخصتی کے وقت دیا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو آپ پر سخت رقت طاری ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم مناسب سمجھو تو ان کی خاطر و دلداری میں ان کا قیدی چھوڑ دو، اور ان کا مال انہیں لوٹا دو، لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑتے وقت یہ عہد لے لیا کہ وہ زینب رضی اللہ عنہا کو میرے پاس آنے سے نہ روکیں گے، پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور انصار میں سے ایک شخص کو بھیجا، اور فرمایا: تم دونوں بطن یأجج میں رہنا یہاں تک کہ زینب تم دونوں کے پاس سے گزریں تو ان کو ساتھ لے کر آنا ۲؎۔
حسن
سنن ابي داود
2700
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: خَرَجَ عِبْدَانٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ قَبْلَ الصُّلْحِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ مَوَالِيهُمْ فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا خَرَجُوا إِلَيْكَ رَغْبَةً فِي دِينِكَ وَإِنَّمَا خَرَجُوا هَرَبًا مِنَ الرِّقِّ، فَقَالَ نَاسٌ صَدَقُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ رُدَّهُمْ إِلَيْهِمْ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" مَا أُرَاكُمْ تَنْتَهُونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَكُمْ عَلَى هَذَا، وَأَبَى أَنْ يَرُدَّهُمْ وَقَالَ: هُمْ عُتَقَاءُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ حدیبیہ میں صلح سے پہلے کچھ غلام (بھاگ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، تو ان کے مالکوں نے آپ کو لکھا: اے محمد! اللہ کی قسم! یہ غلام تمہارے دین کے شوق میں تمہارے پاس نہیں آئے ہیں، یہ تو فقط غلامی کی قید سے بھاگ کر آئے ہیں، تو کچھ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان لوگوں نے سچ کہا: انہیں مالکوں کے پاس واپس لوٹا دیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے ۱؎ اور فرمایا: قریش کے لوگو، میں تم کو باز آتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تمہارے اوپر اس شخص کو بھیجے جو اس پر ۲؎ تمہاری گردنیں مارے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس لوٹانے سے انکار کیا اور فرمایا: یہ اللہ عزوجل کے آزاد کئے ہوئے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
2923
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْمَعْنَى، قَالَ أَحْمَدُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، قَالَ: كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَى أُمِّ سَعْدٍ بِنْتِ الرَّبِيعِ، وَكَانَتْ يَتِيمَةً فِي حِجْرِ أَبِي بَكْرٍ، فَقَرَأْتُ 0 وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ 0، فَقَالَتْ: لَا تَقْرَأْ 0 وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ 0 وَلَكِنْ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 33، إِنَّمَا نَزَلَتْ فِي أَبِي بَكْرٍ، وَ ابْنِهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حِينَ أَبَى الْإِسْلَامَ، فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَلَّا يُوَرِّثَهُ، فَلَمَّا أَسْلَمَ أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ عَلَيْهِ السَّلَام أَنْ يُؤْتِيَهُ نَصِيبَهُ، زَادَ عَبْدُ الْعَزِيزِ فَمَا أَسْلَمَ حَتَّى حُمِلَ عَلَى الْإِسْلَامِ بِالسَّيْفِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: مَنْ قَالَ عَقَدَتْ جَعَلَهُ حِلْفًا، وَمَنْ قَالَ عَاقَدَتْ جَعَلَهُ حَالِفًا، وَالصَّوَابُ حَدِيثُ طَلْحَةَ عَاقَدَتْ.
داود بن حصین کہتے ہیں کہ میں ام سعد بنت ربیع سے (کلام پاک) پڑھتا تھا وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زیر پرورش ایک یتیم بچی تھیں، میں نے اس آیت «والذين عقدت أيمانكم» کو پڑھا تو کہنے لگیں: اس آیت کو نہ پڑھو، یہ ابوبکر اور ان کے بیٹے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہما کے متعلق اتری ہے، جب عبدالرحمٰن نے مسلمان ہونے سے انکار کیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی کہ میں ان کو وارث نہیں بناؤں گا پھر جب وہ مسلمان ہو گئے تو اللہ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں) کہ وہ ان کا حصہ دیں۔ عبدالعزیز کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ عبدالرحمٰن تلوار کے دباؤ میں آ کر مسلمان ہوئے (یعنی جب اسلام کو غلبہ حاصل ہوا)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جس نے «عقدت» کہا اس نے اس سے «حلف» اور جس نے «عاقدت» کہا اس نے اس سے «حالف» مراد لیا اور صحیح طلحہ کی حدیث ہے جس میں «عاقدت» ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
2937
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَكْسٍ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: صاحب مکس (قدر واجب سے زیادہ زکاۃ وصول کرنے والا) جنت میں نہ جائے گا (کیونکہ یہ ظلم ہے)۔
ضعيف
سنن ابي داود
2950
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ:ذَكَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَوْمًا الْفَيْءَ، فَقَالَ: مَا أَنَا بِأَحَقَّ بِهَذَا الْفَيْءِ مِنْكُمْ، وَمَا أَحَدٌ مِنَّا بِأَحَقَّ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا أَنَّا عَلَى مَنَازِلِنَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالرَّجُلُ وَقِدَمُهُ وَالرَّجُلُ وَبَلَاؤُهُ وَالرَّجُلُ وَعِيَالُهُ وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُهُ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دن فیٔ (بغیر جنگ کے ملا ہوا مال) کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اس فیٔ کا تم سے زیادہ حقدار نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا ہم میں سے اس کا دوسرے سے زیادہ حقدار ہے، لیکن ہم اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم کے اعتبار سے اپنے اپنے مراتب پر ہیں، جو شخص اسلام لانے میں مقدم ہو گا یا جس نے (اسلام کے لیے) زیادہ مصائب برداشت کئے ہونگے یا عیال دار ہو گا یا حاجت مند ہو گا تو اسی اعتبار سے اس میں مال تقسیم ہو گا، ہر شخص کو اس کے مقام و مرتبہ اور اس کی ضرورت کے اعتبار سے مال فیٔ تقسیم کیا جائے گا۔
حسن موقوف
سنن ابي داود
3089
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُقَالُ لَهُ أَبُو مَنْظُورٍ،عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي، عَنْ عَامِرٍ الرَّامِ أَخِي الْخَضِرِ، قَالَ أَبُو دَاوُد، قَالَ النُّفَيْلِيُّ: هُوَ الْخَضِرُ، وَلَكِنْ كَذَا قَالَ، قَالَ: إِنِّي لَبِبِلَادِنَا إِذْ رُفِعَتْ لَنَا رَايَاتٌ وَأَلْوِيَةٌ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا لِوَاءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ، وَهُوَ تَحْتَ شَجَرَةٍ قَدْ بُسِطَ لَهُ كِسَاءٌ، وَهُوَ جَالِسٌ عَلَيْهِ، وَقَدِ اجْتَمَعَ إِلَيْهِ أَصْحَابُهُ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ، فَذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَسْقَامَ، فَقَالَ:" إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَصَابَهُ السَّقَمُ، ثُمَّ أَعْفَاهُ اللَّهُ مِنْهُ، كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ، وَمَوْعِظَةً لَهُ فِيمَا يَسْتَقْبِلُ، وَإِنَّ الْمُنَافِقَ إِذَا مَرِضَ ثُمَّ أُعْفِيَ كَانَ كَالْبَعِيرِ، عَقَلَهُ أَهْلُهُ، ثُمَّ أَرْسَلُوهُ فَلَمْ يَدْرِ لِمَ عَقَلُوهُ، وَلَمْ يَدْرِ لِمَ أَرْسَلُوهُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِمَّنْ حَوْلَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْأَسْقَامُ؟ وَاللَّهِ مَا مَرِضْتُ قَطُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُمْ عَنَّا، فَلَسْتَ مِنَّا، فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ عَلَيْهِ كِسَاءٌ، وَفِي يَدِهِ شَيْءٌ قَدِ الْتَفَّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمَّا رَأَيْتُكَ أَقْبَلْتُ إِلَيْكَ، فَمَرَرْتُ بِغَيْضَةِ شَجَرٍ، فَسَمِعْتُ فِيهَا أَصْوَاتَ فِرَاخِ طَائِرٍ، فَأَخَذْتُهُنَّ فَوَضَعْتُهُنَّ فِي كِسَائِي، فَجَاءَتْ أُمُّهُنَّ فَاسْتَدَارَتْ عَلَى رَأْسِي، فَكَشَفْتُ لَهَا عَنْهُنَّ فَوَقَعَتْ عَلَيْهِنَّ مَعَهُنَّ، فَلَفَفْتُهُنَّ بِكِسَائِي، فَهُنَّ أُولَاءِ مَعِي، قَالَ: ضَعْهُنَّ عَنْكَ، فَوَضَعْتُهُنَّ، وَأَبَتْ أُمُّهُنَّ إِلَّا لُزُومَهُنَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: أَتَعْجَبُونَ لِرُحْمِ أُمِّ الْأَفْرَاخِ فِرَاخَهَا؟ قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَوَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ أُمِّ الْأَفْرَاخِ بِفِرَاخِهَا، ارْجِعْ بِهِنَّ حَتَّى تَضَعَهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُنَّ، وَأُمُّهُنَّ مَعَهُنَّ، فَرَجَعَ بِهِنَّ".
خضر کے تیر انداز بھائی عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ملک میں تھا کہ یکایک ہمارے لیے جھنڈے اور پرچم لہرائے گئے تو میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم ہے، تو میں آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے ایک کمبل پر جو آپ کے لیے بچھایا گیا تھا تشریف فرما تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد آپ کے اصحاب اکٹھا تھے، میں بھی جا کر انہیں میں بیٹھ گیا ۱؎، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماریوں کا ذکر فرمایا: جب مومن بیمار پڑتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس کی بیماری سے عافیت بخشتا ہے تو وہ بیماری اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور آئندہ کے لیے نصیحت، اور جب منافق بیمار پڑتا ہے پھر اسے عافیت دے دی جاتی ہے تو وہ اس اونٹ کے مانند ہے جسے اس کے مالک نے باندھ رکھا ہو پھر اسے چھوڑ دیا ہو، اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے کس لیے باندھا گیا اور کیوں چھوڑ دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! بیماریاں کیا ہیں؟ اللہ کی قسم میں کبھی بیمار نہیں ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اٹھ جا، تو ہم میں سے نہیں ہے ۲؎۔ عامر کہتے ہیں: ہم لوگ بیٹھے ہی تھے کہ ایک کمبل پوش شخص آیا جس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس پر کمبل لپیٹے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی طرف آ نکلا، راستے میں درختوں کا ایک جھنڈ دیکھا اور وہاں چڑیا کے بچوں کی آواز سنی تو انہیں پکڑ کر اپنے کمبل میں رکھ لیا، اتنے میں ان بچوں کی ماں آ گئی، اور وہ میرے سر پر منڈلانے لگی، میں نے اس کے لیے ان بچوں سے کمبل ہٹا دیا تو وہ بھی ان بچوں پر آ گری، میں نے ان سب کو اپنے کمبل میں لپیٹ لیا، اور وہ سب میرے ساتھ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو یہاں رکھو، میں نے انہیں رکھ دیا، لیکن ماں نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: کیا تم اس چڑیا کے اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرنے پر تعجب کرتے ہو؟، صحابہ نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت رکھتا ہے جتنی یہ چڑیا اپنے بچوں سے رکھتی ہے، تم انہیں ان کی ماں کے ساتھ لے جاؤ اور وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے انہیں لائے ہو، تو وہ شخص انہیں واپس چھوڑ آیا۔
ضعيف
سنن ابي داود
3094
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ عَرَفَ فِيهِ الْمَوْتَ، قَالَ:" قَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ حُبِّ يَهُودَ"، قَالَ: فَقَدْ أَبْغَضَهُمْ أسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ فَمَهْ، فَلَمَّا مَاتَ أَتَاهُ ابْنُهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَدْ مَاتَ، فَأَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ، فَنَزَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَهُ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے مرض الموت میں اس کی عیادت کے لیے نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس کی موت کو بھانپ لیا، فرمایا: میں تجھے یہود کی دوستی سے منع کرتا تھا، اس نے کہا: عبداللہ بن زرارہ نے ان سے بغض رکھا تو کیا پایا، جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے لڑکے (عبداللہ) آپ کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! عبداللہ بن ابی مر گیا، آپ مجھے اپنی قمیص دے دیجئیے تاکہ اس میں میں اسے کفنا دوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص اتار کر دے دی۔
ضعيف الإسناد لكن قصة القميص صحيحة ق
سنن ابي داود
3141
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: لَمَّا أَرَادُوا غَسْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا نَدْرِي، أَنُجَرِّدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثِيَابِهِ كَمَا نُجَرِّدُ مَوْتَانَا، أَمْ نَغْسِلُهُ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ؟ فَلَمَّا اخْتَلَفُوا أَلْقَى اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّوْمَ. حتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَذَقْنُهُ فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ مُكَلِّمٌ مِنْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ، لَا يَدْرُونَ مَنْ هُوَ: أَنِ اغْسِلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ، فَقَامُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَسَلُوهُ وَعَلَيْهِ قَمِيصُهُ، يَصُبُّونَ الْمَاءَ فَوْقَ الْقَمِيصِ، وَيُدَلِّكُونَهُ بِالْقَمِيصِ دُونَ أَيْدِيهِمْ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا غَسَلَهُ إِلَّا نِسَاؤُهُ.
عباد بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو کہنے لگے: قسم اللہ کی! ہمیں نہیں معلوم کہ ہم جس طرح اپنے مردوں کے کپڑے اتارتے ہیں آپ کے بھی اتار دیں، یا اسے آپ کے بدن پر رہنے دیں اور اوپر سے غسل دے دیں، تو جب لوگوں میں اختلاف ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند طاری کر دی یہاں تک کہ ان میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں تھا جس کی ٹھڈی اس کے سینہ سے نہ لگ گئی ہو، اس وقت گھر کے ایک گوشے سے کسی آواز دینے والے کی آواز آئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اپنے پہنے ہوئے کپڑوں ہی میں غسل دو، آواز دینے والا کون تھا کوئی بھی نہ جان سکا، (یہ سن کر) لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھ کر آئے اور آپ کو کرتے کے اوپر سے غسل دیا لوگ قمیص کے اوپر سے پانی ڈالتے تھے اور قمیص سمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک ملتے تھے نہ کہ اپنے ہاتھوں سے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں: اگر مجھے پہلے یاد آ جاتا جو بعد میں یاد آیا، تو آپ کی بیویاں ہی آپ کو غسل دیتیں۔
حسن
سنن ابي داود
3199
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَى الْمَيِّتِ، فَأَخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاءَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو تو خلوص دل سے اس کے لیے دعا کرو۔
حسن
سنن ابي داود
3591
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَإِنْ جَاءُوكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ سورة المائدة آية 42، وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ سورة المائدة آية 42، قَالَ: كَانَ بَنُو النَّضِيرِ إِذَا قَتَلُوا مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ أَدَّوْا نِصْفَ الدِّيَةِ، وَإِذَا قَتَلَ بَنُو قُرَيْظَةَ مِنْ بَنِي النَّضِيرِ أَدَّوْا إِلَيْهِمُ الدِّيَةَ كَامِلَةً، فَسَوَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمْ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب یہ آیت «فإن جاءوك فاحكم بينهم أو أعرض عنهم» جب کافر آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کا فیصلہ کریں یا نہ کریں (سورۃ المائدہ: ۴۲)   «وإن حكمت فاحكم بينهم بالقسط» اور اگر تم ان کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو (سورۃ المائدہ: ۴۲) نازل ہوئی تو دستور یہ تھا کہ جب بنو نضیر کے لوگ قریظہ کے کسی شخص کو قتل کر دیتے تو وہ آدھی دیت دیتے، اور جب بنو قریظہ کے لوگ بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کر دیتے تو وہ پوری دیت دیتے، تو اس آیت کے نازل ہوتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت برابر کر دی۔
حسن صحيح الإسناد
سنن ابي داود
3625
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْأَصْبَغِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ وَبِإِسْنَادِهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ مُزْيَنَةَ مِمَّنْ كَانَ يَتَّبِعُ الْعِلْمَ وَيَعِيهِ، يُحَدِّثُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی زہری سے یہی حدیث اسی طریق سے مروی ہے اس میں ہے کہ مجھ سے مزینہ کے ایک آدمی نے جو علم کا شیدائی تھا اور اسے یاد رکھتا تھا بیان کیا ہے وہ سعید بن مسیب سے بیان کر رہا تھا، پھر راوی نے پوری حدیث اسی مفہوم کی ذکر کی۔
ضعيف
سنن ابي داود
3931
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْأَصْبَغِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" وَقَعَتْ جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ فِي سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ أَوِ ابْنِ عَمٍّ لَهُ فَكَاتَبَتْ عَلَى نَفْسِهَا وَكَانَتِ امْرَأَةً مَلَّاحَةً تَأْخُذُهَا الْعَيْنُ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَجَاءَتْ تَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كِتَابَتِهَا فَلَمَّا قَامَتْ عَلَى الْبَابِ، فَرَأَيْتُهَا كَرِهْتُ مَكَانَهَا، وَعَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيَرَى مِنْهَا مِثْلَ الَّذِي رَأَيْتُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ وَإِنَّمَا كَانَ مِنْ أَمْرِي مَا لَا يَخْفَى عَلَيْكَ وَإِنِّي وَقَعْتُ فِي سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَإِنِّي كَاتَبْتُ عَلَى نَفْسِي، فَجِئْتُكَ أَسْأَلُكَ فِي كِتَابَتِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَهَلْ لَكِ إِلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ؟، قَالَتْ: وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: أُؤَدِّي عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَأَتَزَوَّجُكِ، قَالَتْ: قَدْ فَعَلْتُ، قَالَتْ: فَتَسَامَعَ تَعْنِي النَّاسَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَزَوَّجَ جُوَيْرِيَةَ، فَأَرْسَلُوا مَا فِي أَيْدِيهِمْ مِنَ السَّبْيِ، فَأَعْتَقُوهُمْ وَقَالُوا: أَصْهَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا رَأَيْنَا امْرَأَةً كَانَتْ أَعْظَمَ بَرَكَةً عَلَى قَوْمِهَا مِنْهَا أُعْتِقَ فِي سَبَبِهَا مِائَةُ أَهْلِ بَيْتٍ مِنْ بَنِي الْمُصْطَلِقِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا حُجَّةٌ فِي أَنَّ الْوَلِيَّ هُوَ يُزَوِّجُ نَفْسَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام المؤمنین جویریہ بنت حارث بن مصطلق رضی اللہ عنہا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں تو جویریہ نے ان سے مکاتبت کر لی، اور وہ ایک خوبصورت عورت تھیں جسے ہر شخص دیکھنے لگتا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے کے لیے آئیں، جب وہ دروازہ پر آ کر کھڑی ہوئیں تو میری نگاہ ان پر پڑی مجھے ان کا آنا اچھا نہ لگا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ عنقریب آپ بھی ان کی وہی ملاحت دیکھیں گے جو میں نے دیکھی ہے، اتنے میں وہ بولیں: اللہ کے رسول! میں جویریہ بنت حارث ہوں، میرا جو حال تھا وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ۱؎ ثابت بن قیس کے حصہ میں گئی ہوں، میں نے ان سے مکاتبت کر لی ہے، اور آپ کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے آئی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس سے بہتر کی رغبت رکھتی ہو؟ وہ بولیں: وہ کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارا بدل کتابت ادا کر دیتا ہوں اور تم سے شادی کر لیتا ہوں وہ بولیں: میں کر چکی (یعنی مجھے یہ بخوشی منظور ہے)۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر جب لوگوں نے ایک دوسرے سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ سے شادی کر لی ہے تو بنی مصطلق کے جتنے قیدی ان کے ہاتھوں میں تھے سب کو چھوڑ دیا انہیں آزاد کر دیا، اور کہنے لگے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال والے ہیں، ہم نے کوئی عورت اتنی برکت والی نہیں دیکھی جس کی وجہ سے اس کی قوم کو اتنا زبردست فائدہ ہوا ہو، ان کی وجہ سے بنی مصطلق کے سو قیدی آزاد ہوئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث دلیل ہے اس بات کی کہ ولی خود نکاح کر سکتا ہے۔
حسن
سنن ابي داود
3953
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ خَطَّابِ بْنِ صَالِحٍ مَوْلَى الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ سَلَامَةَ بِنْتِ مَعْقِلٍ امْرَأَةٍ مِنْ خَارِجَةِ قَيْسِ عَيْلَانَ، قَالَتْ:" قَدِمَ بِي عَمِّي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَبَاعَنِي مِنْ الْحُبَابِ بْنِ عَمْرٍو، أَخِي أَبِي الْيُسْرِ بْنِ عَمْرٍو، فَوَلَدْتُ لَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحُبَابِ، ثُمَّ هَلَكَ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: الْآنَ وَاللَّهِ تُبَاعِينَ فِي دَيْنِهِ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ مِنْ خَارِجَةِ قَيْسِ عَيْلَانَ قَدِمَ بِي عَمِّي الْمَدِينَةَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَبَاعَنِي مِنْ الْحُبَابِ بْنِ عَمْرٍو أَخِي أَبِي الْيُسْرِ بْنِ عَمْرٍو، فَوَلَدْتُ لَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحُبَابِ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: الْآنَ وَاللَّهِ تُبَاعِينَ فِي دَيْنِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ وَلِيُّ الْحُبَابِ؟ قِيلَ: أَخُوهُ أَبُو الْيُسْرِ بْنُ عَمْرٍو، فَبَعَثَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: أَعْتِقُوهَا، فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِرَقِيقٍ قَدِمَ عَلَيَّ فَأْتُونِي أُعَوِّضْكُمْ مِنْهَا، قَالَتْ: فَأَعْتَقُونِي وَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَقِيقٌ، فَعَوَّضَهُمْ مِنِّي غُلَامًا".
بنی خارجہ قیس عیلان کی ایک خاتون سلامہ بنت معقل کہتی ہیں کہ جاہلیت میں مجھے میرے چچا لے کر آئے اور ابوالیسر بن عمرو کے بھائی حباب بن عمرو کے ہاتھ بیچ دیا، ان سے عبدالرحمٰن بن حباب پیدا ہوئے، پھر وہ مر گئے تو ان کی بیوی کہنے لگی: قسم اللہ کی اب تو ان کے قرضہ میں بیچی جائے گی، یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بنی خارجہ قیس عیلان کی ایک خاتون ہوں، جاہلیت میں میرے چچا مدینہ لے کر آئے اور ابوالیسر بن عمرو کے بھائی حباب بن عمرو کے ہاتھ مجھے بیچ دیا ان سے میرے بطن سے عبدالرحمٰن بن حباب پیدا ہوئے، اب ان کی بیوی کہتی ہے: قسم اللہ کی تو ان کے قرض میں بیچی جائے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: حباب کا وارث کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: ان کے بھائی ابوالیسر بن عمرو ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہلا بھیجا کہ اسے (سلامہ کو) آزاد کر دو، اور جب تم سنو کہ میرے پاس غلام اور لونڈی آئے ہیں تو میرے پاس آنا، میں تمہیں اس کا عوض دوں گا، سلامہ کہتی ہیں: یہ سنا تو ان لوگوں نے مجھے آزاد کر دیا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غلام اور لونڈی آئے تو آپ نے میرے عوض میں انہیں ایک غلام دے دیا۔
ضعيف الإسناد
سنن ابي داود
4161
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: ذَكَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا عِنْدَهُ الدُّنْيَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا تَسْمَعُونَ أَلَا تَسْمَعُونَ إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ، إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ يَعْنِي التَّقَحُّلَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هُوَ أَبُو أُمَامَةَ بْنُ ثَعْلَبَةَ الْأَنْصَارِيُّ.
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ نے ایک روز آپ کے پاس دنیا کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ بیشک سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے، بیشک سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے اس سے مراد ترک زینت و آرائش اور خستہ حالی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ ابوامامہ بن ثعلبہ انصاری ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
4235
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادٍ، عَن أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" قَدِمَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِلْيَةٌ مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ أَهْدَاهَا لَهُ فِيهَا خَاتَمٌ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ فَصٌّ حَبَشِيٌّ، قَالَتْ: فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُودٍ مُعْرِضًا عَنْهُ أَوْ بِبَعْضِ أَصَابِعِهِ ثُمَّ دَعَا أُمَامَةَ ابْنَةَ أَبِي الْعَاصِ ابْنَةَ ابْنَتِهِ زَيْنَبَ، فَقَالَ: تَحَلَّيْ بِهَذَا يَا بُنَيَّةُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نجاشی کی طرف سے کچھ زیور ہدیہ میں آئے اس میں سونے کی ایک انگوٹھی تھی جس میں یمنی نگینہ جڑا ہوا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک لکڑی سے بغیر اس کی طرف التفات کئے پکڑا، یا اپنی بعض انگلیوں سے پکڑا، پھر اپنی نواسی زینب کی بیٹی امامہ بنت ابی العاص کو بلایا اور فرمایا: بیٹی! اسے تو پہن لے۔
حسن الإسناد
سنن ابي داود
4451
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْأَصْبَغِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ مُزَيْنَةَ، يُحَدِّثُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" زَنَى رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ مِنْ الْيَهُودِ وَقَدْ أُحْصِنَا حِينَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَقَدْ كَانَ الرَّجْمُ مَكْتُوبًا عَلَيْهِمْ فِي التَّوْرَاةِ، فَتَرَكُوهُ وَأَخَذُوا بِالتَّجْبِيهِ يُضْرَبُ مِائَةً بِحَبْلٍ مَطْلِيٍّ بِقَارٍ وَيُحْمَلُ عَلَى حِمَارٍ وَجْهُهُ مِمَّا يَلِي دُبُرَ الْحِمَارِ، فَاجْتَمَعَ أَحْبَارٌ مِنْ أَحْبَارِهِمْ، فَبَعَثُوا قَوْمًا آخَرِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: سَلُوهُ عَنْ حَدِّ الزَّانِي، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ فِيهِ: قَالَ: وَلَمْ يَكُونُوا مِنْ أَهْلِ دِينِهِ فَيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ، فَخُيِّرَ فِي ذَلِكَ، قَالَ: فَإِنْ جَاءُوكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ سورة المائدة آية 42".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہود کے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا وہ دونوں شادی شدہ تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو تورات میں رجم کا حکم تحریر تھا، لیکن انہوں نے اسے چھوڑے رکھا تھا اور اس کے بدلہ «تَجبیہ» کو اختیار کر لیا تھا، تارکول ملی ہوئی رسی سے اسے سو بار مارا جاتا، اسے گدھے پر سوار کیا جاتا اور اس کا چہرہ گدھے کے پچھاڑی کی طرف ہوتا، تو ان کے علماء میں سے کچھ عالم اکٹھا ہوئے ان لوگوں نے کچھ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور کہا جا کر ان سے زنا کی حد کے متعلق پوچھو، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: چونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر نہیں تھے کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں اسی لیے آپ کو اس سلسلہ میں اختیار دیا گیا اور فرمایا گیا «فإن جاءوك فاحكم بينهم أو أعرض عنهم» اگر وہ تمہارے پاس آئیں تو تمہیں اختیار ہے چاہو تو ان کے درمیان فیصلہ کر دو اور چاہو تو ٹال دو (سورۃ المائدہ: ۴۲)۔
ضعيف
سنن ابي داود
4471
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ فِي كُلِّ مَرَّةٍ: فَلْيَضْرِبْهَا كِتَابُ اللَّهِ وَلَا يُثَرِّبْ عَلَيْهَا، وَقَالَ فِي الرَّابِعَةِ: فَإِنْ عَادَتْ فَلْيَضْرِبْهَا كِتَابُ اللَّهِ ثُمَّ لِيَبِعْهَا وَلَوْ بِحَبْلٍ مِنْ شَعْرٍ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے، اس میں ہے کہ ہر بار اسے اللہ کی کتاب کے موافق یعنی پچاس کوڑے مارے ۱؎ اور صرف ڈانٹ ڈپٹ کر نہ چھوڑ دے، یا حد لگانے کے بعد پھر نہ ڈانٹے، اور چوتھی بار میں فرمایا: اگر وہ پھر زنا کرے تو پھر اسے اللہ کی کتاب کے موافق حد لگائے، پھر چاہیئے کہ اسے بیچ دے، گو بال کی ایک رسی ہی کے بدلے کیوں نہ ہو۔
صحيح لغيره
سنن ابي داود
4475
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق بِهَذَا الْحَدِيثِ، لَمْ يَذْكُرْ عَائِشَةَ، قَالَ: فَأَمَرَ بِرَجُلَيْنِ وَامْرَأَةٍ مِمَّنْ تَكَلَّمَ بِالْفَاحِشَةِ: حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ، وَمِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ، قَالَ النُّفَيْلِيُّ: وَيَقُولُونَ: الْمَرْأَةُ حَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ.
اس سند سے بھی محمد بن اسحاق سے یہی حدیث مروی ہے اس میں انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں کیا ہے اس میں ہے: آپ نے دو مردوں اور ایک عورت کو جنہوں نے بری بات منہ سے نکالی تھی (کوڑے لگانے کا) حکم دیا، وہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ تھے نفیل کہتے ہیں: اور لوگ کہتے ہیں کہ عورت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا تھیں۔
حسن لغيره
سنن ابي داود
4525
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بُجَيْدٍ، قَالَ: إِنَّ سَهْلًا وَاللَّهِ أَوْهَمَ الْحَدِيثَ،" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى يَهُودَ أَنَّهُ قَدْ وُجِدَ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ قَتِيلٌ فَدُوهُ، فَكَتَبُوا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ خَمْسِينَ يَمِينًا مَا قَتَلْنَاهُ وَلَا عَلِمْنَا قَاتِلًا، قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ مِائَةِ نَاقَةٍ".
عبدالرحمٰن بن بجید کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم، سہل کو اس حدیث میں وہم ہو گیا ہے، واقعہ یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو لکھا کہ تمہارے بیچ ایک مقتول ملا ہے تو تم اس کی دیت ادا کرو، تو انہوں نے جواب میں لکھا: ہم اللہ کی پچاس قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا، اور نہ ہمیں اس کے قاتل کا پتا ہے، وہ کہتے ہیں: اس پر اس کی دیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے سو اونٹ (خود) ادا کی۔
منكر
سنن ابي داود
4660
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ:" لَمَّا اسْتُعِزَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عِنْدَهُ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، دَعَاهُ بِلَالٌ إِلَى الصَّلَاةِ، فَقَالَ: مُرُوا مَنْ يُصَلِّي لِلنَّاسِ، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَمْعَةَ فَإِذَا عُمَرُ فِي النَّاسِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا، فَقُلْتُ: يَا عُمَرُ قُمْ فَصَلِّ بِالنَّاسِ فَتَقَدَّمَ فَكَبَّرَ، فَلَمَّا سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ وَكَانَ عُمَرُ رَجُلًا مُجْهِرًا، قَالَ: فَأَيْنَ أَبُو بَكْرٍ؟ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ، فَبَعَثَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَجَاءَ بَعْدَ أَنْ صَلَّى عُمَرُ تِلْكَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ".
حارث بن ہشام عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری سخت ہوئی اور میں آپ ہی کے پاس مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھا تو بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز کے لیے بلایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی سے کہو جو لوگوں کو نماز پڑھائے عبداللہ بن زمعہ نکلے تو دیکھا کہ لوگوں میں عمر رضی اللہ عنہ موجود ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ موقع پر موجود نہ تھے، میں نے کہا: اے عمر! اٹھیے نماز پڑھائیے، تو وہ بڑھے اور انہوں نے اللہ اکبر کہا، وہ بلند آواز شخص تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی آواز سنی تو فرمایا: ابوبکر کہاں ہیں؟ اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی، اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، وہ عمر کے نماز پڑھا چکنے کے بعد آئے تو انہوں نے لوگوں کو (پھر سے) نماز پڑھائی ۱؎۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4670
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَقُولَ: إِنِّي خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى".
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: کسی نبی کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔
صحيح لغيره
سنن ابي داود
4837
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ يَتَحَدَّثُ يُكْثِرُ أَنْ يَرْفَعَ طَرْفَهُ إِلَى السَّمَاءِ".
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گفتگو کرنے بیٹھتے تو آپ اکثر اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھاتے۔
ضعيف

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.