سنن ابي داود
مسدد بن مسرهد الأسدي (حدثنا / عن) سلام بن سليم الحنفي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
68
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: اغْتَسَلَ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَفْنَةٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَتَوَضَّأَ مِنْهَا أَوْ يَغْتَسِلَ، فَقَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے ایک لگن سے (چلو سے پانی لے لے کر) غسل جنابت کیا، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس برتن میں بچے ہوئے پانی سے وضو یا غسل کرنے کے لیے تشریف لائے تو ام المؤمنین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں ناپاک تھی (اور یہ غسل جنابت کا بچا ہوا پانی ہے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی ناپاک نہیں ہوتا ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
189
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتِفًا ثُمَّ مَسَحَ يَدَهُ بِمِسْحٍ كَانَ تَحْتَهُ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا شانہ کھایا پھر اپنا ہاتھ اس ٹاٹ سے پوچھا جو آپ کے نیچے بچھا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔
صحيح
سنن ابي داود
910
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَشْعَثِ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْتِفَاتِ الرَّجُلِ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ:" إِنَّمَا هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آدمی کے نماز کے ادھر ادھر دیکھنے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بندے کی نماز سے شیطان کا اچک لینا ہے (یعنی اس کے ثواب میں سے ایک حصہ اڑا لیتا ہے)۔
صحيح
سنن ابي داود
1933
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَقْبَلْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ مِنْ عَرَفَاتٍ إِلَى الْمُزْدَلِفَةِ فَلَمْ يَكُنْ يَفْتُرُ مِنَ التَّكْبِيرِ وَالتَّهْلِيلِ حَتَّى أَتَيْنَا الْمُزْدَلِفَةَ، فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، أَوْ أَمَرَ إِنْسَانًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، فَصَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: الصَّلَاةُ، فَصَلَّى بِنَا الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ دَعَا بِعَشَائِهِ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي عِلَاجُ بْنُ عَمْرٍو بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: فَقِيلَ لِابْنِ عُمَرَ فِي ذَلِكَ: فَقَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا".
سلیم بن اسود ابوالشعثاء محاربی کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ عرفات سے مزدلفہ آیا وہ تکبیر و تہلیل سے تھکتے نہ تھے، جب ہم مزدلفہ آ گئے تو انہوں نے اذان کہی اور اقامت، یا ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اذان اور اقامت کہے، پھر ہمیں مغرب تین رکعت پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: عشاء پڑھ لو چنانچہ ہمیں عشاء دو رکعت پڑھائی پھر کھانا منگوایا۔ اشعث کہتے ہیں: اور مجھے علاج بن عمرو نے میرے والد کی حدیث کے مثل حدیث کی خبر دی ہے جو انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لوگوں نے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح نماز پڑھی ہے۔
صحيح لكن قوله ف
سنن ابي داود
2602
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَهَا، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الرِّكَابِ قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ {13} وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ {14} سورة الزخرف آية 13-14، ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ:" سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، ثُمَّ ضَحِكَ فَقِيلَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَمَا فَعَلْتُ ثُمَّ ضَحِكَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: إِنَّ رَبَّكَ يَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرِي".
علی بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا، آپ کے لیے ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو «بسم الله» کہا، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ گئے تو «الحمد الله» کہا، اور «سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين * وإنا إلى ربنا لمنقلبون» کہا، پھر تین مرتبہ «الحمد الله» کہا، پھر تین مرتبہ «الله اكبر» کہا، پھر «سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» کہا، پھر ہنسے، پوچھا گیا: امیر المؤمنین! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا جیسے کہ میں نے کیا پھر آپ ہنسے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہیں ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2800
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ:" مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسُكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَتِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ، فَقَامَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ نَسَكْتُ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ إِلَى الصَّلَاةِ، وَعَرَفْتُ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ، فَتَعَجَّلْتُ فَأَكَلْتُ وَأَطْعَمْتُ أَهْلِي وَجِيرَانِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي عَنَاقًا جَذَعَةً وَهِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ فَهَلْ تُجْزِئُ عَنِّي، قَالَ: نَعَمْ، وَلَنْ تُجْزِئَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں ذی الحجہ کو نماز عید کے بعد ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: جس نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی، اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی، تو اس نے قربانی کی (یعنی اس کو قربانی کا ثواب ملا) اور جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی تو وہ گوشت کی بکری ۱؎ ہو گی، یہ سن کر ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے تو نماز کے لیے نکلنے سے پہلے قربانی کر ڈالی اور میں نے یہ سمجھا کہ یہ دن کھانے اور پینے کا دن ہے، تو میں نے جلدی کی، میں نے خود کھایا، اور اپنے اہل و عیال اور ہمسایوں کو بھی کھلایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ گوشت کی بکری ہے ۲؎، تو انہوں نے کہا: میرے پاس ایک سالہ جوان بکری اور وہ گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے، کیا وہ میری طرف سے کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، لیکن تمہارے بعد کسی کے لیے کافی نہ ہو گی (یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے)۔
صحيح
سنن ابي داود
2821
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا وَلَيْسَ مَعَنَا مُدًى، أَفَنَذْبَحُ بِالْمَرْوَةِ وَشِقَّةِ الْعَصَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرِنْ أَوْ أَعْجِلْ مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَكُلُوا مَا لَمْ يَكُنْ سِنًّا أَوْ ظُفْرًا، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفْرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ، وَتَقَدَّمَ بِهِ سَرْعَانٌ مِنَ النَّاسِ فَتَعَجَّلُوا فَأَصَابُوا مِنَ الْغَنَائِمِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ النَّاسِ، فَنَصَبُوا قُدُورًا فَمَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقُدُورِ، فَأَمَرَ بِهَا فَأُكْفِئَتْ وَقَسَمَ بَيْنَهُمْ فَعَدَلَ بَعِيرًا بِعَشْرِ شِيَاهٍ وَنَدَّ بَعِيرٌ مِنْ إِبِلِ الْقَوْمِ وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ خَيْلٌ فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللَّهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَمَا فَعَلَ مِنْهَا هَذَا فَافْعَلُوا بِهِ مِثْلَ هَذَا".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کل دشمنوں سے مقابلہ کرنے والے ہیں، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں کیا ہم سفید (دھار دار) پتھر یا لاٹھی کے پھٹے ہوئے ٹکڑے (بانس کی کھپچی) سے ذبح کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جلدی کر لو ۱؎ جو چیز کہ خون بہا دے اور اللہ کا نام اس پر لیا جائے تو اسے کھاؤ ہاں وہ دانت اور ناخن سے ذبح نہ ہو، عنقریب میں تم کو اس کی وجہ بتاتا ہوں، دانت سے تو اس لیے نہیں کہ دانت ایک ہڈی ہے، اور ناخن سے اس لیے نہیں کہ وہ جبشیوں کی چھریاں ہیں، اور کچھ جلد باز لوگ آگے بڑھ گئے، انہوں نے جلدی کی، اور کچھ مال غنیمت حاصل کر لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پیچھے چل رہے تھے تو ان لوگوں نے دیگیں چڑھا دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دیگوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں پلٹ دینے کا حکم دیا، چنانچہ وہ پلٹ دی گئیں، اور ان کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت) تقسیم کیا تو ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا، ایک اونٹ ان اونٹوں میں سے بھاگ نکلا اس وقت لوگوں کے پاس گھوڑے نہ تھے (کہ گھوڑا دوڑا کر اسے پکڑ لیتے) چنانچہ ایک شخص نے اسے تیر مارا تو اللہ نے اسے روک دیا (یعنی وہ چوٹ کھا کر گر گیا اور آگے نہ بڑھ سکا) اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان چوپایوں میں بھی بدکنے والے جانور ہوتے ہیں جیسے وحشی جانور بدکتے ہیں تو جو کوئی ان جانوروں میں سے ایسا کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
3046
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي أُمِّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى وَلَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ".
حرب بن عبیداللہ کے نانا (جو بنی تغلب سے ہیں) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عشر (دسواں حصہ) یہود و نصاریٰ سے لیا جائے گا اور مسلمانوں پر دسواں حصہ (مال تجارت میں) نہیں ہے (بلکہ ان سے چالیسواں حصہ لیا جائے گا۔ البتہ پیداوار اور زراعت میں ان سے دسواں حصہ لیا جائے گا)۔
ضعيف
سنن ابي داود
3334
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا شَبِيبُ بْنُ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، يَقُولُ:" أَلَا إِنَّ كُلَّ رِبًا مِنْ رِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ، لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ دَمٍ مِنْ دَمِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُ مِنْهَا دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي لَيْثٍ، فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، قَالَ: اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، قَالُوا: نَعَمْ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ".
عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں سنا: آپ فرما رہے تھے: سنو! زمانہ جاہلیت کے سارے سود کالعدم قرار دے دیئے گئے ہیں تمہارے لیے بس تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تم پر ظلم کرے (نہ تم کسی سے سود لو نہ تم سے کوئی سود لے) سن لو! زمانہ جاہلیت کے خون کالعدم کر دئیے گئے ہیں، اور زمانہ جاہلیت کے سارے خونوں میں سے میں سب سے پہلے جسے معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب ۱؎ کا خون ہے وہ ایک شیر خوار بچہ تھے جو بنی لیث میں پرورش پا رہے تھے کہ ان کو ہذیل کے لوگوں نے مار ڈالا تھا۔ راوی کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟ لوگوں نے تین بار کہا: ہاں (آپ نے پہنچا دیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہ۔
صحيح
سنن ابي داود
3400
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا طَارِقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ، وَقَالَ: إِنَّمَا يَزْرَعُ ثَلَاثَةٌ رَجُلٌ لَهُ أَرْضٌ فَهُوَ يَزْرَعُهَا، وَرَجُلٌ مُنِحَ أَرْضًا فَهُوَ يَزْرَعُ مَا مُنِحَ، وَرَجُلٌ اسْتَكْرَى أَرْضًا بِذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع کیا ہے ۱؎ اور فرمایا: زراعت تین طرح کے لوگ کرتے ہیں (۱) ایک وہ شخص جس کی اپنی ذاتی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرتا ہے، (۲) دوسرا وہ شخص جسے عاریۃً (بلامعاوضہ) زمین دے دی گئی ہو تو وہ دی ہوئی زمین میں کھیتی کرتا ہے، (۳) تیسرا وہ شخص جس نے سونا چاندی (نقد) دے کر زمین کرایہ پر لی ہو۔
صحيح
سنن ابي داود
3564
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ نَاسٍ مِنْ آلِ صَفْوَانَ، قَالَ: اسْتَعَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی آل صفوان کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ زرہیں عاریۃً لیں، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔
0
سنن ابي داود
3620
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَعْنِي لِرَجُلٍ حَلَّفَهُ:" احْلِفْ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، مَا لَهُ عِنْدَكَ شَيْءٌ"، يَعْنِي لِلْمُدَّعِي، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو يَحْيَى اسْمُهُ زِيَادٌ كُوفِيٌّ ثِقَةٌ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے قسم کھلائی تو یوں فرمایا: اس اللہ کی قسم کھاؤ جس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں کہ تیرے پاس اس (یعنی مدعی کی) کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابویحییٰ کا نام زیاد کوفی ہے اور وہ ثقہ ہیں۔
ضعيف الإسناد
سنن ابي داود
4277
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ:" كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ فِتْنَةً فَعَظَّمَ أَمْرَهَا فَقُلْنَا، أَوْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَئِنْ أَدْرَكَتْنَا هَذِهِ لَتُهْلِكَنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَلَّا إِنَّ بِحَسْبِكُمُ الْقَتْلُ" قَالَ: سَعِيدٌ فَرَأَيْتُ إِخْوَانِي قُتِلُوا.
سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے آپ نے ایک فتنہ اور اس کی ہولناکی کا ذکر کیا تو ہم نے یا لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر اس فتنہ نے ہم کو پا لیا تو ہم کو تو تباہ کر ڈالے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں، بس تمہارا قتل ہو جانا ہی کافی ہو گا۔ سعید کہتے ہیں: میں نے اپنے بھائیوں کو (جمل و صفین میں) قتل ہوتے دیکھ لیا۔
صحيح
سنن ابي داود
4339
حَدَّثَنَا مُسَّدَدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، أَظُنُّهُ عَنْ ابْنِ جَرِيرٍ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا مِنْ رَجُلٍ يَكُونُ فِي قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي يَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ يُغَيِّرُوا عَلَيْهِ فَلَا يُغَيِّرُوا إِلَّا أَصَابَهُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَمُوتُوا".
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو آدمی کسی ایسی قوم میں ہو جس میں گناہ کے کام کئے جاتے ہوں اور وہ اسے روکنے پر قدرت رکھتا ہو اور نہ روکے تو اللہ اسے مرنے سے پہلے ضرور کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔
حسن

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.