سنن ابي داود
أيوب السختياني (حدثنا / عن) عبد الله بن زيد الجرمي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
262
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ مُعَاذَةَ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ عَائِشَةَ: أَتَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلَاةَ؟ فَقَالَتْ:" أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟ لَقَدْ كُنَّا نَحِيضُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا نَقْضِي وَلَا نُؤْمَرُ بِالْقَضَاءِ".
معاذہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا حائضہ نماز کی قضاء کرے گی؟ تو اس پر آپ نے کہا: کیا تو حروریہ ہے ۱؎؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہمیں حیض آتا تھا تو ہم نماز کی قضاء نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
333
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، قَالَ: دَخَلْتُ فِي الْإِسْلَامِ فَأَهَمَّنِي دِينِي، فَأَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ:" إِنِّي اجْتَوَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَبِغَنَمٍ، فَقَالَ لِي: اشْرَبْ مِنْ أَلْبَانِهَا، قَالَ حَمَّادٌ: وَأَشُكُّ فِي أَبْوَالِهَا، هَذَا قَوْلُ حَمَّادٍ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَكُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ، وَمَعِي أَهْلِي فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأُصَلِّي بِغَيْرِ طَهُورٍ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنِصْفِ النَّهَارِ وَهُوَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِهِ وَهُوَ فِي ظِلِّ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَقُلْتُ: نَعَمْ هَلَكْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: وَمَا أَهْلَكَكَ؟ قُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ وَمَعِي أَهْلِي فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأُصَلِّي بِغَيْرِ طُهُورٍ، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ فَجَاءَتْ بِهِ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ بِعُسٍّ يَتَخَضْخَضُ مَا هُوَ بِمَلْآنَ فَتَسَتَّرْتُ إِلَى بَعِيرِي فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورٌ، وَإِنْ لَمْ تَجِدِ الْمَاءَ إِلَى عَشْرِ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّهُ جِلْدَكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، لَمْ يَذْكُرْ أَبْوَالَهَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا لَيْسَ بِصَحِيحٍ، وَلَيْسَ فِي أَبْوَالِهَا إِلَّا حَدِيثُ أَنَسٍ، تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ الْبَصْرَةِ.
قبیلہ بنی عامر کے ایک آدمی کہتے ہیں کہ میں اسلام میں داخل ہوا تو مجھے اپنا دین سیکھنے کی فکر لاحق ہوئی لہٰذا میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے کہا: مجھے مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ اونٹ اور بکریاں دینے کا حکم دیا اور مجھ سے فرمایا: تم ان کا دودھ پیو، (حماد کا بیان ہے کہ مجھے شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیشاب بھی پینے کے لیے کہا یا نہیں، یہ حماد کا قول ہے)، پھر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پانی سے (اکثر) دور رہا کرتا تھا اور میرے ساتھ میری بیوی بھی تھی، مجھے جنابت لاحق ہوتی تو میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لیتا تھا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوپہر کے وقت آیا، آپ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد کے سائے میں (بیٹھے) تھے، آپ نے فرمایا: ابوذر؟، میں نے کہا: جی، اللہ کے رسول! میں تو ہلاک و برباد ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس چیز نے تمہیں ہلاک و برباد کیا؟، میں نے کہا: میں پانی سے دور رہا کرتا تھا اور میرے ساتھ میری بیوی تھی، مجھے جنابت لاحق ہوتی تو میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لیتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے پانی لانے کا حکم دیا، چنانچہ ایک کالی لونڈی بڑے برتن میں پانی لے کر آئی جو برتن میں ہل رہا تھا، برتن بھرا ہوا نہیں تھا، پھر میں نے اپنے اونٹ کی آڑ کی اور غسل کیا، پھر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! پاک مٹی پاک کرنے والی ہے، اگرچہ تم دس سال تک پانی نہ پاؤ، لیکن جب تمہیں پانی مل جائے تو اسے اپنی کھال پر بہاؤ (غسل کرو)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن زید نے ایوب سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے پیشاب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ صحیح نہیں ہے اور پیشاب کا ذکر صرف انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، جس میں اہل بصرہ منفرد ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
842
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: جَاءَنَا أَبُو سُلَيْمَانَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ إِلَى مَسْجِدِنَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُصَلِّي بِكُمْ، وَمَا أُرِيدُ الصَّلَاةَ، وَلَكِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي قِلَابَةَ: كَيْفَ صَلَّى؟ قَالَ: مِثْلَ صَلَاةِ شَيْخِنَا هَذَا، يَعْنِي عَمْرَو بْنَ سَلَمَةَ إِمَامَهُمْ، وَذَكَرَ أَنَّهُ كَانَ" إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الْآخِرَةِ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى قَعَدَ، ثُمَّ قَامَ".
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ ابوسلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری مسجد میں آئے تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی میں تمہیں نماز پڑھاؤں گا، میرے پیش نظر نماز پڑھانا نہیں بلکہ میں تم لوگوں کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: انہوں نے کس طرح نماز پڑھی؟ تو ابوقلابہ نے کہا: ہمارے اس شیخ- یعنی عمرو بن سلمہ کی طرح، جو ان کے امام تھے اور ابوقلابہ نے ذکر کیا کہ ابوقلابہ نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب پہلی رکعت کے دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو (تھوڑی دیر) بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
843
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: جَاءَنَا أَبُو سُلَيْمَانَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ إِلَى مَسْجِدِنَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُصَلِّي، وَمَا أُرِيدُ الصَّلَاةَ، وَلَكِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، قَالَ:" فَقَعَدَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى حِينَ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الْآخِرَةِ".
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ ابو سلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری مسجد میں آئے، انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! میں نماز پڑھوں گا مگر میرے پیش نظر نماز پڑھنا نہیں ہے بلکہ میں چاہتا ہوں کہ میں تمہیں دکھاؤں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے؟ ابوقلابہ کہتے ہیں: پھر وہ پہلی رکعت میں بیٹھے جس وقت انہوں نے اپنا سر دوسرے سجدے سے اٹھایا۔
صحيح
سنن ابي داود
1185
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ الْهِلَالِيِّ، قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ، فَزِعًا يَجُرُّ ثَوْبَهُ وَأَنَا مَعَهُ يَوْمَئِذٍ بِالْمَدِينَةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَأَطَالَ فِيهِمَا الْقِيَامَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَانْجَلَتْ، فَقَالَ:" إِنَّمَا هَذِهِ الْآيَاتُ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهَا، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا كَأَحْدَثِ صَلَاةٍ صَلَّيْتُمُوهَا مِنَ الْمَكْتُوبَةِ".
قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ گھبرا کر اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے نکلے اس دن میں آپ کے ساتھ مدینہ ہی میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی اور ان میں لمبا قیام فرمایا، پھر نماز سے فارغ ہوئے اور سورج روشن ہو گیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک یہ نشانیاں ہیں، جن کے ذریعہ اللہ (بندوں کو) ڈراتا ہے لہٰذا جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو جیسے تم نے قریب کی فرض نماز پڑھی ہو ۱؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
1186
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَيْحَانُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ قَبِيصَةَ الْهِلَالِيّ حَدَّثَهُ، أَنَّ الشَّمْسَ كُسِفَتْ، بِمَعْنَى حَدِيثِ مُوسَى، قَالَ: حَتَّى بَدَتِ النُّجُومُ.
ہلال بن عامر سے روایت ہے کہ قبیصہ ہلالی نے ان سے بیان کیا ہے کہ سورج میں گرہن لگا، پھر انہوں نے موسیٰ کی روایت کے ہم معنی روایت ذکر کی، اس میں ہے: یہاں تک کہ ستارے دکھائی دینے لگے۔
ضعيف
سنن ابي داود
1193
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي الْحَارِثُ بْنُ عُمَيْرٍ الْبَصْرِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَجَعَلَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، وَيَسْأَلُ عَنْهَا حَتَّى انْجَلَتْ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ دو دو رکعتیں پڑھتے جاتے اور سورج کے متعلق پوچھتے جاتے یہاں تک کہ وہ صاف ہو گیا۔
منكر
سنن ابي داود
1796
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بَاتَ بِهَا، يَعْنِي بِذِي الُحُلَيْفَةِ، حَتَّى أَصْبَحَ ثُمَّ رَكِبَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ عَلَى الْبَيْدَاءِ حَمِدَ اللَّهُ وَسَبَّحَ وَكَبَّرَ، ثُمَّ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهِمَا، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَمَرَ النَّاسَ فَحَلُّوا حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ، أَهَلُّوا بِالْحَجِّ وَنَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ بَدَنَاتٍ بِيَدِهِ قِيَامًا". قَالَ أَبُو دَاوُد: الَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ، يَعْنِي أَنَسًا، مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ: بَدَأَ بِالْحَمْدِ وَالتَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ ثُمَّ أَهَلَّ بِالْحَجِّ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات ذی الحلیفہ میں گزاری، یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سواری آپ کو لے کر بیداء پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تحمید، تسبیح اور تکبیر بیان کی، پھر حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور لوگوں نے بھی ان دونوں کا احرام باندھا، پھر جب ہم لوگ (مکہ) آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو (احرام کھولنے کا) حکم دیا، انہوں نے احرام کھول دیا، یہاں تک کہ جب یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) آیا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات اونٹنیاں کھڑی کر کے اپنے ہاتھ سے نحر کیں ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جو بات اس روایت میں منفرد ہے وہ یہ کہ انہوں نے (یعنی انس رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے «الحمدلله، سبحان الله والله أكبر» کہا پھر حج کا تلبیہ پکارا۔
صحيح
سنن ابي داود
2134
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ فَيَعْدِلُ، وَيَقُولُ:" اللَّهُمَّ هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ، فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ". قال أَبُو دَاوُدَ: يَعْنِي الْقَلْبَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی بیویوں کی) باری مقرر فرماتے تھے اور اس میں انصاف سے کام لیتے تھے، پھر یہ دعا فرماتے تھے: اے اللہ! یہ میری تقسیم ان چیزوں میں ہے جو میرے بس میں ہے، رہی وہ بات جو میرے بس سے باہر ہے اور تیرے بس میں ہے (یعنی دل کا میلان) تو تو مجھے اس کی وجہ سے ملامت نہ فرمانا۔
ضعيف يعني القلب
سنن ابي داود
2226
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2369
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عَلَى رَجُلٍ بِالْبَقِيعِ وَهُوَ يَحْتَجِمُ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي لِثَمَانِ عَشْرَةَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ، فَقَالَ:" أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَى خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، بِإِسْنَادِ أَيُّوبَ، مِثْلَهُ.
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں ایک شخص کے پاس آئے جو کہ سینگی لگا رہا تھا، آپ میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، یہ رمضان کی اٹھارہ تاریخ کا واقعہ ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سینگی (پچھنا) لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: خالد الحذاء نے ابوقلابہ سے ایوب کی سند سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2561
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ، فَسَمِعَ لَعْنَةً فَقَالَ:" مَا هَذِهِ؟ قَالُوا: هَذِهِ فُلَانَةُ لَعَنَتْ رَاحِلَتَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ضَعُوا عَنْهَا فَإِنَّهَا مَلْعُونَةٌ، فَوَضَعُوا عَنْهَا، قَالَ عِمْرَانُ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهَا نَاقَةٌ وَرْقَاءُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے، آپ نے لعنت کی آواز سنی تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: فلاں عورت ہے جو اپنی سواری پر لعنت کر رہی ہے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اونٹنی سے کجاوہ اتار لو کیونکہ وہ ملعون ہے ۱؎، لوگوں نے اس پر سے (کجاوہ) اتار لیا۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں، وہ ایک سیاہی مائل اونٹنی تھی۔
صحيح
سنن ابي داود
2793
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا وَهْيبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحَرَ سَبْعَ بَدَنَاتٍ بِيَدِهِ قِيَامًا، وَضَحَّى بِالْمَدِينَةِ بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے سات اونٹ کھڑے کر کے نحر کئے اور مدینہ میں دو سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی جن کا رنگ سیاہ اور سفید تھا (یعنی ابلق تھے سفید کھال کے اندر سیاہ دھاریاں تھیں)۔
صحيح
سنن ابي داود
3958
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْن،" أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةَ أَعْبُدٍ عِنْدَ مَوْتِهِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: قَوْلًا شَدِيدًا ثُمَّ دَعَاهُمْ، فَجَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا، یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے اس اسے سخت سست کہا پھر انہیں بلایا اور ان کے تین حصے کئے: پھر ان میں قرعہ اندازی کی پھر ان میں سے دو کو (جن کے نام قرعہ میں نکلے) آزاد کر دیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا۔
صحيح
سنن ابي داود
4364
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ قَوْمًا مِنْ عُكْلٍ أَوْ قَالَ مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ" فَأَمَرَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلِقَاحٍ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، فَانْطَلَقُوا فَلَمَّا صَحُّوا قَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرُهُمْ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آثَارِهِمْ فَمَا ارْتَفَعَ النَّهَارُ حَتَّى جِيءَ بِهِمْ فَأَمَرَ بِهِمْ فَقُطِعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ وَسُمِرَ أَعْيُنُهُمْ وَأُلْقُوا فِي الْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ فَلَا يُسْقَوْنَ"، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: فَهَؤُلَاءِ قَوْمٌ سَرَقُوا وَقَتَلُوا وَكَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عکل، یا قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہ آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دودھ والی چند اونٹنیاں دلوائیں، اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے پیشاب اور دودھ پئیں، وہ (اونٹنیاں لے کر) چلے گئے جب وہ صحت یاب ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر ڈالا، اور اونٹ ہانک لے گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح ہی صبح اس کی خبر مل گئی، چنانچہ آپ نے ان کے تعاقب میں لوگوں کو روانہ کیا، تو ابھی دن بھی اوپر نہیں چڑھنے پایا تھا کہ انہیں پکڑ کر لے آیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دئیے گئے، ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں، اور وہ گرم سیاہ پتھریلی زمین میں ڈال دیئے گئے، وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا، ابوقلابہ کہتے ہیں: ان لوگوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا، ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے تھے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی تھی۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.