سنن ابي داود
هشام بن عروة الأسدي (حدثنا / عن) عروة بن الزبير الأسدي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
50
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَنُّ وَعِنْدَهُ رَجُلَانِ، أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ فِي فَضْلِ السِّوَاكِ أَنْ كَبِّرْ أَعْطِ السِّوَاكَ أَكْبَرَهُمَا"، قَالَ أَحْمَدُ هُوَ ابْنُ حَزْمٍ: قَالَ لَنَا أَبُو سَعِيدٍ هُوَ ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ، هَذَا مِمَّا تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ الْمَدِينَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی تھے، ان میں ایک دوسرے سے عمر میں بڑا تھا، اسی وقت اللہ نے مسواک کی فضیلت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل فرمائی اور حکم ہوا کہ آپ اپنی مسواک ان دونوں میں سے بڑے کو دے دیجئیے۔
صحيح
سنن ابي داود
88
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ، أَنَّهُ خَرَجَ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا وَمَعَهُ النَّاسُ وَهُوَ يَؤُمُّهُمْ، فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ أَقَامَ الصَّلَاةَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ قَالَ: لِيَتَقَدَّمْ أَحَدُكُمْ وَذَهَبَ إِلَى الْخَلَاءِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَذْهَبَ الْخَلَاءَ وَقَامَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيَبْدَأْ بِالْخَلَاءِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ، وَشُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، وَأَبُو ضَمْرَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَرْقَمَ، وَالْأَكْثَرُ الَّذِينَ رَوَوْهُ عَنْ هِشَامٍ، قَالُوا كَمَا قَالَ زُهَيْرٌ.
عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ حج یا عمرہ کے لیے نکلے، ان کے ساتھ اور لوگ بھی تھے، وہی ان کی امامت کرتے تھے، ایک دن انہوں نے فجر کی نماز کی اقامت کہی پھر لوگوں سے کہا: تم میں سے کوئی امامت کے لیے آگے بڑھے، وہ قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب تم میں سے کسی کو پاخانہ کی حاجت ہو اور اس وقت نماز کھڑی ہو چکی ہو تو وہ پہلے قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہیب بن خالد، شعیب بن اسحاق اور ابوضمرۃ نے بھی اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، اور عروہ نے ایک مبہم شخص سے، اور اس نے اسے عبداللہ بن ارقم سے بیان کیا ہے، لیکن ہشام سے روایت کرنے والوں کی اکثریت نے اسے ویسے ہی روایت کیا ہے جیسے زہیر نے کیا ہے (یعنی «عن رجل» کا اضافہ نہیں کیا ہے)۔
صحيح
سنن ابي داود
99
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَنَّ إِسْحَاقَ بْنَ مَنْصُورٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔
0
سنن ابي داود
208
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ لِلْمِقْدَادِ وَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا، قَالَ: فَسَأَلَهُ الْمِقْدَادُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِيَغْسِلْ ذَكَرَهُ وَأُنْثَيَيْهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ الثَّوْرِيُّ وَجَمَاعَةٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمِقْدَادِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِيهِ: وَالأُنْثَيَيْنِ.
عروہ سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا، پھر راوی نے آگے اسی طرح کی روایت ذکر کی، اس میں ہے کہ مقداد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہیئے کہ وہ شرمگاہ (عضو مخصوص) اور فوطوں کو دھو ڈالے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثوری اور ایک جماعت نے ہشام سے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے مقداد رضی اللہ عنہ سے، مقداد رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے، اور علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
209
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَدِيثٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قُلْتُ لِلْمِقْدَادِ: فَذَكَرَ مَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد، وَرَوَاهُ الْمُفَضَّلُ بن فضالة وجماعة، والثوري، وابن عيينة، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَرَوَاهُ ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمِقْدَادِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَذْكُرْ: أُنْثَيَيْهِ.
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسے مفضل بن فضالہ، ایک جماعت، ثوری اور ابن عیینہ نے ہشام سے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے علی بن ابی طالب سے روایت کیا ہے، نیز اسے ابن اسحاق نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے مقداد رضی اللہ عنہ سے اور مقداد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، مگر اس میں لفظ «أنثييه» دونوں فوطوں کا ذکر نہیں ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
455
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر اور محلہ میں مسجدیں بنانے، انہیں پاک صاف رکھنے اور خوشبو سے بسانے کا حکم دیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
526
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ يَتَشَهَّدُ، قَالَ: وَأَنَا وَأَنَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مؤذن کو: «أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدًا رسول الله» کہتے ہوئے سنتے تو فرماتے: اور میں بھی (اس کا گواہ ہوں) اور میں بھی (اس کا گواہ ہوں)۔
صحيح
سنن ابي داود
605
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَصَلَّى وَرَاءَهُ قَوْمٌ قِيَامًا فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنِ اجْلِسُوا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیٹھ جانے کا اشارہ کیا، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: امام اسی لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو۔
صحيح
سنن ابي داود
711
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي صَلَاتَهُ مِنَ اللَّيْلِ وَهِيَ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ رَاقِدَةٌ عَلَى الْفِرَاشِ الَّذِي يَرْقُدُ عَلَيْهِ، حَتَّى إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ أَيْقَظَهَا فَأَوْتَرَتْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رات کی نماز پڑھتے اور وہ آپ کے اور قبلے کے بیچ میں اس بچھونے پر لیٹی رہتیں جس پر آپ سوتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو انہیں جگاتے تو وہ بھی وتر پڑھتیں۔
صحيح
سنن ابي داود
915
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزِّنَادِ، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامًا يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: وَأَخَذَ كُرْدِيًّا كَانَ لِأَبِي جَهْمٍ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْخَمِيصَةُ كَانَتْ خَيْرًا مِنَ الْكُرْدِيِّ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم کی کر دی چادر لے لی، تو آپ سے کہا گیا: اللہ کے رسول! وہ (باریک نقش و نگار والی) چادر اس (کر دی چادر) سے اچھی تھی۔
حسن
سنن ابي داود
953
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ جَالِسًا قَطُّ حَتَّى دَخَلَ فِي السِّنِّ، فَكَانَ يَجْلِسُ فِيهَا فَيَقْرَأُ حَتَّى إِذَا بَقِيَ أَرْبَعُونَ أَوْ ثَلَاثُونَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَهَا، ثُمَّ سَجَدَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی نماز کبھی بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ عمر رسیدہ ہو گئے تو اس میں بیٹھ کر قرآت کرتے تھے پھر جب تیس یا چالیس آیتیں رہ جاتیں تو انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے پھر سجدہ کرتے۔
صحيح
سنن ابي داود
1114
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَحْدَثَ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَأْخُذْ بِأَنْفِهِ ثُمَّ لِيَنْصَرِفْ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَذْكُرَا عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حالت نماز میں تم میں سے کسی شخص کو حدث ہو جائے تو وہ اپنی ناک پکڑ کر چلا جائے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن سلمہ اور ابواسامہ نے ہشام سے ہشام نے اپنے والد عروہ سے اور عروہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، ان دونوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں کیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1173
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ نِزَارٍ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مَبْرُورٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: شَكَا النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُحُوطَ الْمَطَرِ، فَأَمَرَ بِمِنْبَرٍ فَوُضِعَ لَهُ فِي الْمُصَلَّى، وَوَعَدَ النَّاسَ يَوْمًا يَخْرُجُونَ فِيهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَكَبَّرَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّكُمْ شَكَوْتُمْ جَدْبَ دِيَارِكُمْ وَاسْتِئْخَارَ الْمَطَرِ عَنْ إِبَّانِ زَمَانِهِ عَنْكُمْ، وَقَدْ أَمَرَكُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَدْعُوهُ وَوَعَدَكُمْ أَنْ يَسْتَجِيبَ لَكُمْ، ثُمَّ قَالَ: 0 الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ 0 لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ، اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ، وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّةً وَبَلَاغًا إِلَى حِينٍ"، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمْ يَزَلْ فِي الرَّفْعِ حَتَّى بَدَا بَيَاضُ إِبِطَيْهِ، ثُمَّ حَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ وَقَلَبَ، أَوْ حَوَّلَ رِدَاءَهُ، وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، وَنَزَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَأَنْشَأَ اللَّهُ سَحَابَةً فَرَعَدَتْ وَبَرَقَتْ، ثُمَّ أَمْطَرَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَلَمْ يَأْتِ مَسْجِدَهُ حَتَّى سَالَتِ السُّيُولُ، فَلَمَّا رَأَى سُرْعَتَهُمْ إِلَى الْكِنِّ ضَحِكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، فَقَالَ:" أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِسْنَادُهُ جَيِّدٌ، أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَقْرَءُونَ 0 مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ 0 وَإِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ حُجَّةٌ لَهُمْ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی تو آپ نے منبر (رکھنے) کا حکم دیا تو وہ آپ کے لیے عید گاہ میں لا کر رکھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے ایک دن عید گاہ کی طرف نکلنے کا وعدہ لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حجرہ سے) اس وقت نکلے جب کہ آفتاب کا کنارہ ظاہر ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تحمید کی پھر فرمایا: تم لوگوں نے بارش میں تاخیر کی وجہ سے اپنی آبادیوں میں قحط سالی کی شکایت کی ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حکم دیا ہے کہ تم اس سے دعا کرو اور اس نے تم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ (اگر تم اسے پکارو گے) تو وہ تمہاری دعا قبول کرے گا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی: «الحمد لله رب العالمين * الرحمن الرحيم * ملك يوم الدين ‏، لا إله إلا الله يفعل ما يريد اللهم أنت الله لا إله إلا أنت الغني ونحن الفقراء أنزل علينا الغيث واجعل ما أنزلت لنا قوة وبلاغا إلى حين» یعنی تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو رحمن و رحیم ہے اور روز جزا کا مالک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے، اے اللہ! تو ہی معبود حقیقی ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، تو ہم پر باران رحمت نازل فرما اور جو تو نازل فرما اسے ہمارے لیے قوت (رزق) بنا دے اور ایک مدت تک اس سے فائدہ پہنچا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور اتنا اوپر اٹھایا کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگی، پھر حاضرین کی طرف پشت کر کے اپنی چادر کو پلٹا، آپ اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اتر کر دو رکعت پڑھی، اسی وقت (اللہ کے حکم سے) آسمان سے بادل اٹھے، جن میں گرج اور چمک تھی، پھر اللہ کے حکم سے بارش ہوئی تو ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد نہیں آ سکے تھے کہ بارش کی کثرت سے نالے بہنے لگے، جب آپ نے لوگوں کو سائبانوں کی طرف بڑھتے دیکھا تو ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند جید (عمدہ) ہے، اہل مدینہ «ملك يوم الدين» پڑھتے ہیں اور یہی حدیث ان کی دلیل ہے۔
حسن
سنن ابي داود
1191
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا يُخْسَفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَكَبِّرُوا وَتَصَدَّقُوا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند میں گرہن کسی کے مرنے یا جینے سے نہیں لگتا ہے، جب تم اسے دیکھو تو اللہ عزوجل سے دعا کرو اور اس کی بڑائی بیان کرو اور صدقہ و خیرات کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
1310
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَرْقُدْ حَتَّى يَذْهَبَ عَنْهُ النَّوْمُ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا صَلَّى وَهُوَ نَاعِسٌ لَعَلَّهُ يَذْهَبُ يَسْتَغْفِرُ فَيَسُبَّ نَفْسَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی نماز میں اونگھنے لگے تو سو جائے یہاں تک کہ اس کی نیند چلی جائے، کیونکہ اگر وہ اونگھتے ہوئے نماز پڑھے گا تو شاید وہ استغفار کرنے چلے لیکن خود کو وہ بد دعا کر بیٹھے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1316
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُوقِظُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِاللَّيْلِ فَمَا يَجِيءُ السَّحَرُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ حِزْبِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ رات کو جگا دیتا پھر صبح نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معمول سے فارغ ہو جاتے۔
حسن
سنن ابي داود
1331
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَقَرَأَ فَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ فُلَانًا، كَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ أَذْكَرَنِيهَا اللَّيْلَةَ كُنْتُ قَدْ أَسْقَطْتُهَا". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ هَارُونُ النَّحْوِيُّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ فِي سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ فِي الْحُرُوفِ وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ سورة آل عمران آية 146.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص رات کی نماز (تہجد) کے لیے اٹھا، اس نے قرآت کی، قرآت میں اپنی آواز بلند کی تو جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ فلاں شخص پر رحم فرمائے، کتنی ایسی آیتیں تھیں جنہیں میں بھول چلا تھا، اس نے انہیں آج رات مجھے یاد دلا دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ہارون نحوی نے حماد بن سلمہ سے سورۃ آل عمران کے سلسلہ میں روایت کی ہے کہ اللہ فلاں پر رحم کرے کہ اس نے مجھے اس سورۃ کے بعض ایسے الفاظ یاد دلا دیے جنہیں میں بھول چکا تھا اور وہ «وكأين من نبي» (آل عمران: ۱۴۶) والی آیت ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1338
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْهَا بِخَمْسٍ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْخَمْسِ حَتَّى يَجْلِسَ فِي الْآخِرَةِ فَيُسَلِّمُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو میں تیرہ رکعتیں پڑھتے اور انہیں پانچ رکعتوں سے طاق بنا دیتے، ان پانچ رکعتوں میں سوائے قعدہ اخیرہ کے کوئی قعدہ نہیں ہوتا پھر سلام پھیر دیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن نمیر نے ہشام سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1339
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ يُصَلِّي إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصُّبْحِ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے پھر جب فجر کی اذان سنتے تو ہلکی سی دو رکعتیں اور پڑھتے۔
صحيح
سنن ابي داود
1369
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، فَجَاءَهُ، فَقَالَ:" يَا عُثْمَانُ، أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِي؟" قَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَكِنْ سُنَّتَكَ أَطْلُبُ، قَالَ:" فَإِنِّي أَنَامُ، وَأُصَلِّي، وَأَصُومُ، وَأُفْطِرُ، وَأَنْكِحُ النِّسَاءَ، فَاتَّقِ اللَّهَ يَا عُثْمَانُ فَإِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَصَلِّ وَنَمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، تو وہ آپ کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان! کیا تم نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی ہے؟، انہوں نے جواب دیا: نہیں اللہ کے رسول! اللہ کی قسم، ایسی بات نہیں، میں تو آپ ہی کی سنت کا طالب رہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو سوتا بھی ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، عثمان! تم اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی حق ہے، تمہاری جان کا حق ہے، لہٰذا کبھی روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو، اسی طرح نماز پڑھو اور سویا بھی کرو ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1543
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ شَرِّ الْغِنَى، وَالْفَقْرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ساتھ دعا مانگتے: «اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار، وعذاب النار، ومن شر الغنى، والفقر» اے اللہ! میں جہنم کے فتنے جہنم کے عذاب اور دولت مندی و فقر کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
صحيح
سنن ابي داود
1633
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلَانِ، أَنَّهُمَا أَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ يُقَسِّمُ الصَّدَقَةَ، فَسَأَلَاهُ مِنْهَا، فَرَفَعَ فِينَا الْبَصَرَ وَخَفَضَهُ فَرَآنَا جَلْدَيْنِ، فَقَالَ:" إِنَّ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا وَلَا حَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ وَلَا لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ".
عبیداللہ بن عدی بن خیار رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ تقسیم فرما رہے تھے، انہوں نے بھی آپ سے مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر ہمیں دیکھا اور پھر نظر جھکا لی، آپ نے ہمیں موٹا تازہ دیکھ کر فرمایا: اگر تم دونوں چاہو تو میں تمہیں دے دوں لیکن اس میں مالدار کا کوئی حصہ نہیں اور نہ طاقتور کا جو مزدوری کر کے کما سکتا ہو۔
صحيح
سنن ابي داود
1668
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي رَاغِبَةً فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ وَهِيَ رَاغِمَةٌ مُشْرِكَةٌ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِمَةٌ مُشْرِكَةٌ أَفَأَصِلُهَا، قَالَ:" نَعَمْ فَصِلِي أُمَّكِ".
اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس میری ماں آئیں جو قریش کے دین کی طرف مائل اور اسلام سے بیزار اور مشرکہ تھیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ اسلام سے بیزار اور مشرکہ ہیں، کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
1762
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَاجِيَةَ الْأَسْلَمِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مَعَهُ بِهَدْيٍ، فَقَالَ:" إِنْ عَطِبَ مِنْهَا شَيْءٌ فَانْحَرْهُ، ثُمَّ اصْبُغْ نَعْلَهُ فِي دَمِهِ، ثُمَّ خَلِّ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ".
ناجیہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہدی بھیجا اور فرمایا: اگر ان میں سے کوئی مرنے لگے تو اس کو نحر کر لینا پھر اس کی جوتی اسی کے خون میں رنگ کر اسے لوگوں کے واسطے چھوڑ دینا۔
صحيح
سنن ابي داود
1868
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ مِنْ كَدَاءَ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ وَدَخَلَ فِي الْعُمْرَةِ مِنْ كُدًى"، قَالَ: وَكَانَ عُرْوَةُ يَدْخُلُ مِنْهُمَا جَمِيعًا، وَكَانَ أَكْثَرُ مَا كَانَ يَدْخُلُ مِنْ كُدًى، وَكَانَ أَقْرَبَهُمَا إِلَى مَنْزِلِهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ کے بلند مقام کداء ۱؎ کی جانب سے داخل ہوئے اور عمرہ کے وقت کُدی ۲؎ کی جانب سے داخل ہوئے اور عروہ دونوں ہی جانب سے داخل ہوتے تھے، البتہ اکثر کدی کی جانب سے داخل ہوتے اس لیے کہ یہ ان کے گھر سے قریب تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
1869
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا دَخَلَ مَكَّةَ دَخَلَ مِنْ أَعْلَاهَا وَخَرَجَ مِنْ أَسْفَلِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوتے تو اس کی بلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور اس کے نشیب سے نکلتے۔
صحيح
سنن ابي داود
1910
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَتْ قُرَيْشٌ وَمَنْ دَانَ دِينَهَا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَكَانُوا يُسَمَّوْنَ الْحُمُسَ، وَكَانَ سَائِرُ الْعَرَبِ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ، قَالَتْ: فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ، أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَ عَرَفَاتٍ فَيَقِفَ بِهَا ثُمَّ يُفِيضُ مِنْهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ میں ہی ٹھہرتے تھے اور لوگ انہیں حمس یعنی بہادر و شجاع کہتے تھے جب کہ سارے عرب کے لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے، تو جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات آنے اور وہاں ٹھہرنے پھر وہاں سے مزدلفہ لوٹنے کا حکم دیا اور یہی حکم اس آیت میں ہے: «‏‏‏‏ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس» (سورۃ البقرہ: ۱۹۹) تم لوگ وہاں سے لوٹو جہاں سے سبھی لوگ لوٹتے ہیں - یعنی عرفات سے۔
صحيح
سنن ابي داود
1923
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَأَنَا جَالِسٌ، كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ حِينَ دَفَعَ؟ قَالَ:" كَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ"، قَالَ هِشَامٌ: النَّصُّ فَوْقَ الْعَنَقِ.
عروہ کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں عرفات سے لوٹتے وقت کیسے چلتے تھے؟ فرمایا: تیز چال چلتے تھے، اور جب راستہ پا جاتے تو دوڑتے۔ ہشام کہتے ہیں: «نص»، «عنق» سے بھی زیادہ تیز چال کو کہتے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
1942
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ الضَّحَّاكِ يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" أَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُمِّ سَلَمَةَ لَيْلَةَ النَّحْرِ فَرَمَتِ الْجَمْرَةَ قَبْلَ الْفَجْرِ ثُمَّ مَضَتْ فَأَفَاضَتْ وَكَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ الْيَوْمَ الَّذِي يَكُونُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي عِنْدَهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ کو نحر کی رات (دسویں رات) کو (منیٰ کی طرف) روانہ فرما دیا انہوں نے فجر سے پہلے کنکریاں مار لیں پھر مکہ جا کر طواف افاضہ کیا، اور یہ وہ دن تھا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس رہا کرتے تھے ۱؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
1991
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" اعْتَمَرَ عُمْرَتَيْنِ: عُمْرَةً فِي ذِي الْقِعْدَةِ، وَعُمْرَةً فِي شَوَّالٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو عمرے کئے: ایک ذی قعدہ میں اور دوسرا شوال میں ۱؎۔
صحيح لكن قوله في شوال يعني ابتداء وإلا فهي كانت في ذي القعدة أيضا
سنن ابي داود
2003
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، فَقِيلَ: إِنَّهَا قَدْ حَاضَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّهَا حَابِسَتُنَا"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ، فَقَالَ:" فَلَا إِذًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ بنت حیي رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تو لوگوں نے عرض کیا: انہیں حیض آ گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لگتا ہے وہ ہم کو روک لیں گی، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ طواف افاضہ کر چکی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو کوئی بات نہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
2008
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" إِنَّمَا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحَصَّبَ لِيَكُونَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ، وَلَيْسَ بِسُنَّةٍ فَمَنْ شَاءَ نَزَلَهُ وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَنْزِلْهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محصب میں صرف اس لیے اترے تاکہ آپ کے (مکہ سے) نکلنے میں آسانی ہو، یہ کوئی سنت نہیں، لہٰذا جو چاہے وہاں اترے اور جو چاہے نہ اترے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2056
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ فِي أُخْتِي؟ قَالَ:" فَأَفْعَلُ مَاذَا؟" قَالَتْ: فَتَنْكِحُهَا، قَالَ:" أُخْتَكِ؟" قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:" أَوَتُحِبِّينَ ذَلِكَ؟" قَالَتْ: لَسْتُ بِمُخْلِيَةٍ بِكَ، وَأَحَبُّ مَنْ شَرِكَنِي فِي خَيْرٍ أُخْتِي، قَالَ:" فَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِي"، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ لَقَدْ أُخْبِرْتُ أَنَّكَ تَخْطُبُ دُرَّةَ أَوْ ذُرَّةَ شَكَّ زُهَيْرٌ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ:" بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ"، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:" أَمَا وَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي فِي حِجْرِي مَا حَلَّتْ لِي، إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، أَرْضَعَتْنِي وَأَبَاهَا ثُوَيْبَةُ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو میری بہن (عزہ) میں رغبت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں کیا کروں، انہوں نے کہا: آپ ان سے نکاح کر لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری بہن سے؟ انہوں نے کہا، ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ (سوکن) پسند کرو گی؟ انہوں نے کہا: میں آپ کی اکیلی بیوی تو ہوں نہیں جتنی عورتیں میرے ساتھ خیر میں شریک ہیں ان سب میں اپنی بہن کا ہونا مجھے زیادہ پسند ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ میرے لیے حلال نہیں ہے کہا: اللہ کی قسم مجھے تو بتایا گیا ہے کہ آپ درہ یا ذرہ بنت ابی سلمہ (یہ شک زہیر کو ہوا ہے) کو پیغام دے رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام سلمہ کی بیٹی کو؟ کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم (وہ تو میری ربیبہ ہے) اگر ربیبہ نہ بھی ہوتی تو وہ میرے لیے حلال نہ ہوتی کیونکہ وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، مجھے اور اس کے باپ کو ثویبہ نے دودھ پلایا ہے لہٰذا تم اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ پر (نکاح کے لیے) پیش نہ کیا کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
2057
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ أَفْلَحُ بْنُ أَبِي الْقُعَيْسِ فَاسْتَتَرْتُ مِنْهُ، قَالَ: تَسْتَتِرِينَ مِنِّي وَأَنَا عَمُّكِ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: مِنْ أَيْنَ؟ قَالَ: أَرْضَعَتْكِ امْرَأَةُ أَخِي قَالَتْ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ:" إِنَّهُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس افلح بن ابوقعیس آئے تو میں نے پردہ کر لیا، انہوں نے کہا: مجھ سے پردہ کر رہی ہو، میں تو تمہارا چچا ہوں؟ میں نے کہا: چچا کس طرح سے؟ انہوں نے کہا کہ تمہیں میرے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے نہ کہ مرد نے، پھر میرے یہاں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے سارا واقعہ آپ سے بیان کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے چچا ہیں، وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
2135
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ:" يَا ابْنَ أُخْتِي، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُفَضِّلُ بَعْضَنَا عَلَى بَعْضٍ فِي الْقَسْمِ مِنْ مُكْثِهِ عِنْدَنَا، وَكَانَ قَلَّ يَوْمٌ إِلَّا وَهُوَ يَطُوفُ عَلَيْنَا جَمِيعًا، فَيَدْنُو مِنْ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْ غَيْرِ مَسِيسٍ حَتَّى يَبْلُغَ إِلَى الَّتِي هُوَ يَوْمُهَا فَيَبِيتَ عِنْدَهَا، وَلَقَدْ قَالَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ حِينَ أَسَنَّتْ وَفَرِقَتْ أَنْ يُفَارِقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَوْمِي لِعَائِشَةَ، فَقَبِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، قَالَتْ: نَقُولُ فِي ذَلِكَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى، وَفِي أَشْبَاهِهَا أُرَاهُ، قَالَ: وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا سورة النساء آية 128".
عروہ کہتے ہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ازواج مطہرات کے پاس رہنے کی باری میں بعض کو بعض پر فضیلت نہیں دیتے تھے اور ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے پاس نہ آتے ہوں، اور بغیر محبت کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے قریب ہوتے، اس طرح آپ اپنی اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور اس کے ساتھ رات گزارتے، اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا عمر رسیدہ ہو گئیں اور انہیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں الگ کر دیں گے تو کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میری باری عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے رہے گی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات قبول فرما لی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ ہم کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ میں یا اور اسی جیسی چیزوں کے سلسلے میں آیت کریمہ: «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا» (سورۃ النساء: ۱۲۸) نازل کی: اگر عورت کو اپنے خاوند کی بدمزاجی کا خوف ہو۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2220
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2233
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قِصَّةِ بَرِيرَةَ، قَالَتْ:" كَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، وَلَوْ كَانَ حُرًّا لَمْ يُخَيِّرْهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بریرہ کے قصہ میں روایت ہے کہ اس کا شوہر غلام تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو (آزاد ہونے کے بعد) اختیار دے دیا تو انہوں نے اپنے آپ کو اختیار کیا، اگر وہ آزاد ہوتا تو آپ اسے (بریرہ کو) اختیار نہ دیتے۔
صحيح م لكن قوله ولو كان حرا مدرج من قول عروة
سنن ابي داود
2292
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَقَدْ عَابَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَشَدَّ الْعَيْبِ يَعْنِي حَدِيثَ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، وَقَالَتْ: إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحْشٍ فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا، فَلِذَلِكَ رَخَّصَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث پر سخت نکیر کرتی تھیں اور کہتی تھیں: چونکہ فاطمہ ایک ویران مکان میں رہتی تھیں جس کی وجہ سے ان کے بارے میں خدشہ لاحق ہوا اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (مکان بدلنے کی) رخصت دی تھی۔
حسن
سنن ابي داود
2442
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ" صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ هُوَ الْفَرِيضَةُ، وَتُرِكَ عَاشُورَاءُ فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کا روزہ نبوت سے پہلے رکھتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ نے اس کا روزہ رکھا، اور اس کے روزے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو رمضان کے روزے ہی فرض رہے، اور عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا اب اسے جو چاہے رکھے جو چاہے چھوڑ دے۔
صحيح
سنن ابي داود
2578
حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الأَنْطَاكِيُّ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاق يَعْنِي الْفَزَارِيَّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّهَا كَانَتْ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ قَالَتْ: فَسَابَقْتُهُ فَسَبَقْتُهُ عَلَى رِجْلَيَّ فَلَمَّا حَمَلْتُ اللَّحْمَ سَابَقْتُهُ فَسَبَقَنِي، فَقَالَ: هَذِهِ بِتِلْكَ السَّبْقَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھیں، کہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوڑ کا مقابلہ کیا تو میں جیت گئی، پھر جب میرا بدن بھاری ہو گیا تو میں نے آپ سے (دوبارہ) مقابلہ کیا تو آپ جیت گئے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جیت اس جیت کے بدلے ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2881
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَلَوْلَا ذَلِكَ لَتَصَدَّقَتْ وَأَعْطَتْ أَفَيُجْزِئُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ فَتَصَدَّقِي عَنْهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میری ماں اچانک انتقال کر گئیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ضرور صدقہ کرتیں اور (اللہ کی راہ میں) دیتیں، تو کیا اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو یہ انہیں کفایت کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں تو ان کی طرف سے صدقہ کر دو ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2994
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَتْ صَفِيَّةُ مِنَ الصَّفِيِّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں صفیہ رضی اللہ عنہا «صفي» میں سے تھیں۔
صحيح
سنن ابي داود
3069
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ آدَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ الزُّبَيْرَ نَخْلًا.
اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ (اسماء رضی اللہ عنہا کے خاوند ہیں) کو کھجور کے کچھ درخت بطور جاگیر عنایت فرمائی۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3073
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ".
سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کا ہے (وہی اس کا مالک ہو گا) کسی اور ظالم شخص کی رگ کا حق نہیں ہے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3101
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا أُصِيبَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، رَمَاهُ رَجُلٌ فِي الْأَكْحَلِ،" فَضَرَبَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ، فَيَعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب جنگ خندق کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے ان کے بازو میں ایک شخص نے تیر مارا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ نصب کر دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔
صحيح
سنن ابي داود
3151
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، قَالَتْ:" كُفِّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ يَمَانِيَةٍ بِيضٍ، لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین سفید یمنی کپڑوں میں دفنائے گئے، ان میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3152
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، مِثْلَهُ، زَادَ مِنْ كُرْسُفٍ، قَالَ: فَذُكِرَ لِعَائِشَةَ قَوْلُهُمْ: فِي ثَوْبَيْنِ وَبُرْدٍ حِبَرَةٍ، فَقَالَتْ: قَدْ أُتِيَ بِالْبُرْدِ وَلَكِنَّهُمْ رَدُّوهُ وَلَمْ يُكَفِّنُوهُ فِيهِ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی کے ہم مثل مروی ہے البتہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ کپڑے روئی کے تھے۔ پھر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ بات ذکر کی گئی کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں دو سفید کپڑے اور دھاری دار یمنی چادر تھی، تو انہوں نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے لوٹا دیا تھا، اس میں آپ کو کفنایا نہیں تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
3510
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ رَجُلًا ابْتَاعَ غُلَامًا، فَأَقَامَ عِنْدَهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يُقِيمَ، ثُمَّ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا فَخَاصَمَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدِ اسْتَغَلَّ غُلَامِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا إِسْنَادٌ لَيْسَ بِذَاكَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے ایک غلام خریدا، وہ غلام جب تک اللہ کو منظور تھا اس کے پاس رہا، پھر اس نے اس میں کوئی عیب پایا تو اس کا مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام بائع کو واپس کرا دیا، تو بائع کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس نے میرے غلام کے ذریعہ کمائی کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خراج (منافع) اس شخص کا حق ہے جو ضامن ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ سند ویسی (قوی) نہیں ہے (جیسی سندوں سے کوئی حدیث ثابت ہوتی ہے)
حسن لغيره
سنن ابي داود
3532
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ هِنْدًا أُمَّ مُعَاوِيَةَ، جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ، رَجُلٌ شَحِيحٌ، وَإِنَّهُ لَا يُعْطِينِي مَا يَكْفِينِي وَبَنِيَّ، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ آخُذَ مِنْ مَالِهِ شَيْئًا؟، قَالَ: خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَبَنِيكِ بِالْمَعْرُوفِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور (اپنے شوہر کے متعلق) کہا: ابوسفیان بخیل آدمی ہیں مجھے خرچ کے لیے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بیٹوں کے لیے کافی ہو، تو کیا ان کے مال میں سے میرے کچھ لے لینے میں کوئی گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عام دستور کے مطابق بس اتنا لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہارے بیٹوں کی ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔
صحيح
سنن ابي داود
3543
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ، قَالَ:" أَعْطَاهُ أَبُوهُ غُلَامًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا هَذَا الْغُلَامُ؟، قَالَ: غُلَامِي، أَعْطَانِيهِ أَبِي، قَالَ: فَكُلَّ إِخْوَتِكَ أَعْطَى كَمَا أَعْطَاكَ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْدُدْهُ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ان کے والد نے انہیں ایک غلام دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کیسا غلام ہے؟ انہوں نے کہا: میرا غلام ہے، اسے مجھے میرے والد نے دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جیسے تمہیں دیا ہے کیا تمہارے سب بھائیوں کو دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے لوٹا دو۔
صحيح
سنن ابي داود
3583
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ بِشَيْءٍ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّار".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں انسان ہی ہوں ۱؎، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہو سکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں۔
صحيح
سنن ابي داود
3715
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ، فَذَكَرَ بَعْضَ هَذَا الْخَبَرِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ تُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ، وَفِي الْحَدِيثِ، قَالَتْ سَوْدَةُ: بَلْ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، قَالَ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا سَقَتْنِي حَفْصَةُ، فَقُلْتُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْمَغَافِيرُ مُقْلَةٌ وَهِيَ صَمْغَةٌ، وَجَرَسَتْ رَعَتْ، وَالْعُرْفُطُ نَبْتٌ مِنْ نَبْتِ النَّحْلِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیزیں اور شہد پسند کرتے تھے، اور پھر انہوں نے اسی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بہت ناگوار لگتا کہ آپ سے کسی قسم کی بو محسوس کی جائے اور اس حدیث میں یہ ہے کہ سودہ ۱؎ نے کہا: بلکہ آپ نے مغافیر کھائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ میں نے شہد پیا ہے، جسے حفصہ نے مجھے پلایا ہے تو میں نے کہا: شاید اس کی مکھی نے عرفط ۲؎ چاٹا ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مغافیر: مقلہ ہے اور وہ گوند ہے، اور جرست: کے معنی چاٹنے کے ہیں، اور عرفط شہد کی مکھی کے پودوں میں سے ایک پودا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3778
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقْطَعُوا اللَّحْمَ بِالسِّكِّينِ فَإِنَّهُ مِنْ صَنِيعِ الْأَعَاجِمِ، وَانْهَسُوهُ فَإِنَّهُ أَهْنَأُ وَأَمْرَأُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گوشت چھری سے کاٹ کر مت کھاؤ، کیونکہ یہ اہل عجم کا طریقہ ہے بلکہ اسے دانت سے نوچ کر کھاؤ کیونکہ اس طرح زیادہ لذیذ اور زود ہضم ہوتا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
3831
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْتٌ لَا تَمْرَ فِيهِ جِيَاعٌ أَهْلُهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس گھر میں کھجور نہ ہو اس گھر کے لوگ فاقہ سے ہوں گے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3836
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ نُصَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ، فَيَقُولُ: نَكْسِرُ حَرَّ هَذَا بِبَرْدِ هَذَا وَبَرْدَ هَذَا بِحَرِّ هَذَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز یا خربوزہ پکی ہوئی تازہ کھجور کے ساتھ کھاتے تھے اور فرماتے تھے: ہم اس (کھجور) کی گرمی کو اس (تربوز) کی ٹھنڈک سے اور اس (تربوز) کی ٹھنڈک کو اس (کھجور) کی گرمی سے توڑتے ہیں۔
حسن
سنن ابي داود
3903
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ سَيَّارٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" أَرَادَتْ أُمِّي أَنْ تُسَمِّنَنِي لِدُخُولِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَقْبَلْ عَلَيْهَا بِشَيْءٍ مِمَّا تُرِيدُ حَتَّى أَطْعَمَتْنِي الْقِثَّاءَ بِالرُّطَبِ فَسَمِنْتُ عَلَيْهِ كَأَحْسَنِ السَّمَنِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری والدہ نے چاہا کہ میں قدرے موٹی ہو جاؤں تاکہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بھیجا جا سکے۔ مگر مجھے ان کی حسب منشا کسی چیز سے فائدہ نہ ہوا حتیٰ کہ انہوں نے مجھے ککڑی اور کھجور ملا کر کھلائی تو اس سے میں خوب موٹی ہو گئی۔
صحيح
سنن ابي داود
3930
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَتْ بَرِيرَةُ لِتَسْتَعِينَ فِي كِتَابَتِهَا، فَقَالَتْ: إِنِّي كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي، فَقَالَتْ: إِنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا عَدَّةً وَاحِدَةً وَأَعْتِقَكِ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي فَعَلْتُ فَذَهَبَتْ إِلَى أَهْلِهَا وَسَاقَ الْحَدِيثَ نَحْوَ الزُّهْرِيِّ زَادَ فِي كَلَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِهِ مَا بَالُ رِجَالٍ يَقُولُ أَحَدُهُمْ: أَعْتِقْ يَا فُلَانُ وَالْوَلَاءُ لِي إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے بدل کتابت میں تعاون کے لیے ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: میں نے اپنے لوگوں سے نو اوقیہ پر مکاتبت کر لی ہے، ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنا ہے، لہٰذا آپ میری مدد کیجئے، تو انہوں نے کہا: اگر تمہارے لوگ چاہیں تو میں ایک ہی دفعہ انہیں دے دوں، اور تمہیں آزاد کر دوں البتہ تمہاری ولاء میری ہو گی ؛ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کے پاس گئیں پھر راوی پوری حدیث زہری والی روایت کی طرح بیان کی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے آخر میں یہ اضافہ کیا کہ: لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ دوسروں سے کہتے ہیں: تم آزاد کر دو اور ولاء میں لوں گا (کیسی لغو بات ہے) ولاء تو اس کا حق ہے جو آزاد کرے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3970
حَدَّثَنَا مُوسَى يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَقَرَأَ فَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ فُلَانًا كَائِنْ مِنْ آيَةٍ أَذْكَرَنِيهَا اللَّيْلَةَ كُنْتُ قَدْ أُسْقِطْتُهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رات میں قیام کیا اور (نماز میں) بلند آواز سے قرآت کی، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ فلاں پر رحم کرے کتنی آیتیں جنہیں میں بھول چلا تھا ۱؎ اس نے آج رات مجھے یاد دلا دیں۔
صحيح
سنن ابي داود
4008
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ: أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:" نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ عَلَيْنَا: سُورَةَ أَنْزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا"، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: يَعْنِي مُخَفَّفَةً حَتَّى أَتَى عَلَى هَذِهِ الآيَاتِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری تو آپ نے ہمیں «سورة أنزلناها وفرضناها‏» یہ وہ سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کر دی ہے (سورۃ النور: ۱) پڑھ کر سنایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یعنی مخفف پڑھا ۱؎ یہاں تک کہ ان آیات پر آئے۔
صحيح الإسناد
سنن ابي داود
4147
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ حَيَّانَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَتْ ضِجْعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدا چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری تھی۔
صحيح
سنن ابي داود
4187
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ شَعْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوْقَ الْوَفْرَةِ وَدُونَ الْجُمَّةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال «وفرہ» ۱؎ سے بڑے اور «جمہ» ۲؎ سے چھوٹے تھے۔  
حسن صحيح
سنن ابي داود
4721
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، أخبرنا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ: آمَنْتُ بِاللَّهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ ایک دوسرے سے برابر سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا، اللہ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ لہٰذا تم میں سے کسی کو اس سلسلے میں اگر کوئی شبہ گزرے تو وہ یوں کہے: میں اللہ پر ایمان لایا ۱؎۔
صحيح م خ نحوه بلفظ فليتعذ بالله ولينته
سنن ابي داود
4787
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ فِي قَوْلِهِ:" خُذِ الْعَفْوَ سورة الأعراف آية 199، قَالَ: أُمِرَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْخُذَ الْعَفْوَ مِنْ أَخْلَاقِ النَّاسِ".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اللہ کے فرمان  «خذ العفو» عفو کو اختیار کرو کی تفسیر کے سلسلے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کے اخلاق میں سے عفو کو اختیار کریں۔
صحيح
سنن ابي داود
4899
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا مَاتَ صَاحِبُكُمْ فَدَعُوهُ وَلَا تَقَعُوا فِيهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارا ساتھی (یعنی مسلمان جس کے ساتھ تم رہتے سہتے ہو) مر جائے تو اسے چھوڑ دو ۱؎ اس کے عیوب نہ بیان کرو۔
صحيح
سنن ابي داود
4913
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَثْمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُنِيبِ يَعْنِي الْمَدَنِيَّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَكُونُ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلَاثَةٍ فَإِذَا لَقِيَهُ سَلَّمَ عَلَيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ كُلُّ ذَلِكَ لَا يَرُدُّ عَلَيْهِ فَقَدْ بَاءَ بِإِثْمِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے تو جب وہ (تین دن کے بعد) اس سے ملے اسے تین مرتبہ سلام کرے، اور وہ ایک بار بھی سلام کا جواب نہ دے تو وہ اپنا گناہ لے کر لوٹے گا ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
4929
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ يَعْنِي ابْنَ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا مُخَنَّثٌ، وَهُوَ يَقُولُ لِعَبْدِ اللَّهِ أَخِيهَا: إِنْ يَفْتَحْ اللَّهُ الطَّائِفَ غَدًا دَلَلْتُكَ عَلَى امْرَأَةٍ تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَخْرِجُوهُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ" , قَالَ أَبُو دَاوُد: الْمَرْأَةُ كَانَ لَهَا أَرْبَعُ عُكَنٍ فِي بَطْنِهَا.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے ان کے پاس ایک ہجڑا بیٹھا ہوا تھا اور وہ ان کے بھائی عبداللہ سے کہہ رہا تھا: اگر کل اللہ طائف کو فتح کرا دے تو میں تمہیں ایک عورت بتاؤں گا، کہ جب وہ سامنے سے آتی ہے تو چار سلوٹیں لے کر آتی ہے، اور جب پیٹھ پھیر کر جاتی ہے تو آٹھ سلوٹیں لے کر جاتی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں اپنے گھروں سے نکال دو ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «تقبل بأربع» کا مطلب ہے عورت کے پیٹ میں چار سلوٹیں ہوتی ہیں یعنی پیٹ میں چربی چھا جانے کی وجہ سے خوب موٹی اور تیار ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
4931
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ فَرُبَّمَا دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي الْجَوَارِي، فَإِذَا دَخَلَ خَرَجْنَ وَإِذَا خَرَجَ دَخَلْنَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے، میرے پاس لڑکیاں ہوتیں، تو جب آپ اندر آتے تو وہ باہر نکل جاتیں اور جب آپ باہر نکل جاتے تو وہ اندر آ جاتیں۔
صحيح
سنن ابي داود
4935
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ جَاءَنِي نِسْوَةٌ وَأَنَا أَلْعَبُ عَلَى أُرْجُوحَةٍ وَأَنَا مُجَمَّمَةٌ، فَذَهَبْنَ بِي فَهَيَّأْنَنِي وَصَنَعْنَنِي، ثُمَّ أَتَيْنَ بِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَنَى بِي وَأَنَا ابْنَةُ تِسْعِ سِنِينَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہم مدینہ آئے، تو میرے پاس کچھ عورتیں آئیں، اس وقت میں جھولے پر کھیل رہی تھی، اور میرے بال چھوٹے چھوٹے تھے، وہ مجھے لے گئیں، مجھے بنایا سنوارا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئیں، آپ نے میرے ساتھ رات گزاری کی، اس وقت میں نو سال کی تھی۔
صحيح الإسناد
سنن ابي داود
4979
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: جَاشَتْ نَفْسِي وَلَكِنْ لِيَقُلْ: لَقِسَتْ نَفْسِي".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی یہ نہ کہے: میرے دل نے جوش مارا بلکہ یوں کہے: میرا جی پریشان ہو گیا۔
صحيح
سنن ابي داود
5015
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمِصِّيصِيُّ لُوَيْنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ , وَهِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ، فَيَقُومُ عَلَيْهِ يَهْجُو مَنْ قَالَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ مَعَ حَسَّانَ مَا نَافَحَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں منبر رکھتے، وہ اس پر کھڑے ہو کر ان لوگوں کی ہجو کرتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی کرتے تھے، تو (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً روح القدس (جبرائیل) حسان کے ساتھ ہوتے ہیں جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع کرتے ہیں۔
حسن
سنن ابي داود
5219
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ عُرْوَةَ: أَنَّ عَائِشَةَ , قَالَتْ: ثُمَّ قَالَ: تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ , فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَنْزَلَ عُذْرَكِ , وَقَرَأَ عَلَيْهَا الْقُرْآنَ , فَقَالَ أَبَوَايَ: قُومِي , فَقَبِّلِي رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: أَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا إِيَّاكُمَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! خوش ہو جاؤ اللہ نے کلام پاک میں تیرے عذر سے متعلق آیت نازل فرما دی ہے اور پھر آپ نے قرآن پاک کی وہ آیتیں انہیں پڑھ کر سنائیں، تو اس وقت میرے والدین نے کہا: اٹھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کو چوم لو، میں نے کہا: میں تو اللہ عزوجل کا شکر ادا کرتی ہوں (کہ اس نے میری پاکدامنی کے متعلق آیتیں اتاریں) نہ کہ آپ دونوں کا (کیونکہ آپ دونوں کو بھی تو مجھ پر شبہ ہونے لگا تھا)۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.