سنن ابي داود
إبراهيم بن سعد الزهري (حدثنا / عن) ابن إسحاق القرشي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
499
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ:" لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ يُعْمَلُ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلَاةِ، طَافَ بِي وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ؟ قَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ فَقُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟ فَقُلْتُ لَهُ: بَلَى، قَالَ: فَقَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: ثُمَّ اسْتَأْخَرَ عَنِّي غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ قَالَ: وَتَقُولُ إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ، أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ، فَقَالَ: إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ فَلْيُؤَذِّنْ بِهِ فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ، فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ فَجَعَلْتُ أُلْقِيهِ عَلَيْهِ وَيُؤَذِّنُ بِهِ، قَالَ: فَسَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ، وَيَقُولُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَأَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلِلَّهِ الْحَمْدُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَكَذَا رِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وقَالَ فِيهِ ابْنُ إِسْحَاق: عَنْ الزُّهْرِيِّ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، وقَالَ مَعْمَرٌ،وَيُونُسُ: عَنْ الزُّهْرِيِّ فِيهِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَمْ يُثَنِّيَا.
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس کی تیاری کا حکم دینے کا ارادہ کیا تاکہ لوگوں کو نماز کی خاطر جمع ہونے کے لیے اسے بجایا جا سکے تو ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص ۱؎ کے ہاتھ میں ناقوس ہے، میں نے اس سے پوچھا: اللہ کے بندے! کیا اسے فروخت کرو گے؟ اس نے کہا: تم اسے کیا کرو گے؟ میں نے کہا: ہم اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لیے بلائیں گے، اس شخص نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے، تو اس نے کہا: تم اس طرح کہو «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز کے لیے آؤ، نماز کے لیے آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر وہ شخص مجھ سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا، زیادہ دور نہیں گیا پھر اس نے کہا: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اس طرح کہو: «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الفلاح قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» ۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میں نے دیکھا تھا اسے آپ سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاءاللہ یہ خواب سچا ہے، پھر فرمایا: تم بلال کے ساتھ اٹھ کر جاؤ اور جو کلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں وہ انہیں بتاتے جاؤ تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند ہے ۲؎۔ چنانچہ میں بلال کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، میں انہیں اذان کے کلمات بتاتا جاتا تھا اور وہ اسے پکارتے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہہ رہے تھے: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طرح عبداللہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحمدللہ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح زہری کی روایت ہے، جسے انہوں نے سعید بن مسیب سے، اور سعید نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس میں ابن اسحاق نے زہری سے یوں نقل کیا ہے: «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر» (یعنی چار بار) اور معمر اور یونس نے زہری سے صرف «الله أكبر الله أكبر» کی روایت کی ہے، اسے انہوں نے دہرایا نہیں ہے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
519
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ، قَالَتْ:" كَانَ بَيْتِي مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ عَلَيْهِ الْفَجْرَ، فَيَأْتِي بِسَحَرٍ فَيَجْلِسُ عَلَى الْبَيْتِ يَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ، فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ، قَالَتْ: ثُمَّ يُؤَذِّنُ"، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُهُ كَانَ تَرَكَهَا لَيْلَةً وَاحِدَةً تَعْنِي هَذِهِ الْكَلِمَاتِ.
قبیلہ بنی نجار کی ایک عورت کہتی ہے مسجد کے اردگرد گھروں میں سب سے اونچا میرا گھر تھا، بلال رضی اللہ عنہ اسی پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے، چنانچہ وہ صبح سے کچھ پہلے ہی آتے اور گھر پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے، جب اسے دیکھ لیتے تو انگڑائی لیتے، پھر کہتے: اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے قریش پر مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں، وہ کہتی ہے: پھر وہ اذان دیتے، قسم اللہ کی، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو ترک کیا ہو۔
حسن
سنن ابي داود
1032
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، أَخْبَرَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيُّ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ:" فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ".
اس طریق سے بھی محمد بن مسلم زہری سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ پھر وہ سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے پھر سلام پھیرے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
1242
وَأَمَّا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ فَحَدَّثَنَا، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَتْ:" كَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَبَّرَتِ الطَّائِفَةُ الَّذِينَ صَفُّوا مَعَهُ، ثُمَّ رَكَعَ فَرَكَعُوا، ثُمَّ سَجَدَ فَسَجَدُوا، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعُوا، ثُمَّ مَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا، ثُمَّ سَجَدُوا لِأَنْفُسِهِمُ الثَّانِيَةَ، ثُمَّ قَامُوا فَنَكَصُوا عَلَى أَعْقَابِهِمْ يَمْشُونَ الْقَهْقَرَى حَتَّى قَامُوا مِنْ وَرَائِهِمْ، وَجَاءَتِ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى فَقَامُوا فَكَبَّرُوا، ثُمَّ رَكَعُوا لِأَنْفُسِهِمْ، ثُمَّ سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَجَدُوا مَعَهُ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَجَدُوا لِأَنْفُسِهِمُ الثَّانِيَةَ، ثُمَّ قَامَتِ الطَّائِفَتَانِ جَمِيعًا فَصَلَّوْا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكَعَ فَرَكَعُوا، ثُمَّ سَجَدَ فَسَجَدُوا جَمِيعًا، ثُمَّ عَادَ فَسَجَدَ الثَّانِيَةَ وَسَجَدُوا مَعَهُ سَرِيعًا كَأَسْرَعِ الْإِسْرَاعِ جَاهِدًا لَا يَأْلُونَ سِرَاعًا، ثُمَّ سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمُوا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَارَكَهُ النَّاسُ فِي الصَّلَاةِ كُلِّهَا".
عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے یہی واقعہ بیان کیا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کہی اور اس جماعت نے بھی جو آپ کے ساتھ صف میں کھڑی تھی تکبیر تحریمہ کہی، پھر آپ نے رکوع کیا تو ان لوگوں نے بھی رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا، پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا تو انہوں نے بھی اٹھایا، اس کے بعد آپ بیٹھے رہے اور وہ لوگ دوسرا سجدہ خود سے کر کے کھڑے ہوئے اور ایٹریوں کے بل پیچھے چلتے ہوئے الٹے پاؤں لوٹے، یہاں تک کہ ان کے پیچھے جا کھڑے ہوئے، اور دوسری جماعت آ کر کھڑی ہوئی، اس نے تکبیر کہی پھر خود سے رکوع کیا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دوسرا سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اٹھ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں نے اپنا دوسرا سجدہ کیا، پھر دونوں جماعتیں ایک ساتھ کھڑی ہوئیں اور دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے رکوع کیا (ان سب نے بھی رکوع کیا)، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان سب نے بھی ایک ساتھ سجدہ کیا، پھر آپ نے دوسرا سجدہ کیا اور ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ جلدی جلدی سجدہ کیا، اور جلدی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، اور لوگوں نے بھی سلام پھیرا، پھر آپ نماز سے فارغ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اس طرح لوگوں نے پوری نماز میں آپ کے ساتھ شرکت کر لی۔
حسن
سنن ابي داود
1280
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ ذَكْوَانَ مَوْلَى عَائِشَةَ، أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْعَصْرِ، وَيَنْهَى عَنْهَا، وَيُوَاصِلُ وَيَنْهَى عَنِ الْوِصَالِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوان سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ نے ان سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خود تو) عصر کے بعد نماز پڑھتے تھے اور (دوسروں کو) اس سے منع فرماتے، اور پے در پے روزے بھی رکھتے تھے اور (دوسروں کو) مسلسل روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے۔
ضعيف
سنن ابي داود
1369
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، فَجَاءَهُ، فَقَالَ:" يَا عُثْمَانُ، أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِي؟" قَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَكِنْ سُنَّتَكَ أَطْلُبُ، قَالَ:" فَإِنِّي أَنَامُ، وَأُصَلِّي، وَأَصُومُ، وَأُفْطِرُ، وَأَنْكِحُ النِّسَاءَ، فَاتَّقِ اللَّهَ يَا عُثْمَانُ فَإِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَصَلِّ وَنَمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، تو وہ آپ کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان! کیا تم نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی ہے؟، انہوں نے جواب دیا: نہیں اللہ کے رسول! اللہ کی قسم، ایسی بات نہیں، میں تو آپ ہی کی سنت کا طالب رہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو سوتا بھی ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، عثمان! تم اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی حق ہے، تمہاری جان کا حق ہے، لہٰذا کبھی روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو، اسی طرح نماز پڑھو اور سویا بھی کرو ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1583
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَدِّقًا، فَمَرَرْتُ بِرَجُلٍ، فَلَمَّا جَمَعَ لِي مَالَهُ لَمْ أَجِدْ عَلَيْهِ فِيهِ إِلَّا ابْنَةَ مَخَاضٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَدِّ ابْنَةَ مَخَاضٍ فَإِنَّهَا صَدَقَتُكَ، فَقَالَ: ذَاكَ مَا لَا لَبَنَ فِيهِ وَلَا ظَهْرَ وَلَكِنْ هَذِهِ نَاقَةٌ فَتِيَّةٌ عَظِيمَةٌ سَمِينَةٌ فَخُذْهَا، فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنَا بِآخِذٍ مَا لَمْ أُومَرْ بِهِ، وَهَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكَ قَرِيبٌ، فَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَأْتِيَهُ فَتَعْرِضَ عَلَيْهِ مَا عَرَضْتَ عَلَيَّ، فَافْعَلْ فَإِنْ قَبِلَهُ مِنْكَ قَبِلْتُهُ، وَإِنْ رَدَّهُ عَلَيْكَ رَدَدْتُهُ، قَالَ: فَإِنِّي فَاعِلٌ، فَخَرَجَ مَعِي وَخَرَجَ بِالنَّاقَةِ الَّتِي عَرَضَ عَلَيَّ حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَتَانِي رَسُولُكَ لِيَأْخُذَ مِنِّي صَدَقَةَ مَالِي وَايْمُ اللَّهِ مَا قَامَ فِي مَالِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا رَسُولُهُ قَطُّ قَبْلَهُ، فَجَمَعْتُ لَهُ مَالِي فَزَعَمَ أَنَّ مَا عَلَيَّ فِيهِ ابْنَةُ مَخَاضٍ وَذَلِكَ مَا لَا لَبَنَ فِيهِ وَلَا ظَهْرَ، وَقَدْ عَرَضْتُ عَلَيْهِ نَاقَةً فَتِيَّةً عَظِيمَةً لِيَأْخُذَهَا فَأَبَى عَلَيَّ، وَهَهِيَ ذِهْ قَدْ جِئْتُكَ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ خُذْهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَاكَ الَّذِي عَلَيْكَ، فَإِنْ تَطَوَّعْتَ بِخَيْرٍ آجَرَكَ اللَّهُ فِيهِ وَقَبِلْنَاهُ مِنْكَ" قَالَ: فَهَا هِيَ ذِهْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ جِئْتُكَ بِهَا فَخُذْهَا، قَالَ:" فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْضِهَا وَدَعَا لَهُ فِي مَالِهِ بِالْبَرَكَةِ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، میں ایک شخص کے پاس سے گزرا، جب اس نے اپنا مال اکٹھا کیا تو میں نے اس پر صرف ایک بنت مخاض کی زکاۃ واجب پائی، میں نے اس سے کہا: ایک بنت مخاض دو، یہی تمہاری زکاۃ ہے، وہ بولا: بنت مخاض میں نہ تو دودھ ہے اور نہ وہ اس قابل ہے کہ (اس پر) سواری کی جا سکے، یہ لو ایک اونٹنی جوان، بڑی اور موٹی، میں نے اس سے کہا: میں ایسی چیز کبھی نہیں لے سکتا جس کے لینے کا مجھے حکم نہیں، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو تم سے قریب ہیں اگر تم چاہو تو ان کے پاس جا کر وہی بات پیش کرو جو تم نے مجھ سے کہی ہے، اب اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبول فرما لیتے ہیں تو میں بھی اسے لے لوں گا اور اگر آپ واپس کر دیتے ہیں تو میں بھی واپس کر دوں گا، اس نے کہا: ٹھیک ہے میں چلتا ہوں اور وہ اس اونٹنی کو جو اس نے میرے سامنے پیش کی تھی، لے کر میرے ساتھ چلا، جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے نبی! آپ کا قاصد میرے پاس مال کی زکاۃ لینے آیا، قسم اللہ کی! اس سے پہلے کبھی نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے مال کو دیکھا اور نہ آپ کے قاصد نے، میں نے اپنا مال اکٹھا کیا تو اس نے کہا: تجھ پر ایک بنت مخاض لازم ہے اور بنت مخاض نہ دودھ دیتی ہے اور نہ ہی وہ سواری کے لائق ہوتی ہے، لہٰذا میں نے اسے ایک بڑی موٹی اور جوان اونٹنی پیش کی، لیکن اسے لینے سے اس نے انکار کر دیا اور وہ اونٹنی یہ ہے جسے لے کر میں آپ کی خدمت میں آیا ہوں، اللہ کے رسول! اسے لے لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تم پر واجب تو بنت مخاض ہی ہے، لیکن اگر تم خوشی سے اسے دے رہے ہو تو اللہ تمہیں اس کا اجر عطا کرے گا اور ہم اسے قبول کر لیں گے، وہ شخص بولا: اے اللہ کے رسول! اسے لے لیجئے، یہ وہی اونٹنی ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لینے کا حکم دیا اور اس کے لیے اس کے مال میں برکت کی دعا کی۔
حسن
سنن ابي داود
1592
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ:عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، فِي قَوْلِهِ: لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ، قَالَ: أَنْ تُصَدَّقَ الْمَاشِيَةُ فِي مَوَاضِعِهَا وَلَا تُجْلَبَ إِلَى الْمُصَدِّقِ وَالْجَنَبُ عَنْ غَيْرِ هَذِهِ الْفَرِيضَةِ أَيْضًا لَا يُجْنَبُ أَصْحَابُهَا، يَقُولُ: وَلَا يَكُونُ الرَّجُلُ بِأَقْصَى مَوَاضِعِ أَصْحَابِ الصَّدَقَةِ فَتُجْنَبُ إِلَيْهِ، وَلَكِنْ تُؤْخَذُ فِي مَوْضِعِهِ.
محمد بن اسحاق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: «لا جلب ولا جنب» کی تفسیر میں مروی ہے کہ «لا جلب» کا مطلب یہ ہے کہ جانوروں کی زکاۃ ان کی جگہوں میں جا کر لی جائے وہ مصدق تک کھینچ کر نہ لائے جائیں، اور «جنب» فریضہ زکاۃ کے علاوہ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے: وہ کہتے ہیں: «جنب» یہ ہے کہ محصل زکاۃ دینے والوں کی جگہوں سے دور نہ رہے کہ جانور اس کے پاس لائے جائیں بلکہ اسی جگہ میں زکاۃ لی جائے گی ۱؎۔
صحيح مقطوع
سنن ابي داود
1770
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُصَيْفُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجَزَرِيُّ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ: يَا أَبَا الْعَبَّاسِ، عَجِبْتُ لِاخْتِلَافِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِهْلَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَوْجَبَ، فَقَالَ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ النَّاسِ بِذَلِكَ، إِنَّهَا إِنَّمَا كَانَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةً وَاحِدَةً فَمِنْ هُنَاكَ اخْتَلَفُو اخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجًّا، فَلَمَّا صَلَّى فِي مَسْجِدِهِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْهِ أَوْجَبَ فِي مَجْلِسِهِ، فَأَهَلَّ بِالْحَجِّ حِينَ فَرَغَ مِنْ رَكْعَتَيْهِ، فَسَمِعَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ فَحَفِظْتُهُ عَنْهُ، ثُمَّ رَكِبَ فَلَمَّا اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ أَهَلَّ، وَأَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ، وَذَلِكَ أَنَّ النَّاسَ إِنَّمَا كَانُوا يَأْتُونَ أَرْسَالًا فَسَمِعُوهُ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ يُهِلُّ، فَقَالُوا: إِنَّمَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ، ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا عَلَا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ أَهَلَّ، وَأَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْهُ أَقْوَامٌ، فَقَالُوا: إِنَّمَا أَهَلَّ حِينَ عَلَا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ، وَايْمُ اللَّهِ، لَقَدْ أَوْجَبَ فِي مُصَلَّاهُ وَأَهَلَّ حِينَ اسْتَقَلَّتْ بِهِ نَاقَتُهُ وَأَهَلَّ حِينَ عَلَا عَلَى شَرَفِ الْبَيْدَاءِ". قَالَ سَعِيدٌ: فَمَنْ أَخَذَ بِقَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَهَلَّ فِي مُصَلَّاهُ إِذَا فَرَغَ مِنْ رَكْعَتَيْهِ.
سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: ابوالعباس! مجھے تعجب ہے کہ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھنے کے سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ آپ نے احرام کب باندھا؟ تو انہوں نے کہا: اس بات کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی حج کیا تھا اسی وجہ سے لوگوں نے اختلاف کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کی نیت کر کے مدینہ سے نکلے، جب ذی الحلیفہ کی اپنی مسجد میں آپ نے اپنی دو رکعتیں ادا کیں تو اسی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا اور دو رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد حج کا تلبیہ پڑھا، لوگوں نے اس کو سنا اور میں نے اس کو یاد رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پڑھا، بعض لوگوں نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ پڑھتے ہوئے پایا، اور یہ اس وجہ سے کہ لوگ الگ الگ ٹکڑیوں میں آپ کے پاس آتے تھے، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر اٹھی تو انہوں نے آپ کو تلبیہ پکارتے ہوئے سنا تو کہا: آپ نے تلبیہ اس وقت کہا ہے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے، جب مقام بیداء کی اونچائی پر چڑھے تو تلبیہ کہا تو بعض لوگوں نے اس وقت اسے سنا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت تلبیہ کہا ہے جب آپ بیداء کی اونچائی پر چڑھے حالانکہ اللہ کی قسم آپ نے وہیں تلبیہ کہا تھا جہاں آپ نے نماز پڑھی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تلبیہ کہا جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی ہوئی اور پھر آپ نے بیداء کی اونچائی چڑھتے وقت تلبیہ کہا۔ سعید کہتے ہیں: جس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کو لیا تو اس نے اس جگہ پر جہاں اس نے نماز پڑھی اپنی دونوں رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد تلبیہ کہا۔
ضعيف
سنن ابي داود
1827
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: فَإِنَّ نَافِعًا مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ حَدَّثَنِي، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى النِّسَاءَ فِي إِحْرَامِهِنَّ عَنْ الْقُفَّازَيْنِ وَالنِّقَابِ وَمَا مَسَّ الْوَرْسُ وَالزَّعْفَرَانُ مِنَ الثِّيَابِ وَلْتَلْبَسْ بَعْدَ ذَلِكَ مَا أَحَبَّتْ مِنْ أَلْوَانِ الثِّيَابِ مُعَصْفَرًا أَوْ خَزًّا أَوْ حُلِيًّا أَوْ سَرَاوِيلَ أَوْ قَمِيصًا أَوْ خُفًّا". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، إِلَى قَوْلِهِ:" وَمَا مَسَّ الْوَرْسُ وَالزَّعْفَرَانُ مِنَ الثِّيَابِ" وَلَمْ يَذْكُرَا مَا بَعْدَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ نے عورتوں کو حالت احرام میں دستانے پہننے، نقاب اوڑھنے، اور ایسے کپڑے پہننے سے جن میں ورس یا زعفران لگا ہو منع فرمایا، البتہ ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے چاہے پہنے جیسے زرد رنگ والے کپڑے، یا ریشمی کپڑے، یا زیور، یا پائجامہ، یا قمیص، یا کرتا، یا موزہ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو عبدہ بن سلیمان اور محمد بن سلمہ نے ابن اسحاق سے ابن اسحاق نے نافع سے حدیث «وما مس الورس والزعفران من الثياب» تک روایت کیا ہے اور اس کے بعد کا ذکر ان دونوں نے نہیں کیا ہے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
1860
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي أَبَانُ يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: أَصَابَنِي هَوَامُّ فِي رَأْسِي وَأَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ حَتَّى تَخَوَّفْتُ عَلَى بَصَرِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فِيَّ: فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ سورة البقرة آية 196 الْآيَةَ، فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي:" احْلِقْ رَأْسَكَ وَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ فَرَقًا مِنْ زَبِيبٍ، أَوِ انْسُكْ شَاةً"، فَحَلَقْتُ رَأْسِي ثُمَّ نَسَكْتُ.
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال میرے سر میں جوئیں پڑ گئیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا یہاں تک کہ مجھے اپنی بینائی جانے کا خوف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے میرے سلسلے میں «فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه» کی آیت نازل فرمائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور مجھ سے فرمایا: تم اپنا سر منڈوا لو اور تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو ایک فرق ۱؎ منقٰی کھلاؤ، یا پھر ایک بکری ذبح کرو چنانچہ میں نے اپنا سر منڈوایا پھر ایک بکری کی قربانی دے دی۔
حسن لكن ذكر الزبيب منكر والمحفوظ التمر كما في أحاديث العباس
سنن ابي داود
1913
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" غَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مِنًى حِينَ صَلَّى الصُّبْحَ صَبِيحَةَ يَوْمِ عَرَفَةَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَنَزَلَ بِنَمِرَةَ وَهِيَ مَنْزِلُ الْإِمَامِ الَّذِي يَنْزِلُ بِهِ بِعَرَفَةَ، حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ صَلَاةِ الظُّهْرِ رَاحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهَجِّرًا فَجَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ، ثُمَّ رَاحَ فَوَقَفَ عَلَى الْمَوْقِفِ مِنْ عَرَفَةَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کو فجر پڑھ کر منیٰ سے چلے یہاں تک کہ عرفات آئے تو نمرہ میں اترے اور نمرہ عرفات میں امام کے اترنے کی جگہ ہے، جب ظہر کا وقت آنے کو ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نمرہ سے) عین دوپہر میں چلے اور ظہر اور عصر کو جمع کیا، پھر لوگوں میں خطبہ دیا ۱؎ پھر چلے اور عرفات میں موقف میں وقوف کیا۔
حسن
سنن ابي داود
1924
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ، قَالَ:" كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الشَّمْسُ دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھا جب سورج ڈوب گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے لوٹے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2075
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ الْأَعْرَجُ، أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ أَنْكَحَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَكَمِ ابْنَتَهُ وَأَنْكَحَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ابْنَتَهُ وَكَانَا جَعَلَا صَدَاقًا، فَكَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى مَرْوَانَ يَأْمُرُهُ بِالتَّفْرِيقِ بَيْنَهُمَا، وَقَالَ فِي كِتَابِهِ:" هَذَا الشِّغَارُ الَّذِي نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابن اسحاق سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن ہرمزاعرج نے مجھ سے بیان کیا کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے اپنی بیٹی کا نکاح عبدالرحمٰن بن حکم سے کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اپنی بیٹی کا نکاح عباس سے کر دیا اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے سے اپنی بیٹی کے شادی کرنے کو اپنی بیوی کا مہر قرار دیا تو معاویہ نے مروان کو ان کے درمیان جدائی کا حکم لکھ کر بھیجا اور اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ یہی وہ نکاح شغار ہے جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
حسن
سنن ابي داود
2193
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ الزُّهْرِيُّ، أَنَّ يَعْقُوبَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ الْحِمْصِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ الَّذِي كَانَ يَسْكُنُ إِيلِيَا، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَدِيِّ بْنِ عَدَيٍّ الْكِنْدِيِّ حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ فَبَعَثَنِي إِلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ وَكَانَتْ قَدْ حَفِظَتْ مِنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي غِلَاقٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: الْغِلَاقُ أَظُنُّهُ فِي الْغَضَبِ.
محمد بن عبید بن ابوصالح (جو ایلیاء میں رہتے تھے) کہتے ہیں کہ میں عدی بن عدی کندی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں مکہ آیا تو انہوں نے مجھے صفیہ بنت شیبہ کے پاس بھیجا، اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیثیں یاد کر رکھی تھیں، وہ کہتی ہیں: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: زبردستی کی صورت میں طلاق دینے اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں ہو گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ غلاق کا مطلب غصہ ہے ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
2782
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حِينَ أَقْبَلَ مِنْ حَجَّتِهِ دَخَلَ الْمَدِينَةَ، فَأَنَاخَ عَلَى بَابِ مَسْجِدِهِ، ثُمَّ دَخَلَهُ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى بَيْتِهِ"، قَالَ نَافِعٌ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ كَذَلِكَ يَصْنَعُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت حجۃ الوداع سے واپس آئے اور مدینہ میں داخل ہوئے تو مسجد نبوی کے دروازہ پر اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر مسجد میں داخل ہوئے اور اندر جا کر دو رکعتیں پڑھیں پھر اپنے گھر گئے۔ نافع کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3007
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَنَّا نُخْرِجُهُمْ إِذَا شِئْنَا فَمَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ فَلْيَلْحَقْ بِهِ فَإِنِّي مُخْرِجٌ يَهُودَ فَأَخْرَجَهُمْ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے یہ معاملہ کیا تھا کہ ہم جب چاہیں گے انہیں یہاں سے جلا وطن کر دیں گے، تو جس کا کوئی مال ان یہودیوں کے پاس ہو وہ اسے لے لے، کیونکہ میں یہودیوں کو (اس سر زمین سے) نکال دینے والا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نکال دیا ۱؎۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3157
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي وَكَانَ قَارِئًا لِلْقُرْآنِ، نُوحُ بْنُ حَكِيمٍ الثَّقَفِيُّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ يُقَالُ لَهُ دَاوُدُ قَدْ وَلَّدَتْهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَنْ لَيْلَى بِنْتَ قَانِفٍ الثَّقَفِيَّةَ، قَالَتْ: كُنْتُ فِيمَنْ غَسَّلَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ وَفَاتِهَا، فَكَانَ أَوَّلُ مَا أَعْطَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْحِقَاءَ، ثُمَّ الدِّرْعَ، ثُمَّ الْخِمَارَ، ثُمَّ الْمِلْحَفَةَ، ثُمَّ أُدْرِجَتْ بَعْدُ فِي الثَّوْبِ الْآخِرِ، قَالَتْ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عِنْدَ الْبَابِ، مَعَهُ كَفَنُهَا، يُنَاوِلُنَاهَا ثَوْبًا ثَوْبًا.
بنی عروہ بن مسعود کے ایک فرد سے روایت ہے (جنہیں داود کہا جاتا تھا، اور جن کی پرورش ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے کی تھی) کہ لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں ان عورتوں میں شامل تھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو ان کے انتقال پر غسل دیا تھا، کفن کے کپڑوں میں سے سب سے پہلے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار دیا، پھر کرتہ دیا، پھر اوڑھنی دی، پھر چادر دی، پھر ایک اور کپڑا دیا، جسے اوپر لپیٹ دیا گیا ۱؎۔ لیلیٰ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کفن کے کپڑے لیے ہوئے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ہمیں ان میں سے ایک ایک کپڑا دے رہے تھے۔
ضعيف
سنن ابي داود
3187
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا اس وقت وہ اٹھارہ مہینے کے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۱؎۔
حسن الإسناد
سنن ابي داود
3632
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، قَالَ:" أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ، فَقَالَ: إِذَا أَتَيْتَ وَكِيلِي فَخُذْ مِنْهُ خَمْسَةَ عَشَرَ وَسْقًا، فَإِنِ ابْتَغَى مِنْكَ آيَةً فَضَعْ يَدَكَ عَلَى تَرْقُوَتِهِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کی جانب نکلنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا پھر میں نے عرض کیا: میں خیبر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میرے وکیل کے پاس جانا تو اس سے پندرہ وسق کھجور لے لینا اور اگر وہ تم سے کوئی نشانی طلب کرے تو اپنا ہاتھ اس کے گلے پر رکھ دینا ۱؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
3903
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ سَيَّارٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" أَرَادَتْ أُمِّي أَنْ تُسَمِّنَنِي لِدُخُولِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَقْبَلْ عَلَيْهَا بِشَيْءٍ مِمَّا تُرِيدُ حَتَّى أَطْعَمَتْنِي الْقِثَّاءَ بِالرُّطَبِ فَسَمِنْتُ عَلَيْهِ كَأَحْسَنِ السَّمَنِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری والدہ نے چاہا کہ میں قدرے موٹی ہو جاؤں تاکہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بھیجا جا سکے۔ مگر مجھے ان کی حسب منشا کسی چیز سے فائدہ نہ ہوا حتیٰ کہ انہوں نے مجھے ککڑی اور کھجور ملا کر کھلائی تو اس سے میں خوب موٹی ہو گئی۔
صحيح
سنن ابي داود
4861
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ سَيَّارٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِيهِ ابْنُ إِسْحَاق، عَنْ عِيسَى بْنِ مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْفَغْوَاءِ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَرَادَ أَنْ يَبْعَثَنِي بِمَالٍ إِلَى أَبِي سُفْيَانَ يَقْسِمُهُ فِي قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ بَعْدَ الْفَتْحِ، فَقَالَ: الْتَمِسْ صَاحِبًا , قَالَ: فَجَاءَنِي عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ، فَقَالَ: بَلَغَنِي أَنَّكَ تُرِيدُ الْخُرُوجَ وَتَلْتَمِسُ صَاحِبًا، قَالَ: قُلْتُ: أَجَلْ، قَالَ: فَأَنَا لَكَ صَاحِبٌ، قَالَ: فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: قَدْ وَجَدْتُ صَاحِبًا، قَالَ: فَقَالَ: مَنْ؟ قُلْتُ:عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ، قَالَ: إِذَا هَبَطْتَ بِلَادَ قَوْمِهِ فَاحْذَرْهُ , فَإِنَّهُ قَدْ قَالَ الْقَائِلُ: أَخُوكَ الْبِكْرِيُّ وَلَا تَأْمَنْهُ، فَخَرَجْنَا حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِالْأَبْوَاءِ، قَالَ: إِنِّي أُرِيدُ حَاجَةً إِلَى قَوْمِي بِوَدَّانَ، فَتَلَبَّثْ لِي، قُلْتُ رَاشِدًا , فَلَمَّا وَلَّى ذَكَرْتُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَدَدْتُ عَلَى بَعِيرِي حَتَّى خَرَجْتُ أُوضِعُهُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِالْأَصَافِرِ إِذَا هُوَ يُعَارِضُنِي فِي رَهْطٍ، قَالَ: وَأَوْضَعْتُ فَسَبَقْتُهُ، فَلَمَّا رَآنِي قَدْ فُتُّهُ انْصَرَفُوا وَجَاءَنِي، فَقَالَ: كَانَتْ لِي إِلَى قَوْمِي حَاجَةٌ، قَالَ: قُلْتُ: أَجَلْ وَمَضَيْنَا حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَدَفَعْتُ الْمَالَ إِلَى أَبِي سُفْيَانَ".
عمرو بن فغواء خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا، آپ مجھے کچھ مال دے کر ابوسفیان کے پاس بھیجنا چاہتے تھے، جو آپ فتح مکہ کے بعد قریش میں تقسیم فرما رہے تھے، آپ نے فرمایا: کوئی اور ساتھی تلاش کر لو، تو میرے پاس عمرو بن امیہ ضمری آئے، اور کہنے لگے: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارا ارادہ نکلنے کا ہے اور تمہیں ایک ساتھی کی تلاش ہے، میں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے کہا: میں تمہارا ساتھی بنتا ہوں چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا، مجھے ایک ساتھی مل گیا ہے، آپ نے فرمایا: کون؟ میں نے کہا: عمرو بن امیہ ضمری، آپ نے فرمایا: جب تم اس کی قوم کے ملک میں پہنچو تو اس سے بچ کے رہنا اس لیے کہ کہنے والے نے کہا ہے کہ تمہارا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو اس سے مامون نہ رہو، چنانچہ ہم نکلے یہاں تک کہ جب ہم ابواء میں پہنچے تو اس نے کہا: میں ودان میں اپنی قوم کے پاس ایک ضرورت کے تحت جانا چاہتا ہوں لہٰذا تم میرے لیے تھوڑی دیر ٹھہرو، میں نے کہا: جاؤ راستہ نہ بھولنا، جب وہ چلا گیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد آئی، تو میں نے زور سے اپنے اونٹ کو بھگایا، اور تیزی سے دوڑاتا وہاں سے نکلا، یہاں تک کہ جب مقام اصافر میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ کچھ لوگوں کے ساتھ مجھے روکنے آ رہا ہے میں نے اونٹ کو اور تیز کر دیا، اور میں اس سے بہت آگے نکل گیا، جب اس نے مجھے دیکھا کہ میں اسے بہت پیچھے چھوڑ چکا ہوں، تو وہ لوگ لوٹ گئے، اور وہ میرے پاس آیا اور بولا، مجھے اپنی قوم میں ایک کام تھا، میں نے کہا: ٹھیک ہے اور ہم چلتے رہے یہاں تک کہ ہم مکہ پہنچ گئے تو میں نے وہ مال ابوسفیان کو دے دیا۔
ضعيف

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.