سنن ابي داود
0 (حدثنا / عن) علقمة بن قيس النخعي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
675
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ، وَزَادَ: وَلَا تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ وَإِيَّاكُمْ وَهَيْشَاتِ الْأَسْوَاقِ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں اس میں اتنا اضافہ ہے: تم لوگ صف میں آگے پیچھے نہ رہو، ورنہ تمہارے دلوں میں بھی اختلاف ہو جائے گا، اور تم (مسجدوں میں) بازاروں جیسے شور و غل سے بچو۔
صحيح
سنن ابي داود
923
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ" فَيَرُدُّ عَلَيْنَا"، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، وَقَالَ: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے اس حال میں کہ آپ نماز میں ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی (بادشاہ حبشہ) کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا اور فرمایا: نماز (خود) ایک شغل ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1020
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: فَلَا أَدْرِي زَادَ أَمْ نَقَصَ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ؟ قَالَ:" وَمَا ذَاكَ؟" قَالُوا: صَلَّيْتَ كَذَا وَكَذَا، فَثَنَى رِجْلَهُ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَسَجَدَ بِهِمْ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَلَمَّا انْفَتَلَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ أَنْبَأْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي" وَقَالَ:" إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ، ثُمَّ لِيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ".
علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی (ابراہیم کی روایت میں ہے: تو میں نہیں جان سکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں زیادتی کی یا کمی)، پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نئی چیز ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کیا؟، لوگوں نے کہا: آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیر موڑا اور قبلہ رخ ہوئے، پھر لوگوں کے ساتھ دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اگر نماز میں کوئی نئی بات ہوئی ہوتی تو میں تم کو اس سے باخبر کرتا، لیکن انسان ہی تو ہوں، میں بھی بھول جاتا ہوں جیسے تم لوگ بھول جاتے ہو، لہٰذا جب میں بھول جایا کروں تو تم لوگ مجھے یاد دلا دیا کرو، اور فرمایا: جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک پیدا ہو جائے تو سوچے کہ ٹھیک کیا ہے، پھر اسی حساب سے نماز پوری کرے، اس کے بعد سلام پھیرے پھر (سہو کے) دو سجدے کرے۔
صحيح
سنن ابي داود
1021
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، بِهَذَا، قَالَ:" فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ" ثُمَّ تَحَوَّلَ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ حُصَيْنٌ نَحْوَ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص (نماز میں) بھول جائے تو دو سجدے کرے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے اور سہو کے دو سجدے کئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حصین نے اعمش کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1370
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: كَيْفَ كَانَ عَمَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ هَلْ كَانَ يَخُصُّ شَيْئًا مِنَ الْأَيَّامِ؟ قَالَتْ: لَا،" كَانَ كُلُّ عَمَلِهِ دِيمَةً" وَأَيُّكُمْ يَسْتَطِيعُ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَطِيعُ؟.
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا حال کیسا تھا؟ کیا آپ عمل کے لیے کچھ دن خاص کر لیتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل مداومت و پابندی کے ساتھ ہوتا تھا اور تم میں کون اتنی طاقت رکھتا ہے جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے؟۔
صحيح
سنن ابي داود
2046
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: إِنِّي لَأَمْشِي مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ بِمِنًى، إِذْ لَقِيَهُ عُثْمَانُ فَاسْتَخْلَاهُ، فَلَمَّا رَأَى عَبْدُ اللَّهِ أَنْ لَيْسَتْ لَهُ حَاجَةٌ، قَالَ لِي: تَعَالَ يَا عَلْقَمَةُ، فَجِئْتُ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: أَلَا نُزَوِّجُكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ بِجَارِيَةٍ بِكْرٍ، لَعَلَّهُ يَرْجِعُ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ مَا كُنْتَ تَعْهَدُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَئِنْ قُلْتَ ذَاكَ، لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ".
علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ منیٰ میں چل رہا تھا کہ اچانک ان کی ملاقات عثمان رضی اللہ عنہ سے ہو گئی تو وہ ان کو لے کر خلوت میں گئے، جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ انہیں (شادی کی) ضرورت نہیں ہے تو مجھ سے کہا: علقمہ! آ جاؤ ۱؎ تو میں گیا تو عثمان رضی اللہ عنہ ۲؎ نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا ہم آپ کی شادی ایک کنواری لڑکی سے نہ کرا دیں، شاید آپ کی دیرینہ طاقت و نشاط واپس آ جائے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ ایسی بات کہہ رہے ہیں تو میں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سن چکا ہوں کہ تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہیئے کیونکہ یہ نگاہ کو خوب پست رکھنے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی چیز ہے اور جو تم میں سے اس کے اخراجات کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس پر روزہ ہے، یہ اس کی شہوت کے لیے توڑ ہو گا ۳؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2115
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ،عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَاقَ عُثْمَانُ مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی عبداللہ سے مروی ہے عثمان نے اسی کے مثل روایت بیان کی۔
0
سنن ابي داود
2253
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: إِنَّا لَلَيْلَةُ جُمْعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَتَكَلَّمَ بِهِ، جَلَدْتُمُوهُ؟ أَوْ قَتَلَ، قَتَلْتُمُوهُ؟ فَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، وَاللَّهِ لَأَسْأَلَنَّ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ، أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَتَكَلَّمَ بِهِ، جَلَدْتُمُوهُ؟ أَوْ قَتَلَ، قَتَلْتُمُوهُ؟ أَوْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ؟ فَقَالَ:" اللَّهُمَّ افْتَحْ"، وَجَعَلَ يَدْعُو فَنَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ سورة النور آية 6 هَذِهِ الْآيَةَ، فَابْتُلِيَ بِهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَجَاءَ هُوَ وَامْرَأَتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَلَاعَنَا، فَشَهِدَ الرَّجُلُ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ لَعَنَ الْخَامِسَةَ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، قَالَ: فَذَهَبَتْ لِتَلْتَعِنَ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَهْ"، فَأَبَتْ، فَفَعَلَتْ، فَلَمَّا أَدْبَرَا، قَالَ:" لَعَلَّهَا أَنْ تَجِيءَ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا"، فَجَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں (ایک دفعہ) جمعہ کی رات مسجد میں تھا کہ اچانک انصار کا ایک شخص مسجد میں آیا، اور کہنے لگا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی (اجنبی) آدمی کو پا لے اور (حقیقت حال) بیان کرے تو تم لوگ اسے کوڑے لگاؤ گے، یا وہ قتل کر دے تو اس کے بدلے میں تم لوگ اسے قتل کر دو گے، اور اگر وہ چپ رہے تو اندر ہی اندر غصہ میں جلے بھنے، اللہ کی قسم، میں اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور دریافت کروں گا، چنانچہ جب دوسرا دن ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی (اجنبی) آدمی کو پا لے اور حقیقت حال بیان کرے تو (تہمت کی حد کے طور پر) آپ اسے کوڑے لگائیں گے، یا وہ قتل کر دے تو اسے قتل کر دیں گے، یا وہ خاموشی اختیار کر کے اندر ہی غصہ سے جلے بھنے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرنے لگے: اے اللہ! معاملے کی وضاحت فرما دے، چنانچہ لعان کی آیت «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس گواہ نہ ہوں (سورۃ النور: ۶) آخر تک نازل ہوئی تو لوگوں میں یہی شخص اس مصیبت میں مبتلا ہوا چنانچہ وہ دونوں میاں بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں نے لعان کیا، اس آدمی نے چار بار اللہ کا نام لے کر اپنے سچے ہونے کی گواہی دی، اور پانچویں بار کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر عورت لعان کرنے چلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو، لیکن وہ نہیں مانی اور لعان کر ہی لیا، تو جب وہ دونوں جانے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید یہ عورت کالا گھنگرالے بالوں والا بچہ جنم دے چنانچہ اس نے وہ کالا اور گھنگرالے بالوں والا بچہ ہی جنم دیا۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.