(موقوف) حدثني يعقوب بن إبراهيم، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابيه، عن جده، قال: قال عبد الرحمن بن عوف:" إني لفي الصف يوم بدر إذ التفت , فإذا عن يميني وعن يساري فتيان حديثا السن , فكاني لم آمن بمكانهما إذ، قال لي: احدهما سرا من صاحبه يا عم ارني ابا جهل، فقلت: يا ابن اخي وما تصنع به، قال: عاهدت الله إن رايته ان اقتله او اموت دونه، فقال لي: الآخر سرا من صاحبه مثله، قال: فما سرني اني بين رجلين مكانهما , فاشرت لهما إليه فشدا عليه مثل الصقرين حتى ضرباه وهما ابنا عفراء".(موقوف) حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ:" إِنِّي لَفِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ إِذْ الْتَفَتُّ , فَإِذَا عَنْ يَمِينِي وَعَنْ يَسَارِي فَتَيَانِ حَدِيثَا السِّنِّ , فَكَأَنِّي لَمْ آمَنْ بِمَكَانِهِمَا إِذْ، قَالَ لِي: أَحَدُهُمَا سِرًّا مِنْ صَاحِبِهِ يَا عَمِّ أَرِنِي أَبَا جَهْلٍ، فَقُلْتُ: يَا ابْنَ أَخِي وَمَا تَصْنَعُ بِهِ، قَالَ: عَاهَدْتُ اللَّهَ إِنْ رَأَيْتُهُ أَنْ أَقْتُلَهُ أَوْ أَمُوتَ دُونَهُ، فَقَالَ لِي: الْآخَرُ سِرًّا مِنْ صَاحِبِهِ مِثْلَهُ، قَالَ: فَمَا سَرَّنِي أَنِّي بَيْنَ رَجُلَيْنِ مَكَانَهُمَا , فَأَشَرْتُ لَهُمَا إِلَيْهِ فَشَدَّا عَلَيْهِ مِثْلَ الصَّقْرَيْنِ حَتَّى ضَرَبَاهُ وَهُمَا ابْنَا عَفْرَاءَ".
مجھ سے یعقوب نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان کے دادا سے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا بدر کی لڑائی کے موقع پر میں صف میں کھڑا ہوا تھا۔ میں نے مڑ کے دیکھا تو میری داہنی اور بائیں طرف دو نوجوان کھڑے تھے۔ ابھی میں ان کے متعلق کوئی فیصلہ بھی نہ کر پایا تھا کہ ایک نے مجھ سے چپکے سے پوچھا تاکہ اس کا ساتھی سننے نہ پائے۔ چچا! مجھے ابوجہل کو دکھا دو۔ میں نے کہا بھتیجے! تم اسے دیکھ کر کیا کرو گے؟ اس نے کہا، میں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ عہد کیا ہے کہ اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو یا اسے قتل کر کے رہوں گا یا پھر خود اپنی جان دے دوں گا۔ دوسرے نوجوان نے بھی اپنے ساتھی سے چھپاتے ہوئے مجھ سے یہی بات پوچھی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ان دونوں نوجوانوں کے درمیان میں کھڑے ہو کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے اشارے سے انہیں ابوجہل دکھا دیا۔ جسے دیکھتے ہی وہ دونوں باز کی طرح اس پر جھپٹے اور فوراً ہی اسے مار گرایا۔ یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔
Narrated `Abdur-Rahman bin `Auf: While I was fighting in the front file on the day (of the battle) of Badr, suddenly I looked behind and saw on my right and left two young boys and did not feel safe by standing between them. Then one of them asked me secretly so that his companion may not hear, "O Uncle! Show me Abu Jahl." I said, "O nephew! What will you do to him?" He said, "I have promised Allah that if I see him (i.e. Abu Jahl), I will either kill him or be killed before I kill him." Then the other said the same to me secretly so that his companion should not hear. I would not have been pleased to be in between two other men instead of them. Then I pointed him (i.e. Abu Jahl) out to them. Both of them attacked him like two hawks till they knocked him down. Those two boys were the sons of 'Afra' (i.e. an Ansari woman).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 324
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3988
حدیث حاشیہ: بعض روایتوں میں ہے کہ یہ دونوں معاذبن عفراءاور معوذ بن عفراء بن جموح تھے۔ معاذ اوور معوذ کی والدہ کا نام عفراء تھا۔ ان کے باپ کا نام حارث بن رفاعہ تھا۔ ان لڑ کوں نے پہلے ہی یہ عہد کیا تھا کہ ابو جہل ہمارے رسول کریم ﷺکو گالیاں دیتا ہے ہم اس کو ختم کر کے ہی رہیں گے۔ اللہ نے ان کا عزم پورا کر دکھایا۔ وہ ابو جہل کو معلوم کر کے اس پر ایسے لپکے جیسے شکرہ پرندہ چڑیا پر لپکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3988
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3988
حدیث حاشیہ: 1۔ ان دونوں بچوں کا نام معاذ اور معوذتھا، انھوں نے پہلے ہی یہ عہد کیا تھا کہ ابو جہل ہمارے رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے، اس لیے ہم اسے ختم کر کے ہی رہیں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے عزم کو پورا کر دیا لیکن حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے خیال کیا کہ یہ دونوں کمسن بچے ہیں جو بوقت ضرورت مجھے دشمن سے نہیں بچا سکیں گے۔ 2۔ بعض حضرات نے یہ معنی کیے ہیں کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف انھیں پہچانتے نہیں تھے ڈر پیدا ہوا کہ شاید وہ دشمن ہیں لیکن یہ معنی صحیح معلوم نہیں ہوتے کیونکہ دشمن اس طرح کھڑا نہیں ہوتا پہلے معنی ہی صحیح ہیں کہ نو خیز ہونے کی وجہ سے انھیں تردو ہوا کہ اگر یہ دونوں بھاگ کھڑے ہوئے تو میں اکیلا رہ جاؤں گا یا دشمن کے حملےکے وقت میرا دفاع نہیں کر سکیں گے جیسا کہ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ کو خیال پیدا ہوا میری دونوں طرف دو بچے ہیں، اس لیے دشمن مجھ پر حملہ کردے گا اور یہ دونوں میرا دفاع نہیں کر سکیں گے۔ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3141 و فتح الباري: 385/7) 3۔ ان دونوں بچوں کو باز سے تشبیہ ی کیونکہ اس میں وصف شجاعت اور شکار کو جھپٹ لینا جاتا ہے، اسی طرح یہ دونوں ابو جہل پر جھپٹ پڑے حتی کہ اسے ہلاک کردیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3988