اور ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے نصیر بن ابی الاشعث نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن موہب نے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بال دکھایا جو سرخ تھا۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5898
حدیث حاشیہ: یونس کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ ان پر مہندی اور وسم کا خضاب تھا۔ امام احمد کی روایت میں بھی یوں ہی ہے لیکن امام مسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب نہیں کیا البتہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے خضاب کیا کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال سرخ اس لیے معلوم ہوئے کہ آپ ان پر زرد خوشبو لگا یا کرتے تھے۔ (وحیدی) ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5898
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5898
حدیث حاشیہ: (1) اصل واقعہ یوں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ موئے مبارک (بال مبارک) تھے جو انہوں نے چاندی کی ڈبیہ میں رکھے ہوئے تھے۔ جب کوئی آدمی بیمار ہوتا یا اسے نظر بد لگ جاتی تو وہ پانی کا برتن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتا، وہ اس میں موئے مبارک ڈال کر برتن کو ہلا دیتیں اور پانی مریض کو پلا دیا جاتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت مند ہو جاتا۔ (2) واقعی موئے مبارک حصول برکت کا ذریعہ ہیں، لیکن عقیدہ یہی ہونا چاہیے کہ برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کے حکم سے آتی ہے، اس کے اذن کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرخ بال تھے جن پر مہندی اور کتم کا ملا جلا خضاب لگا تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ خوشبو لگانے سے وہ سرخ ہو گئے تھے۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب بال جسم سے الگ ہو جائیں اور ان پر زیادہ دیر گزر جائے تو خود بخود ان کی سیاہی سرخی میں تبدیل ہو جاتی ہے، ممکن ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس وہ بال تادیر رہنے کی وجہ سے سرخ ہو گئے ہوں۔ (فتح الباري: 434/10) آج کل اخبارات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کے متعلق خبریں شائع ہوتی ہیں، ہمارے رجحان کے مطابق یہ سب نمائشی باتیں ہیں اور سستی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ موئے مبارک کے متعلق ہمارا ایک تفصیلی فتویٰ فتاویٰ اصحاب الحدیث: 1/42- 48 میں دیکھا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5898