اخبرنا وكيع، نا زكريا بن ابي زائدة، عن الشعبي، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((الظهر يركب بنفقته، ولبن الدر يشرب إذا كان مرهونا، وعلى الذي يركب ويشرب نفقته)).أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، نا زَكَرِيَا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الظَّهْرُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ، وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ نَفَقَتُهُ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب سواری والا جانور رہن ہو تو اس پر خرچ کرنے کی وجہ سے اس پر سواری کی جائے گی اور دودھ والے جانور کا دودھ پیا جائے گا اور جو سواری کرے گا اور دودھ پئے گا وہی خرچہ برداشت کرے گا۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الرهن، باب الرهن مركوب ومحلوب، رقم: 2512»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 469 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 469
فوائد: رہن کا مطلب یہ ہے کہ قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا اور اس کا ثبوت قرآن مجید سے بھی ملتا ہے۔ ﴿وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ﴾(البقرۃ: 283) ”اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ (بخاري، رقم: 2069) مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا رہن قبضے میں رکھنے والا اگر کوئی جانور رکھے گا،جب اس پر خرچ کرے گا تو فائدہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔ اہل علم کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ کیا ہر گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یا کہ نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جس کے پاس کوئی چیز گروی رکھی گئی ہے، وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ امام شافعی، امام مالک; کا موقف ہے کہ اگر اصل مالک نے اس کی اجازت دی ہے یا جس کے پاس وہ چیز گروی پڑی ہے، اس نے شرط لگائی ہے تو تب فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جائز نہیں ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: صرف اتنا فائدہ اٹھا سکتا ہے جتنے اس پر اخراجات آرہے ہیں۔ (بدایة المجتهد: 2؍ 273۔ نیل الاوطار: 3؍620) علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: مطلقاً گروی رکھی ہوئی چیز سے نفع اٹھایا جا سکتا ہے۔ (اعلام الموقعین: 2؍ 411) لیکن مذکورہ حدیث سے یہی سمجھ آتی ہے کہ جتنا خرچہ چیز پر آئے، اس کے مطابق فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لہٰذا یہ حکم گھر یا دکان کے بارے میں لازم نہیں آئے گا۔ بلکہ دکان کا کرایہ یا گھر کا کرایہ اصل مالک کو ہی دیا جائے گا۔