وبهذا، عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: استب رجلان فعير احدهما الآخر بامه، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فدعا الرجل، فقال: ((اعيرته بامه؟)) فاعاد ذلك مرارا، فقال الرجل: يا رسول الله، استغفر الله لما قلت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ارفع راسك فانظر إلى الملإ))، فنظر إلى من حول رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ((ما انت بافضل من احمر واسود منهم إلا من كان له فضل في الدين)).وَبِهَذَا، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: اسْتَبَّ رَجُلَانِ فَعَيَّرَ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ بِأُمِّهِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا الرَّجُلَ، فَقَالَ: ((أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ؟)) فَأَعَادَ ذَلِكَ مِرَارًا، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَغْفِرِ اللَّهَ لِمَا قُلْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((ارْفَعْ رَأْسَكَ فَانْظُرْ إِلَى الْمَلَإِ))، فَنَظَرَ إِلَى مَنْ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((مَا أَنْتَ بِأَفْضَلَ مِنْ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ مِنْهُمْ إِلَّا مَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ فِي الدِّينِ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: دو آدمی گالی دے رہے تھے ان میں سے ایک دوسرے کو اس کی ماں کے حوالے سے عار دلائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو بلوایا، اور فرمایا: ”کیا تم نے اسے اس کی ماں سے متعلق عار دلائی ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات باربار دہرائی، تو اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے جو کہا ہے اس بابت اللہ سے استغفار کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا سر اٹھاؤ! اور اس جماعت کی طرف دیکھو۔“ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس حضرات کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان میں سے کسی سرخ و سیاہ سے افضل نہیں ہو، فضیلت صرف اسے ہی حاصل ہے جو دین میں افضل ہو۔“
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، رواة البخاري، رقم: 30. و مسلم، 1661. من حديث ابي ذر بمناة واحمد 11/5. من حديث رجل من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم بمناة»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 65 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 65
فوائد: مذکورہ روایت ضعیف ہے۔ تاہم بخاری ومسلم میں اس کے ہم معنی روایت آتی ہے۔ جناب معرور بن سوید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے سیدنا ابوذر غفاری رحمہ اللہ کو دیکھا ان کے بدن پر بھی ایک جوڑا تھا اور ان کے غلام کے بدن پر بھی اسی قسم کا ایک جوڑا تھا، ہم نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتلایا: ایک دفعہ میری ایک صاحب سے کچھ گالی گلوچ ہوگئی تھی، انہوں نے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا:” کیا تم نے انہیں ان کی ماں کی طرف سے عار دلائی ہے؟“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں، اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے، اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو، اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے، اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے، اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے، لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر ان کی خود بھی مدد کیا کرو۔“(بخاري، کتاب العتق، رقم: 2545)