حدثنا حدثنا الحكم بن نافع ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن راشد بن داود الصنعاني ، عن عبد الرحمن بن حسان ، عن روح بن زنباع ، عن عبادة بن الصامت ، قال: فقد النبي صلى الله عليه وسلم ليلة اصحابه، وكانوا إذا نزلوا انزلوه اوسطهم، ففزعوا وظنوا ان الله تبارك وتعالى اختار له اصحابا غيرهم، فإذا هم بخيال النبي صلى الله عليه وسلم، فكبروا حين راوه، وقالوا: يا رسول الله، اشفقنا ان يكون الله تبارك وتعالى اختار لك اصحابا غيرنا! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا، بل انتم اصحابي في الدنيا والآخرة، إن الله تعالى ايقظني، فقال: يا محمد، إني لم ابعث نبيا ولا رسولا إلا وقد سالني مسالة اعطيتها إياه، فاسال يا محمد تعط، فقلت: مسالتي شفاعة لامتي يوم القيامة" , فقال ابو بكر: يا رسول الله، وما الشفاعة؟ قال:" اقول: يا رب، شفاعتي التي اختبات عندك، فيقول الرب تبارك وتعالى: نعم , فيخرج ربي تبارك وتعالى بقية امتي من النار، فينبذهم في الجنة" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ دَاوُدَ الصَّنْعَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ رَوْحِ بْنِ زِنْبَاعٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: فَقَدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً أَصْحَابُهُ، وَكَانُوا إِذَا نَزَلُوا أَنْزَلُوهُ أَوْسَطَهُمْ، فَفَزِعُوا وَظَنُّوا أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى اخْتَارَ لَهُ أَصْحَابًا غَيْرَهُمْ، فَإِذَا هُمْ بِخَيَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَبَّرُوا حِينَ رَأَوْهُ، وَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَشْفَقْنَا أَنْ يَكُونَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى اخْتَارَ لَكَ أَصْحَابًا غَيْرَنَا! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا، بَلْ أَنْتُمْ أَصْحَابِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَيْقَظَنِي، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا رَسُولًا إِلَّا وَقَدْ سَأَلَنِي مَسْأَلَةً أَعْطَيْتُهَا إِيَّاهُ، فَاسْأَلْ يَا مُحَمَّدُ تُعْطَ، فَقُلْتُ: مَسْأَلَتِي شَفَاعَةٌ لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ" , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الشَّفَاعَةُ؟ قَالَ:" أَقُولُ: يَا رَبِّ، شَفَاعَتِي الَّتِي اخْتَبَأْتُ عِنْدَكَ، فَيَقُولُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: نَعَمْ , فَيُخْرِجُ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَقِيَّةَ أُمَّتِي مِنَ النَّارِ، فَيَنْبِذُهُمْ فِي الْجَنَّةِ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ جب کسی جگہ پڑاؤ کرتے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے درمیان رکھتے تھے لوگ گھبرا گئے اور یہ گمان کرنے لگے کہ شاید اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہمارے علاوہ کچھ اور ساتھیوں کا انتخاب فرما لیا ہے ابھی وہ انہی تفکرات میں غلطاں و بیچاں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہوئے دکھائی دیئے لوگوں نے خوشی سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم تو ڈر ہی گئے تھے کہ کہیں اللہ نے ہمارے علاوہ آپ کے لئے کچھ اور ساتھیوں کا انتخاب نہ فرما لیا ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی بات نہیں ہے بلکہ تم دنیا و آخرت میں میرے ساتھی ہو بات در اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جگا کر فرمایا اے محمد! میں نے جو بھی نبی یا رسول بھیجا اس نے ایک سوال کیا جو میں نے پورا کردیا اس لئے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی مجھ سے مانگئے آپ کو بھی دیا جائے گا میں نے عرض کیا کہ میری درخواست یہ ہے کہ قیامت کے دن میری امت کے حق میں مجھے سفارش کی اجازت دی جائے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! اس شفاعت کا ثمرہ کیا ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بارگاہ الٰہی میں عرض کروں گا کہ پروردگار! میری وہ سفارش جو میں نے آپ کے پاس محفوظ کروائی تھی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہاں! پھر میرا پروردگار میری بقیہ امت کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، راشد بن داود لين الحديث