الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
1172. تتمة مسند عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
حدیث نمبر: 25841
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا بهز , قال: حدثنا حماد بن سلمة , قال: اخبرني ابو عمران الجوني ، عن يزيد بن بابنوس , قال: ذهبت انا وصاحب لي إلى عائشة , فاستاذنا عليها , فالقت لنا وسادة وجذبت إليها الحجاب , فقال صاحبي: يا ام المؤمنين ما تقولين في العراك، قالت: وما العراك؟ وضربت منكب صاحبي , فقالت: مه آذيت اخاك , ثم قالت: ما العراك؟ المحيض؟ قولوا: ما قال الله المحيض , ثم قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوشحني وينال من راسي , وبيني وبينه ثوب وانا حائض" . ثم قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا مر ببابي مما يلقي الكلمة ينفع الله عز وجل بها , فمر ذات يوم , فلم يقل شيئا , ثم مر ايضا فلم يقل شيئا مرتين او ثلاثا , قلت: يا جارية ضعي لي وسادة على الباب , وعصبت راسي , فمر بي , فقال: " يا عائشة ما شانك" , فقلت: اشتكي راسي , فقال:" انا وا راساه" , فذهب فلم يلبث إلا يسيرا حتى جيء به محمولا في كساء , فدخل علي وبعث إلى النساء , فقال:" إني قد اشتكيت , وإني لا استطيع ان ادور بينكن , فائذن لي فلاكن عند عائشة , او صفية , ولم امرض احدا قبله , فبينما راسه ذات يوم على منكبي إذ مال راسه نحو راسي , فظننت انه يريد من راسي حاجة , فخرجت من فيه نطفة باردة , فوقعت على ثغرة نحري , فاقشعر لها جلدي , فظننت انه غشي عليه , فسجيته ثوبا , فجاء عمر والمغيرة بن شعبة , فاستاذنا , فاذنت لهما , وجذبت إلي الحجاب , فنظر عمر إليه , فقال: واغشياه , ما اشد غشي رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم قاما , فلما دنوا من الباب , قال المغيرة: يا عمر , مات رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: كذبت , بل انت رجل تحوسك فتنة , إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يموت حتى يفني الله عز وجل المنافقين , ثم جاء ابو بكر , فرفعت الحجاب , فنظر إليه , فقال: إنا لله وإنا إليه راجعون , مات رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم اتاه من قبل راسه , فحدر فاه , وقبل جبهته , ثم قال: وانبياه , ثم رفع راسه , ثم حدر فاه , وقبل جبهته , ثم قال: واصفياه , ثم رفع راسه , وحدر فاه , وقبل جبهته , وقال: واخليلاه , مات رسول الله صلى الله عليه وسلم , فخرج إلى المسجد وعمر يخطب الناس ويتكلم , ويقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يموت , حتى يفني الله عز وجل المنافقين , فتكلم ابو بكر , فحمد الله واثنى عليه , ثم قال: إن الله عز وجل يقول إنك ميت وإنهم ميتون سورة الزمر آية 30 , حتى فرغ من الآية وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل افإن مات او قتل انقلبتم على اعقابكم سورة آل عمران آية 144 حتى فرغ من الآية , فمن كان يعبد الله عز وجل , فإن الله حي , ومن كان يعبد محمدا , فإن محمدا قد مات , فقال عمر: وإنها لفي كتاب الله؟ ما شعرت انها في كتاب الله , ثم قال عمر: يا ايها الناس , هذا ابو بكر , وهو ذو شيبة المسلمين فبايعوه , فبايعوه" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ , قَال: َحَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ بَابَنُوسَ , قَالَ: ذَهَبْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي إِلَى عَائِشَةَ , فَاسْتَأْذَنَّا عَلَيْهَا , فَأَلْقَتْ لَنَا وَسَادَةً وَجَذَبَتْ إِلَيْهَا الْحِجَابَ , فَقَالَ صَاحِبِي: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ مَا تَقُولِينَ فِي الْعِرَاكِ، قَالَتْ: وَمَا الْعِرَاكُ؟ وَضَرَبْتُ مَنْكِبَ صَاحِبِي , فَقَالَت: مَهْ آذَيْتَ أَخَاكَ , ثُمّ قَالَتْ: مَا الْعِرَاكُ؟ الْمَحِيضُ؟ قُولُوا: مَا قَالَ اللَّهُ الْمَحِيضُ , ثُمّ قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَشَّحُنِي وَيَنَالُ مِنْ رَأْسِي , وَبَيْنِي وَبَيْنَهُ ثَوْبٌ وَأَنَا حَائِضٌ" . ثُمَّ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرَّ بِبَابِي مِمَّا يُلْقِي الْكَلِمَةَ يَنْفَعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا , فَمَرَّ ذَاتَ يَوْمٍ , فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا , ثُمَّ مَرَّ أَيْضًا فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا , قُلْتُ: يَا جَارِيَةُ ضَعِي لِي وِسَادَةً عَلَى الْبَابِ , وَعَصَبْتُ رَأْسِي , فَمَرَّ بِي , فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ مَا شَأْنُكِ" , فَقُلْتُ: أَشْتَكِي رَأْسِي , فَقَالَ:" أَنَا وَا رَأْسَاهْ" , فَذَهَبَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى جِيءَ بِهِ مَحْمُولًا فِي كِسَاءٍ , فَدَخَلَ عَلَيَّ وَبَعَثَ إِلَى النِّسَاءِ , فَقَالَ:" إِنِّي قَدْ اشْتَكَيْتُ , وَإِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَدُورَ بَيْنَكُنَّ , فَائْذَنَّ لِي فَلْأَكُنْ عِنْدَ عَائِشَةَ , أَوْ صَفِيَّةَ , وَلَمْ أُمَرِّضْ أَحَدًا قَبْلَهُ , فَبَيْنَمَا رَأْسُهُ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى مَنْكِبَيَّ إِذْ مَالَ رَأْسُهُ نَحْوَ رَأْسِي , فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُ مِنْ رَأْسِي حَاجَةً , فَخَرَجَتْ مِنْ فِيهِ نُطْفَةٌ بَارِدَةٌ , فَوَقَعَتْ عَلَى ثُغْرَةِ نَحْرِي , فَاقْشَعَرَّ لَهَا جِلْدِي , فَظَنَنْتُ أَنَّهُ غُشِيَ عَلَيْهِ , فَسَجَّيْتُهُ ثَوْبًا , فَجَاءَ عُمَرُ وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ , فَاسْتَأْذَنَا , فَأَذِنْتُ لَهُمَا , وَجَذَبْتُ إِلَيَّ الْحِجَابَ , فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَيْهِ , فَقَالَ: وَاغَشْيَاهْ , مَا أَشَدُّ غَشْيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ قَامَا , فَلَمَّا دَنَوَا مِنَ الْبَابِ , قَالَ الْمُغِيرَةُ: يَا عُمَرُ , مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: كَذَبْتَ , بَلْ أَنْتَ رَجُلٌ تَحُوسُكَ فِتْنَةٌ , إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَمُوتُ حَتَّى يُفْنِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُنَافِقِينَ , ثُمَّ جَاءَ أَبُو بَكْرٍ , فَرَفَعْتُ الْحِجَابَ , فَنَظَرَ إِلَيْهِ , فَقَالَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ , مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ أَتَاهُ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ , فَحَدَرَ فَاهُ , وَقَبَّلَ جَبْهَتَهُ , ثُمَّ قَالَ: وَانَبِيَّاهْ , ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ , ثُمَّ حَدَرَ فَاهُ , وَقَبَّلَ جَبْهَتَهُ , ثُمَّ قَالَ: وَاصَفِيَّاهْ , ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ , وَحَدَرَ فَاهُ , وَقَبَّلَ جَبْهَتَهُ , وَقَالَ: وَاخَلِيلَاهْ , مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَعُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ وَيَتَكَلَّمُ , وَيَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَمُوتُ , حَتَّى يُفْنِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُنَافِقِينَ , فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ , فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ , ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ سورة الزمر آية 30 , حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْآيَةِ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ سورة آل عمران آية 144 حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْآيَةِ , فَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ , فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ , وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا , فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ , فَقَالَ عُمَرُ: وَإِنَّهَا لَفِي كِتَابِ اللَّهِ؟ مَا شَعَرْتُ أَنَّهَا فِي كِتَابِ اللَّهِ , ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ , هَذَا أَبُو بَكْرٍ , وَهُوَ ذُو شَيْبَةِ الْمُسْلِمِينَ فَبَايِعُوهُ , فَبَايَعُوهُ" .
یزید بن بابنوس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے ساتھی کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اجازت طلب کی، انہوں نے ہمارے لئے تکیہ رکھا اور خود اپنی طرف پردہ کھینچ لیا، پھر میرے ساتھی نے پوچھا کہ اے ام المومنین! " عراک " کے متعلق آپ کیا فرماتی ہیں! انہوں نے فرمایا عراک کیا ہوتا ہے؟ میں نے اپنے ساتھی کے کندھے پر ہاتھ مارا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روکتے ہوئے فرمایا تم نے اپنے بھائی کو ایذا پہنچائی، پھر فرمایا عراک سے کیا مراد ہے؟ حیض، تو سیدھا سیدھا وہ لفظ بولو جو اللہ نے استعمال کیا ہے، یعنی حیض، بعض اوقات میں حائضہ ہوتی تھی لیکن پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ڈھانپ لیتے تھے اور میرے سر کو بوسہ دے دیا کرتے تھے اور میرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان پردہ حائل ہوتا تھا۔ پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب میرے گھر کے دروازے سے گزرتے تھے تو کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ دیتے تھے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے فائدہ پہنچا دیتے تھے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے تو کچھ نہیں کہا، دو تین مرتبہ جب اسی طرح ہوا تو میں نے اپنی باندی سے کہا کہ میرے لئے دروازے پر تکیہ لگا دو اور میں اپنے سر پر پٹی باندھ کر وہاں بیٹھ گئی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے تو فرمایا عائشہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا میرے سر میں درد ہو رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بھی سر میں درد ہو رہا ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے، تھوڑی دیر گزری تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ چادر میں لپیٹ کر اٹھائے چلے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں رہے اور دیگر ازواج کے پاس یہ پیغام بھجوا دیا کہ میں بیمار ہوں اور تم میں سے ہر ایک کے پاس باری باری آنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے اس لئے تم اگر مجھے اجازت دے دو تو میں عائشہ کے یہاں رک جاؤں؟ ان سب نے اجازت دے دی اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمارداری کرنے لگی حالانکہ اس سے پہلے میں نے کبھی کسی کی تیماداری نہیں کی تھی۔ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک میرے کندھے پر رکھا ہوا تھا کہ اچانک سر مبارک میرے سر کی جانب ڈھک گیا میں سمجھی کہ شاید آپ میرے سر کو بوسہ دینا چاہتے ہیں، لیکن اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے لعاب کا ایک قطرہ نکلا اور میرے سینے پر آٹپکا، میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں سمجھی کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہوگئی ہے چنانچہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چادر اوڑھا دی، اسی دوران حضرت عمر اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ آگئے، انہوں نے اجازت طلب کی، میں نے انہیں اجازت دے دی اور اپنی طرف پردہ کھینچ لیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہا ہائے غشی! نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی کی شدت کتنی ہے، تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے جب وہ دونوں دروازے کے قریب پہنچے تو مغیرہ بن شعبہ کہنے لگے اے عمر! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم غلط کہتے ہو، بلکہ تم فتنہ پرور آدمی ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ منافقین کی ختم نہ کر دے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی آگئے، میں نے حجاب اٹھا دیا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر " اناللہ وانا الیہ راجعون " پڑھا اور کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے۔ پھر سرہانے کی جانب سے آئے اور منہ مبارک پر جھک کر پیشانی کو بوسہ دیا اور کہنے لگے ہائے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تین مرتبہ اسی طرح کیا اور دوسری مرتبہ ہائے میرے دوست اور تیسری مرتبہ ہائے میرے خلیل کہا، پھر مسجد کی طرف نکلے، اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے سامنے تقریر اور گفتگو کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ منافقین کو ختم نہ فرما دے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی اور اللہ کی حمدوثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " آپ بھی دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ " محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے رسول ہیں جن سے پہلے بھی بہت رسول گذر چکے ہیں، کیا اگر وہ فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو تم ایڑیوں کے بل لوٹ جاؤ گے "۔۔۔۔۔ سو جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ وہ فوت ہوگئے ہیں، مذکورہ آیات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا یہ آیات کتاب اللہ میں موجود ہیں؟ میرا شعور ہی اس طرف نہیں جاسکا کہ یہ آیت بھی کتاب اللہ میں ہی موجود ہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو! یہ ابوبکر ہیں اور مسلمانوں کے بزرگ ہیں اس لئے ان کی بیعت کرلو، چنانچہ لوگوں نے ان کی بیعت کر لی۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.