الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
16. بَابُ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالْفِضَّةِ تِبْرًا وَعَيْنًا
16. سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک
حدیث نمبر: 1339
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه سمع سعيد بن المسيب ، يقول: " قطع الذهب والورق من الفساد في الارض" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، يَقُولُ: " قَطْعُ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ مِنَ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ" .
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سعید بن مسیّب کہتے تھے: روپیہ اشرفی کا کاٹنا گویا ملک میں فساد کرنا ہے۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14594، 14595، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 37»

حدیث نمبر: 1339ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: ولا باس ان يشتري الرجل الذهب بالفضة، والفضة بالذهب جزافا إذا كان تبرا او حليا قد صيغ، فاما الدراهم المعدودة والدنانير المعدودة فلا ينبغي لاحد ان يشتري شيئا من ذلك جزافا حتى يعلم ويعد، فإن اشتري ذلك جزافا فإنما يراد به الغرر حين يترك عده ويشترى جزافا، وليس هذا من بيوع المسلمين، فاما ما كان يوزن من التبر والحلي، فلا باس ان يباع ذلك جزافا، وإنما ابتياع ذلك جزافا كهيئة الحنطة والتمر ونحوهما من الاطعمة التي تباع جزافا ومثلها يكال، فليس بابتياع ذلك جزافا باس. قَالَ مَالِك: وَلَا بَأْسَ أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ، وَالْفِضَّةَ بِالذَّهَبِ جِزَافًا إِذَا كَانَ تِبْرًا أَوْ حَلْيًا قَدْ صِيغَ، فَأَمَّا الدَّرَاهِمُ الْمَعْدُودَةُ وَالدَّنَانِيرُ الْمَعْدُودَةُ فَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَشْتَرِيَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ جِزَافًا حَتَّى يُعْلَمَ وَيُعَدَّ، فَإِنِ اشْتُرِيَ ذَلِكَ جِزَافًا فَإِنَّمَا يُرَادُ بِهِ الْغَرَرُ حِينَ يُتْرَكُ عَدُّهُ وَيُشْتَرَى جِزَافًا، وَلَيْسَ هَذَا مِنْ بُيُوعِ الْمُسْلِمِينَ، فَأَمَّا مَا كَانَ يُوزَنُ مِنَ التِّبْرِ وَالْحَلْيِ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يُبَاعَ ذَلِكَ جِزَافًا، وَإِنَّمَا ابْتِيَاعُ ذَلِكَ جِزَافًا كَهَيْئَةِ الْحِنْطَةِ وَالتَّمْرِ وَنَحْوِهِمَا مِنَ الْأَطْعِمَةِ الَّتِي تُبَاعُ جِزَافًا وَمِثْلُهَا يُكَالُ، فَلَيْسَ بِابْتِيَاعِ ذَلِكَ جِزَافًا بَأْسٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر سونے کو چاندی کے بدلے میں یا چاندی کو سونے کے بدلے میں ڈھیر لگا کر خریدے تو کچھ قباحت نہیں ہے، جب وہ ڈلی ہوں یا زیور ہوں، لیکن روپے اشرفی کا خریدنا بغیر گنے ہوئے جائز نہیں، بلکہ اس میں دھوکا ہے، اور مسلمانوں کے دستور کے خلاف ہے، لیکن سونے چاندی کا ڈلا یا زیور جو تل کے بکتا ہے اس کو اٹکل سے خریدنا، جیسے گیہوں یا کھجور وغیرہ کو خریدتے ہیں برا نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 37»

حدیث نمبر: 1339ب2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: من اشترى مصحفا او سيفا او خاتما وفي شيء من ذلك ذهب او فضة بدنانير او دراهم، فإن ما اشتري من ذلك وفيه الذهب بدنانير فإنه ينظر إلى قيمته، فإن كانت قيمة ذلك الثلثين وقيمة ما فيه من الذهب الثلث، فذلك جائز لا باس به إذا كان ذلك يدا بيد ولا يكون فيه تاخير، وما اشتري من ذلك بالورق مما فيه الورق نظر إلى قيمته، فإن كان قيمة ذلك الثلثين وقيمة ما فيه من الورق الثلث، فذلك جائز لا باس به إذا كان ذلك يدا بيد، ولم يزل ذلك من امر الناس عندناقَالَ مَالِك: مَنِ اشْتَرَى مُصْحَفًا أَوْ سَيْفًا أَوْ خَاتَمًا وَفِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ ذَهَبٌ أَوْ فِضَّةٌ بِدَنَانِيرَ أَوْ دَرَاهِمَ، فَإِنَّ مَا اشْتُرِيَ مِنْ ذَلِكَ وَفِيهِ الذَّهَبُ بِدَنَانِيرَ فَإِنَّهُ يُنْظَرُ إِلَى قِيمَتِهِ، فَإِنْ كَانَتْ قِيمَةُ ذَلِكَ الثُّلُثَيْنِ وَقِيمَةُ مَا فِيهِ مِنَ الذَّهَبِ الثُّلُثَ، فَذَلِكَ جَائِزٌ لَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ يَدًا بِيَدٍ وَلَا يَكُونُ فِيهِ تَأْخِيرٌ، وَمَا اشْتُرِيَ مِنْ ذَلِكَ بِالْوَرِقِ مِمَّا فِيهِ الْوَرِقُ نُظِرَ إِلَى قِيمَتِهِ، فَإِنْ كَانَ قِيمَةُ ذَلِكَ الثُّلُثَيْنِ وَقِيمَةُ مَا فِيهِ مِنَ الْوَرِقِ الثُّلُثَ، فَذَلِكَ جَائِزٌ لَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ يَدًا بِيَدٍ، وَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ عِنْدَنَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص کلام مجید یا تلوار یا انگوٹھی جس میں سونا یا چاندی لگا ہو روپے اشرفی کے بدلے میں خرید کرے، تو دیکھیں گے اگر ان چیزوں میں سونا لگا ہوا ہے اور اشرفیوں کے بدلے میں اس کو خرید کیا، اور اس چیز کی قیمت دو تہائی سے کم نہیں ہے، اور جس قدر سونا اس میں لگا ہوا ہے اس کی قیمت ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہے، تو درست ہے جب نقداً نقد ہو، اسی طرح اگر چاندی لگی ہوئی ہے اور روپیوں کے بدلے میں خرید کیا تب بھی یہی حکم ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 37»


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.