الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب الاستئذان
484. بَابُ إِذَا دَخَلَ بَيْتًا غَيْرَ مَسْكُونٍ
484. بے آباد گھر میں داخل ہونا
حدیث نمبر: 1056
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق، قال‏:‏ حدثنا علي بن الحسين قال‏:‏ حدثني ابي، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس قال‏:‏ ﴿لا تدخلوا بيوتا غير بيوتكم حتى تستانسوا وتسلموا على اهلها‏﴾ [النور: 27]، واستثنى من ذلك، فقال‏: ﴿‏ليس عليكم جناح ان تدخلوا بيوتا غير مسكونة فيها متاع لكم والله يعلم ما تبدون وما تكتمون‏﴾ [النور: 29]‏.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ‏:‏ ﴿لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا‏﴾ [النور: 27]، وَاسْتَثْنَى مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ‏: ﴿‏لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَكُمْ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ‏﴾ [النور: 29]‏.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ﴿لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا‏﴾ اپنے گھر کے سوا کسی کے گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو، اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام کہو۔ اس آیت سے یہ حکم مستثنیٰ ہے جو درج ذیل آیت میں ہے: ﴿‏لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَكُمْ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ‏﴾ تم پر کوئی گناه نہیں کہ اگر تم ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جن میں کوئی نہیں رہتا اور اس گھر میں تمہارا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الطبراني فى تفسيره: 147/19»

قال الشيخ الألباني: صحيح


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1056  
1
فوائد ومسائل:
(۱)سٹور یا حویلی جہاں پر کوئی نہ رہتا ہو اور وہ انسان کی ملکیت ہو تو وہاں بغیر اجازت کے اندر آنا جائز ہے، تاہم وہاں بھی مذکورہ طریقے سے سلام کہنا چاہیے۔
(۲) آیت میں اجازت پہلے اور سلام کا ذکر بعد میں ہے۔ یہ تقدیم و تاخیر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر یوں کی ہے کہ پہلے سلام کہا جائے اور پھر اجازت طلب کی جائے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 1056   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.