الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب الرسائل
532. بَابُ‏:‏ كَيْفَ يُجِيبُ إِذَا قِيلَ لَهُ‏:‏ كَيْفَ أَصْبَحْتَ‏؟‏
532. جب کسی سے حال دریافت کیا جائے تو کیسے جواب دے؟
حدیث نمبر: 1135
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا موسى، قال‏:‏ حدثنا ربعي بن عبد الله بن الجارود الهذلي، قال‏:‏ حدثنا سيف بن وهب قال‏:‏ قال لي ابو الطفيل‏:‏ كم اتى عليك‏؟‏ قلت‏:‏ انا ابن ثلاث وثلاثين، قال‏:‏ افلا احدثك بحديث سمعته من حذيفة بن اليمان‏:‏ إن رجلا من محارب خصفة، يقال له‏:‏ عمرو بن صليع، وكانت له صحبة، وكان بسني يومئذ وانا بسنك اليوم، اتينا حذيفة في مسجد، فقعدت في آخر القوم، فانطلق عمرو حتى قام بين يديه، قال‏:‏ كيف اصبحت، او كيف امسيت يا عبد الله‏؟‏ قال‏:‏ احمد الله، قال‏:‏ ما هذه الاحاديث التي تاتينا عنك‏؟‏ قال‏:‏ وما بلغك عني يا عمرو‏؟‏ قال‏:‏ احاديث لم اسمعها، قال‏:‏ إني والله لو احدثكم بكل ما سمعت ما انتظرتم بي جنح هذا الليل، ولكن يا عمرو بن صليع، إذا رايت قيسا توالت بالشام فالحذر الحذر، فوالله لا تدع قيس عبدا لله مؤمنا إلا اخافته او قتلته، والله لياتين عليهم زمان لا يمنعون فيه ذنب تلعة، قال‏:‏ ما ينصبك على قومك يرحمك الله‏؟‏ قال‏:‏ ذاك إلي، ثم قعد‏.حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا رِبْعِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْجَارُودِ الْهُذَلِيُّ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ وَهْبٍ قَالَ‏:‏ قَالَ لِي أَبُو الطُّفَيْلِ‏:‏ كَمْ أَتَى عَلَيْكَ‏؟‏ قُلْتُ‏:‏ أَنَا ابْنُ ثَلاَثٍ وَثَلاَثِينَ، قَالَ‏:‏ أَفَلاَ أُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ‏:‏ إِنَّ رَجُلاً مِنْ مُحَارِبِ خَصَفَةَ، يُقَالُ لَهُ‏:‏ عَمْرُو بْنُ صُلَيْعٍ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، وَكَانَ بِسِنِّي يَوْمَئِذٍ وَأَنَا بِسِنِّكَ الْيَوْمَ، أَتَيْنَا حُذَيْفَةَ فِي مَسْجِدٍ، فَقَعَدْتُ فِي آخِرِ الْقَوْمِ، فَانْطَلَقَ عَمْرٌو حَتَّى قَامَ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ‏:‏ كَيْفَ أَصْبَحْتَ، أَوْ كَيْفَ أَمْسَيْتَ يَا عَبْدَ اللهِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ أَحْمَدُ اللَّهَ، قَالَ‏:‏ مَا هَذِهِ الأَحَادِيثُ الَّتِي تَأْتِينَا عَنْكَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ وَمَا بَلَغَكَ عَنِّي يَا عَمْرُو‏؟‏ قَالَ‏:‏ أَحَادِيثُ لَمْ أَسْمَعْهَا، قَالَ‏:‏ إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ أُحَدِّثُكُمْ بِكُلِّ مَا سَمِعْتُ مَا انْتَظَرْتُمْ بِي جُنْحَ هَذَا اللَّيْلِ، وَلَكِنْ يَا عَمْرُو بْنَ صُلَيْعٍ، إِذَا رَأَيْتَ قَيْسًا تَوَالَتْ بِالشَّامِ فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ، فَوَاللَّهِ لاَ تَدَعُ قَيْسٌ عَبْدًا لِلَّهِ مُؤْمِنًا إِلاَّ أَخَافَتْهُ أَوْ قَتَلَتْهُ، وَاللَّهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَيْهِمْ زَمَانٌ لاَ يَمْنَعُونَ فِيهِ ذَنَبَ تَلْعَةٍ، قَالَ‏:‏ مَا يَنْصِبُكَ عَلَى قَوْمِكَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ذَاكَ إِلَيَّ، ثُمَّ قَعَدَ‏.
سيف بن وہب سے روایت ہے کہ ابوطفیل نے مجھ سے پوچھا: تمہاری عمر کتنی ہے؟ میں نے کہا: میں تینتیس سال کا ہوں۔ انہوں نے کہا: کیا تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ قصہ یوں ہے کہ بنومحارب بن خصفہ کے ایک آدمی جنہیں عمرو بن صلیع کہا جاتا تھا، اور انہیں شرفِ صحابیت بھی حاصل تھا۔ ان کی عمر اتنی تھی جتنی آج میری ہے، اور میں آج تمہاری عمر کا ہوں۔ ہم سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس مسجد میں آئے اور میں لوگوں کے آخر میں بیٹھ گیا، اور عمرو آگے بڑھ کر ان کے سامنے جا کر کھڑے ہوئے اور کہا: اے عبداللہ! آپ نے صبح کس حال میں کی؟ یا کہا: آپ نے شام کس حال میں کی؟ انہوں نے فرمایا: میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ عمرو نے کہا: آپ کے حوالے سے ہمیں کیا باتیں پہنچ رہی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اے عمرو! تمہیں میرے حوالے سے کیا پہنچا ہے؟ انہوں نے کہا: ایسی احادیث جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنیں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر میں وہ (سب کچھ) تمہیں بیان کروں جو میں نے سنا ہے تو تم رات ہونے تک بھی میرا انتظار نہ کرو۔ لیکن اے عمرو بن صليع! جب تم دیکھو کہ قیس شام میں برسرِ اقتدار آگئے ہیں تو بچ کر رہنا۔ اللہ کی قسم! بنوقیس کسی مومن بندے کو نہیں چھوڑیں گے مگر یا تو اسے ڈرائیں گے یا قتل کر دیں گے۔ اللہ کی قسم! ان پر ایک زمانہ آئے گا کہ ہر طرف ان کا قبضہ ہوگا۔ انہوں نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ اپنی قوم کی کیا مدد کریں گے؟ انہوں نے فرمایا: یہ مجھ پر رہا (کہ میں نے کیا کرنا ہے؟) پھر وہ بیٹھ گئے۔

تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه معمر فى جامعه: 19889 و الحاكم: 516/4 مطولًا و الطيالسي فى مسنده: 421 و ابن أبى شيبة: 37400 و أحمد: 23316 و الطبراني فى مسند الشاميين: 1952 مختصرًا فالأثر صحيح»

قال الشيخ الألباني: صحيح


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1135  
1
فوائد ومسائل:
اس روایت کی سند ضعیف ہے، تاہم اس کے بعد آنے والے الفاظ دیگر شواہد کی بنا پر صحیح ثابت ہیں۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مطلب فتنوں کی نشان دہی تھی جو مستقبل میں اس امت کو پیش آنے والے تھے۔ ان فتنوں کے دور کے حوالے سے جب حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:اس وقت کچھ کہنا قبل از وقت ہے اس وقت دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 1135   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.