الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب المجالس
540. بَابُ يَتَخَطَّى إِلَى صَاحِبِ الْمَجْلِسِ
540. گردنیں پھاند کر صدرِ مجلس کے پاس بیٹھنا
حدیث نمبر: 1143
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا بيان بن عمرو، قال‏:‏ حدثنا النضر، قال‏:‏ اخبرنا ابو عامر المزني هو صالح بن رستم، عن ابن ابي مليكة، عن ابن عباس قال‏:‏ لما طعن عمر رضي الله عنه كنت فيمن حمله حتى ادخلناه الدار، فقال لي‏:‏ يا ابن اخي، اذهب فانظر من اصابني، ومن اصاب معي، فذهبت فجئت لاخبره، فإذا البيت ملآن، فكرهت ان اتخطى رقابهم، وكنت حديث السن، فجلست، وكان يامر إذا ارسل احدا بالحاجة ان يخبره بها، وإذا هو مسجى، وجاء كعب فقال‏:‏ والله لئن دعا امير المؤمنين ليبقينه الله وليرفعنه لهذه الامة حتى يفعل فيها كذا وكذا، حتى ذكر المنافقين فسمى وكنى، قلت‏:‏ ابلغه ما تقول‏؟‏ قال‏:‏ ما قلت إلا وانا اريد ان تبلغه، فتشجعت فقمت، فتخطيت رقابهم حتى جلست عند راسه، قلت‏:‏ إنك ارسلتني بكذا، واصاب معك كذا، ثلاثة عشر، واصاب كليبا الجزار وهو يتوضا عند المهراس، وإن كعبا يحلف بالله بكذا، فقال‏:‏ ادعوا كعبا، فدعي، فقال‏:‏ ما تقول‏؟‏ قال‏:‏ اقول كذا وكذا، قال‏:‏ لا والله لا ادعو، ولكن شقي عمر إن لم يغفر الله له‏.‏حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا النَّضْرُ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْمُزَنِيُّ هُوَ صَالِحُ بْنُ رُسْتُمَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ‏:‏ لَمَّا طُعِنَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كُنْتُ فِيمَنْ حَمَلَهُ حَتَّى أَدْخَلْنَاهُ الدَّارَ، فَقَالَ لِي‏:‏ يَا ابْنَ أَخِي، اذْهَبْ فَانْظُرْ مَنْ أَصَابَنِي، وَمَنْ أَصَابَ مَعِي، فَذَهَبْتُ فَجِئْتُ لِأُخْبِرُهُ، فَإِذَا الْبَيْتُ مَلْآنُ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَخَطَّى رِقَابَهُمْ، وَكُنْتُ حَدِيثَ السِّنِّ، فَجَلَسْتُ، وَكَانَ يَأْمُرُ إِذَا أَرْسَلَ أَحَدًا بِالْحَاجَةِ أَنْ يُخْبِرَهُ بِهَا، وَإِذَا هُوَ مُسَجًّى، وَجَاءَ كَعْبٌ فَقَالَ‏:‏ وَاللَّهِ لَئِنْ دَعَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَيُبْقِيَنَّهُ اللَّهُ وَلَيَرْفَعَنَّهُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ حَتَّى يَفْعَلَ فِيهَا كَذَا وَكَذَا، حَتَّى ذَكَرَ الْمُنَافِقِينَ فَسَمَّى وَكَنَّى، قُلْتُ‏:‏ أُبَلِّغُهُ مَا تَقُولُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ مَا قُلْتُ إِلاَّ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ تُبَلِّغَهُ، فَتَشَجَّعْتُ فَقُمْتُ، فَتَخَطَّيْتُ رِقَابَهُمْ حَتَّى جَلَسْتُ عِنْدَ رَأْسِهِ، قُلْتُ‏:‏ إِنَّكَ أَرْسَلَتْنِي بِكَذَا، وَأَصَابَ مَعَكَ كَذَا، ثَلاَثَةَ عَشَرَ، وَأَصَابَ كُلَيْبًا الْجَزَّارَ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ عِنْدَ الْمِهْرَاسِ، وَإنّ َ كَعْبًا يَحْلِفُ بِاللَّهِ بِكَذَا، فَقَالَ‏:‏ ادْعُوا كَعْبًا، فَدُعِيَ، فَقَالَ‏:‏ مَا تَقُولُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ أَقُولُ كَذَا وَكَذَا، قَالَ‏:‏ لَا وَاللَّهِ لاَ أَدْعُو، وَلَكِنْ شَقِيٌّ عُمَرُ إِنْ لَمْ يَغْفِرِ اللَّهُ لَهُ‏.‏
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو انہیں اٹھا کر گھر لے جانے والوں میں، میں بھی تھا۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا: میرے بھتیجے! جا کر دیکھو کہ کس نے مجھے زخمی کیا ہے اور میرے ساتھ اور کون زخمی ہوا۔ چنانچہ میں گیا اور واپس آیا تو گھر بھرا ہوا تھا۔ میں نے لوگوں کی گردنیں پھلانگنا نا پسند کیا، اور میں کم عمر تھا، لہٰذا بیٹھ گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب کسی کو کام بھیجتے تو اس کو اس بات کی اطلاع کا حکم فرماتے۔ وہ کپڑا لپیٹے ہوئے تھے کہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ آ گئے اور انہوں نے کہا: الله کی قسم! اگر امیر المومنین دعا کریں تو الله تعالیٰ انہیں ضرور زندگی دے گا، اور اس امت کے لیے انہیں ضرور بلندی عطا کرے گا، یہاں تک کہ وہ ایسا ایسا کریں گے۔ یہاں تک کہ انہوں نے منافقین کا ذکر کیا اور بعض کا نام اور بعض کے بارے میں اشارہ کیا۔ میں نے کہا: میں آپ کی بات انہیں بتاؤں؟ انہوں نے کہا: میرے بتانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ تم انہیں یہ بات پہنچاؤ۔ میں ہمت کر کے اٹھا اور لوگوں کی گردنیں پھاندتا ہوا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سرہانے جا بیٹھا۔ میں نے کہا: آپ نے مجھے فلاں کام بھیجا تھا اور آپ کے ساتھ فلاں فلاں تیرہ آدمی زخمی ہوئے ہیں، اور کلیب جزار کو بھی نیزه لگا ہے جبکہ وہ پتھر کے ٹب کے پاس وضو کر رہے تھے۔ اور کعب اللہ کی قسم اٹھا کر اس طرح کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: کعب کو میرے پاس بلاؤ۔ چنانچہ انہیں بلایا گیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: میں یہ کہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم میں دعا نہیں کروں گا لیکن عمر بد بخت ہے اگر اللہ نے اس کی مغفرت نہ کی۔

تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوفًا: أخرجه ابن شبة فى تاريخ المدينة: 909/3 و ابن عساكر فى تاريخ دمشق: 421/44»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوفًا


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1143  
1
فوائد ومسائل:
اس روایت کی سند ضعیف ہے، اس میں ابو عامر صالح بن رستم المزنی راوی ضعیف ہے۔ تاہم کسی شدید ضرورت کے تحت ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ ضرورتیں ناجائز کاموں کو بھی مباح کر دیتی ہیں۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 1143   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.