الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب الجار
66. بَابُ لا يُؤْذِي جَارَهُ
66. (کوئی شخص) اپنے ہمسائے کو اذیت نہ پہنچائے
حدیث نمبر: 120
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن يزيد، قال‏:‏ حدثنا عبد الرحمن بن زياد قال‏:‏ حدثني عمارة بن غراب، ان عمة له حدثته، انها سالت عائشة ام المؤمنين رضي الله عنها، فقالت‏:‏ إن زوج إحدانا يريدها فتمنعه نفسها، إما ان تكون غضبى او لم تكن نشيطة، فهل علينا في ذلك من حرج‏؟‏ قالت‏:‏ نعم، إن من حقه عليك ان لو ارادك وانت على قتب لم تمنعيه، قالت‏:‏ قلت لها‏:‏ إحدانا تحيض، وليس لها ولزوجها إلا فراش واحد او لحاف واحد، فكيف تصنع‏؟‏ قالت‏:‏ لتشد عليها إزارها ثم تنام معه، فله ما فوق ذلك، مع اني سوف اخبرك ما صنع النبي صلى الله عليه وسلم:‏ إنه كان ليلتي منه، فطحنت شيئا من شعير، فجعلت له قرصا، فدخل فرد الباب، ودخل إلى المسجد، وكان إذا اراد ان ينام اغلق الباب، واوكا القربة، واكفا القدح، واطفا المصباح، فانتظرته ان ينصرف فاطعمه القرص، فلم ينصرف، حتى غلبني النوم، واوجعه البرد، فاتاني فاقامني ثم قال‏:‏ ”ادفئيني ادفئيني“، فقلت له‏:‏ إني حائض، فقال‏:‏ ”وإن، اكشفي عن فخذيك“، فكشفت له عن فخذي، فوضع خده وراسه على فخذي حتى دفئ‏.‏ فاقبلت شاة لجارنا داجنة فدخلت، ثم عمدت إلى القرص فاخذته، ثم ادبرت به‏.‏ قالت‏:‏ وقلقت عنه، واستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم فبادرتها إلى الباب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:‏ ”خذي ما ادركت من قرصك، ولا تؤذي جارك في شاته.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ غُرَابٍ، أَنَّ عَمَّةً لَهُ حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ‏:‏ إِنَّ زَوْجَ إِحْدَانَا يُرِيدُهَا فَتَمْنَعُهُ نَفْسَهَا، إِمَّا أَنْ تَكُونَ غَضَبَى أَوْ لَمْ تَكُنْ نَشِيطَةً، فَهَلْ عَلَيْنَا فِي ذَلِكَ مِنْ حَرَجٍ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ نَعَمْ، إِنَّ مِنْ حَقِّهِ عَلَيْكِ أَنْ لَوْ أَرَادَكِ وَأَنْتِ عَلَى قَتَبٍ لَمْ تَمْنَعِيهِ، قَالَتْ‏:‏ قُلْتُ لَهَا‏:‏ إِحْدَانَا تَحِيضُ، وَلَيْسَ لَهَا وَلِزَوْجِهَا إِلاَّ فِرَاشٌ وَاحِدٌ أَوْ لِحَافٌ وَاحِدٌ، فَكَيْفَ تَصْنَعُ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ لِتَشُدَّ عَلَيْهَا إِزَارَهَا ثُمَّ تَنَامُ مَعَهُ، فَلَهُ مَا فَوْقَ ذَلِكَ، مَعَ أَنِّي سَوْفَ أُخْبِرُكِ مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ إِنَّهُ كَانَ لَيْلَتِي مِنْهُ، فَطَحَنْتُ شَيْئًا مِنْ شَعِيرٍ، فَجَعَلْتُ لَهُ قُرْصًا، فَدَخَلَ فَرَدَّ الْبَابَ، وَدَخَلَ إِلَى الْمَسْجِدِ، وَكَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ أَغْلَقَ الْبَابَ، وَأَوْكَأَ الْقِرْبَةَ، وَأَكْفَأَ الْقَدَحَ، وَأطْفَأَ الْمِصْبَاحَ، فَانْتَظَرْتُهُ أَنْ يَنْصَرِفَ فَأُطْعِمُهُ الْقُرْصَ، فَلَمْ يَنْصَرِفْ، حَتَّى غَلَبَنِي النَّوْمُ، وَأَوْجَعَهُ الْبَرْدُ، فَأَتَانِي فَأَقَامَنِي ثُمَّ قَالَ‏:‏ ”أَدْفِئِينِي أَدْفِئِينِي“، فَقُلْتُ لَهُ‏:‏ إِنِّي حَائِضٌ، فَقَالَ‏:‏ ”وَإِنْ، اكْشِفِي عَنْ فَخِذَيْكِ“، فَكَشَفْتُ لَهُ عَنْ فَخِذَيَّ، فَوَضَعَ خَدَّهُ وَرَأْسَهُ عَلَى فَخِذَيَّ حَتَّى دَفِئَ‏.‏ فَأَقْبَلَتْ شَاةٌ لِجَارِنَا دَاجِنَةٌ فَدَخَلَتْ، ثُمَّ عَمَدَتْ إِلَى الْقُرْصِ فَأَخَذَتْهُ، ثُمَّ أَدْبَرَتْ بِهِ‏.‏ قَالَتْ‏:‏ وَقَلِقْتُ عَنْهُ، وَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَادَرْتُهَا إِلَى الْبَابِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”خُذِي مَا أَدْرَكْتِ مِنْ قُرْصِكِ، وَلاَ تُؤْذِي جَارَكِ فِي شَاتِهِ.“
حضرت عمارہ بن غراب سے روایت ہے کہ انہیں ان کی ایک پھوپھی نے بتایا کہ اس نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ہم میں سے کسی عورت کا خاوند اس کا ارادہ کرتا ہے، یعنی ہم بستری کے لیے بلاتا ہے اور وہ اسے روک دیتی ہے، غصے کی وجہ سے یا اس کا دل نہیں چاہتا، تو کیا اس صورت میں ہم پر گناه ہو گا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! خاوند کا تجھ پر حق ہے کہ اگر وہ تجھے مباشرت کے لیے بلائے تو اسے مت روکو، خواہ تم کجاوے کی لکڑی پر ہی ہو۔ وہ (راویہ) کہتی ہیں: میں نے ان سے کہا: ہم میں سے اگر کوئی عورت حالت حیض میں ہو، اور اس کا اور اس کے خاوند کا ایک ہی بستر کا لحاف ہو تو اس صورت میں کیا کرے؟ انہوں نے فرمایا: وہ اپنا تہبند اچھی طرح باندھ لے اور خاوند کے ساتھ سو جائے، اس کے لیے تہبند کے اوپر سے استمتاع جائز ہے۔ میں تمہیں بتاتی ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا۔ ایک رات میری باری تھی۔ میں نے کچھ جَو پیس کر ٹکیہ بنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دروازہ بند کر کے مسجد چلے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کا ارادہ فرماتے تو دروازہ بند کر دیتے، مشکیزے کا تسمہ باندھ دیتے، پیالے کو الٹ دیتے اور چراغ بجھا دیتے۔ میں آپ کی واپسی کا انتظار کرتی رہی کہ آپ کو وہ ٹکیہ کھلاؤں لیکن آپ (جلد) واپس تشریف نہ لائے اور مجھے نیند آ گئی۔ جب آپ کو سردی محسوس ہوئی تو آپ میرے پاس آئے اور مجھے اٹھایا پھر فرمایا: مجھے گرماؤ، مجھے گرماؤ۔ میں نے عرض کیا: مجھے حیض آ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا اپنی ران کھول دو۔ میں نے آپ کے لیے اپنی ران کھول دی۔ آپ نے اپنا رخسار اور سر میری ران پر رکھ دیا یہاں تک کہ آپ گرم ہو گئے۔ اتنے میں ہمارے ہمسائے کی بکری کا بچہ اندر گھس آیا اور ٹکیہ کی طرف بڑھ کر اسے پکڑ لیا اور پھر چلا گیا۔ وہ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں: مجھے بڑی تشویش ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے تو میں جلدی سے دروازے کی طرف گئی (تاکہ وہ ٹکیہ بکری کے بچہ سے پکڑ سکوں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ٹکیہ جتنی بچی ہے وہ پکڑ لو اور ہمسائی کو بکری کی وجہ سے تکلیف نہ پہنچانا۔

تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن أبى عمر كما فى المطالب العاليه: 488/11 و أبوداؤد: 270 و البيهقي فى الكبرىٰ: 313/1، مختصرًا»

قال الشيخ الألباني: ضعيف


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 120  
1
فوائد ومسائل:
یہ روایت سخت ضعیف ہے اس لیے اس میں مذکور باتوں کو بنیاد بناکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کو مطعون کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ اس کی سند میں عبدالرحمن بن زیاد افریقی ضعیف ہے۔ عمارہ بن غراب مجمول ہے اور اس کی پھوپھی بھی مجمول ہے۔ (فضل اللہ الصمد، ص:۱۸۸، ج:۱)
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 120   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.