(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، واحمد بن منيع، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يبيع حاضر لباد دعوا الناس يرزق الله بعضهم من بعض ". قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، وحديث جابر في هذا هو حديث حسن صحيح ايضا، والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، كرهوا ان يبيع حاضر لباد، ورخص بعضهم في ان يشتري حاضر لباد، وقال الشافعي: يكره ان يبيع حاضر لباد، وإن باع فالبيع جائز.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ دَعُوا النَّاسَ يَرْزُقُ اللَّهُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ جَابِرٍ فِي هَذَا هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، كَرِهُوا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي أَنْ يَشْتَرِيَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: يُكْرَهُ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَإِنْ بَاعَ فَالْبَيْعُ جَائِزٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی گاؤں والے کا سامان نہ فروخت کرے، تم لوگوں کو (ان کا سامان خود بیچنے کے لیے) چھوڑ دو۔ اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ۲- اس باب میں جابر کی حدیث بھی حسن صحیح ہے۔ ۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا سامان بیچے، ۴- اور بعض لوگوں نے رخصت دی ہے کہ شہری دیہاتی کے لیے سامان خرید سکتا ہے۔ ۵- شافعی کہتے ہیں کہ شہری کا دیہاتی کے سامان کو بیچنا مکروہ ہے اور اگر وہ بیچ دے تو بیع جائز ہو گی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 6 (1522)، سنن ابن ماجہ/التجارات 15 (2177)، (تحفة الأشراف: 2764)، مسند احمد (3/307) (صحیح) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکور)، سنن ابی داود/ البیوع 47 (2442)، سنن النسائی/البیوع 17 (4500)، مسند احمد 3/312، 386، 392) من غیر ہذا الوجہ۔»