الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
34. مسنَد اَنَسِ بنِ مَالِك رَضِیَ اللَّه عَنه
حدیث نمبر: 12402
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم ، وعفان المعنى ، قالا: حدثنا سليمان ، عن ثابت ، قال: كنا عند انس بن مالك ، فكتب كتابا بين اهله، فقال: اشهدوا يا معشر القراء، قال ثابت: فكاني كرهت ذلك، فقلت: يا ابا حمزة، لو سميتهم باسمائهم، قال: وما باس ذلك ان اقول لكم قراء، افلا احدثكم عن إخوانكم الذين كنا نسميهم على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم القراء؟ فذكر انهم كانوا سبعين، فكانوا إذا جنهم الليل، انطلقوا إلى معلم لهم بالمدينة، فيدرسون الليل حتى يصبحوا، فإذا اصبحوا فمن كانت له قوة استعذب من الماء، واصاب من الحطب، ومن كانت عنده سعة اجتمعوا فاشتروا الشاة فاصلحوها، فيصبح ذلك معلقا بحجر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما اصيب خبيب بعثهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتوا على حي من بني سليم وفيهم خالي حرام، فقال حرام لاميرهم: دعني فلاخبر هؤلاء انا لسنا إياهم نريد، حتى يخلوا وجهنا، وقال عفان: فيخلون وجهنا، فقال لهم حرام: إنا لسنا إياكم نريد، فاستقبله رجل بالرمح، فانفذه منه، فلما وجد الرمح في جوفه، قال: الله اكبر، فزت ورب الكعبة، قال: فانطووا عليهم، فما بقي منهم احد، فقال انس: فما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد على شيء قط، وجده عليهم، فلقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الغداة" رفع يديه فدعا عليهم"، فلما كان بعد ذلك، إذا ابو طلحة يقول لي: هل لك في قاتل حرام؟، قال: قلت له: ما له فعل الله به وفعل؟، قال: مهلا، فإنه قد اسلم، وقال عفان: رفع يديه يدعو عليهم، وقال ابو النضر: رفع يديه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، وَعَفَّانُ المعنى ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، فَكَتَبَ كِتَابًا بَيْنَ أَهْلِهِ، فَقَالَ: اشْهَدُوا يَا مَعْشَرَ الْقُرَّاءِ، قَالَ ثَابِتٌ: فَكَأَنِّي كَرِهْتُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، لَوْ سَمَّيْتَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ، قَالَ: وَمَا بَأْسُ ذَلِكَ أَنْ أَقوُلَ لَكُمْ قُرَّاءٌ، أَفَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنْ إِخْوَانِكُمْ الَّذِينَ كُنَّا نُسَمِّيهِمْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرَّاءَ؟ فَذَكَرَ أَنَّهُمْ كَانُوا سَبْعِينَ، فَكَانُوا إِذَا جَنَّهُمْ اللَّيْلُ، انْطَلَقُوا إِلَى مُعَلِّمٍ لَهُمْ بِالْمَدِينَةِ، فَيَدْرُسُونَ اللَّيْلَ حَتَّى يُصْبِحُوا، فَإِذَا أَصْبَحُوا فَمَنْ كَانَتْ لَهُ قُوَّةٌ اسْتَعْذَبَ مِنَ الْمَاءِ، وَأَصَابَ مِنَ الْحَطَبِ، وَمَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ سَعَةٌ اجْتَمَعُوا فَاشْتَرَوْا الشَّاةَ فَأَصْلَحُوهَا، فَيُصْبِحُ ذَلِكَ مُعَلَّقًا بِحُجَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُصِيبَ خُبَيْبٌ بَعَثَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَوْا عَلَى حَيٍّ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ وَفِيهِمْ خَالِي حَرَامٌ، فَقَالَ حَرَامٌ لِأَمِيرِهِمْ: دَعْنِي فَلْأُخْبِرْ هَؤُلَاءِ أَنَّا لَسْنَا إِيَّاهُمْ نُرِيدُ، حَتَّى يُخَلُّوا وَجْهَنَا، وَقَالَ عَفَّانُ: فَيُخَلُّونَ وَجْهَنَا، فَقَالَ لَهُمْ حَرَامٌ: إِنَّا لَسْنَا إِيَّاكُمْ نُرِيدُ، فَاسْتَقْبَلَهُ رَجُلٌ بِالرُّمْحِ، فَأَنْفَذَهُ مِنْهُ، فَلَمَّا وَجَدَ الرُّمْحَ فِي جَوْفِهِ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: فَانْطَوَوْا عَلَيْهِمْ، فَمَا بَقِيَ مِنْهُمْ أَحَدٌ، فَقَالَ أَنَسٌ: فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ عَلَى شَيْءٍ قَطُّ، وَجْدَهُ عَلَيْهِمْ، فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ" رَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ"، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، إِذَا أَبُو طَلْحَةَ يَقُولُ لِي: هَلْ لَكَ فِي قَاتِلِ حَرَامٍ؟، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: مَا لَهُ فَعَلَ اللَّهُ بِهِ وَفَعَلَ؟، قَالَ: مَهْلًا، فَإِنَّهُ قَدْ أَسْلَمَ، وَقَالَ عَفَّانُ: رَفَعَ يَدَيْهِ يَدْعُو عَلَيْهِمْ، وقَالَ أَبُو النَّضْرِ: رَفَعَ يَدَيْهِ.
ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے اپنے اہل خانہ کے لئے ایک خط لکھا اور فرمایا اے گروہ قراء! تم اس پر گواہ رہو، مجھے یہ بات اچھی نہ لگی، میں نے عرض کیا کہ اے ابوحمزہ! اگر آپ ان کے نام بتادیں تو کیا ہی اچھا ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے تمہیں قراء کہہ دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیا میں تمہیں اپنے ان بھائیوں کا واقعہ نہ سناؤں جنہیں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں قراء کہتے تھے۔ وہ ستر افراد تھے، جو رات ہونے پر مدینہ منورہ میں اپنے ایک استاذ کے پاس چلے جاتے اور صبح ہونے تک ساری رات پڑھتے رہتے، صبح ہونے کے بعد جس میں ہمت ہوتی وہ میٹھا پانی پی کر لکڑیاں کاٹنے چلا جاتا، جن لوگوں کے پاس گنجائش نہ ہوتی وہ اکٹھے ہو کر بکری خرید کر اسے کاٹ کر صاف ستھرا کرتے اور صبح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجروں کے پاس اسے لٹکا دیتے۔ جب حضرت خبیب رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روانہ فرمایا: یہ لوگ بنی سلیم کے ایک قبیلے میں پہنچے، ان میں میرے ایک ماموں "" حرام "" بھی تھے، انہوں نے اپنے امیر سے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں انہیں جا کر بتادوں کہ ہم ان سے کوئی تعرض نہیں کرنا چاہتے تاکہ یہ ہمارا راستہ چھوڑ دیں اور اجازت لے کر ان لوگوں سے یہی کہا، ابھی وہ یہ پیغام دے ہی رہے تھے کہ سامنے سے ایک آدمی ایک نیزہ لے کر آیا اور ان کے آر پار کردیا، جب وہ نیزہ ان کے پیٹ میں گھونپا گیا تو وہ یہ کہتے ہوئے گرپڑے اللہ اکبر، رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا، پھر ان پر حملہ ہوا اور ان میں سے ایک آدمی بھی باقی نہ بچا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے اس واقعے پر جتنا غمگین دیکھا، کسی اور واقعے پر اتنا غمگین نہیں دیکھا اور میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز میں ہاتھ اٹھا کر ان کے خلاف بددعاء فرماتے تھے، کچھ عرصے بعد حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں "" حرام "" کے قاتل کا پتہ بتاؤں؟ میں نے کہا ضرور بتائیے، اللہ اس کے ساتھ ایسا ایسا کرے، انہوں نے فرمایا رکو، کیونکہ وہ مسلمان ہوگیا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4092


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.