الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
34. مسنَد اَنَسِ بنِ مَالِك رَضِیَ اللَّه عَنه
حدیث نمبر: 12409
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، قال: سمعت ثابتا يحدث، عن انس ، قال: لما افتتح رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر، قال الحجاج بن علاط: يا رسول الله، إن لي بمكة مالا، وإن لي بها اهلا، وإني اريد ان آتيهم، فانا في حل إن انا نلت منك او قلت شيئا؟" فاذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقول ما شاء"، فاتى امراته حين قدم، فقال: اجمعي لي ما كان عندك، فإني اريد ان اشتري من غنائم محمد واصحابه، فإنهم قد استبيحوا، واصيبت اموالهم، قال ففشا ذلك في مكة، فانقمع المسلمون، واظهر المشركون فرحا وسرورا، قال: وبلغ الخبر العباس فعقر، وجعل لا يستطيع ان يقوم، قال معمر: فاخبرني عثمان الجزري عن مقسم، قال: فاخذ ابنا له، يقال له: قثم، فاستلقى فوضعه على صدره، وهو يقول: حبي قثم شبيه ذي الانف الاشم نبي ذي النعم برغم من رغم، قال ثابت، عن انس: ثم ارسل غلاما إلى الحجاج بن علاط: ويلك، ما جئت به وماذا تقول؟ فما وعد الله خير مما جئت به، قال الحجاج بن علاط لغلامه: اقرا على ابي الفضل السلام، وقل له: فليخل لي في بعض بيوته لآتيه، فإن الخبر على ما يسره، فجاء غلامه، فلما بلغ باب الدار، قال: ابشر يا ابا الفضل، قال: فوثب العباس فرحا حتى قبل بين عينيه، فاخبره ما قال الحجاج، فاعتقه، قال: ثم جاءه الحجاج، فاخبره ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد افتتح خيبر، وغنم اموالهم، وجرت سهام الله عز وجل في اموالهم، واصطفى رسول الله صلى الله عليه وسلم صفية بنت حيي فاتخذها لنفسه، وخيرها ان يعتقها وتكون زوجته، او تلحق باهلها، فاختارت ان يعتقها وتكون زوجته، ولكني جئت لمال كان لي هاهنا اردت ان اجمعه فاذهب به، فاستاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاذن لي ان اقول ما شئت، فاخف عني ثلاثا، ثم اذكر ما بدا لك، قال: فجمعت امراته ما كان عندها من حلي ومتاع، فجمعته فدفعته إليه، ثم انشمر به، فلما كان بعد ثلاث اتى العباس امراة الحجاج، فقال: ما فعل زوجك؟ فاخبرته انه قد ذهب يوم كذا وكذا، وقالت: لا يخزيك الله يا ابا الفضل، لقد شق علينا الذي بلغك، قال: اجل لا يخزني الله، ولم يكن بحمد الله إلا ما احببنا فتح الله خيبر على رسوله صلى الله عليه وسلم وجرت فيها سهام الله، واصطفى رسول الله صلى الله عليه وسلم صفية بنت حيي لنفسه، فإن كانت لك حاجة في زوجك فالحقي به، قالت: اظنك والله صادقا، قال: فإني صادق، الامر على ما اخبرتك، فذهب حتى اتى مجالس قريش وهم يقولون: إذا مر بهم لا يصيبك إلا خير يا ابا الفضل، قال لهم: لم يصبني إلا خير بحمد الله، قد اخبرني الحجاج بن علاط، ان خيبر قد فتحها الله على رسوله وجرت فيها سهام الله، واصطفى صفية لنفسه، وقد سالني ان اخفي عليه ثلاثا، وإنما جاء لياخذ ماله، وما كان له من شيء هاهنا، ثم يذهب، قال: فرد الله الكآبة التي كانت بالمسلمين على المشركين، وخرج المسلمون، ومن كان دخل بيته مكتئبا حتى اتوا العباس، فاخبرهم الخبر، فسر المسلمون، ورد ما كان من كآبة، او غيظ، او حزن على المشركين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، قَالَ الْحَجَّاجُ بْنُ عِلَاطٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي بِمَكَّةَ مَالًا، وَإِنَّ لِي بِهَا أَهْلًا، وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ آتِيَهُمْ، فَأَنَا فِي حِلٍّ إِنْ أَنَا نِلْتُ مِنْكَ أَوْ قُلْتُ شَيْئًا؟" فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ مَا شَاءَ"، فَأَتَى امْرَأَتَهُ حِينَ قَدِمَ، فَقَالَ: اجْمَعِي لِي مَا كَانَ عِنْدَكِ، فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَشْتَرِيَ مِنْ غَنَائِمِ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ، فَإِنَّهُمْ قَدْ اسْتُبِيحُوا، وَأُصِيبَتْ أَمْوَالُهُمْ، قَالَ فَفَشَا ذَلِكَ فِي مَكَّةَ، فَانْقَمَعَ الْمُسْلِمُونَ، وَأَظْهَرَ الْمُشْرِكُونَ فَرَحًا وَسُرُورًا، قَالَ: وَبَلَغَ الْخَبَرُ الْعَبَّاسَ فَعَقِرَ، وَجَعَلَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُومَ، قَالَ مَعْمَرٌ: فَأَخْبَرَنِي عُثْمَانُ الْجَزَرِيُّ عَنْ مِقْسَمٍ، قَالَ: فَأَخَذَ ابْنًا لَهُ، يُقَالُ لَهُ: قُثَمُ، فَاسْتَلْقَى فَوَضَعَهُ عَلَى صَدْرِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: حِبِّي قُثَمْ شَبِيهُ ذِي الْأَنْفِ الْأَشَمْ نَبيِّ ذِي النِّعَمْ بَرْغَمِ مَنْ رَغَمْ، قَالَ ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ: ثُمَّ أَرْسَلَ غُلَامًا إِلَى الْحَجَّاجِ بْنِ عِلَاطٍ: وَيْلَكَ، مَا جِئْتَ بِهِ وَمَاذَا تَقُولُ؟ فَمَا وَعَدَ اللَّهُ خَيْرٌ مِمَّا جِئْتَ بِهِ، قَالَ الْحَجَّاجُ بْنُ عِلَاطٍ لِغُلَامِهِ: اقْرَأْ عَلَى أَبِي الْفَضْلِ السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: فَلْيَخْلُ لِي فِي بَعْضِ بُيُوتِهِ لِآتِيَهُ، فَإِنَّ الْخَبَرَ عَلَى مَا يَسُرُّهُ، فَجَاءَ غُلَامُهُ، فَلَمَّا بَلَغَ بَابَ الدَّارِ، قَالَ: أَبْشِرْ يَا أَبَا الْفَضْلِ، قَالَ: فَوَثَبَ الْعَبَّاسُ فَرَحًا حَتَّى قَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، فَأَخْبَرَهُ مَا قَالَ الْحَجَّاجُ، فَأَعْتَقَهُ، قَالَ: ثُمَّ جَاءَهُ الْحَجَّاجُ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، وَغَنِمَ أَمْوَالَهُمْ، وَجَرَتْ سِهَامُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي أَمْوَالِهِمْ، وَاصْطَفَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ فَاتَّخَذَهَا لِنَفْسِهِ، وَخَيَّرَهَا أَنْ يُعْتِقَهَا وَتَكُونَ زَوْجَتَهُ، أَوْ تَلْحَقَ بِأَهْلِهَا، فَاخْتَارَتْ أَنْ يُعْتِقَهَا وَتَكُونَ زَوْجَتَهُ، وَلَكِنِّي جِئْتُ لِمَالٍ كَانَ لِي هَاهُنَا أَرَدْتُ أَنْ أَجْمَعَهُ فَأَذْهَبَ بِهِ، فَاسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنَ لِي أَنْ أَقُولَ مَا شِئْتُ، فَأَخْفِ عَنِّي ثَلَاثًا، ثُمَّ اذْكُرْ مَا بَدَا لَكَ، قَالَ: فَجَمَعَتِ امْرَأَتُهُ مَا كَانَ عِنْدَهَا مِنْ حُلِيٍّ وَمَتَاعٍ، فَجَمَعَتْهُ فَدَفَعَتْهُ إِلَيْهِ، ثُمَّ انشَمَرَ بِهِ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ثَلَاثٍ أَتَى الْعَبَّاسُ امْرَأَةَ الْحَجَّاجِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ زَوْجُكِ؟ فَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهُ قَدْ ذَهَبَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، وَقَالَتْ: لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ يَا أَبَا الْفَضْلِ، لَقَدْ شَقَّ عَلَيْنَا الَّذِي بَلَغَكَ، قَالَ: أَجَلْ لَا يُخْزِنِي اللَّهُ، وَلَمْ يَكُنْ بِحَمْدِ اللَّهِ إِلَّا مَا أَحْبَبْنَا فَتَحَ اللَّهُ خَيْبَرَ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَرَتْ فِيهَا سِهَامُ اللَّهِ، وَاصْطَفَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ لِنَفْسِهِ، فَإِنْ كَانَتْ لَكِ حَاجَةٌ فِي زَوْجِكِ فَالْحَقِي بِهِ، قَالَتْ: أَظُنُّكَ وَاللَّهِ صَادِقًا، قَالَ: فَإِنِّي صَادِقٌ، الْأَمْرُ عَلَى مَا أَخْبَرْتُكِ، فَذَهَبَ حَتَّى أَتَى مَجَالِسَ قُرَيْشٍ وَهُمْ يَقُولُونَ: إِذَا مَرَّ بِهِمْ لَا يُصِيبُكَ إِلَّا خَيْرٌ يَا أَبَا الْفَضْلِ، قَالَ لَهُمْ: لَمْ يُصِبْنِي إِلَّا خَيْرٌ بِحَمْدِ اللَّهِ، قَدْ أَخْبَرَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ عِلَاطٍ، أَنَّ خَيْبَرَ قَدْ فَتَحَهَا اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ وَجَرَتْ فِيهَا سِهَامُ اللَّهِ، وَاصْطَفَى صَفِيَّةَ لِنَفْسِهِ، وَقَدْ سَأَلَنِي أَنْ أُخْفِيَ عَلَيْهِ ثَلَاثًا، وَإِنَّمَا جَاءَ لِيَأْخُذَ مَالَهُ، وَمَا كَانَ لَهُ مِنْ شَيْءٍ هَاهُنَا، ثُمَّ يَذْهَبَ، قَالَ: فَرَدَّ اللَّهُ الْكَآبَةَ الَّتِي كَانَتْ بِالْمُسْلِمِينَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ، وَخَرَجَ الْمُسْلِمُونَ، وَمَنْ كَانَ دَخَلَ بَيْتَهُ مُكْتَئِبًا حَتَّى أَتَوْا الْعَبَّاسَ، فَأَخْبَرَهُمْ الْخَبَرَ، فَسُرَّ الْمُسْلِمُونَ، وَرَدَّ مَا كَانَ مِنْ كَآبَةٍ، أَوْ غَيْظٍ، أَوْ حُزْنٍ عَلَى الْمُشْرِكِينَ.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر فتح کرچکے تو حجاج بن غلاط رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مکہ مکرمہ میں میرا کچھ مال و دولت اور اہل خانہ ہیں، میں ان کے پاس جانے کا ارادہ رکھتا ہوں (تاکہ انہیں یہاں لے آؤں) کیا مجھے آپ کی طرف سے اس بات کی اجازت ہے کہ میں آپ کے حوالے سے یونہی کوئی بات اڑا دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی کہ جو چاہیں کہیں، چنانچہ وہ مکہ مکرمہ پہنچ کر اپنی بیوی کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے، سب اکٹھا کر کے مجھے دے دو، میں چاہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کا مال غنیمت خرید لوں کیونکہ ان کا خوب قتل عام ہوا ہے اور ان کا سب مال و دولت لوٹ لیا گیا ہے، یہ خبر پورے مکہ میں پھیل گئی، مسلمانوں کی کمر ٹوٹ گئی اور مشرکین خوب خوشی کے شادیانے بجانے لگے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی یہ خبر معلوم ہوئی تو وہ گرپڑے اور ان کے اندر کھڑا ہونے ہمت نہ رہی، پھر انہوں نے ایک بیٹے "" قثم "" کو بلایا اور چت لیٹ کر اسے اپنے سینے پر بٹھا کر یہ شعر پڑھنے لگے کہ میرا پیارا بیٹا قثم خوشبودار ناک والے کا ہم شکل ہے، جو ناز و نعمت میں پلنے والوں کا بیٹا ہے اگرچہ کسی کی ناک ہی خاک آلود ہوتی ہے۔ پھر انہوں نے ایک غلام کو حجاج بن غلاط رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ افسوس! یہ تم کیسی خبر لائے ہو اور یہ کیا کہہ رہے ہو؟ اللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ تمہاری اس خبر سے بہت بہتر ہے، حجاج نے اس غلام سے کہا کہ ابوالفضل (حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو میرا سلام کہنا اور یہ پیغام پہنچانا کہ اپنے کسی گھر میں میرے لئے تخلیہ کا موقع فراہم کریں تاکہ میں ان کے پاس آسکوں کیونکہ خبر ہی ایسی ہے کہ وہ خوش ہوجائیں گے، وہ غلام واپس پہنچ کر جب گھر کے دروازے تک پہنچا تو کہنے لگا کہ اے ابوالفضل! خوش ہوجائیے، یہ سن کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ خوشی سے اچھل پڑے اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا، غلام نے انہیں حجاج کی بات بتائی تو انہوں نے اسے آزاد کردیا۔ تھوڑی دیر بعد حجاج ان کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کو فتح کرچکے ہیں، ان کے مال کو غنیمت بنا چکے، اللہ کا مقرر کردہ حصہ ان میں جاری ہوچکا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لئے منتخب کرلیا اور انہیں اختیار دے دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں آزاد کردیں اور وہ ان کی بیوی بن جائیں یا اپنے اہل خانہ کے پاس واپس چلی جائیں، انہوں نے اس بات کو ترجیح دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں آزاد کردیں اور وہ ان کی بیوی بن جائیں، لیکن میں اپنے اس مال کی وجہ سے "" جو یہاں پر تھا "" آیا تھا تاکہ اسے جمع کر کے لے جاؤں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس بات کی اجازت دے دی تھی کہ میں جو چاہوں کہہ سکتا ہوں، اب آپ یہ خبر تین دن تک مخفی رکھئے، اس کے بعد مناسب سمجھیں تو ذکر کردیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی بیوی کے پاس جو کچھ زیورات اور سازو سامان تھا اور جو اس نے جمع کر رکھا تھا، اس نے وہ سب ان کے حوالے کیا اور وہ اسے لے کر روانہ ہوگئے، تین دن گذرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ حجاج کی بیوی کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ تمہارے شوہر کا کیا بنا؟ اس نے بتایا کہ وہ فلاں دن چلے گئے اور کہنے لگی کہ اے ابوالفضل! اللہ آپ کو شرمندہ نہ کرے، آپ کی پریشانی ہم پر بھی بڑی شاق گذری ہے، انہوں نے فرمایا ہاں! اللہ مجھے شرمندہ نہ کرے اور الحمدللہ! ہوا وہی کچھ ہے جو ہم چاہتے تھے، اللہ نے اپنے نبی کے ہاتھ پر خیبر کو فتح کروا دیا، مال غنیمت تقسیم ہوچکی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لئے منتخب فرما لیا، اب اگر تمہیں اپنے خاوند کی ضرورت ہو تو اس کے پاس چلی جاؤ، وہ کہنے لگی کہ بخدا! میں آپ کو سچا ہی سمجھتی ہوں، انہوں نے فرمایا کہ میں نے تمہیں جو کچھ بتایا ہے وہ سب سچ ہے۔ پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے گئے اور قریش کی مجلسوں کے پاس سے گذرے، وہ کہنے لگے ابوالفضل! تمہیں ہمیشہ خیر ہی حاصل ہو، انہوں نے فرمایا الحمدللہ! مجھے خیر ہی حاصل ہوئی ہے، مجھے حجاج بن غلاط نے بتایا کہ خیبر کو اللہ نے اپنے پیغمبر کے ہاتھوں فتح کروادیا ہے، مال غنیمت تقسیم ہوچکا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو اپنے لئے منتخب کرلیا اور حجاج نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ تین دن تک میں یہ خبر مخفی رکھوں، وہ تو صرف اپنا مال اور سازو سامان یہاں سے لینے کے لئے آئے تھے، پھر واپس چلے گئے، اس طرح مسلمانوں پر جو غم کی کیفیت تھی وہ اللہ نے مشرکین پر الٹادی اور مسلمان اور وہ تمام لوگ جو اپنے گھروں میں غمگین ہو کر پڑگئے تھے اپنے اپنے گھروں سے ببب

حكم دارالسلام: إسناده صحيح


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.