الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
34. مسنَد اَنَسِ بنِ مَالِك رَضِیَ اللَّه عَنه
حدیث نمبر: 13296
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، عن ثابت ، عن انس : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" شاور الناس يوم بدر، فتكلم ابو بكر، فاعرض عنه، ثم تكلم عمر، فاعرض عنه، فقالت الانصار: يا رسول الله، إيانا تريد؟ فقال المقداد بن الاسود: يا رسول الله، والذي نفسي بيده، لو امرتنا ان نخيضها البحر، لاخضناها، ولو امرتنا ان نضرب اكبادها إلى برك الغماد، فعلنا، فشانك يا رسول الله. فندب رسول الله صلى الله عليه وسلم اصحابه، فانطلق حتى نزل بدرا، وجاءت روايا قريش، وفيهم غلام لبني الحجاج اسود، فاخذه اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالوه عن ابي سفيان واصحابه، فقال: اما ابو سفيان، فليس لي به علم، ولكن هذه قريش، وابو جهل، وامية بن خلف قد جاءت، فيضربونه، فإذا ضربوه، قال: نعم، هذا ابو سفيان. فإذا تركوه، فسالوه عن ابي سفيان، فقال: ما لي بابي سفيان من علم، ولكن هذه قريش قد جاءت، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي، فانصرف، فقال: إنكم لتضربونه إذا صدقكم، وتدعونه إذا كذبكم. وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، فوضعها، فقال: هذا مصرع فلان غدا، وهذا مصرع فلان غدا، إن شاء الله تعالى، فالتقوا، فهزمهم الله، فوالله ما اماط رجل منهم عن موضع كفي النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فخرج إليهم النبي صلى الله عليه وسلم بعد ثلاثة ايام وقد جيفوا، فقال: يا ابا جهل، يا عتبة، يا شيبة، يا امية، هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا؟ فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقا، فقال له عمر: يا رسول الله، تدعوهم بعد ثلاثة ايام وقد جيفوا؟ فقال: ما انتم باسمع لما اقول منهم، غير انهم لا يستطيعون جوابا، فامر بهم، فجروا بارجلهم، فالقوا في قليب بدر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" شَاوَرَ النَّاسَ يَوْمَ بَدْرٍ، فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ عُمَرُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِيَّانَا تُرِيدُ؟ فَقَالَ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيضَهَا الْبَحْرَ، لَأَخَضْنَاهَا، وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْغِمَادِ، فَعَلْنَا، فَشَأْنَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَنَدَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ، فَانْطَلَقَ حَتَّى نَزَلَ بَدْرًا، وَجَاءَتْ رَوَايَا قُرَيْشٍ، وَفِيهِمْ غُلَامٌ لِبَنِي الْحَجَّاجِ أَسْوَدُ، فَأَخَذَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوهُ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ وَأَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَمَّا أَبُو سُفْيَانَ، فَلَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ، وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ، وَأَبُو جَهْلٍ، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ قَدْ جَاءَتْ، فَيَضْرِبُونَهُ، فَإِذَا ضَرَبُوهُ، قَالَ: نَعَمْ، هَذَا أَبُو سُفْيَانَ. فَإِذَا تَرَكُوهُ، فَسَأَلُوهُ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ: مَا لِي بِأَبِي سُفْيَانَ مِنْ عِلْمٍ، وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ جَاءَتْ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، فَانْصَرَفَ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَتَضْرِبُونَهُ إِذَا صَدَقَكُمْ، وَتَدَعُونَهُ إِذَا كَذَبَكُمْ. وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، فَوَضَعَهَا، فَقَالَ: هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، وَهَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى، فَالْتَقَوْا، فَهَزَمَهُمْ اللَّهُ، فَوَاللَّهِ مَا أَمَاطَ رَجُلٌ مِنْهُمْ عَنْ مَوْضِعِ كَفَّيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَقَدْ جَيَّفُوا، فَقَالَ: يَا أَبَا جَهْلٍ، يَا عُتْبَةُ، يَا شَيْبَةُ، يَا أُمَيَّةُ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَدْعُوهُمْ بَعْدَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَقَدْ جَيَّفُوا؟ فَقَالَ: مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ جَوَابًا، فَأَمَرَ بِهِمْ، فَجُرُّوا بِأَرْجُلِهِمْ، فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر کی طرف روانہ ہوگئے تو لوگوں سے مشورہ کیا، اس کے جواب میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک مشورہ دیا، پھر دوبارہ مشورہ مانگا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مشورہ دیا، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے، انصار نے کہا کہ یا رسول اللہ! شاید آپ کی مراد ہم ہیں؟ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر آپ ہمیں حکم دیں تو سمندروں میں گھس پڑیں اور اگر آپ حکم دیں تو ہم برک الغماد تک اونٹوں کے جگر مارتے ہوئے چلے جائیں، لہٰذا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو تیار کر کے روانہ ہوگئے اور بدر میں پڑاؤ کیا، قریش کے کچھ جاسوس آئے تو ان میں بنو حجاج کا ایک سیاہ فام غلام بھی تھا، صحابہ رضی اللہ عنہ نے اسے گرفتار کرلیا اور اس سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے متعلق پوچھا، وہ کہنے لگا کہ ابوسفیان کا تو مجھے علم نہیں ہے البتہ قریش، ابوجہل اور امیہ بن خلف آگئے ہیں، وہ لوگ جب اسے مارتے تو وہ ابوسفیان کے بارے بتانے لگتا اور جب چھوڑتے تو وہ کہتا کہ مجھے ابوسفیان کا کیا پتہ؟ البتہ قریش آگئے ہیں، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جب تم سے سچ بیان کرتا ہے تو تم اسے مارتے ہو اور جب یہ جھوٹ بولتا ہے تو تم اسے چھوڑ دیتے ہو، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ان شاء اللہ کل فلاں شخص یہاں گرے گا اور فلاں شخص یہاں، چنانچہ آمنا سامنا ہونے پر مشرکین کو اللہ نے شکست سے دوچار کردیا اور واللہ ایک آدمی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی جگہ سے نہیں ہلا تھا۔ تین دن کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی لاشوں کے پاس گئے اور فرمایا اے ابوجہل بن ہشام! اے عتبہ بن ربیعہ! اے شیبہ بن ربیعہ! اور اے امیہ بن خلف! کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا، اسے تم نے سچا پایا؟ مجھ سے تو میرے رب نے جو وعدہ کیا تھا، میں نے اسے سچا پایا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان لوگوں کو تین دن کے بعد آواز دے رہے ہیں جو مردہ ہوچکے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جو بات کہہ رہا ہوں، تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے، البتہ وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر انہیں پاؤں سے گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر کی طرف روانہ ہوگئے تو لوگوں سے مشورہ کیا، اس کے جواب میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک مشورہ دیا، پھر دوبارہ مشورہ مانگا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مشورہ دیا، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے، انصار نے کہا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم شاید آپ کی مراد ہم ہیں؟ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر آپ ہمیں حکم دیں تو سمندروں میں گھس پڑیں اور اگر آپ حکم دیں تو ہم برک الغماد تک اونٹوں کے جگر مارتے ہوئے چلے جائیں۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2874، وانظر ما بعدہ


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.