الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
44. بَابُ مَا لَا يَجُوزُ مِنَ السَّلَفِ
44. جو سلف درست نہیں اس کا بیان
حدیث نمبر: 1391
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني وحدثني مالك، انه بلغه، ان عبد الله بن مسعود، كان يقول: " من اسلف سلفا، فلا يشترط افضل منه، وإن كانت قبضة من علف فهو ربا" . وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، كَانَ يَقُولُ: " مَنْ أَسْلَفَ سَلَفًا، فَلَا يَشْتَرِطْ أَفْضَلَ مِنْهُ، وَإِنْ كَانَتْ قَبْضَةً مِنْ عَلَفٍ فَهُوَ رِبًا" .
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے: جو شخص کسی کو قرض دے، اس سے زیادہ نہ ٹھہرائے، اگر ایک مٹھی گھاس کی ہو، تو وہ ربا ہے۔

تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10937، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14658، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22754، 22761، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 94»

حدیث نمبر: 1391ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا: ان من استسلف شيئا من الحيوان بصفة وتحلية معلومة، فإنه لا باس بذلك، وعليه ان يرد مثله إلا ما كان من الولائد، فإنه يخاف في ذلك الذريعة إلى إحلال ما لا يحل، فلا يصلح، وتفسير ما كره من ذلك: ان يستسلف الرجل الجارية فيصيبها ما بدا له، ثم يردها إلى صاحبها بعينها، فذلك لا يصلح ولا يحل، ولم يزل اهل العلم ينهون عنه ولا يرخصون فيه لاحدقَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا: أَنَّ مَنِ اسْتَسْلَفَ شَيْئًا مِنَ الْحَيَوَانِ بِصِفَةٍ وَتَحْلِيَةٍ مَعْلُومَةٍ، فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ، وَعَلَيْهِ أَنْ يَرُدَّ مِثْلَهُ إِلَّا مَا كَانَ مِنَ الْوَلَائِدِ، فَإِنَّهُ يُخَافُ فِي ذَلِكَ الذَّرِيعَةُ إِلَى إِحْلَالِ مَا لَا يَحِلُّ، فَلَا يَصْلُحُ، وَتَفْسِيرُ مَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ: أَنْ يَسْتَسْلِفَ الرَّجُلُ الْجَارِيَةَ فَيُصِيبُهَا مَا بَدَا لَهُ، ثُمَّ يَرُدُّهَا إِلَى صَاحِبِهَا بِعَيْنِهَا، فَذَلِكَ لَا يَصْلُحُ وَلَا يَحِلُّ، وَلَمْ يَزَلْ أَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَلَا يُرَخِّصُونَ فِيهِ لِأَحَدٍ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو شخص کوئی جانور جس کا حلیہ اور صفت معلوم ہو کسی کو قرض دے تو کچھ قباحت نہیں، اب مقروض ویسا ہی جانور ادا کرے۔ مگر لونڈی کو قرض لینا درست نہیں، کیونکہ یہ ذریعہ ہے حرام کے حلال کرنے کا، لوگ ایک دوسرے کی لونڈی قرض لے آئیں گے، پھر جب تک جی چاہے گا اس سے جماع کریں گے، بعد اس کے مالک کو پھیر دیں گے، یہ تو حلال نہیں۔ ہمیشہ اہلِ علم اس سے منع کرتے رہے اور کسی کو اس کی اجازت نہ دی۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 94»


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.