(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا ثابت ، عن انس ، قال: مات ابن لابي طلحة من ام سليم، قال: فقالت ام سليم لاهلها: لا تحدثوا ابا طلحة بابنه حتى اكون انا احدثه، فذكر معنى حديث بهز، إلا انه قال: قالت امي: يا انس، لا يطعم شيئا حتى تغدو به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فبات يبكي وبت مجتنحا عليه اكالئه حتى اصبحت، فغدوت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا معه ميسم، فلما راى الصبي معي، قال: لعل ام سليم ولدت، قال: قلت: نعم، فوضع الميسم من يده، وقعد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: مَاتَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ مِنْ أُمِّ سُلَيْمٍ، قَالَ: فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ لِأَهْلِهَا: لَا تُحَدِّثُوا أَبَا طَلْحَةَ بِابْنِهِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا أُحَدِّثُهُ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ بَهْزٍ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: قَالَتْ أُمِّي: يَا أَنَسُ، لَا يُطْعَمْ شَيْئًا حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَاتَ يَبْكِي وَبِتُّ مُجْتَنِحًا عَلَيْهِ أُكَالِئُهُ حَتَّى أَصْبَحْتُ، فَغَدَوْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا مَعَهُ مِيسَمٌ، فَلَمَّا رَأَى الصَّبِيَّ مَعِي، قَالَ: لَعَلَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتْ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَوَضَعَ الْمِيسَمَ مِنْ يَدِهِ، وَقَعَدَ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا بیمار تھا، وہ فوت ہوگیا، ان کی زوجہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ نے گھر والوں سے کہہ دیا کہ تم میں سے کوئی بھی ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی موت کی خبر نہ دے۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا انس! اسے کوئی عورت دودھ نہ پلائے، بلکہ تم پہلے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر جاؤ، چنانچہ صبح کو میں اس بچے کو اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹوں کو قطران مل رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا شاید ام سلیم کے یہاں بچہ پیدا ہوا ہے، میں نے عرض کیا جی ہاں! اور اس بچے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آلہ اپنے ہاتھ سے رکھ دیا اور بیٹھ گئے۔