الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
5. بَابُ إِنْفَاقِ الْمَالِ فِي حَقِّهِ:
5. باب: اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان۔
(5) Chapter. To spend money in the right way.
حدیث نمبر: 1409
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن إسماعيل , قال: حدثني قيس، عن ابن مسعود رضي الله عنه , قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم , يقول:" لا حسد إلا في اثنتين، رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق، ورجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ , قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسٌ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے اسماعیل بن ابی خالد سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا اور ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حسد (رشک) کرنا صرف دو ہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس شخص کے ساتھ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے حق اور مناسب جگہوں میں خرچ کرنے کی توفیق دی۔ دوسرے اس شخص کے ساتھ جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت (عقل علم قرآن و حدیث اور معاملہ فہمی) دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق حق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔

Narrated Ibn Mas`ud: I heard the Prophet saying, "There is no envy except in two: a person whom Allah has given wealth and he spends it in the right way, and a person whom Allah has given wisdom (i.e. religious knowledge) and he gives his decisions accordingly and teaches it to the others."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 490


   صحيح البخاري7316عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلط على هلكته في الحق وآخر آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   صحيح البخاري73عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلط على هلكته في الحق ورجل آتاه الله الحكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   صحيح البخاري7141عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق آخر آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   صحيح البخاري1409عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق رجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   صحيح مسلم1896عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق رجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   سنن ابن ماجه4208عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق رجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   مشكوة المصابيح202عبد الله بن مسعودا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق ورجل آتاه الله الحكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   المعجم الصغير للطبراني1098عبد الله بن مسعود لا تنافس بينكم إلا فى اثنتين : رجل أعطاه الله عز وجل القرآن فهو يقوم به الليل والنهار ، فيتتبع ما فيه ، فيقول الرجل لو أعطاني الله مثل ما أعطى فلانا ، فأقوم به مثل ما يقوم فلان ، ورجل أعطاه الله مالا ينفق ويتصدق ، فيقول رجل مثل ذلك
   مسندالحميدي99عبد الله بن مسعود

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 73  
´علم اور حکمت کی باتوں پر رشک کرنا`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 73]

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے کہ علم اور حکمت کی باتوں پر رشک کرنا چاہئیے اور حدیث لائیں ہیں کہ دو آدمیوں کے علاوہ کسی پر حسد نہیں کرنا چاہیے، لہٰذا حدیث میں جو «حسد» کے الفاظ ہیں اس سے مراد رشک کرنے کے ہی ہیں کیوں کہ حسد کرنا بہت بڑی خرابی اور گناہ ہے، گویا حدیث سے رشک کرنا مراد لیا جائے گا اور باب میں بھی یہی مذکور ہے۔ مزید اگر غور کیا جائے تو اس باب سے قبل امام بخاری رحمہ اللہ نے باب «الفهم فى العلم» قائم فرمایا تھا اور اب «باب الاغتباط فى العلم والحكمة» قائم فرمایا ہے دونوں میں مناسبت ظاہر ہے کہ جتنا کسی شخص کے فہم علم میں اضافہ ہو گا اسی قدر اس کی خوشی اور غبطہ میں اضافہ ہو گا کیونکہ جب کسی شخص کے فہم میں اضافہ ہو گا تو اس کی نظر آگے بڑھتی جائے گی اور اس شخص کو پیش نظر رکھے گا جو فہم کے اعتبار سے قوی ہو اس کی خواہش ہو گی کہ وہ اس جیسا ہو جائے۔ یہی غبطہ ہے۔ [عمدة القاري ج2 ص 54، الكواكب الدراري ج 1 ص 43]

◈حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والذي يظهرلي أن مراد البخاري: ان الرياسة وان كانت مما يغبط بها صاحبها فى العادة لكن الحديث دل على ان الغبطة لا تكون الابأحد أمرين . . . . .»
میرے نزدیک مطابقت یوں ہے کہ ریاست اگرچہ عادۃ غبطہ کا سبب بنتی ہے (یعنی رشک کا) لیکن حدیث اس مسئلے پر دال ہے کہ غبطہ کی بنیاد دو ہی چیزیں ہیں ایک علم اور ایک جود، پھر جود بھی اس وقت محمود ہے جب علم کے ساتھ ہو، گویا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ حصول ریاست و سیادت سے پہلے علم حاصل کر لو جب تک کہ تم پر رشک کیا جائے تو یہ رشک کرنا برحق ہو گا۔ [فتح الباري ج1 ص444]

◈ علامہ محمود حسن صاحب فرماتے ہیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ قبل السیادۃ علم حاصل کرنے میں سعی ضروری ہے۔ یہ غرض نہیں کہ اگر کوئی قبل سیادت تحصیل علم سے محروم رہا، تو وہ بعد سیادت تحصیل نہ کرے، دیکھ لو خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور علی العموم حضرات صحابہ نے بڑے ہو کر علم حاصل کیا۔ [الابواب التراج، ص48]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 102   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 73  
´کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 73]

تشریح:
شارحین حدیث لکھتے ہیں: «اعلم ان المراد بالحسد، ههنا الغبطة فان الحسد مذموم قدبين الشرع باوضح بيان وقد يجي الحسد بمعني الغبطة وان كان قليلا» یعنی حدیث 73 میں حسد کے لفظ سے غبطہ یعنی رشک کرنا مراد ہے کیونکہ حسد بہرحال مذموم ہے۔ جس کی شرع نے کافی مذمت کی ہے۔ کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بہت سے نافہم لوگ حضرت امام بخاری سے حسد کر کے ان کی توہین و تخفیف کے درپے ہیں، ایسا حسد کرنا مومن کی شان نہیں۔ «اللهم احفظنا آمين»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 73   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1409  
1409. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:قابل رشک تودوہی آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا ہواور اسے حق کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی ہواور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے علم و دانش کی نعمت سے نوازا، وہ اس کے ساتھ فیصلے کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1409]
حدیث حاشیہ:
امیر اور عالم ہردو اللہ کے ہاں مقبول بھی ہیں اور مردود بھی۔
مقبول وہ جو اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں‘ زکوٰۃ اور صدقات سے مستحقین کی خبر گیری کریں اور اس بارے میں ریا نمود سے بھی بچیں‘ یہ مالدار اس قابل ہیں کہ ہر مسلمان کو ان جیسا مالدار بننے کی تمنا کرنی جائز ہے۔
اسی طرح عالم جو اپنے علم پر عمل کریں اور لوگوں کو علمی فیض پہنچائیں اور ریا نمود سے دور رہیں‘ خشیت ومحبت الٰہی بہر حال مقدم رکھیں‘ یہ عالم بھی قابل رشک ہیں۔
امام بخاری کا مقصد یہ کہ اللہ کے لیے خرچ کرنے والوں کا بڑا درجہ ہے، ایسا کہ ان پر رشک کرنا جائز ہے جب کہ عام طورپر حسد کرنا جائز نہیں، مگر نیک نیتی کے ساتھ ان پر حسد کرنا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1409   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 202  
´رشک کی جائز صورت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ - [71] - الْحِكْمَة فَهُوَ يقْضِي بهَا وَيعلمهَا) . . .»
. . . سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو شخصوں پر دو اچھی عادت کی وجہ سے حسد کرنا یعنی غبطہ و رشک کرنا درست ہے۔ ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال دے رکھا ہے اور اس کو راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق دے رکھی ہے اور دوسرا وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت اور علم دے رکھا ہے وہ اسی علم کے موافق فیصلہ کرتا اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 202]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 73]،
[صحيح مسلم 1896]

فقہ الحدیث:
➊ کسی شخص کی خوشحالی یا نیکی سے متاثر ہو کر اپنے لیے ویسی خواہش و تمنا کرنا «غبطه» (رشک) کہلاتا ہے اور حدیث مذکور میں حسد سے مراد «غبطه» ہے۔
➋ وہ انسان افضل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کتاب و سنت کا علم عطا فرمایا ہے اور وہ اسے تحریر، تدریس اور تقریر وغیرہ کے ذریعے سے لوگوں میں پھیلا رہا ہے۔
➌ خوش قسمت ہے وہ امیر آدمی جو خلوص نیت اور اتباع سنت سے اپنے مال و دولت کو کتاب و سنت کی دعوت پھیلانے اور غرباء و مساکین کی مدد کرنے میں صرف کر رہا ہے۔
➍ حسد حرام اور رشک جائز ہے، بشرطیکہ دوسرے شخص کی نعمت کے زوال اور خاتمے کی خواہش نہ ہو۔
➎ ہر وقت کتاب و سنت کا علم سیکھنے، اس پر عمل کرنے اور اسے لوگوں میں حسب استطاعت پھیلانے میں مصروف رہنا چاہئیے۔
➏ اگر شرعی عذر مانع نہ ہو تو سارے مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دینا جائز ہے۔

فائدہ:
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو اُس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے کہا: اگر میں ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) سے کبھی آگے بڑھ سکتا ہوں تو آج بڑھ جاؤں گا۔ میں اپنا آدھا مال لے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: آپ نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے کہا: آدھا مال گھر چھوڑ آیا ہوں۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: اے ابوبکر! آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں ان کے لیے اللہ اور رسول (کی محبت) کو چھوڑ آیا ہوں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں کبھی ابوبکر (رضی اللہ عنہ) پر سبقت نہیں لے سکوں گا۔ [سنن ترمذي: 3675، وقال: "هذا حديث حسن صحيح" وسنده حسن وصححه الحاكم على شرط مسلم 414/1 ووافقه الذهبي]
نیز دیکھئے: سنن ابی داود [1678] اور اضواء المصابیح [6021]
◄ اس حدیث کے جملے «أبقيت لهم الله ورسوله» کی تشریح میں ملا علی قاری (حنفی) نے کہا: «أى رضاهما» یعنی اللہ اور رسول کی رضامندی چھوڑ کر آیا ہوں۔ دیکھئے: مرقاۃ المفاتیح [ج1۔ ص379 ح6۔ 3۔]
◄ معلوم ہوا کہ عند الضرورت اور شرعی عذر کے ساتھ سارا مال بھی اللہ کے راستے میں قربان کیا جا سکتا ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 202   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4208  
´حسد کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشک و حسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں: ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، اور پھر اس کو راہ حق میں لٹا دینے کی توفیق دی، دوسرا وہ جس کو علم و حکمت عطا کی تو وہ اس کے مطابق عمل کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4208]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حسد کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کسی کو اللہ کی طرف سے نعمت ملی ہو تو اسے دیکھ کر یہ خواہش پیدا ہوکہ اس کی یہ نعمت ختم ہوجائے۔
یہ جذبہ رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔
اس حدیث میں حسد سے مراد رشک ہے یعنی یہ خواہش کرنا کہ جیسی نعمت اس کے پاس ہے ویسے مجھے بھی مل جائے یہ جائز ہے۔

(2)
حسد تو کسی پر بھی جائز نہیں۔
رشک بھی دنیا کی دولت، شہرت اور حکومت پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ کسی کا نیک عمل ہی اس قابل ہے کہ اس طرح کا عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔

(3)
خوبیوں میں سب سے زیادہ قابل رشک دو خوبیاں ہیں:
سخاوت اور علم۔
یہ عمل بھی تب خوبیوں میں شمار ہوسکتے ہیں جب اللہ کی رضا کے لیے خلوص کے ساتھ انجام دیے جائیں ورنہ شہرت کے لیے حاصل کیا جانے والا علم اور خرچ کیا جانے والا مال سخت ترین سزا اور شدید عذاب کا باعث ہوگا۔
اللہ محفوظ رکھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4208   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1409  
1409. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:قابل رشک تودوہی آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا ہواور اسے حق کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی ہواور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے علم و دانش کی نعمت سے نوازا، وہ اس کے ساتھ فیصلے کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1409]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں لفظ حسد، رشک کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
رشک یہ ہے کہ انسان کسی میں اچھی صفت دیکھ کر اپنے لیے اس کی تمنا کرے۔
اگر مقصود یہ ہو کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے اور مجھے حاصل ہو جائے تو اسے حسد کہا جاتا ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مطلق طور پر مال جمع کرنا مذموم نہیں بلکہ قابل مذمت وہ جمع شدہ مال ہے جس کی زکاۃ ادا نہ کی جائے۔
مال جمع کرنا اگرچہ جائز ہے، لیکن اسے جمع کرنے والا قیامت کے دن اس کی باز پرس سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
اور جن احادیث میں مال جمع کرنے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حلال ذرائع سے مال جمع کیا جائے اور اس کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔
(3)
زین بن منیر نے کہا ہے کہ اللہ کی راہ میں تمام مال خرچ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ کسی وارث کو محروم کرنے کی نیت نہ ہو، اگر کسی وارث کو محروم کرنے کی نیت ہے تو شرعا ایسا کرنا جائز نہیں۔
(فتح الباري: 349/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1409   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.