الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
8. بَابُ التَّسْمِيَةِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعِنْدَ الْوِقَاعِ:
8. باب: اس بارے میں کہ ہر حال میں بسم اللہ پڑھنا یہاں تک کہ جماع کے وقت بھی ضروری ہے۔
(8) Chapter. To recite “In the Name of Allah,” during every action and on having sexual relations with one’s wife.
حدیث نمبر: 141
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن سالم بن ابي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، يبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لو ان احدكم إذا اتى اهله، قال: باسم الله، اللهم جنبنا الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتنا، فقضي بينهما ولد لم يضره".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، يَبْلُغُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَقُضِيَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ لَمْ يَضُرُّهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے روایت کیا، انہوں نے سالم ابن ابی الجعد سے نقل کیا، وہ کریب سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے «بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا‏» اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو (اس جماع کے نتیجے میں) ہمیں عطا فرمائے۔ یہ دعا پڑھنے کے بعد (جماع کرنے سے) میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا۔


Hum se ’Ali bin Abdullah ne bayan kiya, kaha hum se Jareer ne Mansoor ke waaste se riwayat kiya, unhon ne Salim Ibn-e-Abi Al-Ja’d se naql kiya, woh Kuraib se, woh Ibn-e-Abbas Radhiallahu Anhuma se riwayat karte hain, woh is Hadees ko Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam tak pahunchaate the ke Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya “Jab tum mein se koi apni biwi se jima’ kare to kahe «بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا» “Allah ke naam ke saath shuru karta hun. Aye Allah! Hamein shaitaan se bacha aur shaitaan ko us cheez se door rakh jo to (is jima’ ke nateeje mein) hamein ata farmaaye.” Yeh dua padhne ke baad (jima’ karne se) miyan biwi ko jo aulaad milegi use shaitaan nuqsaan nahi pahuncha sakta.

Narrated Ibn `Abbas: The Prophet said, "If anyone of you on having sexual relations with his wife said (and he must say it before starting) 'In the name of Allah. O Allah! Protect us from Satan and also protect what you bestow upon us (i.e. the coming offspring) from Satan, and if it is destined that they should have a child then, Satan will never be able to harm that offspring."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 143


   صحيح البخاري5165عبد الله بن عباسباسم الله اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا ثم قدر بينهما في ذلك أو قضي ولد لم يضره شيطان أبدا
   صحيح البخاري7396عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أراد أن يأتي أهله فقال باسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   صحيح البخاري6388عبد الله بن عباسباسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   صحيح البخاري3271عبد الله بن عباسإذا أتى أهله وقال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فرزقا ولدا لم يضره الشيطان
   صحيح البخاري3283عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني فإن كان بينهما ولد لم يضره الشيطان ولم يسلط عليه
   صحيح البخاري141عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال باسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فقضي بينهما ولد لم يضره
   صحيح مسلم3533عبد الله بن عباسباسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   جامع الترمذي1092عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإن قضى الله بينهما ولدا لم يضره الشيطان
   سنن أبي داود2161عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أراد أن يأتي أهله قال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا ثم قدر أن يكون بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   سنن ابن ماجه1919عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى امرأته قال اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني ثم كان بينهما ولد لم يسلط الله عليه الشيطان
   بلوغ المرام874عبد الله بن عباس لو أن أحدكم إذا أراد أن يأتي أهله قال : بسم الله ،‏‏‏‏ اللهم جنبنا الشيطان ،‏‏‏‏ وجنب الشيطان ما رزقتنا ،‏‏‏‏ فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك ،‏‏‏‏ لم يضره الشيطان أبدا
   مسندالحميدي526عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإن قدر بينهما ولد لم يضره الشيطان شيئا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 141  
´ہر حال میں بسم اللہ پڑھنا یہاں تک کہ جماع کے وقت بھی`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، يَبْلُغُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَقُضِيَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ لَمْ يَضُرُّهُ . . .»
. . . وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے «بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا‏» اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو (اس جماع کے نتیجے میں) ہمیں عطا فرمائے۔ یہ دعا پڑھنے کے بعد (جماع کرنے سے) میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ التَّسْمِيَةِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعِنْدَ الْوِقَاعِ:: 141]

تشریح:
وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنا اہل حدیث کے نزدیک ضروری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب میں ذکر کردہ حدیث میں یہی ثابت فرمایا کہ جب جماع کے شروع میں بسم اللہ کہنا مشروع ہے تو وضو میں کیوں کر مشروع نہ ہو گا وہ تو ایک عبادت ہے۔ ایک روایت میں ہے «لاوضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه» جو بسم اللہ نہ پڑھے اس کا وضو نہیں۔ یہ روایت حضرت امام بخاری کی شرائط کے موافق نہ تھی اس لیے آپ نے اسے چھوڑ کر اس حدیث سے استدلال فرما کر ثابت کیا کہ وضو کے شروع میں بسم اللہ ضروری ہے۔ ابن جریر نے جامع الآثار میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی سے جماع کرے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو شیطان بھی اس کی عورت سے جماع کرتا ہے۔ آیت قرآنی «لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ» [55-الرحمن:56] میں اسی کی نفی ہے۔ (قسطلانی رحمہ اللہ)

استاد العلماء شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری حدیث «لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه» کے ذیل میں فرماتے ہیں:
«اي لايصح الوضوءولا يوجد شرعا الا بالتسمية اذا لا صل فى التفي الحقيقة والنفي الصحة اقرب الي الذات واكثر لزوما للحقيقة فيستلزم عدمها عدم الذات وماليس بصحيح لايجزي ولايعتد به فالحديث نص على افتراض التسمية عندابتداءالوضوءواليه ذهب احمد فى رواية وهو قول اهل الظاهر وذهبت الشافعية والحنفية ومن وافقهم الي ان التسمية سنة فقط واختار ابن الهمام من الحنفية وجوبها» [مرعاة]
اس بیان کا خلاصہ یہی ہے کہ وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا فرض ہے۔ امام احمد اور اصحاب ظواہر کا یہی مذہب ہے۔ حنفی و شافعی وغیرہ اسے سنت مانتے ہیں۔ مگر حنفیہ میں سے ایک بڑے عالم امام دین ہمام اس کے واجب ہونے کے قائل ہیں۔ علامہ ابن قیم نے اعلام میں بسم اللہ کے واجب ہونے پر پچاس سے بھی زائد دلائل پیش کئے ہیں۔

صاحب انوارالباری کا تبصرہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحب انوار الباری نے ہر اختلافی مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تنقیص کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ مگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت علمی ایسی حقیقت ہے کہ کبھی نہ کبھی آپ کے کٹر مخالفوں کو بھی اس کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ بحث مذکورہ میں صاحب انوارالباری کا تبصرہ اس کا ایک روشن ثبوت ہے۔ چنانچہ آپ استاد محترم حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ نے فرمایا۔
امام بخاری کا مقام رفیع:
یہاں یہ چیز قابل لحاظ ہے کہ امام بخاری نے باوجود اپنے رجحان مذکور کے بھی ترجمۃ الباب میں وضو کے لیے تسمیہ کا ذکر نہیں کیا تاکہ اشارہ ان احادیث کی تحسین کی طرف نہ ہو جائے۔ جو وضو کے بارے میں مروی ہیں حتیٰ کہ انہوں نے حدیث ترمذی کو بھی ترجمۃ الباب میں ذکر کرنا موزوں نہیں سمجھا۔ اس سے امام بخاری کی جلالت قدر و رفعت مکانی معلوم ہوتی ہے کہ جن احادیث کو دوسرے محدثین تحت الابواب ذکر کرتے ہیں۔ ان کو امام اپنے تراجم اور عنوانات ابواب میں بھی ذکر نہیں کرتے۔ پھر یہاں چونکہ ان کے رجحان کے مطابق کوئی معتبر حدیث ان کے نزدیک نہیں تھی تو انہوں نے عمومات سے تمسک کیا اور وضو کو ان کے نیچے داخل کیا اور جماع کا بھی ساتھ ذکر کیا۔ تاکہ معلوم ہو کہ خدا کا اسم معظم ذکر کرنا جماع سے قبل مشروع ہوا تو بدرجہ اولیٰ وضو سے پہلے بھی مشروع ہونا چاہئیے۔ گویا یہ استدلال نظائر سے ہوا۔ [انوار الباری، ج4، ص: 161]

مخلصانہ مشورہ:
صاحب انوارالباری نے جگہ جگہ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں لب کشائی کرتے ہوئے آپ کو غیرفقیہ، زود رنج وغیرہ وغیرہ طنزیات سے یاد کیا۔ کیا اچھا ہو کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیان بالا کے مطابق آپ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں تنقیص سے پہلے ذرا سوچ لیا کریں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی جلالت قدر و رفعت مکانی ایک اظہر من الشمس حقیقت ہے۔ جس سے انکار کرنے والے خود اپنی ہی تنقیص کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ہمارے محترم ناظرین میں سے شاید کوئی صاحب ہمارے بیان کو مبالغہ سمجھیں، اس لیے ہم ایک دو مثالیں پیش کر دیتے ہیں۔ جن سے اندازہ ہو سکے گا کہ صاحب انوارالباری کے قلب میں حضرت امام المحدثین قدس سرہ کی طرف سے کس قدر تنگی ہے۔

بخاری و مسلم میں مبتدعین و اصحاب اہواء کی روایات:
آج تک دنیائے اسلام یہی سمجھتی چلی آ رہی ہے کہ صحیح بخاری اور پھر صحیح مسلم نہایت ہی معتبر کتابیں ہیں۔ خصوصاً قرآن مجید کے بعد اصح الکتب بخاری شریف ہے۔ مگر صاحب انوارالباری کی رائے میں بخاری و مسلم میں بعض جگہ مبتدعین و اہل اہواء جیسے بدترین قسم کے لوگوں کی روایات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کسی بدعتی سے خواہ وہ کیسا ہی پاک باز و راست باز ہو حدیث کی روایت کے روادار نہیں برخلاف اس کے بخاری و مسلم میں مبتدعین اور بعض اصحاب اہواء کی روایات بھی لی گئی ہیں۔ اگرچہ ان میں ثقہ اور صادق اللہجہ ہونے کی شرط و رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ [انوارالباري،ج4،ص: 53]
مقام غور ہے کہ سادہ لوح حضرات صاحب انورالباری کے اس بیان کے نتیجہ میں بخاری ومسلم کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ نے محض غلط بیانی کی ہے، آگے اگر آپ بخاری و مسلم کے مبتدعین اور اہل اہواء کی کوئی فہرست پیش کریں گے تو اس بارے میں تفصیل سے لکھا جائے گا اور آپ کے افتراء پر وضاحت سے روشنی ڈالی جائے گی۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور آپ کی جامع کامقام گرانے کی ایک اور مذموم کوشش:
«حبك الشئي يعمي ويصم» کسی چیز کی حد سے زیادہ محبت انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ صد افسوس کہ صاحب انوارالباری نے اس حدیث نبوی کی بالکل تصدیق فرما دی ہے۔ بخاری شریف کا مقام گرانے اور حضرت امیرالمحدثین کی نیت پر حملہ کرنے کے لیے آپ بڑے ہی محققانہ انداز میں فرماتے ہیں:
ہم نے ابھی بتلایا کہ امام اعظم کی کتاب الآثار مذکور میں صرف احادیث کی تعداد چار ہزار تک پہنچتی ہے، اس کے مقابلہ میں جامع صحیح بخاری کے تمام ابواب غیر مکرر موصول احادیث مرویہ کی تعداد 2353 سب تصریح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہے۔ اور مسلم شریف کی کل ابواب کی احادیث مرویہ چار ہزار ہیں۔ ابوداؤد کی 4800 اور ترمذی شریف کی پانچ ہزار۔ اس سے معلوم ہوا کہ احادیث احکام کا سب سے بڑا ذخیرہ کتاب الآثار امام اعظم، پھر ترمذی و ابوداؤد میں ہے۔ مسلم میں ان سے کم، بخاری میں ان سب سے کم ہے۔ جس کی وجہ یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ صرف اپنے اجتہاد کے موافق احادیث ذکر کرتے ہیں۔ [انوارالباري،ج4،ص: 53]
حضرت امام بخاری کا مقام رفیع اور ان کی جلالت قدر و رفعت مکانی کا ذکر بھی آپ صاحب انوارالباری کی قلم سے ابھی پڑھ چکے ہیں اور جامع الصحیح اور خود حضرت امام بخاری کے متعلق آپ کا یہ بیان بھی ناظرین کے سامنے ہے۔ جس میں آپ نے کھلے لفظوں میں بتلایا کہ امام بخاری نے صرف اپنے اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اپنی حسب منشاء احادیث نبوی جمع کی ہیں۔ صاحب انوار الباری کا یہ حملہ اس قدر سنگین ہے کہ اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ تاہم متانت و سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے ہم کوئی منتقمانہ انکشاف نہیں کریں گے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ «الاناء يترشح بما فيه» برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی اس سے ٹپکتا ہے۔ حضرت والا خود ذخائر احادیث نبوی کو اپنے مفروضات مسلکی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کمربستہ ہوئے ہیں۔ سو آپ کو حضرت امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ سچ ہے «المرءيقيس على نفسه»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 141   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 141  
´ہر حال میں بسم اللہ پڑھنا`
«. . . قَالَ:" لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَقُضِيَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ لَمْ يَضُرُّهُ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے: اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو (اس جماع کے نتیجے میں) ہمیں عطا فرمائے۔ یہ دعا پڑھنے کے بعد (جماع کرنے سے) میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 141]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ بیوی سے صحبت کرنا ایک جسمانی فعل ہے اور وضو کرنا ایک عبادت اور روحانی فعل ہے جب جسمانی فعل میں بسم اللہ کہنا ضروری ہے تو کیوں کر وضو جو عبادت ہے اس میں بسم اللہ کہنا ضروری نہ ہو۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس العموم ظاهرا من الحديث الذى اورده، لكن يستفاد من باب الاوليٰ لانه اذا شرع فى حالة الجماع وهى مما امر فيه بالصمت فغيره الاوليٰ . . . .» [فتح الباري ج1ص 322]
اور عموم ظاہر یہ ہے حدیث سے جس کو باب میں (امام بخاری رحمہ اللہ) نے وارد کیا ہے لیکن مستفاد ہوتا ہے، بطریق اولیٰ اس واسطے کہ جب (تسمیہ) جماع کی حالت میں مشروع ہے حالانکہ اس حالت میں چپ رہنے کا حکم ہے تو پھر اس کے علاوہ تو (تسمیہ پڑھنا) اولیٰ ہو گا۔
↰ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس عبارت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جماع کے وقت جب چپ رہنے کا حکم ہے تو اس وقت بھی تسمیہ پڑھنا مسنون ٹھہرا تو کیوں کر دوسرے نیک کاموں میں تسمیہ مشروع نہ ہوگا؟

◈ شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمہ اللہ بھی اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ:
«التسمية الوضؤ بالحديث الذى اور ده فى هذا الباب لد لالته على استحباب تسمية الله عند الوقاع الذى هو ابعد الاحوال عن ذكر الله ففي الوضوء بالطريق الاولي» [شرح تراجمه من ابواب البخاري ص 65]
یعنی وضو سے قبل بسم اللہ پڑھنے والی حدیث کو ترجمۃ الباب میں لایا گیا ہے جو اس بات پر دلالت ہے کہ صحبت کے وقت بھی تسمیہ پڑھنا مستحب ہے جو کہ (یہ فعل) دوسرے احوال سے بعید ہے کہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے (لیکن جب اس میں تسمیہ ثابت ہو گیا تو) باقی اعمال میں بطریق اولیٰ جائز ہے۔
↰ یہی تطبیق علامہ قسطلانی نے بھی دی ہے۔ [ديكهيے ارشاد الساري، ج1، ص 325]

(قلت) مزید اگر ترجمۃ الباب میں غور کیا جائے تو مناسبت کچھ اس طرح سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے:
➊ جزء عام یعنی «على كل حال»
➋ جزء خاص یعنی «عندالوقاع» ہے۔
اب ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت یہ ہے کہ پہلے جزء میں ہر نیک کام کی ابتداء تسمیہ سے ثابت ہوئی اور دوسرے جزء میں الفاظ «اذاتي اهله» سے مراد بیوی کے پاس آنا یعنی «عندالوقاع» ثابت ہوا۔ مزید اگر غور کیا جائے تو آدمی جب اپنی بیوی کے پاس صحبت کی غرض سے جاتا ہے تو فارغ ہونے کے بعد اسے وضو کرنا چاہئیے جب وہ وضو کرے گا تو اس کی ابتدا میں تسمیہ پڑھنا مشروع ہے، کیونکہ بغیر تسمیہ کے وضو نہیں۔ پس یہاں سے بھی ترجمۃ الباب میں مناسبت ہو گی۔

لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت یہی ہے کہ جماع ایک جسمانی فعل ہے جب اس میں تسمیہ ہے تو پھر وضو ایک روحانی اور جسمانی فعل ہے تو اس میں بھی تسمیہ بطریق اولی ہوگا۔ «الله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 120   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1919  
´بیوی سے پہلی ملاقات پر کون سی دعا پڑھے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے تو یہ دعا پڑھے «اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني» اے اللہ! تو مجھے شیطان سے بچا، اور اس مباشرت سے جو اولاد ہو اس کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھ پھر اس ملاپ سے بچہ ہونا قرار پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس بچے پر شیطان کا زور نہ چلنے دے گا، یا شیطان اسے نقصان نہ پہنچ اس کے گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1919]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خلوت کا وقت صنفی جذبات کی تسکین کا وقت ہوتا ہے۔
مومن اس وقت بھی اپنے رب کو فراموش نہیں کرتا۔

(2)
خاوند بیوی کے تعلقات کا مقصد محض صنفی لذت کا حصول نہیں بلکہ نیک اولاد کا حصول بھی ایک اہم مقصد ہے۔

(3)
بہتر ہے کہ مذکورہ دعا بے لباس ہونے سے پہلے پڑھ لی جائے۔

(5)
اس دعا کا یہ فائدہ ہے کہ اس کی برکت سے خلوت کا وقت شیطان دور رہتا ہے، لہذا اولاد میں شیطان سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور بعض خاص بیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1919   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 874  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جاتے وقت یہ دعا پڑھے «بسم الله، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏اللهم جنبنا الشيطان، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجنب الشيطان ما رزقتنا» اللہ کے نام کے ساتھ، الٰہی ہمیں شیطان سے کنارہ کش رکھ اور شیطان کو بھی اس سے دور رکھ جو تو ہمیں اولاد عطا فرمائے۔ تحقیق شان یہ ہے کہ اگر اس مجامعت سے ان کے مقدر و قسمت میں اولاد ہو گی تو شیطان اسے کبھی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 874»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب مايقول الرجل إذا أتي أهله، حديث:5165، 7396، ومسلم، النكاح، باب ما يستحب أن يقوله عند الجماع، حديث:1434.»
تشریح:
1. اس حدیث میں مباشرت کے وقت انسان کے ازلی و ابدی دشمن سے بچنے اور محفوظ رہنے کی دعا کا ذکر ہے۔
2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ شیطان صرف ذکر الٰہی کے وقت انسان سے جدا اور الگ ہوتا ہے‘ بصورت دیگر وہ ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے اور کسی حالت میں بھی آدمی سے جدا اور الگ نہیں ہوتا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 874   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2161  
´نکاح کے مختلف مسائل کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے اور یہ دعا پڑھے: «بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا» اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اے اللہ ہم کو شیطان سے بچا اور اس مباشرت سے جو اولاد ہو اس کو شیطان کے گزند سے محفوظ رکھ پھر اگر اس مباشرت سے بچہ ہونا قرار پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس بچے پر شیطان کا زور نہ چلنے دے گا یا شیطان اسے کبھی نقصان نہ پہنچ اس کے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2161]
فوائد ومسائل:
علامہ داودی نے کہا ہے کہ اس سے بچے کی کلی عصمت مراد نہیں بلکہ یہ ہے کہ شیطان اس کو دین کے معاملے میں فتنے میں نہیں ڈال سکے گا کہ کفر تک پہنچا دے۔
(عون المعبود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2161   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:141  
141. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، وہ اس حدیث کو نبی ﷺ تک پہنچاتے تھے، آپؐ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو کہے: اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ جو تو ہمیں عنایت فرمائے۔ پھر ان دونوں کو اگر کوئی اولاد نصیب ہو تو شیطان اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:141]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ جو وضو میں اللہ کا نام نہیں لیتا، اس کا وضو نہیں ہے۔
(جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 25)
چونکہ یہ روایت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انھوں نے اس کے اثبات کے لیے ایک نئی راہ نکالی جو ان کی دقت نظر اور جلالت قدر کی ایک واضح دلیل ہے، فرماتےہیں کہ تسمیہ (بسم اللہ پڑھنا)
تو ہرحال میں مطلوب ہے اور انہی حالات میں ایک حالت جماع بھی ہے۔
یہ ایک ایسی حالت ہے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر اس وقت اللہ کا نام لینا مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ایک تو برہنگی کی صورت ہے، پھر خالص قضاء شہوت کا شغل ہے لیکن شریعت میں اس حالت کے لیے بھی ایک مخصوص دعا منقول ہے۔
جب اس حالت میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو وضوء سے پہلے تو بدرجہ اولیٰ ہونا چاہیے کیونکہ وضو خود بھی عبادت ہے اور ایک بڑی عبادت کا پیش خیمہ بھی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکور دعا کو بوقت جماع پڑھنا چاہیے۔
بعض طرق میں صراحت ہے کہ جماع کا ارادہ کرتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
(فتح الباري: 318/1)
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا، اگر کوئی عربی زبان میں یہ دعا نہ پڑھ سکتا ہو تو کیا اسے فارسی میں یہ کلمات کہنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا:
ہاں۔
(شرح الكرماني: 183/2)

عام طور پر بیوی سے صحبت کے بعد استنجا کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آگے آداب خلا(قضائے حاجت)
بیان کیے جا رہے ہیں، جس طرح جماع کرتے وقت اللہ کا نام لینے سے بچہ شیطانی ضرر سے محفوظ رہتا ہے، اسی طرح بیت الخلا جاتے وقت تسمیہ کا عمل انسان کے پوشیدہ اعضاء کو شیاطین کے شر سے محفوظ کر دیتا ہے۔
اس سے علامہ کرمانی کااعتراض بھی ختم ہوجاتا ہے کہ بخاری ابواب قائم کرنے میں حسن ترتیب کی رعایت نہیں کرتے، وہ فن حدیث میں مہارت رکھتے ہیں اور ان کی کوشش کا محور صرف صحیح احادیث کا جمع کردینا ہے۔
(شرح الکرماني: 183/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 141   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.