الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب
80. بَابُ فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ الْوَلَدُ
80. اس شخص کی فضیلت جس کا بچہ فوت ہو جائے
حدیث نمبر: 148
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا علي، قال‏:‏ حدثنا سفيان، قال‏:‏ حدثنا سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة‏:‏ جاءت امراة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت‏:‏ يا رسول الله، إنا لا نقدر عليك في مجلسك، فواعدنا يوما ناتك فيه، فقال‏:‏ ”موعدكن بيت فلان“، فجاءهن لذلك الوعد، وكان فيما حدثهن‏:‏ ”ما منكن امراة يموت لها ثلاث من الولد، فتحتسبهم، إلا دخلت الجنة“، فقالت امراة‏:‏ او اثنان‏؟‏ قال‏:‏ ”او اثنان“، كان سهيل يتشدد في الحديث ويحفظ، ولم يكن احد يقدر ان يكتب عنده‏.‏حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‏:‏ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا لاَ نَقْدِرُ عَلَيْكَ فِي مَجْلِسِكَ، فَوَاعِدْنَا يَوْمًا نَأْتِكَ فِيهِ، فَقَالَ‏:‏ ”مَوْعِدُكُنَّ بَيْتُ فُلاَنٍ“، فَجَاءَهُنَّ لِذَلِكَ الْوَعْدِ، وَكَانَ فِيمَا حَدَّثَهُنَّ‏:‏ ”مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ يَمُوتُ لَهَا ثَلاَثٌ مِنَ الْوَلَدِ، فَتَحْتَسِبَهُمْ، إِلاَّ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ“، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ‏:‏ أَوِ اثْنَانِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”أَوَِ اثْنَانِ“، كَانَ سُهَيْلٌ يَتَشَدَّدُ فِي الْحَدِيثِ وَيَحْفَظُ، وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ يَقْدِرُ أَنْ يَكْتُبَ عِنْدَهُ‏.‏
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتیں، لہٰذا ہمارے لیے ایک دن مقرر کر دیں جس میں ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلان کے گھر تمہارے ساتھ وعدہ ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسب وعدہ ان کے پاس تشریف لائے اور انہیں جو وعظ فرمایا، اس میں یہ بات بھی تھی: تم میں سے جس عورت کے تین بچے فوت ہو جائیں اور وہ ان پر ثواب کی امید رکھے، وہ ضرور جنت میں جائے گی۔ ایک عورت نے عرض کیا: اور دو بچے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو کا بھی یہی حکم ہے۔ راوی حدیث سہیل بن ابی صالح حدیث کے لکھنے میں بڑی سختی کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ اسے یاد رکھو۔ ان کے سامنے کوئی حدیث لکھ نہیں سکتا تھا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 7357 - الصحيحة: 2680»

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري6656عبد الرحمن بن صخرلا يموت لأحد من المسلمين ثلاثة من الولد تمسه النار إلا تحلة القسم
   صحيح البخاري1251عبد الرحمن بن صخرلا يموت لمسلم ثلاثة من الولد فيلج النار إلا تحلة القسم
   صحيح مسلم6703عبد الرحمن بن صخردفنت ثلاثة قال لقد احتظرت بحظار شديد من النار
   صحيح مسلم6704عبد الرحمن بن صخردفنت ثلاثة قالت نعم قال لقد احتظرت بحظار شديد من النار
   صحيح مسلم6698عبد الرحمن بن صخرلا يموت لإحداكن ثلاثة من الولد فتحتسبه إلا دخلت الجنة
   صحيح مسلم6698عبد الرحمن بن صخرلا يموت لأحد من المسلمين ثلاثة من الولد فتمسه النار إلا تحلة القسم
   جامع الترمذي1060عبد الرحمن بن صخرلا يموت لأحد من المسلمين ثلاثة من الولد فتمسه النار إلا تحلة القسم
   سنن النسائى الصغرى1878عبد الرحمن بن صخرقدمت ثلاثة فقال رسول الله لقد احتظرت بحظار شديد من النار
   سنن النسائى الصغرى1877عبد الرحمن بن صخرما من مسلمين يموت بينهما ثلاثة أولاد لم يبلغوا الحنث إلا أدخلهما الله بفضل رحمته إياهم الجنة يقال لهم ادخلوا الجنة فيقولون حتى يدخل آباؤنا ادخلوا الجنة أنتم وآباؤكم
   سنن النسائى الصغرى1876عبد الرحمن بن صخرلا يموت لأحد من المسلمين ثلاثة من الولد فتمسه النار إلا تحلة القسم
   سنن ابن ماجه1603عبد الرحمن بن صخرلا يموت لرجل ثلاثة من الولد فيلج النار إلا تحلة القسم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم239عبد الرحمن بن صخرلا يموت لاحد من المسلمين ثلاثة من الولد فتمسه النار إلا تحلة القسم
   مسندالحميدي1050عبد الرحمن بن صخرلا يموت لمسلم ثلاثة من الولد، فيلج النار إلا تحلة القسم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 148  
1
فوائد ومسائل:
(۱)بچے خصوصاً معصوم ماں کو بہت عزیز ہوتے ہیں اور دل کی کمزوری کی وجہ سے اکثر مائیں اولاد کی وفات پر جزع فزع کرتی ہیں اس لیے آپ نے صبر کرنے کی تلقین کی اور اس کا طریقہ اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید ہے۔
(۲) اس روایت میں اگرچہ عورتوں کو یہ بشارت دی گئی ہے تاہم مردوں کے لیے بھی صبر کرنے اور ثواب کی امید رکھنے میں یہی اجر ہے۔ عورتوں کی کم ہمتی کی وجہ سے ان کا خصوصی ذکر کیا۔
(۳) سلف صالحین لکھنے سے زیادہ حافظے پر اعتماد کرتے تھے۔ لکھنے کی عادت پڑ جائے تو پھر انسان یاد کرنے کی طرف کم توجہ دیتا ہے اس طرح حافظہ بھی کمزور ہوجاتا ہے۔ خصوصاً درس و تدریس کے موقع پر لکھنے سے زیادہ سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے سہیل بن أبی صالح اپنے شاگردوں کو لکھنے سے منع کرتے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث لکھنا ناجائز سمجھتے تھے۔
(۴) اس سے معلوم ہوا کہ عورتیں بھی دینی پروگراموں میں شامل ہوسکتی ہیں بلکہ دینی احکام انہیں بھی ضرور سیکھنے چاہئیں تاہم ان کے لیے خصوصی دروس کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 148   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.