الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
50. باب فَضْلِ كَثْرَةِ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ:
50. باب: مسجدوں کی طرف زیادہ قدم چل کر جانے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 1514
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا عبثر ، عن سليمان التيمي ، عن ابي عثمان النهدي ، عن ابي بن كعب ، قال: " كان رجل، لا اعلم رجلا ابعد من المسجد منه، وكان لا تخطئه صلاة، قال: فقيل له: او قلت له: لو اشتريت حمارا تركبه في الظلماء، وفي الرمضاء؟ قال: ما يسرني ان منزلي إلى جنب المسجد، إني اريد ان يكتب لي ممشاي إلى المسجد، ورجوعي، إذا رجعت إلى اهلي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد جمع الله لك ذلك كله ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا عَبْثَرٌ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: " كَانَ رَجُلٌ، لَا أَعْلَمُ رَجُلًا أَبْعَدَ مِنَ الْمَسْجِدِ مِنْهُ، وَكَانَ لَا تُخْطِئُهُ صَلَاةٌ، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: أَوْ قُلْتُ لَهُ: لَوِ اشْتَرَيْتَ حِمَارًا تَرْكَبُهُ فِي الظَّلْمَاءِ، وَفِي الرَّمْضَاءِ؟ قَالَ: مَا يَسُرُّنِي أَنَّ مَنْزِلِي إِلَى جَنْبِ الْمَسْجِدِ، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ يُكْتَبَ لِي مَمْشَايَ إِلَى الْمَسْجِدِ، وَرُجُوعِي، إِذَا رَجَعْتُ إِلَى أَهْلِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ جَمَعَ اللَّهُ لَكَ ذَلِكَ كُلَّهُ ".
عبثر نے ہمیں خبر دی، انھوں نے سلیمان تیمی سے، انھوں نے ابوعثمان نہدی سے اور انھوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک آدمی تھا، میرے علم میں کوئی اور آدمی اس کی نسبت مسجد سے زیادہ فاصلے پر نہیں رہتا تھا اور اس کی کوئی نماز نہیں چوکتی تھی، اس سے کہا گیا-یا میں نے (اس سے) کہا-: اگر آپ گدھا خرید لیں کہ (رات کی) تاریکی اور (دوپہر کی) گرمی میں آپ اس پر سوار ہو جایا کریں۔ اس نے جواب دیا: مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرا گھر مسجد کے پڑوس میں ہو، میں چاہتا ہوں میرا مسجد تک چل کر جانا اور جب میں گھر والوں کی طرف لوٹوں تو میرا لٹنا میرے لئے لکھا جائے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ تمھارے لئے اکٹھا کر دیا ہے۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی تھا، میرے علم میں مسجد سے اس سے زیادہ کسی کا فاصلہ نہ تھا۔ اور اس کی کوئی نماز (باجماعت) قضاء نہیں ہوتی تھی تو اسے کسی نے کہا یا میں نے کہا: اے کاش آپ تاریکی اور گرمی میں آسانی کے لیے گدھا خرید لیں تو اس نے کہا: مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرا گھر مسجد کے پڑوس میں ہو، میں چاہتا ہوں میرا مسجد تک چل کر جانا اور جب میں گھر لوٹوں تو میرا لوٹنا لکھا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے جمع کر دیا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 663

   صحيح مسلم1516أبي بن كعبإن لك ما احتسبت
   صحيح مسلم1514أبي بن كعبجمع الله لك ذلك كله
   سنن أبي داود557أبي بن كعبأعطاك الله ذلك كله أنطاك الله عز و جل ما احتسبت كله أجمع
   سنن ابن ماجه783أبي بن كعبإن لك ما احتسبت
   مسندالحميدي380أبي بن كعبإن له بكل خطوة يخطوها إلى المسجد درجة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث783  
´مسجد سے جو جنتا زیادہ دور ہو گا اس کو مسجد میں آنے کا ثواب اسی اعتبار سے زیادہ ہو گا۔`
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک انصاری شخص کا مکان انتہائی دوری پر تھا، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کی کوئی نماز نہیں چھوٹتی تھی، مجھے اس کی یہ مشقت دیکھ کر اس پر رحم آیا، اور میں نے اس سے کہا: اے ابوفلاں! اگر تم ایک گدھا خرید لیتے جو تمہیں گرم ریت پہ چلنے، پتھروں کی ٹھوکر اور زمین کے کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھتا (تو اچھا ہوتا)! اس انصاری نے کہا: اللہ کی قسم میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میرا گھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے کسی گوشے سے ملا ہو،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 783]
اردو حاشہ:
(1)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نیکیاں حاصل کرنے کا کس قدر شوق رکھتے تھے یہ واقعہ اس کی ایک ادنٰی مثال ہے کہ دور دراز راستے کی مشقت صرف اس لیے گوارا ہے کہ دور سے چل کر آنے میں ثواب زیادہ ہوگا۔

(2)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی باہمی ہمدردی بھی قابل اتباع ہے کہ ایک صحابی اپنے ساتھی کی مشقت کو اس طرح محسوس کرتا ہے گویا وہ مشقت خود اسے لاحق ہے اس لیے اسے مناسب مشورہ دیتا ہے۔

(3)
مسلمان کی خیر خواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے اچھا مشورہ دیا جائے اگر چہ اس نے مشورہ طلب نہ کیا ہو۔

(4)
حضرت ابی نے اس صحابی کی بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی تاکہ آپ ﷺ اسے نصیحت فرمائیں اس لیے اگر کسی کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ فلاں بزرگ کی نصیحت پوری کرلے گا تو اس بزرگ کو اس ساتھی کی غلطی اصلاح کی نیت سے بتا دینا جائز ہے۔
البتہ اسے ذلیل کرنے کی نیت سے بتانا درست نہیں۔

(5)
کسی کی شکایت پہنچے تو تحقیق کیے بغیر اس کے بارے میں کوئی نامناسب رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔
بہتر ہے کہ خود نامناسب الفاظ کہنے والے سے دریافت کرلیا جائے کہ اس کا ان الفاظ سے کیا مطلب ہے؟
(6)
مومن کی اچھی نیت ثواب کا باعث ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 783   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1514  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انسان کا رات کی تاریکی میں اور گرمیوں کی شدت میں گھر سے مسجد تک جانا آنا لکھا جاتا ہے اور ان چیزوں (گرمی،
تاریکی،
آمدورفت)

کا انسان کو اجرو ثواب ملتا ہے اس لیے مسجد سے مسافت کے بعد اور دوری سے ڈر کر یا اس کو بہانا بنا کر گھر میں نماز پڑھ لینا درست نہیں ہے نماز کے لیے جس قدر مشقت برداشت کرے گا۔
یا دور سے آئے گا اتنا ہی اجرو ثواب میں اضافہ ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1514   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.