امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ زخم کا قصاص نہ لیا جائے گا جب تک کہ وہ شخص اچھا نہ ہو لے، جب وہ اچھا جائے گا تو قصاص لیں گے، اب اگر جارح کا بھی زخم اچھا ہو کر مجروح کے مثل ہوگیا تو بہتر، نہیں تو اگر جارح کا زخم بڑھ گیا اور جارح اسی کی وجہ سے مر گیا تو مجروح پر کچھ تاوان نہ ہوگا، اگر جارح کا زخم بالکل اچھا ہوگیا اور مجروح کا ہاتھ شل ہوگیا یا اور کوئی نقص رہ گیا، تو پھر جارح سے قصاص نہ لیا جائے گا لیکن بقدر نقصان کے دیت اس سے وصول کی جائے گی۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اپنی عورت کی آنکھ پھوڑ دی، یا اس کا ہاتھ توڑ ڈالا، یا اس کی انگلی کاٹ ڈالی قصداً، تو اس سے قصاص لیا جائے گا، البتہ اگر اپنی عورت کو تنبیہاً رسی یا کوڑے سے مارے اور بلا قصد کسی مقام پر لگ کر زخم ہو جائے، یا نقصان ہوجائے تو دیت لازم آئے گی قصاص نہ ہوگا۔
وحدثني يحيى، عن مالك انه بلغه، ان ابا بكر بن محمد بن عمرو بن حزم " اقاد من كسر الفخذ" وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ أَبَا بَكْرِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ " أَقَادَ مِنْ كَسْرِ الْفَخِذِ"
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ ابوبکر بن حزم نے قصاص لیا ران توڑنے کا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وانفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 15ق4»