الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
مسند اسحاق بن راهويه
نماز کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 162
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا الفضل بن موسى، والملائي، بهذا الإسناد مثله ولم يذكر قول يزيد.أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، وَالْمُلَائِيُّ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ قَوْلَ يَزِيدَ.
فضل بن موسیٰ اور الملائی نے اس اسناد سے اسی مثل روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبله»


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 162  
فضل بن موسیٰ اور الملائی نے اس اسناد سے اسی مثل روایت کیا ہے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:162]
فوائد:
مذکورہ بالا حدیث کے متعلق علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس میں باجماعت نماز چھوڑ کر گھروں میں چھپے رہنے والوں کو نکالنے کی غرض سے امام یا اس کے نائب کو جماعت ترک کرنے کی اجازت ہے۔ (فتح الباري: 2؍ 130)
علامہ عینی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے ماخوذ کئی فوائد بیان کیے ہیں۔
(1).... ہمیشہ سزا دینے سے قبل وعید کو مقدم رکھنا چاہے، اس لیے کہ اگر اصلاح فقط ڈانٹ ڈپٹ اور مختصر سزا سے ہو جائے تو بجائے بڑی سزا دینے کے اسی پر اکتفا کیا جائے۔
(2).... حق کی وجہ سے کسی بھی شخص کو اس کے گھر سے نکالا جا سکتا ہے جب کہ وہ گھر میں روپوش ہوئے بیٹھا ہو اور اسے نکالنے کے لیے ہر ممکنہ طریقہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ جلانے کا ارادہ فرمایا تھا۔
(3).... مجرم کی غفلت پر گرفت کرنی چاہیے۔ (عمدة القاری: 4؍ 333، 334)
علامہ ابوبکر کا سانی حنفی باجماعت نماز کے وجوب کے دلائل کے ضمن میں اسی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں: ایسی وعید تو واجب ترک کرنے پر ہی ملتی ہے۔ (بدائع الصنائع: 1؍155)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ظاہر ہے کہ جو شخص کسی امر مستحب یا فرض کفایہ سے پیچھے رہے تو اسے اس طرح سرزنش نہیں کی جا سکتی۔ (فتاویٰ اسلامیة: 1؍ 474)
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: نماز باجماعت ادا کرنا فرض عین ہے، ا س کا سبب یہ ہے کہ اگر باجماعت نماز ادا کرنا سنت ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کے تارک کے لیے جھلسا دینے والی اتنی غضبناک وعید (قطعاً) بیان نہ فرماتے۔ اور اگر یہ فعل فرض کفایہ ہوتا تو پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ جو لوگ شریک تھے ان ہی کے لیے کافی تھا کہ وہ ایک ساتھ ہو کر یہ فرض نبھا دیں، اتنے تکلّفات کی کیا ضرورت تھی کہ لوگوں کو نماز کے لیے بلایا جائے اور ان میں سے کسی ایک کو مصلیٰ امامت پر کھڑا کر کے لوگوں سمیت ان کے گھروں کو نظر آتش کیا جائے، یعنی ایسی باتیں کہنے کی کیا ضرورت تھی۔
اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسی لیے بعض فقہاء نے اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ استدلال کیا ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا فرض عین ہے۔ جن فقہاء کرام نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے وہ عطاء، اوزاعی، احمد، ابو ثور، ابن خزیمہ، ابن المنذر، ابن حبان اور امام بخاریs ہیں۔ (فتح الباري: 2؍ 125، 129)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث\صفحہ نمبر: 162   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.