الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
90. بَابُ قَصْرِ الْخُطْبَةِ بِعَرَفَةَ:
90. باب: میدان عرفات میں خطبہ مختصر دینا۔
(90) Chapter. To shorten the Khutba on the Day of Arafa.
حدیث نمبر: 1663
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، اخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله،" ان عبد الملك بن مروان كتب إلى الحجاج ان ياتم بعبد الله بن عمر في الحج، فلما كان يوم عرفة جاء ابن عمر رضي الله عنهما وانا معه حين زاغت الشمس او زالت، فصاح عند فسطاطه، اين هذا؟ فخرج إليه، فقال: ابن عمر الرواح، فقال: الآن؟ , قال: نعم، قال: انظرني افيض علي ماء، فنزل ابن عمر رضي الله عنهما حتى خرج، فسار بيني وبين ابي، فقلت: إن كنت تريد ان تصيب السنة اليوم فاقصر الخطبة، وعجل الوقوف، فقال ابن عمر: صدق".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،" أَنَّ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ كَتَبَ إِلَى الْحَجَّاجِ أَنْ يَأْتَمَّ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي الْحَجِّ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ جَاءَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَأَنَا مَعَهُ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ أَوْ زَالَتْ، فَصَاحَ عِنْدَ فُسْطَاطِهِ، أَيْنَ هَذَا؟ فَخَرَجَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: ابْنُ عُمَرَ الرَّوَاحَ، فَقَالَ: الْآنَ؟ , قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَنْظِرْنِي أُفِيضُ عَلَيَّ مَاءً، فَنَزَلَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَتَّى خَرَجَ، فَسَارَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي، فَقُلْتُ: إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُصِيبَ السُّنَّةَ الْيَوْمَ فَاقْصُرِ الْخُطْبَةَ، وَعَجِّلِ الْوُقُوفَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: صَدَقَ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے کہ عبدالملک بن مروان (خلیفہ) نے حجاج کو لکھا کہ حج کے کاموں میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرے۔ جب عرفہ کا دن آیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آئے میں بھی آپ کے ساتھ تھا، سورج ڈھل چکا تھا، آپ نے حجاج کے ڈیرے کے پاس آ کر بلند آواز سے کہا حجاج کہاں ہے؟ حجاج باہر نکلا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا چل جلدی کر وقت ہو گیا۔ حجاج نے کہا ابھی سے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں۔ حجاج بولا کہ پھر تھوڑی مہلت دے دیجئیے، میں ابھی غسل کر کے آتا ہوں۔ پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (اپنی سواری سے) اتر گئے۔ حجاج باہر نکلا اور میرے اور میرے والد (ابن عمر) کے بیچ میں چلنے لگا، میں نے اس سے کہا کہ آج اگر سنت پر عمل کی خواہش ہے تو خطبہ مختصر پڑھ اور وقوف میں جلدی کر۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ سالم سچ کہتا ہے۔

Narrated Salim bin `Abdullah bin `Umar: `Abdul-Malik bin Marwan wrote to Al-Hajjaj that he should follow `Abdullah bin `Umar in all the ceremonies of Hajj. So when it was the Day of `Arafat (9th of Dhul-Hijja), and after the sun has deviated or has declined from the middle of the sky, I and Ibn `Umar came and he shouted near the cotton (cloth) tent of Al-Hajjaj, "Where is he?" Al-Hajjaj came out. Ibn `Umar said, "Let us proceed (to `Arafat)." Al-Hajjaj asked, "Just now?" Ibn `Umar replied, "Yes." Al-Hajjaj said, "Wait for me till I pour water on me (i.e. take a bath)." So, Ibn `Umar dismounted (and waited) till Al-Hajjaj came out. He was walking between me and my father. I informed Al-Hajjaj, "If you want to follow the Sunna today, then you should shorten the sermon and then hurry up for the stay (at `Arafat)." Ibn `Umar said, "He (Salim) has spoken the truth."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 724



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1663  
1663. حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ حج کے معاملات میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی پیروی کرے، چنانچہ جب عرفہ کا دن تھا تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ زوال آفتاب کے بعد آئے۔ میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ انھوں نے حجاج کے خیمے کے پاس آکر بلند آواز سے کہا: یہ کہاں ہے؟ حجاج باہر نکلاتو حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: عرفات کی طرف چلیں۔ حجاج بولا: ابھی چلنا ہے؟فرمایا: ہاں۔ حجاج نے کہا: مجھے تھوڑی سی مہلت دیں کہ میں اپنے سر پر پانی بہالوں۔ حضرت عبداللہ بن عمر سواری سے اتر کر انتظار کرنے لگے یہاں تک کہ وہ باہر نکلا اور میرے اور میر ے والد گرامی کے درمیان چلنے لگا۔ میں نے اسے کہا: اگر سنت کو پانا چاہتے ہوتو آج خطبہ مختصر کرو اور وقوف میں جلدی کرو۔ حضرت ابن عمر نےفرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1663]
حدیث حاشیہ:
خطبہ مختصر پڑھنا خطیب کی سمجھ داری کی دلیل ہے، عیدین ہو یا جمعہ، پھر حج کا خطبہ تو اور بھی مختصر ہونا چاہئے کہ یہی سنت نبوی ہے۔
جو محترم علمائے کرام خطبات جمعہ وعیدین میں طویل طویل خطبات دیتے ہیں ان کو سنت نبوی کا لحاظ رکھنا چاہئے جو ان کی سمجھ بوجھ کی دلیل ہوگی۔
و باللہ التوفیق
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1663   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1663  
1663. حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ حج کے معاملات میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی پیروی کرے، چنانچہ جب عرفہ کا دن تھا تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ زوال آفتاب کے بعد آئے۔ میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ انھوں نے حجاج کے خیمے کے پاس آکر بلند آواز سے کہا: یہ کہاں ہے؟ حجاج باہر نکلاتو حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: عرفات کی طرف چلیں۔ حجاج بولا: ابھی چلنا ہے؟فرمایا: ہاں۔ حجاج نے کہا: مجھے تھوڑی سی مہلت دیں کہ میں اپنے سر پر پانی بہالوں۔ حضرت عبداللہ بن عمر سواری سے اتر کر انتظار کرنے لگے یہاں تک کہ وہ باہر نکلا اور میرے اور میر ے والد گرامی کے درمیان چلنے لگا۔ میں نے اسے کہا: اگر سنت کو پانا چاہتے ہوتو آج خطبہ مختصر کرو اور وقوف میں جلدی کرو۔ حضرت ابن عمر نےفرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1663]
حدیث حاشیہ:
(1)
خطبہ مختصر اور جامع ہونا خطیب کی سمجھداری کی علامت ہے، عیدین کا ہو یا جمعے کا۔
حج کا خطبہ تو انتہائی جامع اور مختصر ہونا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ میں مسلمان کے خون اور مال کی حرمت و تقدس کو شہر مکہ، ماہ ذوالحجہ اور یوم عرفہ کی حرمت کے مساوی قرار دیا۔
جاہلیت کے بعض اعمال فاسدہ اور عقائد باطلہ کا خاتمہ فرمایا اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کی تلقین کی۔
(حجۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی: 72) (2)
واضح رہے کہ خطبہ نماز سے پہلے ہے، لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر کی نماز کو جمع کیا، پھر لوگوں کو خطبہ دیا۔
(سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث: 1913)
البتہ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرفات پہنچنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا، پھر کسی نے اذان دی اور اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر اقامت کہی تو نماز عصر پڑھی۔
ان دونوں کے درمیان کچھ نہ پڑھا، (صحیح مسلم،الحج،حدیث: 2950(1218)
اس لیے صحیح مسلم کی روایت کو ابوداود کی حدیث پر ترجیح دیتے ہوئے خطبہ نماز سے پہلے پڑھنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1663   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.