الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 175
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: جاء رجل إلى عمر وهو بعرفة، قال ابو معاوية : وحدثنا الاعمش ، عن خيثمة ، عن قيس بن مروان : انه اتى عمر ، فقال: جئت يا امير المؤمنين من الكوفة، وتركت بها رجلا يملي المصاحف عن ظهر قلبه، فغضب وانتفخ حتى كاد يملا ما بين شعبتي الرجل، فقال: ومن هو ويحك؟ قال عبد الله بن مسعود: فما زال يطفا ويسرى عنه الغضب، حتى عاد إلى حاله التي كان عليها، ثم قال: ويحك، والله ما اعلمه بقي من الناس احد هو احق بذلك منه، وساحدثك عن ذلك، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يزال يسمر عند ابي بكر الليلة كذلك في الامر من امر المسلمين، وإنه سمر عنده ذات ليلة، وانا معه، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخرجنا معه، فإذا رجل قائم يصلي في المسجد، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يستمع قراءته، فلما كدنا ان نعرفه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سره ان يقرا القرآن رطبا كما انزل، فليقراه على قراءة ابن ام عبد"، قال: ثم جلس الرجل يدعو، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول له:" سل تعطه، سل تعطه"، قال عمر: قلت: والله لاغدون إليه فلابشرنه، قال: فغدوت إليه لابشره، فوجدت ابا بكر قد سبقني إليه فبشره، ولا والله ما سبقته إلى خير قط، إلا وسبقني إليه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَة ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ وَهُوَ بِعَرَفَةَ، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَة : وَحَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مَرْوَانَ : أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ ، فَقَالَ: جِئْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ الْكُوفَةِ، وَتَرَكْتُ بِهَا رَجُلًا يُمْلِي الْمَصَاحِفَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ، فَغَضِبَ وَانْتَفَخَ حَتَّى كَادَ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ شُعْبَتَيْ الرَّجلِ، فَقَالَ: وَمَنْ هُوَ وَيْحَكَ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: فَمَا زَالَ يُطْفَأُ وَيُسَرَّى عَنْهُ الْغَضَبُ، حَتَّى عَادَ إِلَى حَالِهِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: وَيْحَكَ، وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُهُ بَقِيَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ هُوَ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ، وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ ذَلِكَ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزَالُ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ كَذَلكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّهُ سَمَرَ عِنْدَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَأَنَا مَعَهُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَرَجْنَا مَعَهُ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ، فَلَمَّا كِدْنَا أَنْ نَعْرِفَهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ"، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ الرَّجُلُ يَدْعُو، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لَهُ:" سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ"، قَالَ عُمَرُ: قُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَغْدُوَنَّ إِلَيْهِ فَلَأُبَشِّرَنَّهُ، قَالَ: فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ لِأُبَشِّرَهُ، فَوَجَدْتُ أَبَا بَكْرٍ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ فَبَشَّرَهُ، وَلَا وَاللَّهِ مَا سَبَقْتُهُ إِلَى خَيْرٍ قَطُّ، إِلَّا وَسَبَقَنِي إِلَيْهِ.
قیس بن مروان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ امیر المؤمنین! میں کوفہ سے آپ کے پاس آ رہا ہوں، وہاں میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ کر آیا ہوں جو اپنی یاد سے قرآن کریم املاء کروا رہا ہے، یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ غضب ناک ہو گئے اور ان کی رگیں اس طرح پھول گئیں کہ کجاوے کے دونوں کنارے ان سے بھر گئے اور مجھ سے پوچھا: افسوس! وہ کون ہے؟ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کا نام سنتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا اور ان کی وہ کیفیت ختم ہونا شروع ہو گئی، یہاں تک کہ وہ نارمل ہو گئے اور مجھ سے فرمایا: کمبخت! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق لوگوں میں ان سے زیادہ اس کا کوئی حق دار نہیں ہے اور میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ رات کے وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں مشورہ کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ اسی طرح رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، میں بھی وہاں موجود تھا، فراغت کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل آئے، دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ ابھی ہم اس آدمی کی آواز پہچاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے، پھر وہ آدمی بیٹھ کر دعا کرنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرمانے لگے: مانگو، تمہیں عطاء کیا جائے گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ صبح ہوتے ہی میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں صبح انہیں یہ خوشخبری سنانے کے لئے پہنچا تو وہاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی پایا، وہ مجھ پر اس معاملے میں بھی سبقت لے گئے۔

حكم دارالسلام: إسناداه صحيحان


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.