الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الزكاة
--. سرکاری اہل کاروں کو دروان ڈیوٹی ملنے والے تحائف کی ملکیت
حدیث نمبر: 1779
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن ابي حميد الساعدي: استعمل النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من الازد يقال له ابن اللتبية الاتبية على الصدقة فلما قدم قال: هذا لكم وهذا اهدي لي فخطب النبي صلى الله عليه وسلم فحمد الله واثنى عليه وقال: اما بعد فإني استعمل رجالا منكم على امور مما ولاني الله فياتي احدكم فيقول: هذا لكم وهذا هدية اهديت لي فهلا جلس في بيت ابيه او بيت امه فينظر ايهدى له ام لا؟ والذي نفسي بيده لا ياخذ احد منه شيئا إلا جاء به يوم القيامة يحمله على رقبته إن كان بعيرا له رغاء او بقرا له خوار او شاة تيعر ثم رفع يديه حتى راينا عفرتي إبطيه ثم قال: «اللهم هل بلغت اللهم هل بلغت» .. قال الخطابي: وفي قوله: «هلا جلس في بيت امه او ابيه فينظر ايهدى إليه ام لا؟» دليل على ان كل امر يتذرع به إلى محظور فهو محظور وكل دخل في العقود ينظر هل يكون حكمه عند الانفراد كحكمه عند الاقتران ام لا؟ هكذا في شرح السنة عَن أبي حميد السَّاعِدِيّ: اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الأزد يُقَال لَهُ ابْن اللتبية الأتبية عَلَى الصَّدَقَةِ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأثْنى عَلَيْهِ وَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ رِجَالًا مِنْكُمْ عَلَى أُمُور مِمَّا ولاني الله فَيَأْتِي أحدكُم فَيَقُول: هَذَا لكم وَهَذَا هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ بَيْتِ أُمِّهِ فَيَنْظُرُ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقْرًا لَهُ خُوَارٌ أَوْ شَاة تَيْعر ثمَّ رفع يَدَيْهِ حَتَّى رَأينَا عفرتي إِبِطَيْهِ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللَّهُمَّ هَل بلغت» .. قَالَ الْخَطَّابِيُّ: وَفِي قَوْلِهِ: «هَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أُمِّهِ أَوْ أَبِيهِ فَيَنْظُرُ أَيُهْدَى إِلَيْهِ أَمْ لَا؟» دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ كُلَّ أَمْرٍ يُتَذَرَّعُ بِهِ إِلَى مَحْظُورٍ فَهُوَ مَحْظُورٌ وَكُلُّ دخل فِي الْعُقُودِ يُنْظَرُ هَلْ يَكُونُ حُكْمُهُ عِنْدَ الِانْفِرَادِ كَحُكْمِهِ عِنْدَ الِاقْتِرَانِ أَمْ لَا؟ هَكَذَا فِي شرح السّنة
ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ازد قبیلے کے ابن لتبیہ نامی شخص کو صدقات وصول کرنے پر مامور فرمایا، جب وہ واپس آیا تو اس نے کہا: یہ (مال) تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ (تحفہ دیا گیا ہے) (یہ سن کر) نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: اما بعد! میں تم میں سے کچھ آدمیوں کو ان امور پر، جو اللہ نے میرے سپرد کیے ہیں، مامور کرتا ہوں تو ان میں سے کوئی آ کر کہتا ہے: یہ (مال) تمہارے لیے ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے، وہ اپنے والد یا اپنی والدہ کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا اور وہ دیکھتا کہ آیا اسے ہدیہ (تحفہ) ملتا ہے یا نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے جو شخص اس (مال صدقات) میں سے جو کچھ لے گا وہ روز قیامت اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا، اگر وہ اونٹ ہوا تو وہ آواز کر رہا ہو گا، اگر گائے ہوئی تو وہ آواز کر رہی ہو گی، اور اگر وہ بکری ہوئی تو وہ ممیا رہی ہو گی۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ بلند کیے حتی کہ ہم نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟ اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا؟ متفق علیہ۔ امام خطابی نے فرمایا: اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روایت کے الفاظ: وہ اپنی ماں یا اپنے باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا، پس وہ یہ دیکھتا کہ آیا اسے ہدیہ (تحفہ) ملتا ہے یا نہیں؟ میں دلیل ہے کہ ہر وہ کام جو کسی ممنوع کام کا وسیلہ بنے تو وہ بھی ممنوع ہے، اور عقود میں داخل ہونے والی ہر چیز دیکھی جائے گی کہ آیا جب وہ چیز اکیلی ہو تو اس کا حکم اسی طرح ہو گا جس طرح ملانے سے ہو گا یا نہیں، شرح السنہ میں اسی طرح ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (2597) و مسلم (1832/26) و البغوي في شرح السنة (498/5 تحت ح 1568)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.